خلقت ِ انسان کا مقصد
سوال۲:۔قرآن خلقتِ انسا ن کے ہدف کو کس طرح بیان کرتا ہے؟
قرآن کی نظر میں کائنات عبث اوربے مقصد تخلیق نہیں کی گئی بلکہ اس کے تمام اجزاء و عناصرمشخّص مقصد وہدف کے لئے خلق ہوئے ہیں، قرآن مجید کی بہت سی آیات میں کائنات اورانسان کی خلقت کے مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِoالَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱)
بے شک آسما ن و زمین کی خلقت اور روز و شب کی گردش میں صاحبان عقل ودانش کے لئے آیتیں اور نشانیاں ہیں جو لوگ اپنے رب کو اٹھتے بیٹھتے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش اور خلقت پر غورکرتے ہیں (اورکہتے ہیں)اے ہمارے رب ! تو نے اس (کا ئنا ت)کو بے ہو دہ عبث پیدا نہیں کیا ، توپاکیزہ ہے ، ہمیں جہنم کی آگ کے عذاب سے نجا ت عطا فرما۔
اوپر کی آیا ت انسا ن کو سو چنے پر مجبو ر کر تی ہیں اور یہ سمجھا تی ہیں کہ فکر و تفکر کے بغیر مشاہدہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا،ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے:
رَبُّنا الذی اَعطٰی کُلَّ شَیْ ٍخَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ(۲)
ہمارارب وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اورپھرہدایت بھی دی ہے۔
اس آیت میں دو بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ایک یہ کہ:
اللہ تعالیٰ نے ہر موجود کو وہ کچھ عطا کیا ہے جس کی اسے ضرورت تھی، دوسرا: ہر موجود کو اس طرح ہدایت دی ہے کہ وہ پوری طاقت سے اپنی حیا ت کی بقا کے لئے استفا دہ کر ے اور اپنے وجود کے آخری ہدف کوپالے۔
خلقت ِانسان کا ہدف
کیاقرآنِ کریم خلقت ِانسان کے باہدف اوربامقصدہونے پر زور دیتا ہے
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْْنَا لَا تُرْجَعُونَ (۳)
کیاتم نے یہ سمجھ لیاہے کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں پلٹو گے؟
أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَکَ سُدًی (۴)
کیاانسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیاگیاہے؟
گزشتہ آیات سے پتہ چلتا ہے کہ
۱۔ انسان بے مقصد خلق نہیں ہوا بلکہ اس کی خلقت بامقصد ہے۔
۲۔ انسان کواس کے حال پرچھوڑنہیں دیاگیابلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل اس کی ہدا یت و دستگیری اوراس کی نگرانی کی جا تی ہے۔
۳۔ انسان کی خلقت کا آخری مقصد خا لق کا ئنا ت اورپروردگا رعالم تک رسا ئی ہے۔
دیگرقرآنی آیات نے بھی جزئی یاتفصیلی طورپرخلقت کے رازوں سے پردہ اٹھا یا ہے مثلاً:
الف: علم و معرفت
اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ وَأَنَّ اللَّہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْْئٍ عِلْماً(۵)
اللہ تووہ ہے جس نے سات آسمان خلق فرما ئے اور زمین میں سے اس کے مثل خلق کیا، اللہ کے فرامین ان کے درمیان نازل ہوتے ہیں تاکہ تم یہ جان سکو کہ اللہ ہر چیزپرقادرہے اور تمام چیزوں پر علمی احا طہ رکھتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعا لیٰ کے علم و قدرت مطلقہ سے آگاہی کو ہدف خلقت بتایاگیا ہے،جواللہ کی معرفت سے عبا رت ہے اور کمال انسانی کے علمی پہلو کو تشکیل دیتی ہے۔
ب:آزمائش و امتحان
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلا (۶)
وہی جس نے موت و حیات کو خلق فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترہے ۔
آزمائش ِ الٰہی کامقصد پو شیدہ رازوں کا کشف کرنا نہیں بلکہ استعداء اور صلا حیتوں کا نکھاراوررشد و ترقی کے لوازم فراہم کرناہے کیو نکہ انسان ایک مختار موجود ہے اور اس کا کمال اختیاری ہے، انسان کے بارے میں آزمائش الٰہی یہ ہے کہ نیک و بد کے راستے کے انتخاب کے تمام مواقع اس کے اختیارمیں دے دئیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ان مواقع پر استفادہ کرتے ہوئے فعلیت تک پہنچائے۔
ج:عبادت
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ(۷)
اورمیں نے جن اور انسان کو خلق نہیں کیا مگریہ کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس آیت میں خلقت کا اصلی مقصد اللہ کی عبادت کو قرار دیا گیا ہے اور اس بات کو سمجھنے کیلئے کہ عبادت ِالٰہی ہدف ِخلقت کے طور پر کیوںذکر ہوئی ہے،چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
اوّل: قرآنی فکر کی بنا پر ہرحرکت یامثبت عمل جو تقربِ الٰہی کے لئے انجام پائے وہ عبادت ہے،عبادت مخصوص مناسک(جیسے نماز ودعاوغیرہ)میں منحصر نہیں بلکہ تمام علمی، اقتصادی اور سیاسی اقدامات جب وہ الٰہی مقصد اور قدروں سے ہم آہنگ ہوں عبادت ہیں، ہر انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے تمام معالات حتیٰ کھا نے، پینے ،سونے، مرنے ایسے تمام افعال کو کوشنودی اور تقرب ِخدا کے لئے انجام دے:
قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(۸)
البتہ عبادت اپنے خاص معنی یعنی دعا اور مناسکِ مخصوص میں بھی دین میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے ۔
دوم: فلسفہ عبادت کی طرف توجہ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، امیرالمومنین – اس بارے فرماتے ہیں:
فان اللہ سبحا نہ و تعالیٰ خلق الخلق حین خلقھم غنیا عن طا عتھم آمنا من معصیتھم لا نہ لاتضرہ معصیۃ من عصا ہ ولا تنفعہ طاعۃ من اطاعہ(۹)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخلوقات کو خلق فرمایا جب کہ وہ ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ا ن کے گناہوں (کے نقصان) سے محفوظ تھا۔ کیو نکہ نہ گنا ہ گاروں کی نافرمانی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی مطیعوں کی اطاعت اس کو فائدہ دے سکتی ہے
زعشق نا تما م ما جما ل یا رمستغنی است
بہ آب و رنگ وخال وخط چہ حا جت روی زیبا را
عبادت دنیا وآخرت دونوں زندگیوں میں بہت سے مثبت آثار رکھتی ہے(۱۰) اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں :
۱۔ یہ فطری ضرورت اور ذاتی طور پر مطلوب ہے۔
۲۔ یہ خود کو پانے اور لغویت سے رہائی کا راستہ ہے۔
۳۔ یہ کائنات کی روحانی وسعتوں کی طرف پرواز اور مادیت کی تنگ زندگی سے نجا ت کا ذریعہ ہے۔
۴۔ یقین کی منزل تک رسا ئی اسی سے ممکن ہے۔
۵۔ یہ روح کی بد ن پر حکو مت کا ذریعہ ہے۔
۶۔ یہ نفسیاتی اور روحانی سکو ن کا با عث ہے۔
۷۔ یہ نفسی اور نفسانی قوتوںپر تسلط و ولا یت کا ذریعہ ہے۔
۸۔ یہ تقربِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔
۹۔ یہ اخلاق اور ایما ن کی ضمانت اور ان کی بنیاد ہے۔
۱۰۔ یہ قانون اور معا شرہ کی پشت پنا ہ ہے۔
۱۱۔ یہ نیکیوں اور اچھائیوں کی پرورش کا ذریعہ ہے۔
۱۲۔ یہ تربیت، نشوونما اور تکا مل کا راستہ ہے۔(۱۱)
د۔رحمت ِ الٰہی
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ
oإِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ(۱۲)
اگر تمہا را پر ور دگا ر چا ہتا تو تما م لو گو ں کو امت واحدۃ بنا دیتا لیکن وہ لوگ ہمیشہ اختلا ف میں ہیں مگر وہ لوگ جن پر تمہارا رب رحم کرے اور اسی لئے تمہارے رب نے انہیں پیدا فرما یا ہے ۔
مذکورہ آیات کے مفاہیم میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان اہدا ف کے مابین کسی قسم کا تضاد موجود نہیں بلکہ بعض اہدا ف ابتدا ئی اور مقد ما تی، بعض متو سط اور بعض اہدا ف آخری اور نتیجہ ہیں،اس بنا پر آیا ت قرآنی کے مطا بق انسان کی خلقت کا مقصد رحمت ِ الٰہی کی تجلی اور انسان کو جا وداں اور پائیدا ر کمال و سعادت کے را ستے پر ڈالنا ہے جو اختیاری طورپر برتر راستے کے انتخاب اور پروردگار کی عبو دیت و بند گی کے را ستے کو طے کر نے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
(حوالہ جات)
(۱) آل عمران، ۱۹۰، ۱۹۱
(۲) اس کے علا وہ بھی متعدد آیا ت خلقت کے با ہدف ہونے کو بیان کرتی ہیں مثلا ً سو رہ ص آیت، ۲۷، انبیاء، آیت۱۶ ، دخان آیت
۳۸، نحل، ۳ ، زمر۵، انعا م ، ۷۳ ، ابرا ہیم، ۱۹ ، تغابن، ۳ ،عنکبو ت ، ۴۴ ، روم، ۸
(۳)مومنون آیت، ۱۱۵
(۴)سورہ قیامت آیت۳۶
(۵) سورہ طلاق، ۱۲
(۶)سورہ ملک آیت ۲
(۷) سورہ ذاریات آیت ۵۶
(۸)سورہ انعام ،آیت۱۶۳
(۹) نہج البلا غہ، خطبہ نمبر ۱۹۴
(۱۰) اس حوالے سے سے زیادہ معلو ما ت کے لئے دیکھئے: استا د مطہری ، یا دد اشتہا ، ج ۶ ، مدخل عبادت ج ۴ ، مدخل نیا یش تہران، صدا
(۱۱) زیا دہ آگاہی کے لئے دیکھئے : الف : حمید رضا شا کرین ،دین شنا سی و فر ق و مذاہب قم معا رف ، ۱۳۸۹،ب: چلچرا غ حکمت ، فلسفہ احکا م ، اجتہا د و تقلید ، تہر ان کانو ن اندیشہ جوان (۱۲) سورہ ہود آیات ۱۱۸،۱۱۹