حکایات و روایاتکتب اسلامی

امام صادقؑ اور صوفیہ

امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں مسلمانوں میں صوفیہ کا ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جو سیرت رسول ؐ سے ترک دنیا کا نتیجہ اخذ کرتا تھا،وہ سمجھتا تھا کہ مسلمان کی ہمیشہ اور ہر زمانے میں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دنیاوی نعمتوں سے پرہیز کرے،انہوں نے اپنے اس طرز عمل کو زہد کا نام دے رکھا تھا،انہیں صوفیا میں سے ایک سفیان ثوری ہیں جو امام جعفرصادقؑ کے ہمعصر تھے،ان کا شمار اہلسنت کے فقہاء میں ہوتا ہے،فقہی کتابوں میں ان کے بہت سے اقوال اور آراء نقل کی گئی ہیں،یہ اکثر امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال و جواب کیا کرتے تھے۔
کتاب کافی میں ہے کہ ایک دن سفیان،امام کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ آپ ایک سفید،نرم اور خوبصورت لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا:فرزند رسولؐ!آپ کے لیے مناسب نہیں کہ آپ دنیا سے دل لگائیں۔
امام ؑنے فرمایا:ممکن ہے کہ تمہارے دل میں یہ خیال رسول اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کے طرز زندگی کی بنا پر پیدا ہوا ہو،ان کی وضع قطع تمہاری نظر میں مجسم ہوگئی ہے اور تم نے یہ سمجھ لیا کہ زندگی گزارنے کا یہ انداز بھی دوسرے احکامات کی مانند خدا کی طرف سے ایک حکم ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ قیامت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہیں لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ یہ خیال درست نہیں،رسول اکرم ﷺ ایک ایسے زمانے میں اور ایسے مقام پر زندگی بسر کر رہے تھے جہاں ناداری اور تنگدستی کا دور دورہ تھا،عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں تھیں لیکن اگر کسی زمانے میں وسائل اور لوازمات زندگی فراہم ہوجائیں تو پھر اس طرز زندگی کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہتی،خدا کی نعمتوں کو بدکاروں کے لیے مخصوص نہیں سمجھنا چاہیے،تمہارا اعتراض اس وقت صحیح ہوتا جب میں حق داروں کو ان کے حقوق سے محروم کردیتا اور خود پر تعیش زندگی گزارتا،خدا کی قسم!شام ہونے سے پہلے سب حق داروں کو ان کا حق مل جاتا ہے۔
یہ باتیں سن کر سفیان ثوری سخت شرمندہ ہوئے اور انہیں مزید گفتگو کا یارانہ رہا۔
یہ دیکھ کر سفیان ثوری کے دو ساتھی حیص بیص کرتے ہوئے بولے:یا ابا عبداللہ! اگر سفیان لاجواب ہوگئے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا موقف کمزور ہے، ہم اپنے موقف کی تائید میں قرآن و حدیث سے استدلال کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
’’ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‘‘وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود بھی ضرورت ہوتی ہے اور جنہیں اپنے نفس کے بخل سے بچالیا جائے وہی لوگ کامیاب ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:’’وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا‘‘وہ کھانے کی خواہش کے باوجود مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
ہمارے موقف کی تائید کے لیے یہی دو آیات کافی ہیں۔
امام ؑکے ایک صحابی نے کہا:لذیذ کھانوں کو تم خود بھی ناپسند نہیں کرتے،در اصل یہ تمہارا طریقہ واردات ہے کہ لوگوں کو لذیذ کھانوں سے روک کر تم ان کی دولت لوٹنا چاہتے ہو۔
امامؑ نے فرمایا:بیکار گفتگو کرنے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
پھر آپ نے ان صوفیوں کی طرف رخ کر کے فرمایا:کیا تم قرآن کے ناسخ و منسوخ محکم و متشابہ سے واقف ہو؟کیونکہ جو ان باتوں کا علم نہیں رکھتے وہی گمراہ ہوتے ہیں۔
وہ کہنے لگے:ہمیں تمام ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ کا علم نہیں ہے۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا:یہی وجہ ہے کہ تم لوگ گمراہ ہوگئے،اس زمانے میں اس امر کی ترغیب دی گئی تھی کہ انسان دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے اور اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دے مگر یہ حکم ہمیشہ اور ہر وقت کے لیے نہیں ،اگر بالفرض ہمارے پاس ایک ہی روٹی ہو اور ہم وہ کسی اور کو کھلا دیں تو ہم خود بھوک سے مرجائیں گے اور  اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔
اسی لیے پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:اگر انسان کے پاس کھجور کے پانچ دانے ایک روٹی یا درہم و دینار ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے والدین کو دے،پھر دوسرے مرحلے میں خود کھائے اور اپنے بیوی بچوں کو کھلائے اور تیسرے مرحلے میں اپنے رشتے داروں کو کھلائے لیکن یہ انفاق کا آخری درجہ ہے۔
ایک انصاری کے پاس پانچ چھ غلام تھے،وہ ان کی کمائی سے بال بچوں کا پیٹ پالتا تھا،مرنے سے قبل اس نے سب کو آزادکر دیا جبکہ اس کےبچے چھوٹے تھے اور کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں تھا۔
جب رسول خداﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ؑنے فرمایا:اگر تم لوگوں نے مجھے اس کے متعلق پہلے بتایا ہوتا تو میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنےکی اجازت نہ دیتا،اس نے چھوٹے بچوں کو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر چھوڑ دیا اور غلام آزاد کر دئیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:’’ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا ‘‘اور جب وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور کنجوسی بھی نہیں کرتے،وہ درمیانی راہ پر عمل کرتے ہیں جبکہ تمہارا خیال ہے کہ انسان اپنا تمام مال اٹھا کر دوسروں کو دیدے،اللہ اسے فضول خرچی کہتا ہے اور اللہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند کرتا ہے اور درمیانی راہ پر چلنے کی تلقین  فرماتا ہے۔
جو شخص اپنا سارا مال لٹا دے اور پھر اللہ سے وسعت رزق کی دعا کرے تو اس کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جن کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
آئمہ دینؑ نے فرمایا ہے:پانچ گروہ ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
(۱) ایسے شخص کی دعا جس کی بیوی اسے آزاد پہنچاتی ہو اور اس کے بس میں ہو کہ اسے مہر دےکر طلاق دیدے لیکن اسے طلاق نہ دیتا ہو بلکہ اس پر دعا مانگتا ہو کہ خدایا مجھے اس عورت کے شر سے نجات دے۔
(۲)ایسے شخص کی دعا جس کیا کوئی غلام ہو جو بار بار بھاگ جاتا ہو لیکن وہ پھر بھی اس کو اپنے قبضے میں رکھنے پر مصر ہو اور یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا مجھے اس کے شر سے بچا حالانکہ وہ اگر چاہے تو اسے بیچ دے۔
(۳)ایسےشخص کی دعا جو ایسی ٹیڑھی دیوار کے نیچے سے گزرے جو گرنے والی ہو،وہ اس دیوار سے ہٹے تو نہیں مگر اپنی جان کی سلامتی کی دعا مانگتا رہے۔
(۴)ایسے شخص کی دعا جو اپنا مال کسی کو بغیر گواہ اور رسید کے قرض دے اور جب قرض دار قرض ادا نہ کرے تو یہ دعا کرتا رہے کہ خدایا میرا پیسہ واپس دلادے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو بغیر رسید اور گواہ کے قرض نہ دیتا۔
(۵)ایسے شخص کی دعا جو کوئی کام نہ کرے،اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا کرتا رہے کہ ’’اَللّهُمَّ ارْزُقْنی‘‘ یعنی الٰہی رزق بھیج دے حالانکہ خدا نے اسے ہاتھ پائوں دئیے ہیں،اگر وہ گھر سے باہر نکل کر کوئی کام کرتا تو خدا کا رزق اس تک پہنچ جاتا ۔
پیغمبر اکرمﷺ نے اپنے عمل سے ہمیں انفاق کا درس دیا ہے،ایک مرتبہ آپ ؐ کے پاس تھوڑا سا سونا تھا جو آپ ؐنے شام ہونے سے پہلے تقسیم کردیا،صبح کے وقت ایک سائل آیا آپ ؐنے اس سے معذرت کی تو وہ آپ سے جھگڑنے لگا،آپؐ سائل کو خالی ہاتھ لوٹا دینے کی وجہ سے غمگین ہوئے کیونکہ آپؐ بڑے نرم دل تھے،تب خدا نے آپ پر یہ آیت اتاری:’’وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا‘‘نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجزبن کر رہ جائو۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں بہت زیادہ احادیث رسول ؐ وارد ہیں جن کی تائید قرآن کرتا ہے اور اہل ایمان قرآن کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابوذرؓ صحابہ کرام میں ممتاز مقام رکھتے تھے،جب حضرت سلمانؓ کو بیت المال سے اپنا وظیفہ ملتا تو وہ پورے سال کی گندم کیوں ذخیرہ کرے ہیں ،ممکن ہے آپ پورا سال زندہ نہ رہ سکیں؟ حضرت سلمانؓ نے فرمایا:کیا ضروری ہے کہ میں جلد ہی مرجائوں،آخر تم لوگ میری زندگی کا کیوں نہیں سوچتے؟یہ بھی تو ممکن ہے کہ میں زندہ رہ جائوں۔ جب انسان کے گھر میں کھانے کا سامان نہ ہوتو نفس سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر گھر میں کھانے پینے کا سامنا موجود ہو تو انسان آسودگی محسوس کرتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کے پاس بھی چند بھیڑیں اور اونٹ تھے،آپ ان کا دودھ خود بھی پیتے اور اہل خانہ کو بھی پلاتے،جب ان کے گھر والے ان سے گوشت کا تقاضا کرتے تو وہ بھیڑ ذبح کر کے انہیں کھلاتے۔

حضرت ابوذرؓ جب دیکھتے کہ قحط سے لوگ پریشان ہیں تو وہ اپنے اونٹ ذبح کر کے ہمسایوں میں تقسیم کرتے تھے اور خود اپنے لیے ان کے برابر حصہ رکھ لیتے تھے۔
صدر اسلام میں مسلمان بہت سختی کی زندگی گزارتے مگر پھر خدا نے ان کی کمزوری پر رحم فرمایا اور ان سے سختی دور کی،اس حقیقت کی وضاحت کے لیے جہاد کی آیات موجود ہیں جن میں پہلے حکم دیا گیا تھا کہ ایک مومن دس کافروں سے لڑے لیکن بعد میں خدا نے ان پر رحم کیا اور حکم دیا کہ ایک مومن وہ کافروں سے لڑے۔
اور اگر بالفرض تمہارا مان لیا جائے کہ آدمی اپنے گھر میں کچھ نہ رکھے،سب کچھ دے ڈالے تو اس صورت میں قسم کا کفارہ کیسے ادا کرے گا؟نذر پر کیسے عمل ہوگا؟زکات کیسے دے گا اور حج کی استطاعت کیسے پیدا ہوگی؟
تمہارے تمام اشتبابات کی وجہ قرآن کے ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے ناواقف ہونا ہے،پھر آپ نے ان صوفیوں کو حضرت سلیمانؑ ،حضرت دائودؑ اور حضرت یوسفؑ کی حکمرانی کی مثالیں دیں اور آخر میں انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:تمہیں جس چیز کا علم نہ ہو اس کے لیے اہل علم سے رجوع

(حوالہ جات)

(سورہ حشر:آیت ۹)

(سورہ دہر:آیت۸)

(سورہ فرقان:آیت۶۷)

(سورہ بنی اسرائیل:آیت۲۹)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button