قاضی اور لوگوں کے حقوق
ابو حمزہ ثمالی امام محمد باقرؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:بنی اسرائیل میں ایک قاضی تھا،جو ان کے آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔
اس کی موت کا وقت قریب آیاتو اس نے اپنی بیوی سے کہا:جب میں مر جائوں تو مجھے غسل و کفن دے کر میرے منہ پر کپڑا ڈال دینا،عورت نے اس کی وصیت پر عمل تو کیا مگر جذبہ تجس سے مجبور ہو کر اس نے لاش کے منہ سے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ اس کے شوہر کی ناک پر ایک کیڑا بیٹھا اس کی ناک کو کھا رہا ہے۔
عورت یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی،خواب میں اس کے شوہر نے اس سے کہا:کیڑا دیکھ کر تم ڈر گئی؟
عورت نے کہا:ہاں! میں کیڑا دیکھ کر ڈر گئی تھی،قاضی نے کہا:جانتی ہو کہ یہ کیڑا مجھ پر کیوں مسلط ہوا؟
عورت نے کہا:نہیں۔
قاضی نے کہا:یہ تیرے بھائی کی محبت کی وجہ سے ہوا ہے۔
عورت نے پوچھا:وہ کیسے؟
اس نے کہا:میں قاضی تھا،ایک مرتبہ تیرے بھائی اور ایک شخص میں کسی بات پر جھگڑا ہوا،فیصلہ میں نے کیا تھا،میں نے دل میں کہا تھا کہ خدا کرے تیرا بھائی بچ جائے اور بے گناہ ثابت ہو،چنانچہ بعد کی گواہیوں سے بھی تیرا بھائی بے قصور ثابت ہوا،مجھے یہ سزا صرف اس لیے ملی کہ میں نے فریقین میں سے ایک کےلیے اپنے دل میں نرمی رکھی جبکہ قاضی کی حیثیت سے دونوں فریق میری نظر میں برابر ہونے چاہئیں تھے۔
(حوالہ)
(انوار نعمانیہ ص۱۵)