معاشیات کے علم کا مقام
سوال۲۴:معاشیات،معاشی روابط اورجدیدمعاشی قوانین،اسلامی حکومت میں کس حدتک قابل ِ قبول ہیں؟ کیا معاشی قوانین اور روابط اسلامی حکومت کے نفاذ اور طریقہ کار پر اثر انداز ہوتے ہیں ؟
اس بات کو واضح کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ ’’ جدید معاشی روابط اور قوانین‘‘سے مراد کیا ہے؟عالمی سطح پر بطورِ کلی تین معاشی نظاموں پر بحث کی جا سکتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ( کیپٹلزم ) سوشلسٹ اور اسلامی معاشی نظام موجودہ حالات میں سرمایہ دارانہ بلاک اپنے معاشی نظام اور ثقافت کو عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کر رہاہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ بڑے بڑے مغربی سرمایہ داروں کی جیبوں کو زیادہ سے زیادہ سرمائے سے بھرا جائے ۔ اس نظام میں ایسے طریقے موجود ہیں جو انسانوںکیلئے انتہائی ظالمانہ ہیں اورنقصان دہ،دوسرا سوشلسٹوںکا معاشی نظام ہے اس کے بھی نقصانات اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔
لہٰذا اسلامی نظام’’اپنی معاشیات کو اپنے خاص اصولوں کی بنیادپرقائم کرے اوران اصولوں کی روشنی میں بین الاقوامی سطح پر اقتصادی معاملات کے لیے راہیں تلاش کرے اور اس کی بنیادیں کھڑی کرے ،اسلام سرمایہ داری کے خلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ وہ اس نظام سے متعلق تمام معاشی امورکی نفی کرتا ہے،اس کی بعض چیزیں اسلام کی روح کے موافق ہیں اور بعض اس کے مخالف ہیں ۔
ایک اورنکتہ وقابل اہمیت ہے وہ معاشیات کاعلم ہے نہ کہ اقتصادی؟،دوسرے الفاظ میں سوال یوں پوچھا جا سکتا ہے کہ ’جدیداقتصادی علم‘کے بارے میں اسلام کا موقف کیا ہے؟
اسلام اورعلم ِ معاشیات
کہنے کی بات ہے کہ معاشیات کا علم انسانوں کے معاشی رویوں کے بارے میں اصول اور کلی قواعد کو بیان کرتا ہے ، در حقیقت یہ انکشاف کرتا ہے نہ کہ قواعد اور قوانین بناتا ہے، دوسرے الفاظ میں علم ِ معاشیات کی ماہیت تعریفی اور وصفی (Descriptive) ہے نہ کہ طریقی و ہنجاری (Normative) ، مثلاً علم ِ معاشیات بتاتا ہے کہ قیمت (Value) اضافی طلب ورسد (Supply and Dememd) کے نظام کے تابع ہے ۔
اس قاعدہ کی رو سے طلب سے زیادہ رسد قیمت میں کمی اور رسد سے زیادہ طلب قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے ، یہ امر ایک حقیقت کے عنوان سے معاشی معاملات میں قیمتوں کے تعیّن کی کیفیت کی وضاحت کے طور پر علم معاشیات میں بیان ہوتا ہے ۔
البتہ رہی یہ بات کہ کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ قیمتوں میں افزائش کے لیے لوگوں کی ضرورت اجناس کی رسد روک دیں اور انہیں ذخیرہ کر لیں یا نہیں ؟
اس کا جواب علم اقتصادیات کے پاس نہیں ہے بلکہ یہ اقتصادی مکتب اور نظام ہے جو اس کا تعیّن کرتا ہے ۔
اقتصادی لبرل ازم اپنے مرکانٹلیسٹی اورتاجرانہ مقاصداورلیسرفیئر(Laisser Fair) کی تعلیم کی بنیاد پر اس چیز کو جائز سمجھتا ہے ،دوسرا اقتصادی مکتب عدل و انصاف کے قیام کے لیے اہداف رکھنے کی وجہ سے اس کی نفی کرتا ہے،اس بناء پر اسلامی حکومت (ہر حکومت کی طرح) اقتصادی پروگرام اور منصوبہ بندی میں معاشیات کے علم سے استفادہ کر سکتی ہے ۔ البتہ انتخاب شدہ طریقہ کار کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالتی ہے اور دینی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار طریقوں پر تاکید کرتی ہے اور انہی کی اجازت دیتی ہے ۔ (۱)
(حوالہ)
(۱) مزید مطالعہ کے لیے دیکھیں ، صدر ، سید محمد باقر ، اقتصادما ، ج ۱ ، ۲