حکایات و روایاتکتب اسلامی

صاحب خلق عظیم

رسول کریمﷺ مرض الموت میں تھے،آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو مسجد میں جمع ہونےکا کہہ دو،حضرت بلالؓ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا،آپؐ مسجد میں آئے اور منبر پر رونق افروز ہو کر فرمایا:
کیا میں نے تمہارے ساتھ شریک ہو کر بنفس نفیس جہاد نہیں کیا؟کیا لوگوں نے میرے سامنے کے دانت نہیں توڑے اور میری جبین کو خاک آلود نہیں کیا؟کیا ضربت کی وجہ سے میرے چہرے سے خون جاری نہیں ہوا؟کیا اس سےمیری داڑھی رنگین نہیں ہوئی؟کیا میں لوگوں کے ظلم کا نشانہ نہیں بنا؟کیا میں نے لوگوں کا پیٹ بھرنے کےلیے اپنے شکم پر پتھر نہیں باندھے؟
حاضرین نے کہا:بے شک آپؐ سچ فرماتے ہیں،آپؐ پر بہت زیادہ مصائب آئے اورآپؐ نے صبر کیا اور پوری تندہی سے آپؐ نے حق کو پھیلانے کا اپنا فرض نبھایا،اللہ تعالیٰ آپؐ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے۔
پھر آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات ک قسم کھا کر اپنے اوپر یہ لازم کرلیا ہے کہ جو کسی پر ظلم کرے اللہ اسے نہیں بخشے گا،میں تمام لوگوں کو قسم دیتا ہوں کہ اگر میرے ذمے کسی کا حق ہو تو وہ اٹھ کر اپنے حق کا مطالبہ کرے،اگر میں نے کسی پر ظلم کیا ہے تو وہ اٹھ کر مجھ سے بدلے کا مطالبہ کرے کیونکہ آج بدلہ دینا آسان ہے اور قیامت کے دن انبیاءؑ و ملائکہ کے سامنے حساب دینا بہت مشکل ہے۔
آپﷺ کا یہ اعلان سن کر ایک صحابی سوا دہ بن قیس کھڑا ہوا اور بولا:یارسول اللہؐ! میرےماں باپ آپ ؐ پر قربان !جب آپؐ اپنی عصبیٰ نامی اونٹنی پر طائف سے واپس آرہے تھے اور آپؐ نے وہ چھڑی اونٹنی کو مارنا چاہی تھی مگر وہ مجھے لگ گئی تھی،مجھے معلوم نہیں کہ ایسا ارادی طور پر ہوا تھا یا غیر ارادی طور ہوا تھا۔
آپﷺ نے فرمایا:میں خدا کی پناہ چاہتاہوں،ارادی طور پر ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
پھر رسول کریم ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ جناب فاطمہؑ کےگھر سے وہ چھڑی لے آئیں،حضرت بلالؓ بی بی ؑ کے دروازے پر آئے اور چھڑی مانگی۔
بی بی سیدہؑ نے پوچھا:اس وقت میرے بابانے چھڑی کیوںمنگوائی ہے؟

حضرت بلال ؓ نے بی بیؑ کو بتایا کہ ایک مسلمان اس وقت آنحضرتﷺ سے بدلہ لینا چاہتا ہے،یہ سن کر بی بی ؑ رونے لگیں،پھر آپ نے حضرت بلالؓ کو وہ چھڑی دیدی۔
حضرت بلالؓ چھڑی لے کر رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپﷺ نے فرمایا:لو اس چھڑی سے اپنا بدلہ لے لو اور مجھ سے راضی ہوجائو۔
سوادہ بن قیس نے کہا:یارسول اللہ ؐ!جب مجھے چھڑی لگی تھی اس وقت میرے بدن پر قمیص نہیں تھی۔
آپؐ نے قمیص ہٹائی تو اس نے کہا:آپؐ کی اجازت ہوتو میں مقام قصاص کو پہلے چوم لوں،آپؐ نے اجازت دیدی،سوادہ نے بڑھ کر اس مقام کو چوم لیا اور کہا:میں آپؐ کے پاک بدن کو چوم چکا ہوں،اب مجھے امید ہے کہ خدا مجھے جہنم کا عذاب نہیں دے گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:بدلہ لینا چاہتے ہو یا معاف کرنا چاہتے ہو؟
سوادہ نے کہا:یا رسول اللہ ؐ!میں نے معاف کیا،پھر رسول کریمﷺ نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ بلند کئے اور کہا:خدایا!جس طرح اس نے تیرے رسولؐ کو معاف کیا تو بھی اس کے گناہ کو معاف فرما۔
یہ کہہ کر آپؐ منبر سے نیچے تشریف لائے اور ام سلمہ ؓ کے گھر کی جانب روانہ ہوئے اور راستے میں یہی کہہ رہے تھے،خدایا!میر ی امت کو دوزخ کے شعلوں سے بچا اور روز قیامت کا حساب ان کے لیے آسان فرما۔

(حوالہ)

(حیات القلوب ج۲،ص۶۹۱)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button