طالب علم اورا ستاد کا روزہ
٭سوال۳۰: استاد اورطالب علم جب ایک مقام پر دس دن قیام نہ رکھتے ہوں تو اس صورت میں ان کی نماز اورروزہ کا حکم کیا ہے؟
امام خمینیؒ : نماز قصر ہے اورروزہ صحیح نہیں ہے۔
آیۃ اللہ بھجت ، صافی اورنوری : استاد اورطالب علم اگر دس روزسے کم دنوں میں کم ازکم ایک دفعہ وطن اوریونیورسٹی کے درمیان رفت و آمد کریں اوریہ خصوصیت ایک ایسی مدت تک رہے کہ عرف کے نزدیک سفر ان کا کام شمار ہوتومقام تحصیل اور راستے میں ان کی نماز پوری ہوگی اورروزہ بھی صحیح ہے۔
وضاحت۔۱۔آیت اللہ صافی کے نزدیک سفر بعنوان شغل، صدق کرنے اور شمار ہونے کیلئے ضروری مدت کم ازکم چار مہینے آنا جاناہے۔
وضاحت۔۲۔(پہلا سفر) تمام مذکورہ طلباء اور اساتذہ جب دس دن سے زیادہ اپنے وطن میں قیام کریں تو درس و تدریس کے مقام کی طرف پہلے سفر میں نماز قصر پڑھیں اور روزہ نہ رکھیں۔ لیکن وطن اورمقام تحصیل کے درمیان ایک رفت و آمد کے بعد ، کثیر السفرکی مانند ، اپنی ذمہ داری پر عمل کریں،یعنی نماز پوری پڑھیں اور روزہ رکھیں۔
وضاحت۔۳۔آیت اللہ بہجت کے فتویٰ کے مطابق پہلا سفر آٹھ فرسخ کاراستہ طے کرنے سے محقق ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر اگر درس و تدریس کے مقام کا وطن سے فاصلہ آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو تو پہلے سفر ہی میں انکی نماز مقام تحصیل میں کامل اور روزہ صحیح ہے۔
خامنہ ای :۔تحصیل پر مأمور اور اضافی تنخواہ لینے والے اساتذہ و طلباء ،اگر دس دنوں سے کم میں ،کم ازکم ایک بار وطن اور یونیورسٹی کے درمیان آمدو رفت رکھتے ہو تو انکی نماز کامل اور روزہ صحیح ہے۔ مگر دوسرے طلباء کی نماز قصرہے اور ان کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔
وضاحت۔اس بات کے پیش نظر کہ آیت اللہ خامنہ ای مساوی مرجع کی طرف رجوع کے مسئلہ میں احتیاط و اجب کے قائل ہیں۔طلبا اس مسئلہ میں مساوی مرجع تقلید کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اس شرط پر کہ جدید مرجع تقلید مساوی مرجع کی طرف رجوع کو جائز سمجھتا ہو اور مسافر طالب علم کی نماز کو کامل اور اسکے روزے کو صحیح جانتا ہو۔(جیسے آیت اللہ بہجت)
تبریزی، محل ِ تحصیل اوروطن کے درمیان رفت و آمد کرے تواحتیاط کرے یعنی نمازپوری اور قصر (دونوں)پڑھے اور اگر روزہ رکھے تو صحیح ہے اور قضا نہیں ہے ۔استاد اگر ہرہفتہ تدریس کے لیے ،شرعی مسافت کی حد تک سفر کرے۔ چنانچہ تدریس کی مدت دو ماہ یازیادہ ہوتو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور روزہ رکھے۔
وضاحت۔اس بات کے پیش نظر کہ آیت اللہ تبریزی اس مسئلے میں احتیاط واجب کے قائل ہیں، ان کے مقلِد اس مسئلے میں مساوی مرجع تقلید کے فتویٰ کی طرف یا بعد والے اعلم کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور نماز پوری پڑھیں اور روزہ رکھیں۔
سیستانی۔ا۔اگر اساتذہ اور طلباء کا تدریس و تحصیل کا زمانہ کم ازکم دو سال جاری رہتا ہے اور وہ وہاں پر مستقر ہو جا تے ہیں (اگرچہ ہفتہ میں دو رات دن کامل ہو، اس طرح کہ انہیں مسافر نہ کہاجائے ) وہ جگہ وطن کے حکم میں ہے اور وہ مقام تحصیل میں نماز پوری پڑھیں اور روزہ رکھیں۔
۲۔اگراساتذہ اور طلباء ہفتہ میں کم از کم تین دن شرعی مسافت سے زیادہ رفت و آمد کریں یا سفر میں ہوں اور یہ سلسلہ ایک مدت تک (مثال کے طور پر ایک سال میں چھ ماہ یا چند تحصیلی سالوں میں کم از کم تین ماہ) جاری رہے ،وہ کثیر السفرشمار ہوں گیاور مقام تحصیل میں اور راستے کے درمیان انکی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
وضاحت۔ا۔دونوں صورتوں میں اگر ماہ اول میں دس دن اقامت کی نیت نہ کرے ، تو احتیاط کرنی چاہیے یعنی نمازپوری اور قصر دونوں پڑھیں اور روزہ رکھیں اور قضا بھی کریں۔
وضاحت۔۲۔اس بات کے پیش نظر کہ آیت اللہ سیستانی مساوی مرجع تقلید کی طرف رجوع کو جائز جانتے ہیں ان کے مقلدین اس مسئلہ میں مساوی مرجع کی طرف رجوع کر سکتے ہیں جن کے نزدیک ایسی صورت میں نمازپوری اور روزہ رکھناصحیح ہو۔
مکارم ۔ا۔ اساتذہ اور طلباء اگر ایک قابل ذکر مدت کے لیے مثلاً ایک سال یا زیادہ مقام تحصیل و تدریس میںمستقرر ہیں۔ تو وہ مقام و طن کے حکم میں ہے اوروہاں پر نماز وروزہ کامل ہے اور دس دن مسلسل وہاں ٹھہرنا شرط نہیں ہے۔
۲۔جو لوگ ہر روز یا ہفتے میں کم از کم تین دن مقام تحصیل یا تدریس کی طرف جاتے ہیں ،یعنی صبح مقام تحصیل یا تدریس کی طرف جاتے ہیں اور عصر کے وقت واپس لوٹ آتے ہیں اور یہ کام ایک مدت تک جاری رہتا ہے ۔تو وہ کثیر السفرشمار ہوں گے اور ان کی نماز اور روزہ اس مقام پر اور رفت وبرگشت کے وقت پوری ہے۔
وحید:۔اگر ہفتے میں کم ازکم چار دن وطن اور یونیورسٹیوں کے درمیان رفت و آمد کریں اور یہ کام ایک سال یا زیادہ کے لیے جاری رہتا ہے ۔وہ جگہ وطن کے حکم میں ہے ۔ وہاں پر نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔اور راستے کے درمیان احتیاط کریں یعنی نمازپوری اور قصر دونوں پڑھیں اور روزہ رکھیں اور اسکی قضا بھی ادا کریں اور اگر رفت و آمد تین دن ہو تو اس صورت میں بھی احتیاط کریں۔(ا)
(حوالہ)
(ا) دفتر تمام مراجع عظام