اسلامی حکومت کے مقاصد
اسلامی حکومت کی تشکیل کا اہم ترین فلسفہ اور بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں ۔
الف:زمین پرتوحیداورخداپرستی کی حاکمیت اوربندوں کوغیرخداکی غلامی اوربندگی سے رہائی دلانا۔
ارشادہوتاہے:وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْت (۱)
اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو
ب:انسانوں کی علمی،ثقافتی اورتربیتی لحاظ سے رشدوارتقاء اورانہیں جہالت ونادانی سے رہائی دلانا۔
ارشادہوتاہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۲)
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
ج :کمزوراورمستضعف انسانوں اورگرہوں کوظالموں اورستمگروں کی قیدسے رہائی دلانااوران کی غلامی کی زنجیریں توڑنا۔
ارشادہوتاہے:۔
وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (۳)
اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں
د:اسلامی عدل و انصاف کو قائم کرتے ہوئے مدینہ فاضلہ اور ایک ماڈل معاشرے کا قیام۔
ارشاد ہوتا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (۴)
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں
ہ:اسلام کے الٰہی قوانین کا تمام پہلوئوں کے ساتھ مکمل نفاذ ( خواہ وہ معاشی قوانین ہوں، یا معاشرتی،یاسیاسی یافوجی یاحقوقی قوانین)
۲۔حکومتی فرائض اور ذمہ داریوںکا فرق
غیراسلامی نظاموں کے فرائض اور ذمہ داریاں ( Functions) ان کے حدّ اقل مقاصد سے ہم آہنگ ہیں ، ان کی بنیادی ترین ذمہ داری صحت ، تعلیم کی ضروریات کو پوری کرنا اور امن و امان کو قائم کرنا ہے حدّ اقلی حکومتوں کی ناکامی کے بعد فلاحی حکومت (Welfare State) کا معاملہ پیش ہوا اور فلاح و بہبود اور مادی ترقی (Development) کو بھی حکومت کے فرائض میں شامل کردیا گیا ہے ۔
اسی طرح (Equalitarian) حکومتوں میں عدالت اجتماعی کا قیام،حکومت ِ کی خصوصی ذمہ داریوں میں قرار دیا گیا ہے ۔ ان تمام صورتوں میں کسی ایک حکومت نے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل نہیں کیا کہ وہ انسان کے رشد و کمال اور اعلیٰ انسانی فضائل کے حصول کے لیے ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں گے اور انسان کے عروج و ارتقاء اور جاویدانی سعادت کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کریں گے ۔
اس کے برعکس اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں اور فرائض ان سے کہیں بڑھ کر ہیں، یعنی مذکورہ کاموں اور خدمات کے علاوہ اُسے معاشرے کی اسلامی اور روحانی تربیت کے لیے صحیح منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اعلیٰ انسانی فضائل و کمالات کی نشونما بقاء اور پھیلائو کی جدوجہد کرنا چاہیے ، اُسے معاشرے کی سعادت ابدی اور دائمی خوش بختی کی طرف راہنمائی کرنی چاہیے اور اس کے لیے انسان کی حقیقی شخصیت اور اعلیٰ حیثیت کی تباہی و بربادی کے عوامل اور انسانیت کی ترقی اور کمال کے موانع کے خلاف جنگ کرنی چاہیے
قرآن مجید نے صالحین کی حکومت کا معنوی نقشہ یوں کھینچا ہے ، قرآن فرماتا ہے :
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی اْلاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ اْلاُمُوْرِ(۵)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
وہ افراد جب ہم انہیں زمین پر اقتدار دیں تو وہ نماز کو قائم کریں گے ، زکوٰۃ ادا کریں گے اچھے اور پسندیدہ کاموں کی ترغیب دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے تمام امور کی بازگشت خدا کی طرف ہے ۔
۳۔حکومتی طریقہ کا رکا فرق:
اسلامی اورغیراسلامی حکومتوں کے درمیان ، مقاصداورفرائض کا اختلاف لامحالہ طریقہ کار اورا قدار میں بھی اختلاف کا باعث بنے گا،لادین نظاموں میں تمام ترمنصوبہ بندی اور پلاننگ، انسانی اقدار،ابدی اصولوں اوردینی بنیادوں کے بغیرانجام پاتی ہے ،ایسے نظاموں میں حرفِ آخرعقل (Instrumental Reason) ہوتی ہے، انسانی اقدار سے غفلت باعث بنتی ہے کہ یہ جملہ’’ہدف و سیلہ کو جائزبنا دیتا ہے ‘‘عملی طورپراصل حاکم بن جاتا ہے اور انسانی کمال کا حصول اور اخلاقی اصول پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں مگر یہ کہ معاشرے میں رائج ثقافت خاص اقدار کو ٹھونس دے اور اس سے خلاف ورزی کو برداشت نہ کرے ۔
البتہ بعض نظریاتی نظاموں(جیسے سوشلزم)میں بعض اقدار مثلاً عدالت اور مساوات پربہت تاکید کی جاتی ہے ، لیکن ان نظاموں پر بھی اہم ترین اعتراضات پیش ہوتے ہیں ۔
الف :عدالت یادیگراقدارکے مفاہیم کا واضح نہ ہونا ۔
ب :ایک طرف دیکھنا ، یعنی ایک چیزکوبہت زیادہ اہمیت دینا اور اس پر باقی تمام اخلاقی قدروں کوقربان کردینا جیسا کہ سوشلزم میں فردکی آزادی عدالت پرقربان کر دی جاتی ہے اور لبرل ازم میں آزادی کی تلوار سے عدالت کاگلہ کاٹ دیاجاتاہے،لیکن اسلامی حکومت میں ایسے طور طریقے اور طرز عمل ممنوع ہوتے ہیں جو انسان کی عزت و شرف اور اخلاقی قدروں کے برخلاف ہوں اور انسان کی ابدی سعادت اور بشریت کے کمال کے لیے ضرر رساں ہوں، ایسے نظام میں عقل ابزاری کوئی کردار نہیں ہوتا ، بلکہ اصول اور اعلیٰ انسانی قدریں ، سرگرم عمل ہوتی ہیں اور ان سے دوری اور اجتناب کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔
۴۔قانون سازی کا مبداء
لادین نظاموں میں قانون کا مبداء انسانوں کی خواہشات ، میلانات دنیاوی مفادات ، موجودہ اور عارضی رحجانات کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت توحیدربوبی (توحیددرربوبیت )بنیاد پر استوار ہے،اسلامی نظریے میں قانون سازی کا حقیقی مرکزاورمحور صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہ خدا جو انسان کا خالق ، مالک اوررب ہے،لہٰذا دینی حقوق کے فلسفہ کے اعتبار سے انسانوں کے معاملات میں فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،دوسری طرف وہ ذات بشر کے سودوزیاں،مصالح ومفاسدسے سب سے زیادہ آگاہ ہے اورخیروبھلائی اور سعادت و خوش بختی بہترین راستے کی طرف اس کی راہنمائی فرماتا ہے ۔
اس بناء پر صرف وہی قانون معبتر اور قانونی حیثیت کا حامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے یا ان کی جانب سے ہو جنہیں اس نے اذن دے رکھا ہے اور شریعت کے اصول و قواعد کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہو ۔
پس اس قسم کے نظام میں قانون سازی کرنے والوں کا کردار زیادہ تر قوانین ِ الٰہی کا استنباط (اخذ ) کرنا اور اسے زمانے کے حالات اور تقاضوں پر منطبق کرنا ہوتا ہے۔
۵۔حکمران اور حکومتی کارندے
ہرمعاشرے کی قیادت اس معاشرے کے اہداف اور اقدار اور حکومت کے بنیادی مقاصد کی روشنی میں متعیّن ہوتی ہے ،سیکولر اور لاد ین نظاموں میں قیادت و رہبری کے لیے بڑے پیمانے پر اجتماعی نظم ونسق چلانے کی صلاحیت کے علاوہ کوئی خاص شرائط نہیں ہیں ، لیکن اسلامی نظام میں اس کے علاوہ اور شرائط بھی ضروری ہیں،اسلام میں قائد اور رہبرکی بنیادی شرائط (خواہ وہ اسلام کی خصوصی شرائط ہوں یا دوسرے سیاسی طرزتفکرسے مشترک ہوں)درج ذیل ہیں ۔
الف:علمی قابلیت
اصطلاح میں یہ فقاہت سے عبارت ہے جس کا مطلب انفرادی اور اجتماعی مسائل میں تمام جہات اور پہلوئوں سے اسلام کے حقوق اور فقہی احکام سے گہری و اقفیت ہے ، کیونکہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے میںجو چیزعمل اور قانون کا معیار قرار پاتی ہے وہ قوانین الٰہیہ ہیں، اس بناء پر ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے کی رہبری کرنے والا بڑے اہم اور اجتماعی مسائل میں،احکامِ الٰہی کے استنباط پر قدرت رکھتا ہو اور مختلف مسائل میں اسلام کے حکم کو دریافت کرکے اُسے نافذ کر سکتا ہو ۔
یہاں پر پیش ِ نظرعلمی قابلیت کودوحصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
ایک:معاشرے کے حالات و واقعات ، تقاضوں اور ضروریات سے متعلق ضروری آگاہی نظم ونسق چلانے ، انتظام و انصرام کے طریقوں اورمعاشرے کواپنی ضروریات کوپوراکرنے اور مشکلات پر قابو پانے کی طرف راہنمائی کرنے کا علم و بصیرت ،اس طرح کی علم و آگاہی ہر سیاسی نظام میں ہر قائد کے لیے لازم ہے،اس کے بغیر معاشرے کا انتظام ونصرام بڑی مشکلات سے دوچار ہو جاتاہے ۔
دو:اسلامی تعلیمات سے کافی اور عمیق آگاہی ، قوانین الٰہی کو سمجھنے اور اخذ کرنے کی صلاحیت اور ان قوانین کو چھوٹے اوربڑے مسائل میں عصری تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تطبیق دینا ، یہ اسلامی حکومت کی لازمی خصوصیات ہیں، کیونکہ اس میں بنیادی طور پر اقدار اور قوانین الٰہی کی حاکمیت ہے اوراس امرکا محقق ہونااسلامی علم ومعرفت رکھنے والی، باریک بین اور معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق اسلامی قوانین کو اخذ کرنے والی با صلاحیت قیادت کے بغیرممکن نہیں ہے ۔
ب:انتظامی صلاحیت
چھوٹی سطح یا بڑی سطح پر انتظامی صلاحیتوں اور علم و آگاہی کا ہونا ایک ضروری شرط تو ہے مگر کافی نہیں ہے ،انتظامی معاملات میں ہر وقت قوتِ فیصلہ (خصوصاً حساس حالات اور بحرانی کیفیات میں ) ، بند گلی میں راہ حل تلاش کرنا ، جدّتِ پسندی اور عمل میں جدّتِ پیدا کرنا ، ترقی کی طرف لے جانا ، ارتقاء کی طرف قدم بڑھانا ، موقع غنیمت اور فرصت کے لمحات سے استفادہ کرنا ، اور ان تمام امور کے ساتھ جلد بازی سے بچنا ، ایسے امور ہیں جو جزائی علم اور چند مہارتوں کی وجہ سے حاصل نہیں کیے جاسکتے،بلکہ یہ چیزیں نفسیاتی خصوصیات ذہانت، تدبر،غوروخوض کی صلاحیت ، مختلف مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں پختگی، تجربے، فکر اور سوچ میں برق رفتاری سے وابستہ ہیں۔
اس طرح کی صلاحیت کا تعلق صرف اسلامی معاشرے سے نہیں ہے بلکہ بطورِ کلی ہر معاشرے ہرتنظیم اورہر ادارے کو اس صلاحیت کی ضرورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انتظامی صلاحیت کا ایک حصّہ علم ہے اور دوسرا فن و ہنر ہے ۔
ج:اخلاقی صلاحیت
اسلام میں اسلامی معاشرے کے سربراہ کی اعلیٰ اخلاقیات کے حامل ہونے ، عادل، باتقویٰ، پاکدامن ، امانت دار اورشجاع ہونے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اسی طرح سے اس کے خود غرضی ، ہوا ہوس، ریاست طلبی اور دیگر اخلاقی رذائل سے دور ہونے پر بھی بہت زور دیا گیا ہے ،اس مسئلے کی چند جہات سے بہت اہمیت ہے ۔
۱۔اس اعتبار سے کہ اسلامی معاشرے کے حکمران کو عدل قائم کرنے والا اور قوانین الٰہی کا نفاذ کرنے والا ہونا چاہیے ، اُسے اپنے تمام وجود کے ساتھ ان قوانین کا تابع ہونا چاہیے اور اُسے دل میں ایمان کے ساتھ مکمل طور پر اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ اس بارے میں امام حسین ؑ فرماتے ہیں : ۔
مجاری الامور ولاحکام علی ایدی العلماء باللہ الامنا علی حلال اللہ وحرامہ (۶)
قوانین اورامورکی باگ ڈورمعرفت الٰہی رکھنے والے علماء کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو حلال اورحرام ِالٰہی کے امین اور وفادار ہیں ۔
۲۔اسلامی معاشرے کے سربراہ اور قائد کی ذمہ داری انتظام و انصرام کے علاوہ معاشرے کی دینی تربیت اور ان کی ہدایت و راہنمائی بھی ہے، لہٰذا خود اُسے اعلیٰ اخلاق اور انسانی فضائل کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے ، اُسے اسلامی آداب سے مزین اور لغزشوں سے دور ہونا چاہیے تاکہ وہ صلاحیتوں کی موجودگی میں دوسروں کو کمال کی طرف راہنمائی کر سکے اور انہیں اخلاقی آفات وبلیات سے محفوظ رکھ سکے، امیر المومنینؑ اس بارے میں فرماتے ہیں :
من نصب نفسہ اللناس اماماً فلیبداء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ (۷)
جس کسی نے اپنے لیے لوگوں کی قیادت کو قبول کیا اُسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو سکھانے سے پہلے اپنے آپ سے تعلیم کاآغازکرے۔
۳ ۔ سوشیالوجی اور تربیتی نفسیات کے علم کی رو سے ثابت ہوا ہے کہ معاشرے کے سربراہان اور اس کی اہم شخصیات نہ چاہتے ہو ئے بھی معاشرے کے ایک بڑے گروہ کے لیے آئیڈیل بن جاتی ہیں،ان کاکردار،چال ڈھال اورعادات واطوارعوام پرگہرااثرچھوڑتے ہیں اوران کے مثبت اور منفی رویوں پراثراندازہوتے ہیں،اس بات کااتنااثرہے کہ پیغمبر ِاکرم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ۔
الناس علی دین ملوکھم (۸)
لوگ اپنے بادشاہوں اور سربراہوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔
یہاں پر اس امر کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ان تمام صفات اور خصوصیات کی اعلیٰ ترین حد اور آئیڈیل صور ت ، عصمت کا مقام ہے، لہٰذا پہلے درجے پر تو اسلامی معاشرے کا انتظام اور کنٹرول معصوم (امام یا پیغمبر ) کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اورغیبت کے زمانے میں وہ شخص ان کی نیابت میں معاشرے کی قیادت اور حکمرانی کر سکتا ہے جو مذکورہ صفات اور خصوصیات میں معصوم سے سب سے زیادہ قریب ہو، ایسے شخص کو اصطلاح میں ولی فقیہ کہا جاتا ہے، اسی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے پانچویں اصول میں درج ہے ۔
حضرت ولی عصر ؑکے غیبت کے دور میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ولایت امراور امت کی امامت کی ذمہ داری ، متقی ، عادل ، زمانے سے آگاہ ، شجاع اور مدیر و مدبر فقیہ پرہو گی۔
مذکورہ بالاامورسے غیراسلامی اوربے دین حکومتوں کے مقابلے میں اسلامی حکومت کی چندامتیازی خصوصیات ثابت ہوتی ہیں ۔
۱۔اسلامی حکومت کا مطمع نظرانسان کی ابدی سعادت بھی ہوتاہے اسی لیے دیگر حکومتوں کے کردارکوادا کرنے کیساتھ ساتھ انسان کی معنوی ترقی اورسربلندی کیلئے بھی کوشاں رہتی ہے۔
۲۔اسلامی حکومت مکمل قانون کی پابندہوتی ہے اور ہر عیب و نقص سے پاک الٰہی قوانین پر اس کا انحصار ہوتا ہے ۔
۳۔اسلامی حکومت ، صالح اور نیک افراد کی سربراہی میں اپنا کام کرتی ہے اس وجہ سے آمریت ، استبداداور ڈکٹیٹر شپ کے خطرے سے حد درجہ محفوظ رہتی ہے ۔
(حوالہ جات)
(۱) سورہ نحل آیت ۳۶ (۲) سورہ جمعہ آیت۲
(۳) سورہ اعراف آیت ۱۵۷ (۴) سورہ حدید آیت ۲۵
(۵) سورہ حج آیت ۴۱ (۶) مستدرک الوسائل ، ج ۱۷ ، ص ۳۱۵ ، باب ۱۱
(۷) نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، ۷۳ (۸) بحار الانوار ، ج ۱۰۳ ، ص ۷