باپ کے روزہ کی قضا
٭سوال ۱۲۷: اگر ایک شخص کے باپ نے نافرمانی کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اوراس کا انتقال ہوجائے اس کے بیٹے کے لئے کیاحکم ہے؟
امام و نوری : اگر اس کا باپ طاقت رکھتا تھا کہ روزوں کی قضا کرے تو بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ان روزوں کو خودرکھے یا کسی کواجیر بنائے۔(۱)
سیستانی اوروحید : اگر اس کا باپ طاقت رکھتا تھا کہ روزہ کی قضا کرے تو احتیاط واجب کی بناپر یہ بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ اس کی قضا بجالائے یا اس کے لئے اجیر بنائے۔
بھجت، خامنہ ای، صافی اورفاضل : احتیاط واجب کی بنا پر بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ان کی قضا بجالائے یا اس کے لئے اجیربنائے اگر چہ اس کا باپ طاقت نہ رکھتا ہو کہ ان کی قضا کرے۔(۲)
مکارم : بڑے بیٹے پر واجب نہیں ہے کہ انہیںبجالائے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر باپ کے روزے قضا کی صورت میں رکھ سکتا ہے تو اس کی طرف سے بجالائے یااسکے لیے اجیرکرے یعنی اجرت پررکھوائے ۔
تبریزی: اگر اس کا باپ روزوں کی قضا بجالا سکتا تھا۔ بنا بر احتیاط واجب بڑے بیٹے پر اگر وہ مشقت و حرج کا باعث نہ ہو تو واجب ہے کہ بجالائے یا کسی سے اجرت پر رکھوائے۔
(حوالہ جات)
(۱)۔توضیح المسائل مراجع، م۱۳۹۰،۱۷۱۲
(۲)۔فاضل ، صافی ،توضیح المسائل مراجع، م۱۳۹۰،۱۷۱۲، بھجت وسیلۃ النجاۃ ، ج۱،م۹۱۶،۱۱۷۷، خامنہ ای ، اجوبۃ الاستفتاء ات ، س۵۴۷