مقالاتکربلا شناسی

حسینؓ ابن علیؓ دنیا کو حیران کر دیا تو نے

(ڈاکٹردوست محمد)

انسانی تاریخ میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چہیتے فرزند اسماعیلؑ کی قربانی کا اللہ کے حکم پر جس خلوص کے ساتھ مظاہرہ کیا اس کی ایک مثال دوسری بھی ملتی ہے جس نے قربانی کے فلسفے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے آبائی وطن کو مشرکین کے دعوت ابراہیمیؑ کے باوجود شرک سے باز نہ آنے کے سبب چھوڑا اور شام و فلسطین جا کر آباد ہوئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی ’’ اے پروردگار مجھے نیک فرزند عطا فرما‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرما کر برد بار بچے کی پیدائش کی بشارت دی۔ یہ حلیم فرزند ارجمند اسماعیلؑ تھے اور جب یہ بچہ ذرا بڑا ہوا تو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے اس بیٹے سے کہا ’’ اے میرے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے ذبح کرتا ہوں سو غور کرلے تیری کیا رائے ہے؟ فرمانبردار‘ برد بار بیٹے نے کہا‘ اے ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔ اور پھر جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ کا حکم مان لیا اور ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی۔ اے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا۔ بلا شبہ یہ بہت بڑا امتحان تھا اور تو اس امتحان میں کامیاب رہا۔ ہم اس کے عوض آپ کو ذبح عظیم (بڑا ذبیحہ) دے رہے ہیں اور ہم مخلصین کو ایسا ہی بدل دیا کرتے ہیں۔ اور آپ کی اس قربانی کو آپ کے بعد آنے والوں میں رہنے دی۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں ابراہیمؑ کی قربانی اور آپ پر اور آپ کی آل اولاد پر درود و سلام جاری رہے گا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی پر خلوص قربانی کے بدلے میں مسلمانوں میں حلال جانوروں کی قربانی ہر سال حج اور عیدالاضحی کے موقع پر جاری فرما کر اس قربانی کی قبولیت کی شان کو دوام دیا۔ حضرت اسماعیلؑ کی آل میں سے حضرت محمد مصطفی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور یوں نبوت کا سلسلہ مکمل ہو کر قیامت تک کے لئے بند ہوا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین متین کی دعوت و اشاعت اور حفاظت کے لئے امت مسلمہ کے ہر دور میں جانی و مالی قربانی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ

صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے تھوڑی مدت بعد یزید نے امت مسلمہ کے لئے جو نظام حکومت اختیار کرکے نافذ کرنا چاہا۔ اس کے خلاف حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے جس شان سے قربانی دی وہ اس قربانی کا تسلسل اور تکمیل تھی جو اسماعیلؑ کی صورت میں پیش کی گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کرتے ہوئے اس وقت مینڈھے کی صورت میں بدل دیا اور امت میں یوں ہی جاری فرمایا۔

حضرت حسین ابن علیؓ نے جو قربانی دی یہ اس لئے بے مثال ہے کہ یہ بات تو طے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زندگی میں بعض اوقات امتحان کے مواقع آتے ہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ میں تمہیں خوف‘ بھوک‘ مال کے اتلاف اور جانوں کی قربانی اور کھیتی کی بربادی وغیرہ کے امتحان میں آزمائوں گا‘‘۔ لیکن صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حسین ابن علیؓ کی قربانی میں ایسی کیا چیز ہے کہ وہ بے مثال ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں متذکرہ بالا اشیاء کی آزمائش اور امتحان لوگوں پر آیا ہے تو ایک یا دو چیزوں کی‘ اور وہ بھی اس طرح کہ بہت کم لوگوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔

لیکن سیدنا حسین ابن علیؓ پر یہ سارے مذکورہ امتحانات اور آزمائشیں بیک وقت وارد ہوئیں۔ ایک طرف چھوٹے بیٹے کی قربانی سامنے ہے دوسری طرف بھائی ہے تیسری طرف خواتین حرم ہیں اور اپنی جان کی تو پرواہ نہیں۔ لیکن ان حالات میں حسین ابن علیؓ جو آخری تقریر فرما رہے ہیں اس کا ایک ایک لفظ دیکھتے‘ پرکھتے اور تجزیہ کرتے جائیے۔ ایسا اطمینان‘ تحمل‘ برد باری کہ خوف کا دور دور تک شائبہ نہیں کیونکہ آپ کو قلب سلیم اور قلب منیب کے ساتھ نفس مطمئنہ بھی حاصل ہے اور کیوں حاصل نہ ہو کہ آخر اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پایہ تکمیل بلکہ اوج کمال کو پہنچنے کا لمحہ قریب آن پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے موقف سے ان ساری عظیم قربانیوں کے باوجود ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔

اور شاعر نے حسین ابن علیؓ کے اسی کردار کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا تھا

اے حسین ابن علیؓ دنیا کو حیران کر دیا تو نے
سراب تشنگی کو آب حیواں کر دیا تو نے
جو کم ہونے لگی آبادیاں شہر محبت کی
تو دل ہی کو نہیں جاں کو بھی ویراں کر دیا تو نے

اور اس طولانی تمہید کے حامل قصے کو علامہ اقبال نے کس کمال کے ساتھ اس شعر میں بیان کر دیا ہے۔

غریب سادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ نے دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور ہمیں یہ سکھا دیا کہ دین سے محبت اور اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنی جان، مال اورخونی رشتوں کی قربانی کیسے دی جاتی ہے ۔ اور یہ کہ دین میں کوئی مصلحت اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا ۔ اللہ اور رسولؐ اول اس کے بعد باقی چیزیں۔

Related Articles

Back to top button