اسلامی حکومت اور شہری تنظیمیں
سوال۳۸:حکومت ،معاشرہ اور شہری تنظیموں کے حوالے سے کون سے اہم ترین مسائل موجودہیں ؟اسلام اور ایران کے آئین کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟
حکومت ،معاشرے اور شہری اداروں کے درمیان تعلقات کی کیفیت کیسی ہو اس بارے میں اہم ترین مسائل درج ذیل ہیں:۔
۱۔ سیاسی شرکت ( Political Participation )
۲۔ سیاسی اعتبار سے کثرت (Political Pluralism)
۳۔ ایسے موثراور مناسب شخص یااداروں کا موجود ہونا جوسیاسی حاکموں کی کاکردگی پر نگران ہوںاور اُنہیں کنٹرول کریں۔
ان باتوں کی وضاحت کے لیے پہلی چیزیہ بتاناضروری ہے کہ اسلامی نظریے کی رو سے سیاسی اور اجتماعی فعالیت اور شراکت نہ صرف لوگوں کا حق ہے بلکہ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے، اسلامی طرز تفکر میں’’امت ِاسلامی ‘‘کی تقدیر کے حوالے سے تمام مسلمان مسئول اور ذمہ دار ہیں، رسول خدا ؐ نے فرمایا :
مَنْ اَصْبَحَ وَلَمْ یَھْتَمَّ بِاُموُرِالْمُسْلِمیٖنَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ
جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور سے غافل ہو وہ مسلمان نہیں ۔
بنیادی طور پر اسلامی حکومت عوام کی شراکت ، مرضی اور اقدام کے بغیر وجود میں ہی نہیں آسکتی۔
اسلام میں حاکمیت الٰہی اور انسان کو اپنی تقدیر کا خود مالک بنانے پر استوار سیاسی مشارکت ، تخلیق کے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اسی بناء پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کے آرٹیکل ۵۶ میں آیا ہے : کائنات اور انسان پر حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس نے انسان کو اپنی اجتماعی تقدیر پر اختیار دیا ہے اور کوئی بھی انسان سے یہ الٰہی حق نہیں چھین سکتا ۔
دوسری بات کے حوالے سے شریعت مقدس اسلامی کی تعلیمات اور اصولوں کی بنیاد پر حکومت اسلامی میں اسے قبول کیا گیا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی آئین کے آرٹیکل ۲۶ میں آیا ہے :
پارٹیاں ، جماعتیں ، سیاسی انجمنیں ، اسلامی تنظیمیں ، شعبہ جاتی ادارے یامسلّمہ اقلیتیں آزاد ہیں ، اس شرط کیساتھ کہ وہ اصول استقلال ، آزادی ، قومی وحدت ، اسلامی اصولوں اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد کی خلاف ورزی نہیں کریں گی اور انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گی، کوئی بھی انہیں ان امور میں شرکت سے منع نہیں کر سکتا یا کوئی بھی انہیں ان امور میں شرکت پر مجبور نہیں کر سکتا ۔
تیسری بات کے حوالے سے واضح ہو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی تعلیمات میں سے ایک اہم اور قابل قدر فریضہ ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کے تمام افراد اس بات کے پابندہیں کہ معاشرے میں پیدا ہونے والے ہرانحراف کوروکیں، اس فریضے کی وجہ سے حکمرانوں کا طرزعمل معاشرے کے افرادکی تیزنگاہوں کی زدمیں ہوتا ہے اور وہ ضروری مواقع پر(جس طرح معاشرے کے مفادات کاتقاضاہو)مفیدتنقیدکرنے کے ساتھ ساتھ تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف ملک کے تمام سیاسی قائدین اورعہدیداروں(یہاںتک کہ رہبرِ معظم)کاطرزِعمل اورکاکردگی پرعوام کے بنائے ہوئے قانونی اداروں میں بحث کی جاسکتی ہے اوران کے ذریعے انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔
آئین کے آرٹیکل نمبر۱۱۱ میں یوں درج ہے :
جب بھی رہبراپنے قانونی فرائض کو انجام دینے سے قاصر ہو جائے یا آرٹیکل نمبر۵ اور ۱۰۹ میں مذکورہ شرائط میں سے کوئی شرط فاقد ہو جائے یایہ علم ہوجائے کہ شروع میںہی بعض شرائط اس میں نہیں پائی جاتی تھیں،تووہ اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائے گا،اس امرکی تشخیص دینا خبرگان کی ذمہ داری ہے جن کا ذکر آرٹیکل 108میں کیا گیاہے۔