مقالات

حضرت محمدؐ کی اولاد؛ حضرت فاطمہؑ؛حضرت زینبؑ؛حضرت قاسمؑ؛حضرت رقیہؑ؛حضرت ام کلثومؑ؛حضرت عبد اللہ ؑ؛حضرت ابراہیمؑ

۱۔حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا

حضرت فاطمہ زہراؑ (5 بعثت -11ھ) رسول اللہؐ و حضرت خدیجہؑ کی بیٹی، امام علیؑ کی شریک حیات، امام حسنؑ، امام حسینؑ و حضرت زینبؑ کی والدہ گرامی اور اصحاب کسا میں سے ہیں۔ شیعہ اثنا عشری آپؑ کو چودہ معصومین میں شمار کرتے ہیں اور آپ کی عصمت کے قائل ہیں۔ زہرا، بَتول و سیدۃ نساء العالمین آپ کے القاب جبکہ اُمّ اَبیها آپ کی مشہور کنیت ہے۔ فاطمہ واحد خاتون ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھیں۔آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کی مخالفت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت کو غصبی قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت نہیں کی۔ آپ نے غصب فدک کے واقعے میں امیرالمومنین کی دفاع میں خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ سے مشہور ہے۔ حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے فوراً بعد ابوبکر کے افراد کی طرف سے گھر پر حملہ کے نتیجے میں زخمی ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں پھر مختصر عرصے کے بعد 3 جمادی‌ الثانی سنہ 11 ہجری کو مدینہ میں شہید ہو گئیں۔ دختر پیغمبرؐ کو ان کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں دفنایا گیا اور ان کی قبر کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوئی۔سورہ کوثر، آیت تطہیر، آیت مودت، آیت اطعام اور پیغمبر اکرمؐ کی مشہور احادیث جیسے حدیث بِضعہ اور حدیث لولاک آپؑ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؑ نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے آپؑ کو تعلیم کردہ ذکر تسبیحات حضرت زہراؑ کے نام سے مشہور ہے مصحف فاطمہؑ فرشتہ الہی کے ذریعہ آپ پر القاء ہونے والے الہامات کا وہ مجموعہ ہے جسے امام علیؑ نے تحریر فرمایا ہے۔ صحیفہ فاطمہ ائمہ سے منتقل ہوتے ہوئے اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔اہل تشیع کے نزدیک آپؑ کی سیرت نمونہ عمل ہے اور وہ آپ کی شہادت کو ایام فاطمیہ کے نام سے مناتے اور مجالس عزا منعقد کرتے ہیں۔ ایران میں حکومت نے آپؑ کے روز ولادت (20 جمادی‌ الثانی) کو یوم مادر اور یوم زن قرار دیا گیا ہے اور فاطمہ و زہراؑ سب سے زیادہ رکھے جانے والے اسماء میں سے ہیں۔

بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
فاطمہ ؑ
بقیع1.jpg
کردار معصومہ، اصحاب کساء
نام فاطمہ ؑ
کنیت ام ابیہا، ام الائمہ، ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن
ولادت 20 جمادی الثانی، بعثت کے پانچویں سال
محل پیدائش مکہ
شہادت 3 جمادی الثانی، سنہ 11 ہجری۔
مدفن نامعلوم
محل سکونت مکہ، مدینہ
القاب زہرا، صدیقہ، طاہره، راضیہ، مرضیہ، مبارکہ، بتول
والد ماجد پیغمبر اسلام ؐ
والدہ ماجدہ خدیجۂ کبری ؑ
شریک حیات امام علیؑ
اولاد امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت زینبؑ اور ام کلثومؑ محسن بن علی
عمر از 18 تا 28 سال

نسب، کنیت، لقب
حضرت فاطمہؑ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت خدیجہ کبری ؑ کی بیٹی ہیں۔ آپ کے القاب کی تعداد 30 تک بیان کی گئی ہے جن میں سے زہرا، صدیقہ، مُحَدَّثہ، بَتول، سیدة نساء العالمین، منصورہ، طاہرہ، مطہرہ، زَکیہ، مبارکہ، راضیہ، مرضیہ و غیرہ آپ کے مشہور القاب ہیں۔[1] محققین کا کہنا ہے کہ ان القاب میں سے ہر ایک آپؑ کی کسی ایک خصوصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان القابات میں سے بعض القاب ہمیشہ آپ کے نام کے ہمراہ آتے ہیں جیسے "فاطمہ زہرا” (عربی میں "فاطمة الزہراء”) یہاں تک کہ عرف عام میں اس لقب کو آپ کا نام سمجھا جاتا ہے۔[2] آپؑ کی کئی کنیتیں ہیں جن میں سے مشہور ترین ام ابیہا، ام الائمة، ام الحسن، ام الحسین اور ام المحسن ہیں۔[3]

 

سوانح حیات

حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہیں اور آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ہیں۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت فاطمہؑ مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہ کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ [4] شیعہ مصادر میں آپ کی تاریخ ولادت 20 جمادی‌الثانی ذکر ہوئی ہے۔[5]

بچپن کا دور

شیعوں کے ہاں مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہؑ بعثت کے پانچویں سال سنہ احقافیہ (سورہ احقاف کے سال نزول)میں متولد ہوئیں۔ [18] صرف شیخ مفید اور کفعمی نے آپؑ کی ولادت کو بعثت کے دوسرے سال میں ذکر کیا ہے۔[19] تاہم اہل سنت کے مطابق آپؑ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی ہے۔[20] آپؑ کی زندگی کے ابتدائی ایام کے بارے میں تاریخی حوالہ جات کی کمی کی وجہ سے، دقیق معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔[21] تاریخی اسناد کے مطابق، حضرت زہرا نے حضورؐ کی دعوت کے علنی ہونے کے بعد، مشرکین کی طرف سے اپنے بابا پر کئے جانے والے تشدد اور ناروا سلوک کو نزدیک سے دیکھا۔ اس کے علاوہ بچپن کے تین سال آپؑ نے شعب ابی طالب میں گزارے، جس دوران مشرکین مکہ نے بنی ہاشم اور حضورؐ کے چاہنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا۔[22] اسی طرح آپؑ بچپن میں ہی اپنی والدہ کی شفقت اور اپنے بابا رسول خدا کے چچا اور اہم حامی حضرت ابوطالبؑ کے سایہ شفقت سے محروم ہوئیں۔ [23] اس کے علاوہ قریش کا حضورؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ، [24] پیغمبرؐ کا رات کے وقت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور آپؑ کا بنی ہاشم کی بعض دیگر خواتین سمیت حضرت علیؑ کے ہمراہ مدینہ ہجرت کرنا، حضرت فاطمہؑ کے بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔ [25]

ازدواج

حضرت فاطمہؑ کا رشتہ مانگنے والے بہت تھے۔ بہت سے اکابرین اور صحابہ جیسے حضرت علیؑ، عمر، ابوبکر اور عبدالرحمن بن عوف وغیرہ نے آپؑ کا رشتہ مانگا لیکن رسول اللہؐ نے سوائے حضرت علیؑ کے باقی سب کا رشتہ یہ فرماتے ہوئے مسترد کیا کہ میری بیٹی فاطمہؑ کا رشتہ ایک الہٰی امر ہے لہذا اس حوالے سے میں وحی کا منتظر ہوں۔[26] اسی طرح کچھ موارد میں حضرت فاطمہؑ کی نارضایتی کا بھی ذکر فرمایا۔[27] مگر جب حضرت علیؑ نے رشتہ مانگا تو آپؐ نے قبول فرما لیا[28] اور حضرت فاطمہؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: زَوَّجْتُكِ أَقْدَمَ أُمَّتِي اسلاماً (ترجمہ: میں نے تمہیں اس امت کے اولین مسلمان کی زوجیت میں دیا ہے)۔[29] امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ خاندانی تعلق اور خود حضرت فاطمہؑ کی اخلاقی اور دینی خصوصیات کی وجہ سے اس رشتے کی دلی خواہش رکھتے تھے[30] لیکن مورخین کے بقول آپؑ میں یہ جرأت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ رسول اکرمؐ کی پیاری بیٹی کا رشتہ مانگتے۔[31] سعد بن معاذ نے اس حوالے سے آگے بڑھ کر حضرت علیؑ کی درخواست کو پیغمبر اکرمؐ تک منتقل کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس رشتے پر اپنی رضایت کا اظہار کرتے ہوئے [32] اس درخواست کو اپنی بیٹی حضرت فاطمہؑ کے سامنے رکھا اور انہیں حضرت علیؑ کے اخلاقی فضائل اور حسن کردار سے آگاہ فرمایا جس پر حضرت فاطمہؑ نے بھی اپنی رضایت کا اظہار فرمایا۔[33] ہجرت کے ابتدائی ایام میں دوسرے مہاجرین کی طرح حضرت علیؑ کی مالی اور اقتصادی حالت بھی کوئی مناسب نہیں تھی یوں مہر کی ادائیگی اور شادی کے اخراجات برداشت کرنا آپ کیلئے بہت سخت اور مشکل کام تھا۔[34] اس بنا پر آپؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر اپنی زرہ بیچ کر یا اسے گروی رکھ کر حضرت فاطمہؑ کا حق مہر ادا کیا۔[35] یوں مسجد نبوی میں مسلمانوں کی بھری محفل میں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا عقد پڑھا گیا۔[36] اس حوالے سے بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ عقد کس تاریخ کو پڑھا گیا۔ اکثر مصادر میں اس حوالے سے ہجرت کے دوسرے سال کا تذکره ملتا ہے۔[37] رخصتی جنگ بدر کے بعد یعنی شوال یا ذوالحجہ سنہ 2 ہجری میں ہوئی۔[38]

ازدواجی زندگی

احادیث اور تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ امام علیؑ کے ساتھ نہایت پرخلوص رویہ رکھتی تھیں اور آپؑ کو بہترین شوہر اور مددگار سمجھتی تھیں حالانکہ پیغمبر اکرمؐ بھی حیات تھے۔[39] حضرت علیؑ کا احترام آپؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ آپؑ گھر کے اندر حضرت علیؑ کیساتھ محبت‌ آمیز گفتگو فرماتی تھیں اور لوگوں کے سامنے حضرت علیؑ کو ان کی کنیت ابا الحسن سے پکارتی تھیں۔[40] احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کیلئے خود کو آراستہ فرماتی تھیں اور مختلف زیورات جیسے گردن بند اور گوشوارے زیب تن کرتی تھیں۔[41] بعض مقامات پر زیورات کو اللہ کی راہ میں دینے کے واقعات بھی نقل ہوئے ہیں۔ ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کو انتہائی سخت اور کٹھن معاشی حالات کا سامنا تھا۔[42] یہاں تک کہ بعض اوقات حسنینؑ کیلئے پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہ ہوتا تھا۔[43] مگر حضرت فاطمہؑ نے اس حوالے سے کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی اور چہ بسا گھریلو اخراجات پورا کرنے کی خاطر اپنے شوہر نامدار کی مدد کی غرض سے اون بھی کاتا کرتی تھیں۔[44] گھر کے اندرونی معاملات حضرت فاطمہؑ جبکہ باہر کے معاملات حضرت علیؑ انجام دیتے تھے[45] یہاں تک کہ جس وقت پیغمبر اکرمؐ نے فضہ کو بطور کنیز آپ کی خدمت کیلئے بھیجا تو اس وقت بھی آپ گھر کے تمام امور ان کے ذمہ نہیں لگاتی تھیں بلکہ آدھے امور خود انجام دیتیں اور آدھے امور فضہ کے سپرد فرماتی تھیں۔[46] اس سلسلے میں تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دن گھر کے کام کاج فضہ انجام دیتیں جبکہ دوسرے دن آپ خود انہیں انجام دیتی تھیں۔[47]

اولاد

شیعہ اور اہل‌ سنت دونوں مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ امام حسنؑ[48]، امام حسینؑ[49]، حضرت زینبؑ[50] اور ام‌کلثوم، [51] حضرت فاطمہؑ اور امام علیؑ کی اولاد ہیں۔[52] شیعہ اور بعض اہل سنت مصادر میں ایک اور بیٹے کا نام بھی ملتا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث میں سقط ہو گیا جس کا نام محسن رکھا گیا تھا۔[53]

زندگی کے آخری ایام

حضرت فاطمہؑ کی زندگی کے آخری مہینوں میں کچھ تلخ اور ناگوار واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس مدت میں کسی نے بھی حضرت فاطمہ زہراؑ کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔[54] ان واقعات میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت،[55] سقیفہ کا واقعہ، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے خلافت اور باغ فدک کا غصب اور صحابہ کرام کے بھرے مجمع میں خطبہ دینا [56] آپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیش آنے والے تلخ اور ناگوار واقعات میں سے ہیں۔ اس عرصے میں حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کے ساتھ ان کے مخالفین کے سامنے امامت و ولایت کے دفاع میں کھڑی تھیں؛[57] جس کی وجہ سے آپ مخالفین کے ظلم و جبر کا نشانہ ٹھہریں اور آپ کے دروازے پر لکڑیاں جمع کر کے دروازے کو آگ لگا دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔[58] حضرت علیؑ کی جانب سے ابوبکر کی عدم بیعت اور ابوبکر کے مخالفین کا بطور احتجاج آپؑ کے گھر میں اجتماع یہ وہ امور تھے کہ جنہیں بہانہ بنا کر خلیفہ اور ان کے حامیوں نے حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ کر دیا اور آخرکار گھر کے دروازے کو آگ لگا دی گئی۔ اس حملے میں حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کو زبردستی بیعت کیلئے مسجد لے جانے میں مانع بننے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنیں[59] جس سے آپ کے شکم میں موجود بچہ ساقط ہو گیا۔[60] اس واقعے کی بعد حضرت فاطمہؑ سخت بیمار ہو گئیں [61] اور مختصر عرصے میں آپؑ کی شہادت واقع ہو گئی۔ [62] آپؑ نے حضرت علیؑ کو وصیت کی کہ آپؑ کے مخالفین کو آپؑ کی نماز جنازہ اور دفن وغیرہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے اور آپؑ کو رات کی تاریکی میں سپرد خاک کیا جائے۔[63] مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہؑ نے 3 جمادی‌ الثانی سن 11 ہجری کو مدینہ میں شہادت پائی۔[64]

سیاسی موقف

حضرت فاطمہؑ کی مختصر زندگی میں مختلف معاشرتی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی موقف بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہجرت مدینہ، جنگ احد،[65] جنگ خندق کے موقع پر زخمیوں کی دیکھ بھال، مجاہدین تک جنگی سازو سامان کی ترسیل اور [66] فتح مکہ[67] کے موقع پر آپ کی موجودگی سماجی سرگرمیوں میں سے ہیں لیکن آپ کے سیاسی موقف کا اظہار پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں اسلامی حکومت کے سیاسی منظر نامے پر حضرت فاطمہؑ کا سیاسی موقف کچھ یوں دیکھنے میں آیا:

سقیفہ بنی ساعدہ میں پیغمبر اکرمؐ کے بعد ابوبکر کی بطور خلیفہ تقرری کے بعد اس کی بیعت سے انکار، مہاجرین و انصار کے سرکردہ لوگوں سے خلافت کیلئے امام علیؑ کی برتری کا اقرار لینا، باغ فدک کی دوبارہ مالکیت کے لئے سعی و کوشش، مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کی بھری محفل سے خطاب اور دروازے پر مخالفین کے حملے کے وقت حضرت علیؑ کا دفاع۔ محققین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہؑ نے جس ردعمل کا اظہار فرمایا ہے وہ حقیقت میں ابوبکر اور ان کے حامیوں کی جانب سے خلافت کے غصب کئے جانے پر اعتراض اور احتجاج تھا۔[68]

سقیفہ کی مخالفت

سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے حوالے سے منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں وہاں پر موجود صحابہ کی جانب سے ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت کے بعد حضرت فاطمہؑ نے حضرت علیؑ اور بعض صحابہ مانند طلحہ اور زبیر کے ساتھ مل کر صحابہ کے اس اقدام کی مخالفت کی[69] کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین معین فرمایا تھا۔[70] تاریخی شواہد کے مطابق حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کے ہمراہ چیدہ چیدہ اصحاب کے گھروں میں جاتیں، ان سے مدد اور نصرت طلب کرتی تھیں۔ صحابہ آپ کی اس درخواست کے جواب میں کہتے اگر ابوبکر کی بیعت سے پہلے یہ مطالبہ کرتے تو ہم علیؑ کی حمایت کرتے لیکن اب ہم ابوبکر کی بیعت کر چکے ہیں۔ جب صحابہ حضرت علیؑ کی حمایت سے انکار کرتے تو آپ انہیں خبردار کرتیں کہ ابوبکر کی بیعت خدا کی ناراضگی اور عذاب کا باعث ہے۔ [71]

باغ فدک اور خطبۂ فدکیہ

تفصیلی مضمون: خطبہ فدکیہ

حضرت فاطمہؑ نے ابوبکر کی جانب سے فدک کو آپؑ سے واپس لے کر حکومتی خزانے میں جمع کرنے کے اقدام کی سخت مخالفت کی۔[72] لہٰذا فدک کو دوبارہ اپنی ملکیت میں واپس لانے کیلئے آپ نے ابوبکر کے ساتھ گفتگو کی ابوبکر نے جب دیکھا کہ آپؑ کے پاس کافی دلائل و شواہد ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ باغ آپؑ کی ملکیت ہے[73] تو ابوبکر نے ایک سند تحریر کی جس میں لکھا کہ فدک حضرت فاطمہؑ کی ملکیت ہے۔ جب عمر بن خطاب اس سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اس تحریر کو حضرت فاطمہؑ کے دست مبارک سے چھین کر اسے پھاڑ دیا۔[74] جب آپؑ نے دیکھا کہ فدک کو واپس لینے کی تمام تر کوششیں ہدر جا رہی ہیں تو ایسے میں آپؑ نے مسجد نبوی کا رخ کیا اور وہاں پر صحابہ کی موجودگی میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے معروف ہے جس میں آپؑ نے ابوبکر کی جانب سے خلافت کو غصب کرنے اور فدک کو واپس لینے کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور خلیفہ کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس خطبے میں آپؑ نے ابوبکر اور ان کے حامیوں کے اس اقدام کو دوزخ خریدنے کے مترادف قرار دیا۔ [75]

مخالفین ابوبکر کی حمایت

جب بعض صحابہ کرام نے ابوبکر کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر لی اور اور پیغمبر اکرمؐ کے امام علیؑ کی خلافت اور جانشینی کے حوالے سے صادر ہونے والے احکامات کو نظر انداز کر دیا تو حضرت فاطمہؑ نے حضرت علیؑ، بنو ہاشم اور بعض صحابہ کرام کے ساتھ مل کر ابوبکر کی بیعت سے انکار کر دیا۔ ابوبکر کی خلافت کے مخالفین آپؑ کے گھر میں جمع ہوگئے اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے حوالے سے حضرت علیؑ کے مسلمہ حق کی حمایت کی کہ جن میں [76] عباس بن عبدالمطلب، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، مقداد بن اَسود، اُبیّ بن کَعب اور بنی‌ ہاشم شامل تھے۔[77]

گھر پر حملے کے دوران حضرت علیؑ کا دفاع

ابوبکر کے حامیوں کی جانب سے حضرت علیؑ کے گھر پر حملے کے دوران حضرت فاطمہؑ دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علیؑ کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئیں اور آپؑ نے حضرت علیؑ کو زبردستی ابوبکر کی بیعت کیلئے لے جانے کی اجازت نہیں دی۔ اہل سنت عالم دین ابن عبدربہ کے مطابق جب ابوبکر اس بات سے مطلع ہوا کہ ان کے مخالفین حضرت فاطمہؑ کے گھر جمع ہوئے ہیں تو حکم دیا کہ ان پر حملہ کر کے انہیں متفرق کیا جائے اور مزاحمت کی صورت میں ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ عمر کچھ افراد کے ساتھ حضرت فاطمہؑ کے گھر کی طرف روانہ ہوا اور اس نے گھر میں موجود افراد سے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ ان کے حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں اس گھر کو آگ لگا دی جائے گی۔[78] عمر اور ان کے ساتھی زبردستی گھر میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپؑ نے انہیں اس بات سے ڈرایا کہ اگر گھر سے باہر نہ نکلے تو میں خدا کے حضور شکایت کروں گی[79] اس پر مخالفین گھر سے باہر چلے گئے اور امام علیؑ اور بنی‌ ہاشم کے علاوہ گھر میں موجود دیگر افراد کو ابوبکر کی بیعت کیلئے مسجد لے گئے۔[80] حضرت فاطمہؑ کے گھر میں احتجاج کرنے والوں سے زبردستی ابوبکر کی بیعت لینے کے بعد حضرت علیؑ اور بنی ہاشم سے بھی بیعت لینے کیلئے عمر اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار پھر آپؑ کے گھر کا رخ کیا اور اس مرتبہ حتی گھر کے دروازے کو آگ بھی لگا دی گئی۔ دروازے کو آگ لگانے کے بعد عمر اور ان کے ساتھی زبردستی دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہو گئے اس دوران درودیوار کے بیچ میں حضرت فاطمہؑ مجروح ہوئیں، عمر اور قنفذ نے آپ کو ضربیں لگائیں جس سے آپؑ زخمی ہوئیں اور اس دوران آپؑ کے پیٹ میں موجود بچے (محسن) کا سقط ہو گیا۔[81] بعض مورخین کے مطابق قنفذ نے حضرت فاطمہؑ کو در و دیوار کے درمیان رکھ کر [82] آپؑ پر دروازہ گرا دیا جس سے آپؑ کا پہلو زخمی ہو گیا۔[83] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عمر نے آپ کے شکم اطہر پر بھی وار کیا [84] اس واقعے کے بعد حضرت فاطمہؑ علیل ہو گئیں اور اسی بیماری کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔[85]

ابوبکر اور عمر سے ناراضگی

فدک اور ابوبکر کی بیعت سے مربوط واقعات میں ابوبکر اور عمر کے حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی وجہ سے آپؑ ان دونوں سے سخت ناراض ہو گئیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ دوسرے خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے حضرت فاطمہؑ کے دروازے پر حملہ کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد ابوبکر اور عمر نے آپؑ سے معافی مانگنے کا ارادہ کیا لیکن آپؑ نے انہیں اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ آخرکار جب حضرت علیؑ کی وساطت سے ابوبکر اور عمر فاطمہؑ کے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو اس وقت بھی آپؑ نے ان دونوں سے منہ پھیر لیا اور ان کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا اور انہیں بغیر کسی جواب کے واپس جانے پر مجبور کیا۔ حضرت فاطمہؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث جس میں پیغمبر اکرمؐ نے اپنی خوشنودی کو حضرت فاطمہؑ کی خوشنودی قرار دیا تھا؛ کا حوالہ دیتے ہوئے ان دونوں سے اپنی نارضایتی کا اعلان کیا۔ [86] بعض مورخین کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے ہر نماز کے بعد ان دونوں سے اظہار برأت کی قسم کھائی۔[87]

شہادت اور وصیتیں

تفصیلی مضمون: شہادت حضرت زہرا

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات میں جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے مجروح ہونے اور کچھ مدت تک بیمار رہنے کے بعد آخر کار حضرت فاطمہؑ سنہ 11 ہجری قمری کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔[88] آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں بھی چند اقوال موجود ہیں۔ شیعوں کے یہاں مشہور قول کی بنا پر آپ 3 جمادی‌ الثانی 11 ہجری قمری کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔[89] اس قول کی دلیل امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث ہے۔[90] دوسرے اقوال میں 13 ربیع‌ الثانی[91]، 20 جمادی‌ الثانی[92] اور 3 رمضان[93] کو آپؑ کا یوم شہادت قرار دیا گیا ہے۔ شہادت سے پہلے حضرت فاطمہؑ نے یہ وصیت فرما دی کہ میں ہرگز ان سے راضی نہیں ہوں جنہوں نے مجھ پر ظلم و ستم کیا اور میری ناراضگی کا باعث بنے وہ میرے جنازے میں شرکت نہ کریں یا میری نماز جنازه نہ پڑھائے اسی بنا پر آپؑ نے وصیت کی تھی کہ آپؑ کو مخفیانہ طور پر شب کی تاریکی میں دفن کیا جائے اور آپؑ کی قبر مبارک کو بھی مخفی رکھا جائے۔[94] مورخین کے مطابق حضرت علیؑ نے اسماء بنت عُمیس کے ساتھ مل کر آپؑ کو غسل دیا[95] اور آپؑ نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔[96] امام علیؑ کے علاوہ کچھ اور افراد نے بھی آپؑ کے جنازے میں شرکت کی جن کی تعداد اور ناموں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاریخی مصادر میں امام حسن، امام حسین، عباس بن عبدالمطلب، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، عقیل، زبیر، عبداللہ بن مسعود اور فضل بن عباس کو ان افراد میں سے شمار کیا ہے جنہوں نے آپؑ کی نمازه جنازہ میں شرکت کی۔[97] شیعہ مصادر میں سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار کے ان مراسم میں شریک ہونے پر اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ بعض محققین حضرت فاطمہؑ کی طرف سے مخفیانہ دفن کرنے اور اپنی جائے دفن کو مخفی رکھنے کی وصیت کو حکّام کے خلاف آپ کا آخری سیاسی اقدام قرار دیتے ہیں۔[98]

مقام دفن

حضرت فاطمہؑ کی وصیت کے مطابق ان کا جنازہ تابوت میں اٹھایا گیا۔اسلام میں پہلی مرتبہ ایسا عمل انجام دیا گیا نیز انہیں رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا۔[99] مخفیانہ طور پر دفن ہونے کی وجہ سے آپ کی قبر مطہر لوگوں پر مخفی رہی یوں کبھی بھی آپ کی قبر مشخص نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود تاریخی اور حدیثی مصادر میں درج ذیل مقامات آپؑ کے مقام دفن کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں:

فضائل

شیعہ اور اہل سنت مصادر میں حضرت زہراؑ کے متعدد فضائل ذکر ہوئے ہیں۔ ان فضائل میں سے بعض کا منشا قرآن کریم کی مختلف آیات جیسے آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ وغیرہ ہیں۔ اس قسم کے فضائل میں آیات کا شان نزول تمام اہل‌ بیتؑ کو شامل ہے جن میں حضرت زہراؑ کو مرکزیت حاصل ہے۔ آپ کے بعض فضائل احادیث میں بھی نقل ہوئے ہیں جن میں بِضعۃ الرسول اور محدثہ ہونا وغیرہ ہیں۔

عصمت

تفصیلی مضمون: عصمت اہل بیتؑ

شیعہ نقطہ نگاہ سے فاطمہؑ آیۂ تطہیر کے مصادیق میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔[105] اس آیت کے مطابق خداوندعالم نے اہل بیتؑ کو ہر قسم کی برائی اور نجاست سے پاک اور منزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا ہے۔[106] شیعہ اور اہل‌ سنت دونوں طریق سے نقل ہونے والی متعدد احادیث کے مطابق حضرت فاطمہؑ اہل‌ بیتؑ میں سے ایک فرد ہیں۔[107] آپ کی عصمت کو مورد بحث قرار دینے کا پہلا مورد پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے ناگوار واقعات من جملہ فدک کا واقعہ ہے جس میں امام علیؑ نے آپ کے معصوم ہونے پر آیت تطہیر سے استناد کرتے ہوئے ابوبکر کے اس اقدام کو غلط اور فدک واپس لینے کے حوالے سے حضرت زہراؑ کی درخواست کو ان کا مسلمہ حق قرار دیا۔[108] شیعوں کے علاوہ اہل سنت کے حدیثی اور تاریخی مصادر میں بھی بعض احادیث نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے آیت تطہیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی اہل بیتؑ یعنی فاطمہؑ، علیؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو ہر قسم کےگناہ سے مبرا قرار دیا ہے۔[109]

عبادت

حضرت فاطمہ زہراؑ اپنے والد گرامی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرح خدا کی عبادت سے شدید لگاؤ رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر آپ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ نماز اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں بسر کرتی تھیں۔[110] آپ کے قریبی افراد اور آپ کی خدمت میں شرفیاب ہونے والوں کی کثیر تعداد نے بھی آپ کو کئی بار قرآن کی تلاوت میں مشغول پایا۔[111] بعض مصادر میں آیا ہے کہ بعض اوقات جب حضرت فاطمہؑ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں تو اس دوران آپ غیبی امداد سے بہرہ مند ہوتی تھیں۔ نمونے کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دن سلمان فارسی نے دیکھا کہ حضرت زہراؑ چکی کے پاس قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں اور چکی خودبخود چل رہی تھی، سلمان فارسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا: …خداوندعالم نے حضرت زہراؑ کیلئے چکی چلانے کے واسطے جبرئیل امین کو بھیجا تھا۔[112] نمازوں کا طولانی ہونا اور رات بھر بیدار رہ کر عبادت کرنا،[113] دنوں کو روزہ رکھنا، شہدا کی قبور کی زیارت کرنا؛ حضرت فاطمہؑ کے نمایاں معمولات زندگی تھے کہ جس کی اہل‌ بیتؑ، بعض صحابہ کرام اور تابعین نے تائید کی ہے۔[114] اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دعا و مناجات کی کتابوں میں بعض نمازوں، دعاؤں اور تسبیحات وغیرہ کی نسبت حضرت فاطمہؑ کی طرف دی گئی ہے۔[115]

مقام و منزلت

شیعہ اور سنی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو خدا نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ علما آیۂ مودت کے نام سے مشہور سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کی دوستی اور محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔ آیۂ مودت میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت اور نبوت کی اجرت کو آپؐ کے اہل‌ بیتؑ سے مودت اور محبت کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس آیت میں اہل‌ بیتؑ سے مراد فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ شریفین ہیں۔[116] آیۂ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپؑ کی خوشنودی سے خوش ہوتا ہے۔[117] بعض حدیثی مصادر میں حضرت فاطمہؑ کی خلقت کو وجہ تخلیق آسمان قرار دیا گیا ہے، مثلا احادیث قدسی میں حدیث لولاک کے نام سے ایک مشہور ومعروف حدیث ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ افلاک کی خلقت پیغمبر اکرمؐ کی خلقت پر موقوف ہے آپؐ کی خلقت حضرت علیؑ کی خلقت پر موقوف ہے اور آپ دونوں کی خلقت حضرت فاطمہؑ کی خلقت پر موقوف ہے۔ [118] بعض علما اگرچہ اس حدیث کی سند کو مخدوش قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس حدیث کے مضمون کو قابل دفاع مانتے ہیں۔[119] پیغمبر اکرمؐ سب سے زیادہ حضرت فاطمہؑ سے محبت رکھتے اور آپؑ کا احترام کرتے تھے۔ حدیث بضعہ نامی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہؑ کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس نے بھی اسے ستایا گویا اس نے مجھے ستایا۔ اس حدیث کو پہلی صدی کے محدثین جیسے شیعہ علماء میں سے شیخ مفید اور اہل سنت علماء میں سے احمدبن حنبل نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔[120]

جنتی عورتوں کی سردار

شیعہ سنی دونوں طریقوں سے منقول متعدد احادیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ سیدۃ نساء العالمین اوربہشت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔[121]

مباہلہ میں شریک واحد خاتون

صدر اسلام کی مسلمان خواتین میں سے حضرت فاطمہؑ وہ اکیلی خاتون ہیں جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے انتخاب فرمایا تھا۔ یہ واقعہ قرآن مجید کی آیۂ مباہلہ میں ذکر ہوا ہے۔ تفسیری، روائی اور تاریخی مصادر کی روشنی میں آیت مباہلہ اہل‌ بیت پیغمبرؐ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔[122] کہا جاتا ہے کہ فاطمہؑ، امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اس واقعے میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مباہلے کیلئے گئے اور ان اشخاص کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا۔[123]

نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل

پیغمبر اکرمؐ کی نسل کا تسلسل اور ائمہ معصومین کا تعین حضرت زہراؑ کی نسل سے ہونا آپ کی فضیلت میں شمار کیا گیا ہے۔[124] بعض مفسرین حضرت زہراؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی نسل کے تسلسل کو سورہ کوثر میں مذکور خیر کثیر کا مصداق قرار دیتے ہیں۔[125]

سخاوت

حضرت فاطمہؑ کی زندگی میں سخاوت کا پہلو ان کی سیرت اور کردار کا ایک نمایاں پہلو ہے۔جس وقت آپؑ نے حضرت علیؑ کے ساتھ مشترکہ ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت آپ کی معاشرتی اور مالی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی لیکن اس وقت بھی آپؑ نے سادہ زندگی گزاری اور اس حالت میں بھی آپؑ نے خدا کی راہ میں انفاق کے ذریعے سخاوت کے اعلیٰ نمونے قائم کئے۔[126] اپنی عروسی کا لباس اسی رات کسی محتاج کو دے دینا،[127] کسی فقیر کو اپنا گردن بند عطا کرنا[128] اور تین دن تک اپنا اور اپنے اہل و عیال کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے دینا؛ آپؑ کی زندگی میں سخاوت کے اعلیٰ نمونوں میں سے ہے۔[129] حدیثی اور تفسیری مصادر میں موجود مطالب کی روشنی میں جب فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ نے مسلسل تین دن روزہ رکھا اور افطاری کے وقت پورا کھانا نیازمندوں کو دے دیا تو خدا کی طرف سے سورہ انسان کی آیات 5 تا 9 نازل ہوئیں جو آیات اطعام کے نام سے مشہور ہیں۔[130]

محَدّثَہ

خدا کے مقرب فرشتوں کا حضرت فاطمہؑ کے ساتھ ہمکلام ہونا آپؑ کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہی خصوصیت آپؑ کو "محَدّثَہ” کہنے کی وجہ بنی۔ [131] آپؑ کا پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ میں فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہونا[132] اور حضورؐ کی رحلت کے بعد فرشتوں کا آپؑ کو تسلیت دینا اور نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل آپ سے جاری رہنے کی خبر دینا اس بات کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔ آئندہ رونما ہونے والے واقعات جو فرشتہ الہٰی حضرت فاطمہؑ کیلئے بیان کرتے؛ امام علیؑ انہیں کتابی صورت میں تحریر فرماتے تھے جو بعد میں مصحف فاطمہؑ کے نام سے معروف ہوا۔[133]

علمی میراث

حضرت فاطمہؑ کی عبادی، سیاسی اور اجتماعی زندگی اوردیگر امور میں آپؑ کی فرمائشات کو ایک گراں بہا معنوی میراث کی طرح تمام مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ مصحف فاطمہ، خطبہ فدکیہ، تسبیحات اور نماز حضرت زہراؑ اس معنوی میراث میں سے ہیں۔

  • آپؑ سے منقول احادیث اس معنوی میراث کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ احادیث اعتقادی، فقہی، اخلاقی اور اجتماعی‌ موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان احادیث میں سے بعضشیعہ اور اہل‌ سنت حدیثی مصادر میں مذکور ہیں جبکہ آپؑ کی اکثر احادیث مسنَد فاطمہ اور "اخبار فاطمہ” کے نام سے مستقل کتابوں کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔ ان مسانید میں سے بعض مرور زمان کے ساتھ مفقود ہو گئیں اور علم رجال و تراجم کی کتابوں میں ان راویوں اور مصنفین کے صرف نام مذکور ہیں۔[134]
  • مصحف فاطمہؑ ایسے مطالب پر مشتمل ہے جنہیں حضرت فاطمہؑ نے فرشتہ الہیٰ سے سنا اور امام علیؑ اسے آپؑ کے کہنے کے مطابق تحریری شکل میں لے آئے۔[135] شیعوں کے مطابق مصحف فاطمہؑ ائمہ معصومین کے پاس محفوظ تھے اور ہر امام اپنی عمر کے آخر میں اسے اپنے بعد والے امام کے سپرد کرتے رہے[136] اور صرف ائمہ معصومینؑ کے علاوہ کسی دوسرےشخص کو اس کتاب تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ کتاب اس وقت امام زمانہؑ کے پاس موجود ہے۔[137]
  • خطبہ فدکیہ، حضرت فاطمہؑ کے مشہور خطبات میں سے ایک ہے جسے آپ نے واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ اور باغ فدک کے غصب کے بارے میں مسجد نبوی میں صحابہ کے بھرے مجمع میں ارشاد فرمایا۔ اس خطبے کی اب تک کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں سے اکثر کا نام "حضرت زہراؑ کے خطبے کی شرح” یا "شرح خطبہ لُمَّہ” (خطبہ فدکیہ کا ایک اور نام) ہے۔[138]
  • تسبیحات حضرت زہراؑ سے مراد وہ مشہور ذکر ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زہراؑ کو تعلیم دیاتھا[139] جس سے حضرت فاطمہؑ بہت خوش ہوئی تھیں۔[140] شیعہ اور اہل‌ سنت مصادر میں حضرت زہراؑ کو رسول اکرمؐ کی طرف سے ان تسبیحات کی تعلیم دینے کے حوالے سے مختلف مطالب مذکور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ نے اس ذکر کے سننے کے بعد کسی بھی صورت میں اسے ترک نہیں فرمایا۔[141]
  • نماز حضرت زہرا سے مراد وہ نمازیں ہیں جنہیں حضرت فاطمہؑ نے آنحضرتؐ یا جبرئیل سے دریافت فرمایا۔ بعض حدیثی مصادر اور دعاؤں کی کتابوں میں ان نمازوں کی طرف اشارے ملتے ہیں۔[142]
  • مصادر میں موجود بعض اشعار حضرت فاطمہؑ سے منسوب ہیں جنہیں تاریخی اور حدیثی مصادر میں ذکر کیا گیا ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ اشعار دو ادوار پیغمبر اکرمؐ کی رحلت سے پہلےاور آپؑ کی رحلت کے بعد کے دور سے مربوط ہیں۔[143]

شیعہ ثقافت میں تاثیر

شیعہ حضرت فاطمہؑ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں اور آپ کی سیرت شیعہ ثقافت اور شیعوں کی زندگی میں جاری و ساری ہے۔ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

  • مہر السنۃ: شیعہ فقہی اور حدیثی کتابوں میں بیٹیوں کیلئے مہر کی تعیین میں حضرت فاطمہؑ کے مہر کو نمونہ عمل اور اسوہ قرار دینے پر بہت تاکید کی گئی ہے اور اصطلاح میں اسے "مہر السنۃ” کہا جاتا ہے۔[144]
  • ایام فاطمیہ:حضرت فاطمہؑ کی شہادت کے ایام میں عزاداری برپا کرنا۔ ایران سمیت دنیا کے تمام ممالک میں شیعہ حضرات 3 جمادی‌ الثانی کو آپؑ کی شہادت کی مناسبت سے عزاداری کرتے ہیں اور بعض ممالک منجملہ ایران میں اس دن سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے[145] اور شیعہ مراجع تقلید برہنہ پاؤں عزاداری میں شرکت کرتے ہیں۔[146]
  • محلہ بنی‌ ہاشم کی علامتی تعمیر: ایام فاطمیہ کے ساتھ ساتھ محلہ بنی‎ہاشم، قبرستان بقیع اور حضرت فاطمہؑ کے گھر کی علامتی تعمیر شروع ہوتی ہے جسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے لوگ مقررہ مقامات کی طرف چلے آتے ہیں۔[147]
  • یوم مادر(Mother Day): یوں تو ہر معاشرے میں ماں کی عظمت کے پیش نظر ایک دن مخصوص کیا گیا ہے لیکن حضرت فاطمہؑ کو چونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ام ابیہا کا لقب دیا ہے تو اس حوالے سے تمام شیعہ آپ کی ولادت کو یوم مادر (Mother Day) کے طور پر مناتے ہیں۔لہٰذا اسی کے پیش نظر ایران میں حضرت فاطمہؑ کی ولادت کا دن یعنی 20 جمادی‌ الثانی یوم مادر یا یوم خواتین کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔[148] اس دن لوگ اپنی ماؤں کو تحفے تحائف دے کر ان کا خصوصی احترام اور ان کی زحمات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔[149]
  • بیٹیوں کا نام رکھنا: شیعہ اپنی بیٹیوں کا نام فاطمہ رکھتے ہیں یا پھر حضرت زہراؑ کے القابات میں سے کسی لقب کو نام کے طور پر چنتے ہیں اور ایران میں حالیہ سالوں کے دوران بیٹیوں کے ناموں میں "فاطمہ” اور "زہرا” کا شمار پہلے دس ناموں میں ہوتا ہے۔[150]
  • امامت اور رہبری کو حضرت فاطمہؑ کی اولاد سے مخصوص سمجھنا: شیعہ فرقوں میں زیدیہ فرقہ اس بات کا معتقد ہے کہ امامت اور رہبری صرف اور صرف حضرت فاطمہؑ کی اولاد سے مخصوص ہے۔ اس بنا پر زیدیہ صرف اس شخص کو اپنا امام مانتے ہیں اور اس کی حکومت کو قبول کرتے ہیں جو آپؑ کی نسل سے ہو۔[151] اسی طرح ایک گروہ فاطمیون کے نام سے معروف رہا ہے کہ جب انہوں نے مصر میں اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے خود کو آپؑ کے نام سے ہی موسوم کیا اور وہ اپنے آپ کو حضرت فاطمہؑ سے منسوب قرار دیتے ہیں۔[152]

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں صدوق، الامالی، 1417ھ، ص74، 187، 688، 691 و 692؛ کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص240؛ مسعودی، اسرارالفاطمیہ، 1420ھ، ص409۔
  2. اوپر جائیں شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، ص 33۔
  3. اوپر جائیں صدوق، الامالی، 1417ھ، ص74، 187، 688، 691 و 692؛ کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص240؛ مسعودی، اسرارالفاطمیہ، 1420ھ، ص409 مجلسی، بحارالانوار، ج43، ص16؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج3، ص132؛ قمی، بیت الاحزان، ص12 و 692۔
  4. اوپر جائیں بتنونی، الرحلۃالرحلۃ الحجازیۃ، المکتبۃ الثقافیۃ الدینیہ، ص128۔
  5. اوپر جائیں مفید، مسارالشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، 1414ھ، ص54؛ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793۔
  6. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات‏ الکبری، ۱۴۱۰ق، ج ۸ ، ص۱۴.
  7. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۴۱۰
  8. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۳، ص۹۲.
  9. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۴۶۱.
  10. اوپر جائیں شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، ۱۳۶۳ش، ص۷۸.
  11. اوپر جائیں مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۴، ص۲۰۱.
  12. اوپر جائیں محلاتی، ریاحین الشریعہ، دارالکتب الاسلامیہ، ج۳، ص۳۳.
  13. اوپر جائیں ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۰۰.
  14. اوپر جائیں متقی ہندی، کنز العُمال، موسسۃ الرسالۃ، ج۲، ص۱۵۸ و ج۳، ص۷۶۷.
  15. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۹۳.
  16. اوپر جائیں مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۸۹.
  17. اوپر جائیں کلینی، ج۱، ص۲۴۱، ح۵، طبری امامی،‌ دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴.
  18. اوپر جائیں کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص458؛ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793؛ طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ج79، ص134؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، قم، شریف الرضی، ص143؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص290؛ ابن‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص132۔
  19. اوپر جائیں مفید، مسارالشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، 1414ھ، ص54؛ کفعمی، المصباح، 1403ھ، ص512۔
  20. اوپر جائیں ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج1، ص133. ج8، ص19؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص403؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 1412ھ، ج4، ص1899۔
  21. اوپر جائیں کیا آج کی ایک مسلمان خاتون حضرت زہراءؑ کو نمونہ عمل بنا سکتی ہے؟، پایگاہ خبری تحلیلی مہرخانہ، تاریخ انتشار: 11-02-1392شمسی، تاریخ بازدید: 17-12-1395شمسی۔
  22. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔
  23. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص35۔
  24. اوپر جائیں احمدبن حنبل، مسند احمدبن حنبل، بیروت، ج1، ص368؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج1، ص163۔
  25. اوپر جائیں محقق سبزواری، نمونہ بینات در شأن نزول آیات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصہ و عامہ، 1359شمسی، ص173-174۔
  26. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات، ح8، ص11۔
  27. اوپر جائیں طوسی، محمدبن حسن، الامالی، 1414ھ، ص39۔
  28. اوپر جائیں نسائی، سنن نسائی، ح6، ص62۔
  29. اوپر جائیں شفیعی شاہرودی، سلسلہ موضوعات الغدیر علامہ امینی، ج8(صدّیقہ طاہره، فاطمہ زہرا )، ص60۔
  30. اوپر جائیں صدوق، الامالی، 1417ھ، ص653؛ اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص364۔
  31. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔
  32. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔
  33. اوپر جائیں طوسی، محمدبن حسن، الامالی، 1414ھ، ص40۔
  34. اوپر جائیں ابن‌اثیر جزری، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، انتشارات اسماعیلیان، ج5، ص517۔
  35. اوپر جائیں اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص358۔
  36. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص88-90؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص335-338۔
  37. اوپر جائیں * ابن‌حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1404ھ، ج12، ص391؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج1، ص73؛ کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج8، ص340۔
  38. اوپر جائیں طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص43؛ طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، 1420ھ، ص410۔
  39. اوپر جائیں ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص131۔
  40. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج43، ص192 و 199؛ جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص64۔
  41. اوپر جائیں صدوق، الأمالی، 1417ھ، ص552۔
  42. اوپر جائیں ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج8، ص25۔
  43. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج43، ص72۔
  44. اوپر جائیں خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص268۔
  45. اوپر جائیں حمیری قمی، قرب الإسناد، 1413ھ، ص52۔
  46. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص140-142۔
  47. اوپر جائیں الانصاری الزنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، 1428ھ، ج‏17، ص429۔
  48. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشھ، 1415ھ، ج13، ص163،173۔
  49. اوپر جائیں ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج3، ص280۔
  50. اوپر جائیں ابن‌سعد، الطبقات الکبری، دارصادر، ج8، ص465۔
  51. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشھ، 1415ھ، ج69، ص176۔
  52. اوپر جائیں مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص355؛
  53. اوپر جائیں شہرستانی، الملل و النحل، 1422ھ، ج1، ص57؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج15، ص578؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ للإمام علی‌بن ابی‌طالب، 1417ھ، ص154 و 155؛ ہلالی عامری، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ص153۔
  54. اوپر جائیں ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج2، ص238؛ کلینی، کافی، 1363شمسی، ج3، ص228۔
  55. اوپر جائیں کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص241۔
  56. اوپر جائیں مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290؛ سیدمرتضی، الشافی فی‌الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص101؛ مجلسی، بحارالانوار، دارالرضا، ج29، ص124؛ اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج1، ص353-364۔
  57. اوپر جائیں جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص63؛ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغۃ، 1378ھ، ج2، ص47۔
  58. اوپر جائیں ابن‌ابی‌شیبہ کوفی، المصنف فی الاحادیث و الآثار، 1409ھ، ج8، ص572۔
  59. اوپر جائیں جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص72 و 73۔
  60. اوپر جائیں طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص109۔
  61. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص143۔
  62. اوپر جائیں طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ۔ ص793۔
  63. اوپر جائیں ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص137۔
  64. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص143۔
  65. اوپر جائیں ابن‌کثیر، السیرہ النبویہ، 1396ھ، ج3، ص58۔
  66. اوپر جائیں طبرسی، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، 1415ھ، ج8، ص125-135۔
  67. اوپر جائیں واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص635۔
  68. اوپر جائیں فرہمندپور، «سیرہ سیاسی فاطمہ»، ص309-316۔
  69. اوپر جائیں بن‌ ابی‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغۃ، 1378ھ، ج1، ص123۔
  70. اوپر جائیں امینی، الغدیر، ج1، ص33۔
  71. اوپر جائیں ابن‌قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، 1380شمسی، ص28۔
  72. اوپر جائیں جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص119۔
  73. اوپر جائیں سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص290۔
  74. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص184 و 185؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1400ھ، ج3، ص488۔
  75. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص111-121۔
  76. اوپر جائیں ابن‌کثیر، تاریخ ابن‌کثیر، 1351-1358ھ، ج5، ص246؛ ابن‌ہشام، سیرۃ النبویہ لابن ہشام، 1375ھ، ج4، ص338۔
  77. اوپر جائیں عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387شمسی، ص99۔
  78. اوپر جائیں ابن عبدربہ اندلسی، العقد الفرید، 1409ھ، ج3، ص64۔
  79. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج2، ص105۔
  80. اوپر جائیں ابن‌ ابی‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1378ھ، ج2، ص21۔
  81. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص134۔
  82. اوپر جائیں صدوق، معانی الاخبار، 1379شمسی، ص206۔
  83. اوپر جائیں عاملی، رنج‌ہای حضرت زہراؑ، 1382شمسی، ج2، ص350-351۔
  84. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص185۔
  85. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص134۔
  86. اوپر جائیں ابن‌قتیبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، 1413ھ/1371شمسی، ج1، ص31۔
  87. اوپر جائیں کحالہ، اعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام، 1412ھ/1991م، ج4، ص123-124۔
  88. اوپر جائیں طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793۔
  89. اوپر جائیں طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793۔
  90. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص134۔
  91. اوپر جائیں ابن‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص132۔
  92. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص136۔
  93. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج2، ص125۔
  94. اوپر جائیں صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص185؛ ابن‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص137۔
  95. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص34؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1403ھ، ج2، ص473-474۔
  96. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج2، ص125۔
  97. اوپر جائیں ہلالی عامری، کتاب سلیم بن قیس، 1420ھ، ص393؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص300؛ صدوق، محمدبن علی، الخصال، 1403ھ، ص361؛ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج1، ص33 و 34۔
  98. اوپر جائیں فرہمندپور، «سیرہ سیاسی فاطمہ»، 1393شمسی، ج2، ص315۔
  99. اوپر جائیں مغربی، دعائم الاسلام، 1383ھ، ج1، ص232-233؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج8، ص29۔
  100. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص185؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1404ھ، ج2، ص572۔
  101. اوپر جائیں طبری‌امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص136؛ ابن‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص139۔
  102. اوپر جائیں صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1404ھ، ج2، ص572۔
  103. اوپر جائیں نمیری، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص105۔
  104. اوپر جائیں سمہودی، وفاء الوفا، 1971م، ج3، ص92 و 95۔
  105. اوپر جائیں سیدمرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص95؛ ابن‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص112۔
  106. اوپر جائیں سورہ احزاب، آیہ 33۔
  107. اوپر جائیں طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص215؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص198۔
  108. اوپر جائیں ر.ک: طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج1، ص122 و 123؛ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص190-192۔
  109. اوپر جائیں ابن‌مردویہ اصفہانی، مناقب علی‌بی ابی‌طالب، 1424ھ، ص305؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص199؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1408ھ، ج2، ص316۔
  110. اوپر جائیں طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص528۔
  111. اوپر جائیں طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص139۔
  112. اوپر جائیں ابن‌شہر‌آشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص116 و 117۔
  113. اوپر جائیں صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص182۔
  114. اوپر جائیں ابن‌شہر آشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص119۔
  115. اوپر جائیں ر.ک: ابن‌طاووس، جمال الاسبوع، 1371شمسی، ص93؛ کلینی، الکافی، 1363شمسی۔ ج3، ص343۔
  116. اوپر جائیں ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1375شمسی، ج17، ص122؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1416ھ، ج4، ص815؛ سیوطی، الدرالمنثور فی تفسیر بالمأثور، 1404ھ، ج6، ص7؛ ابوالسعود، ارشادالعقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم، داراحیاء التراث العربی، ج8، ص30۔
  117. اوپر جائیں حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج3، ص154۔
  118. اوپر جائیں میرجہانی، جنۃ العاصمۃ، 1398ھ، ص148۔
  119. اوپر جائیں گفت‌وگو با آیت اللہ‌العظمی شبیری زنجانی، سایت جماران، تاریخ انتشار: 1393/01/14، تاریخ بازدید: 1395/11/29.
  120. اوپر جائیں مفید، الامالی، 1414ھ، ص260؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص24؛ احمدبن حنبل، مسند احمدبن حنبل، بیروت، ج4، ص5۔
  121. اوپر جائیں صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج2، ص182. طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص81؛ احمدبن حنبل، مسند احمدبن حنبل، بیروت، ج3، ص80؛ بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، ج4، ص183؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، بیروت، ج7، ص143 و 144۔
  122. اوپر جائیں ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1412ھ، ج1، ص379؛ بلاغی، حجۃالتفاسیر و بلاغ‌الاکسیر، 1386ھ، ج1، ص268؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1403ھ، ج4، ص293 و 294۔
  123. اوپر جائیں برای نمونہ نک: ابن‌اثير، الکامل فی التاريخ، 1385شمسی، ج2، ص293
  124. اوپر جائیں طباطبائی، المیزان فی تفسیرالقرآن، 1417ھ، ج20، ص370 و 371۔
  125. اوپر جائیں طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج20، ص370 و 371؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج27، ص371؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج32، ص313؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ھ، ج5، ص342؛ نیشابوری، تفسیر غرائب القرآن، 1416ھ، ج6، ص576۔
  126. اوپر جائیں طبرسی، مکارم الاخلاھ، 1392ھ، ص94 و 95۔
  127. اوپر جائیں مرعشی نجفی، شرح احقاق الحھ، کتابخانہ مرعشی نجفی، ج19، ص114۔
  128. اوپر جائیں طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، 1420ھ، ص218 و 219۔
  129. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص169۔
  130. اوپر جائیں ابن طاووس، الطرائف، مطبعۃ الخیام، 1399ھ، ص107-109؛ طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، 1409ھ، ج10، ص211؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص670؛ فخررازی، التفسیرالکبیر، 1420ھ، ج30، ص746 و 747۔
  131. اوپر جائیں صدوق، علل الشرائع، 1385ھ، ج1، ص182۔
  132. اوپر جائیں ابن‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1376ھ، ج3، ص116۔
  133. اوپر جائیں کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص240 و 241۔
  134. اوپر جائیں معموری، «کتابشناسی فاطمہ»، 1393شمسی، ص561 -563۔
  135. اوپر جائیں کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج1، ص241۔
  136. اوپر جائیں صفار، بصائرالدرجات الکبری، 1404ھ، ص173 و 181۔
  137. اوپر جائیں آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، 1403ھ، ج21، ص126۔
  138. اوپر جائیں آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، 1403ھ، ج8، ص93؛ ج13، ص224۔
  139. اوپر جائیں صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1404ھ، ج1، ص 320 و 321؛ بخاری، صحیح بخاری، دارالفکر، 1401ھ، ج4، ص48 و 208۔
  140. اوپر جائیں صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج2، ص366۔
  141. اوپر جائیں احمدبن حنبل، مسند، بیروت، ج1، ص107۔
  142. اوپر جائیں سیدبن طاووس، علی‌بن موسی، جمال الاسبوع، 1371شمسی، ص70 و 93۔
  143. اوپر جائیں عالمی، اشعار فاطمہؑ، دانشنامہ فاطمیؑ، 1393شمسی، ج3، ص110 -120۔
  144. اوپر جائیں شہیدثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج5، ص344۔
  145. اوپر جائیں «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہراؑ». خبرگزاری فارس‌، تاریخ انتشار: 05 -02- 1391شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395
  146. اوپر جائیں فاطمیہ درقم ؛ پیادہ روی دو تن از مراجع تقلید تا حرم، خبرگزاری صداو سیما، تاریخ انتشار: 14-01-1393شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  147. اوپر جائیں نمایشگاہ کوچہ‌ہای بنی ہاشم، خبرگزاری مشرھ، تاریخ انتشار: 27-01-1391 تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  148. اوپر جائیں آیین‌نامہ‌ہای مصوب شورای فرہنگ عمومی، ادارہ کل فرہنگ و ارشاد اسلامی کرمانشاہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  149. اوپر جائیں 15 پیشنہاد برای ہدیہ روز مادر، پایگاہ اینترنتی بیتوتہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  150. اوپر جائیں دہ نام نخست برای دختران و پسران ایرانی، خبرگزاری فارس، تاریخ انتشار: 15-02-1392، تاریخ بازدید: 02-12-1395.
  151. اوپر جائیں رصاص، مصباح العلوم، 1999م، ص23-24۔
  152. اوپر جائیں ربانی گلپایگانی، علی، فاطمیان و قرامطہ، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ انتشار :4-5-1385، تاریخ بازدید: 06-12-1395.
  153. اوپر جائیں معموری، «کتابشناسی فاطمہ»، 1393شمسی، 561۔
  154. اوپر جائیں معموری کتابشناسی فاطمہ، 1393شمسی، ج2، ص564۔
  155. اوپر جائیں معموری، کتابشناسی فاطمہ، 1393شمسی، ج2، ص563؛ مراجعہ کریں: طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، 65-76۔
  156. اوپر جائیں آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ 1403ھ، ج22، ص332۔
  157. اوپر جائیں معموری، «کتابشناسی فاطمہ»، 1393شمسی، ص567۔
  158. اوپر جائیں معموری، «کتابشناسی فاطمہ»، 1393شمسی، ص566۔

مآخذ

  • ابن‌‌ ابی‌ الحدید، ابو حامد عبدالحمید، شرح نہج‌ البلاغہ، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، مصر، دار احیاء الکتب العربیۃ، چاپ اول، 1378ھ۔
  • ابن‌ ابی‌ الحدید، عز الدین، شرح نہج‌البلاغۃ، تحقیق محمدابو الفضل ابراہیم، دار احیاء الکتب العربیۃ، 1378ھ۔
  • ابن‌ ابی‌ شیبہ کوفی، عبداللہ بن محمد، المصنف فی الاحادیث و الآثار، تحقیق سعید لحام، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌ اثیر جزری، علی‌ بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، تہران، انتشارات اسماعیلیان، بی‌ تا۔
  • ابن‌ اثیر، الکامل فی التاریخ‏، بیروت، دار الصادر، 1385ھ۔
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار الفکر، 1404ھ۔
  • ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌ تا، بی‌جا.
  • ابن‌ شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب، گروہی از اساتید نجف اشرف، النجف الاشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1376ھ۔
  • ابن‌طاووس، سیدعلی‌بن موسی، جمال الاسبوع، تحقیق جواد قیومی، مؤسسۃ الآفاھ، 1371شمسی۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی‌محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن‌عبدربہ اندلسی، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشھ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، ابومحمد عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ترجمہ سید ناصر طباطبائی، تہران، ققنوس، 1380شمسی۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، ابومحمد عبداللہ بن مسلم، الامامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، قم، شریف رضی، 1413ھ/1371شمسی۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تاریخ ابن‌کثیر، مصر، مطبعۃ السعادۃ، 1351-1358ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • ابن‌مردویہ اصفہانی، احمدبن‌ موسی، مناقب علی‌بی ابی‌طالب، تحقیق عبدالرزاق محمدحسین، قم، انتشارات دارالحدیث، 1424ھ۔
  • ابن‌ہشام، ابومحمد عبدالملک بن ہشام حمیری، سیرۃ النبویہ لابن ہشام، تحقیق مصطفی السقا، ابراہیم الابیاری، عبدالحفیظ الشبلی، مصر، تراث الاسلام، چاپ دوم، 1375ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک حمیری، السیرہ النبویہ، تحقیق محمد عبدالحمید، قاہرہ، مکتبۃ محمد‌علی صبیح و اولادہ، 1383ھ۔
  • ابوالسعود، محمدبن محمد عمادی، ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق یاحقی/ ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، 1375شمسی۔
  • «اجرای نمایشنامہ بانوی آب و آیینہ»، خبرگزاری ایکنا، تاریخ انتشار: 18-02-1391شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • احمدبن حنبل، مسند احمدبن حنبل، بیروت، دارصادر، بی‌تا۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، قم، رضی‏، چاپ اول، 1421ھ۔
  • اربلی، علی‌بن‌عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دارالاضواء، 1405ھ۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالأضواء، 1403ھ۔
  • آیین‌نامہ‌ہای مصوب شورای فرہنگ عمومی، ادارہ کل فرہنگ و ارشاد اسلامی کرمانشاہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • آیا زن مسلمان امروزی می تواند از حضرت زہراؑ الگو بگیرد؟، پایگاہ خبری تحلیلی مہرخانہ، تاریخ انتشار: 11-02-1392شمسی، تاریخ بازدید: 17-12-1395شمسی۔
  • الانصاری الزنجانی الخوئینی، اسماعیل، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، قم، انتشارات دلیل ما، چاپ اول، 1428ھ۔
  • بتنونی، محمد لبیب، الرحلۃ‌الرحلۃ الحجازیۃ، قاہرہ، المکتبۃ الثقافیۃ الدینیہ، بی‌تا۔
  • بحرانی، سیدہاشم حسینی، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، 1416ھ۔
  • بحرانی، سیدہاشم حسینی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، تحقیق سید‌علی عاشور، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1413ھ۔
  • بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارالفکر، 1401ھ۔
  • بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارصادر، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار/ ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • بلاغی، سیدعبدالحجۃ، حجۃ التفاسیر و بلاغ الاکسیر، قم، انتشارات حکمت، 1386ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، تحقیق محمد عبدالرحمن مرعشلی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • 15 «پیشنہاد برای ہدیہ روز مادر»، پایگاہ اینترنتی بیتوتہ، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • ترمذی، محمدبن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق عبدالوہاب عبداللطیف، بیروت، دارالفکر، 1403ھ۔
  • تہرانی، مجتبی، بحثی کوتاہ پیرامون خطبہ حضرت زہراؑ، تہران، پیام آزادی، زمستان 1387شمسی۔
  • جوہری بصری، احمد‌بن عبدالعزیز، السقیفۃ و فدک، تحقیق محمدہادی امینی، بیروت، شرکۃ الکتبی، 1413ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیھ، یوسف مرعشلی، بیروت دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • حلبی، علی‌بن برہان، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، دارالمعرفۃ، 1400ھ۔
  • حمیری قمی، عبداللہ بن جعفر، قرب الإسناد، قم، مؤسسۃ آل‌البیت لإحیاء التراث، 1413ھ۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک محمودی، قم، نشر اسلامی، 1411ھ۔
  • دولابی، محمدبن احمد، الذریۃ الطاہرۃ النبویۃ، تحقیق سیدمحمدجواد حسینی، قم، نشراسلامی، 1407ھ۔
  • «دہ نام نخست برای دختران و پسران ایرانی»، خبرگزاری فارس، تاریخ انتشار: 15-02-1392شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • ذہبی، محمدبن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق شعیب الأرنوؤط، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ، 1413ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، «علی، فاطمیان و قرامطہ»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ انتشار: 1385/5/4، تاریخ بازدید: 1395/12/06.
  • رصاص، احمدبن حسن‌، مصباح العلوم، تحقیق مرتضی بن زید محطوری، مرکز البدر العلمی و الثقافی، صنعا، چاپ اول، 1999ء۔
  • زمخشری، محمودبن عمر، الکشاف، بیروت، دارالکتب العربی، 1407ھ۔
  • سہمی، حمزۃ بن یوسف، تاریخ جرجان، بیروت، عالم الکتب، چاپ چہارم، 1407ھ، ص171.
  • سیدبن طاووس، علی‌بن موسی، جمال الاسبوع، تحقیق جواد قیومی، مؤسسۃ الآفاھ، 1371شمسی۔
  • سیدمرتضی، علی‌بن حسین، الشافی فی‌الامامۃ، تحقیق سیدعبدالزہرا حسینی، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1410ھ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدرالمنثور فی تفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • «شاعر اہل بیت زکات طبعش را می‌دہد»، پایگاہ اینترنتی شہرستان ادب، تاریخ انتشار: 24-01-1392شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • شہرستانی، محمدبن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد سیدگیلانی، بیروت، دارالمعرفۃ، 1422ھ۔
  • شہیدثانی، زین‌الدین بن علی عاملی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سیدمحمدکلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا ؑ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1363شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، معانی الاخبار، تصحیح و تعلیق: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1379شمسی۔
  • صدوق، محمدبن علی بن‌بابویہ، علل الشرایع، تحقیق سیدمحمدصادق بحرالعلوم، النجف الاشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1385ھ۔
  • صدوق، محمدبن علی، الامالی، قم مؤسسہ البعثۃ، 1417ھ۔
  • صدوق، محمدبن علی، الخصال، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، نشر اسلامی، 1403ھ۔
  • صدوق، محمدبن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، نشراسلامی، 1404ھ۔
  • صفار، محمدبن حسن، بصائرالدرجات الکبری، تحقیق میرزا محسن کوچہ باغی، تہران، مؤسسۃ الاعلمی، 1404ھ۔
  • طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، 1417ھ۔
  • طباطبائی، سیدمحمدکاظم، «ازدواج فاطمہ»، دانشنامہ فاطمیؑ، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1393شمسی۔
  • طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، النجف الاشرف، دارالنعمان، 1386ھ۔
  • طبرسی، حسن‌بن فضل، مکارم الاخلاھ، قم، الشریف الرضی، 1392ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، قم، مؤسسۃ آل‌البیت لاحیاء التراث، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل‌بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، تہران، انتشارات خسرو، 1372شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1415ھ۔
  • طبری امامی، محمدبن جریر، دلائل الامامۃ، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1413ھ۔
  • طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق مجد ابوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ دارالتراث، چاپ دوم، 1387ھ/1967ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق گروہی از دانشمندان، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، 1403ھ۔
  • طبری، محمدبن ابی‌القاسم، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، تحقیق جواد قیومی، قم، نشر اسلامی، 1420ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسہ فقہ‌الشیعہ، 1411ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق سیدمہدی رجایی، قم، مؤسسۃ آل‌البیت لاحیاء التراث، 1404ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن، الامالی، تحقیق مؤسسۃ البعثۃ، قم، دارالثقافۃ، 1414ھ۔
  • طوسی، محمدبن حسن، التبیان فی تفسیرالقرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، مکتب الاعلام الاسلامی، 1409ھ۔
  • عالمی، سیدعلیرضا، اشعار فاطمہؑ، دانشنامہ فاطمیؑ، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1393شمسی۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، رنج‌ہای حضرت زہرا ؑ، ترجمہ: محمد سپہری، قم، انتشارات تہذیب، 1382شمسی۔
  • عسکری، مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، بہ کوشش مہدی دشتی، قم، دانشکدہ اصول دین، 1387شمسی۔
  • «فاطمیہ در قم؛ پیادہ‌روی دو تن از مراجع تقلید تا حرم»، خبرگزاری صداو سیما، تاریخ انتشار: 14-01-1393شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • فتال نیشابوری، محمدبن حسن، روضۃ الواعظین، قم، شریف الرضی.
  • فخر رازی، محمدبن عمر، التفسیرالکبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فرہمندپور، فہیمہ، سیرہ سیاسی فاطمہ، دانشنامہ فاطمی، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1393شمسی۔
  • کحالہ، عمر رضا، اعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام، بیروت؛ مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ دہم، 1412ھ/1991ء۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1403ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بیروت، 1401ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363شمسی۔
  • «گفتگو با آیت اللہ‌العظمی شبیری زنجانی»، سایت جماران، تاریخ ثبت: 14-01-1393شمسی، تاریخ بازدید: 29-11-1395شمسی۔
  • «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہراؑ»، خبرگزاری فارس‌، تاریخ انتشار: 05-02-1391شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395ش
  • متقی ہندی، علاءالدین علی بن حسام، کنز العمال، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، بی‌تا۔
  • مجلسی، بحار الانوار، تحقیق شیخ عبدالزہرا علوی، بیروت، دارالرضا، بی‌تا۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، مؤسسۃ الوفاء بیروت، لبنان، 1404ھ۔
  • محقق سبزواری، محمدباقر،‌ نمونہ بینات در شأن نزول آیات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصہ و عامہ، تہران، اسلامی، چاپ دوم، 1359شمسی۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، بی‌تا۔
  • مدیر شانہ‌چی، کاظم، علم‌الحدیث، مشہد، انتشارات دانشگاہ مشہد، 1344شمسی۔
  • مرعشی نجفی، سیدشہاب‌الدین، شرح احقاق الحھ، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، بی‌تا۔
  • مسعودی، علی‌بن حسین، اثبات الوصیۃ للإمام علی‌بن ابی‌طالب، قم، انتشارات انصاریان، 1417ھ۔
  • مسعودی، محمدفاضل، اسرارالفاطمیہ، تحقیق: سیدعادل علوی، مؤسسۃ الزائر، 1420ھ۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • معموری، علی، کتابشناسی فاطمہ، دانشنامہ فاطمی، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1393شمسی۔
  • مغربی، قاضی نعمان بن محمد تمیمی، دعائم الاسلام، تحقیق آصف فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383ھ۔
  • مغربی، قاضی نعمان بن محمد تمیمی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الأطہار، تحقیق سید محمد حسینی‌ جلالی، قم، نشر اسلامی، 1414ھ، ج3، ص29.
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • مفید، محمدبن محمد، الاختصاص، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، نشر اسلامی، 1414ھ۔
  • مفید، محمدبن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مفید، محمد‌بن محمد، الامالی، تحقیق حسین استادولی، علی‌اکبر غفاری، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • مفید، محمدبن‌محمد، مسارالشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، تحقیق مہدی نجف، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • مقریزی، احمدبن علی، امتاع الاسماع، تحقیق محمد نمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374شمسی۔
  • میرجہانی، سید محمد حسن، جنۃ العاصمۃ، تہران، کتابخانہ صدر، 1398ھ۔
  • نسایی، احمدبن شعیب، السنن الکبری، تحقیق عبدالغفار سلیمان بنداری، سیدکسروی حسن، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1411ھ۔
  • «نمایش بانوی غریب‌نشین»، خبرگزاری ایکنا، تاریخ انتشار: 27-01-1393شمسی، تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • «نمایشگاہ کوچہ‌ہای بنی‌ہاشم»، خبرگزاری مشرھ، تاریخ انتشار: 27-01-1391ش تاریخ بازدید: 02-12-1395شمسی۔
  • نیشابوری، حسن بن محمد، تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان، تحقیق زکریا عمیرات، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1416ھ۔
  • واقدی، محمدبن عمر، المغازی، تحقیق مارزدن جونز، بیروت، اعلمی، 1409ھ۔
  • ہلالی عامری، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، تحقیق محمد باقر انصاری، قم، نشرالہادی، 1420ھ۔
  • یعقوبی، احمدبن اسحاھ، تاریخ یعقوبی، دارصادر، بیروت، ‌بی‌تا۔

 

۲۔قاسم بن محمد(ص)

قاسم بن محمد، حضرت خدیجہ کے بطن سے پیغمبر(ص) کے پہلے فرزند ہیں۔ مکہ میں بعثت سے پہلے پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہو گئے [1] پیغمبر کی کنیت اسی مناسبت سے ابو القاسم ہے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق قاسم کی وفات کے بعد عاص بن وائل نے آپ کو ابتر (جسکی نسل منقطع ہو) کہا تو اسی کے بعد سورہ کوثر اترا۔[2]

منابع

  • ابن كثير، البدايہ و النہايہ، بيروت‏، دار‌الفكر، بى‌تا.
  • محمد بن اسحاق بن يسار، سيرة ابن إسحاق( كتاب السير و المغازي)، قم، اول، دفتر مطالعات تاريخ و معارف اسلامى‏، ۱۴۱۰ق‏.
  • ابن ہشام حميرى، السيرۃ النبويہ، ابن ہشام‏، بیروت، دار‌المعرفہ.

۳۔زینب بنت محمد

رُقَیۃ بنت رسول اللہ (متوفی2ھ.) حضرت محمدؐ اور خدیجہ کی بیٹی جو حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھی۔ شروع میں ابو لہب کا بیٹا عتبہ سے شادی کی اور «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»، کی آیت نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اسے طلاق دی۔ اور پھر عثمان بن عفان سے شادی کی۔ سنہ دو ہجری کو وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئی۔بعض شیعہ محققین جیسے سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ رقیہ رسول خداؐ اور خدیجہ کی اولاد نہیں تھی؛ بلکہ وہ خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی تھی چونکہ آنحضرتؐ کے گھر پرورش پائی تھی تو اس لئے پیغمبرؐ کی بیٹی سے مشہور ہوگئی۔

بقعه های بقیع.jpg
ائمہ بقیع کے گنبد کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں کا مزار
معلومات شخصیت
مکمل نام رقیہ بنت پیامبرؐ
تاریخ ولادت قبل از ہجرت
مقام سکونت مکہ • حبشہ • مدینہ
مہاجر/انصار مہاجر
معروف رشتہ دار پیغمبر اکرمؐ • خدیجہ • عثمان • ہالہ
تاریخ وفات اور مقام وفات ، مدینہ
مقام دفن بقیع
دینی مشخصات
ہجرت حبشہ • مدینہ
وجہ شہرت رسول خداؐ سے منسوب

پیدائش اور نسب

رقیہ ہجرت سے پہلے مکہ میں متولد ہوئی ہے۔ انہیں پیغمبر اکرمؐ کی سب سے بڑی بیٹی، دوسری بیٹی یا سب سے چھوٹی بیٹی سے یاد کیا ہے۔[1]اہل سنت کی نظر میں رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہ کی اولاد میں سے ہیں۔[2]شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اور چوتھی صدی کے شیعہ عالم دین ابوالقاسم کوفی کا کہنا ہے کہ رقیہ، زینب اور ام کلثوم رسول اللہؐ اور خدیجہ کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ لے پالک بیٹیاں تھیں۔[3] جعفر مرتضی نے اپنی کتاب بنات النبی اَم رَبائبُه؟ (پیغمبر کی بیٹیاں یا منہ بولی بیٹیاں؟) کو یہی بات ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے۔[4]

شادی اور ہجرت

رقیہ نے عتبۃ بن ابی لہب سے شادی کی لیکن «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»،[5] نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اپنے باپ کے حکم سے رقیہ کو طلاق دی۔[6] اس کے بعد پھر عثمان بن عفان سے شادی کی اور ان کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی۔ آنحضرتؐ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت وہ بھی حبشہ سے مدینہ آئی۔[7]تاریخِ اسلام کی کتابوں میں رقیہ اور عثمان بن عفان سے عبداللہ نامی ایک بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو بچپنے میں ہی فوت ہوا۔[8]جب خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آیا تو رقیہ بھی مسلمان ہوئی اور جب خواتین نے آنحضرتؐ کی بیعت کی تو رقیہ نے بھی ان کے ساتھ بیعت کی۔[9]

وفات

جب رسول الله جنگ بدر کو جارہے تھے تو رقیہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوئی۔ پیغمبر اکرم نے عثما کو ان کے پاس رہنے کا حکم دیا[10] رقیہ دو ہجری، رمضان میں جنگ بدر کے فتح کے دن وفات پائی۔[11]شیعہ کتابوں میں رقیہ کی وفات کی وجہ عثمان کی ضرب و شتم ذکر کیا ہے۔[12]اور اس مار پٹائی کی وجہ مغیرۃ بن ابی العاص کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو بتانا بیان کیا ہے۔[13]

ان کی قبر پر بعض خواتین نے گریہ کیا ان میں سے ایک فاطمہؑ بھی تھیں۔[14]خلیفہ دوم ان خواتین کو تازیانہ کے ذریعے رونے سے منع کرتے تھے تو پیغمبر اکرمؐ نے انہیں اس کام سے روکا۔[15]رسول خدا نے یہ کہہ کر کہ «جس نے بھی آج کی رات ہمبستری کی ہے قبر میں داخل نہ ہوجائیں»، عثمان کو قبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔[16]آپ کا نام رمضان المبارک کی دعاوں میں سے ایک میں آیا ہے: اللہم صل علی رقیۃ بنت نبیک…[17]

مقام دفن

پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر رقیہ کو بقیع میں دفن کیا۔[18] بقیع میں ائمہ بقیع کے مقبرے کے شمال اور ازواج نبی کے مقبرے کے جنوب مغرب میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں سے منسوب ایک مقبرہ تھا جس پر قدیم زمانے میں ایک ضریح بھی نصب تھی[19]جو وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوئیں۔

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص۱۸۳۹.
  2. اوپر جائیں ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۳۹.
  3. اوپر جائیں عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۱۸؛ عاملی، بنات النبی اَم ربائبه؟، ۱۴۱۳ق، ص۷۷-۷۹؛ کوفی الاستغاثه، ج۱، ص۶۸.
  4. اوپر جائیں ملاحظہ کریں: عاملی، بنات النبی اَم ربائبه؟، ۱۴۱۳ق.
  5. اوپر جائیں مسد، آیہ‌۱
  6. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۱.
  7. اوپر جائیں ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸ و ج۴، ص۱۱۳۹-۱۱۴۰؛ کحّالہ، اعلام النساء، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۵۷؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵.
  8. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۵؛ ابن عبدالبر،الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص‌۱۸۴۰ و ج۳، ص۱۰۳۷.
  9. اوپر جائیں صالحي دمشقي، سبل الہدى و الرشاد، ۱۴۱۴، ج۱۱، ص۳۳.
  10. اوپر جائیں ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص ۱۰۳۸.
  11. اوپر جائیں ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص‌۱۰۳۸.
  12. اوپر جائیں کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج‏۳، ص۲۳۶.
  13. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۶۷.
  14. اوپر جائیں کحّالہ، اعلام‌النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  15. اوپر جائیں کحّالہ، اعلام‌النساء، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۴۵۸.
  16. اوپر جائیں امین، اعیان‌الشیعہ، دارالتعارف للمطبوعات، ج۳، ص۴۸۷.
  17. اوپر جائیں شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۳، ص۱۲۰.
  18. اوپر جائیں ابن شبہ، تاریخ‌ المدینة‌ المنورہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۰۳؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۸، ص۳۷.
  19. اوپر جائیں جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۲۴۱.

مآخذ

  • ابن سعد، الطبقات الكبری، بہ كوشش محمد عبدالقادر، بیروت، دارالكتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن شبّہ، تاریخ‌المدینة‌المنورہ، بہ كوشش شلتوت، قم، دارالفكر، ۱۴۱۰ق.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/ق۱۹۹۲م.
  • امین، سید محسن، أعیان‌الشیعة، تحقیق حسن الأمین، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، بی تا.
  • بلاذری، احمدبن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دارالفكر، ۱۴۱۷ق.
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالكتب الإسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفا، محقق حمدی الدمرداش، بی جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، ۱۴۲۵ق.
  • صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۴ق.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، بنات النبی ام ربائبہ؟، مرکزالجواد، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ء۔
  • کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ، بی‌نا، بی‌تا۔
  • کحّالہ، عمر رضا، اعلام النساء، بیروت، موسسة الرسالة، طبعة العاشرة، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۱م.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ وفا، الطبعة الثانية، ۱۴۰۳ق.

 

۴۔ام کلثوم بنت پیغمبر(ص)

ام کلثوم بنت رسول اللہ (وفات 9 ھ)، آپ پیغمبر اکرم (ص) و حضرت خدیجہ (س) کی تیسری بیٹی تھیں۔ انہوں نے بعثت سے پہلے ابولہب کے بیٹے عتیبہ سے شادی کی تھی۔ جب سورہ مسد ابولہب اور اس کی زوجہ کی مذمت میں نازل ہوا تو عتیبہ نے اپنے باپ کے حکم پر ام کلثوم کو طلاق دے دی۔ ام کلثوم نے جنگ بدر کے بعد حضرت عثمان سے شادی کی۔ سنہ 9 ہجری میں وفات پائی اور آپ کو بقیع میں دفن کیا گیا۔بعض شیعہ محققین جیسے سید جعفر مرتضی عاملی، ام کلثوم، زینب اور رقیہ کو پیغمبر (ص) کی اپنی اولاد نہیں بلکہ منہ بولی بیٹیاں سمجھتے ہیں۔

معلومات شخصیت
مکمل نام ام کلثوم بنت رسول خدا (ص)
مقام سکونت مکہ، مدینہ
مہاجر/انصار مہاجر
نسب/قبیلہ قریش
معروف رشتہ دار پیغمبر اکرم (ص) و حضرت خدیجہ
تاریخ وفات اور مقام وفات شعبان سنہ 9 ہجری
مقام دفن جنت البقیع، مدینہ
دینی مشخصات
وجہ شہرت دختر پیغمبر اکرم (ص) صحابیہ

بعثت سے پہلے

ام کلثوم کو رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی دوسری یا تیسری بیٹی کہا گیا ہے۔[1]اس نے زمانہ جاہلیت میں ابو لہب کے بیٹے عتیبہ سے شادی کی تھی۔ جب ابولہب اور اس کی زوجہ کی مذمت میں سورہ مسد نازل ہوا[2] تو عتیبہ نے قریش کے بڑوں، من جملہ اپنے باپ کے کہنے پر ام کلثوم کو طلاق دے دی[3] اور سعید بن عاص کی بیٹی سے شادی کر لی۔

عثمان سے شادی

ام کلثوم پیغمبر (ص) کے ہمراہ مدینہ ہجرت کر گئیں۔ جب پیغمبر (ص) کی بڑی بیٹی رقیہ فوت ہو گئیں تو ام کلثوم نے حضرت عثمان سے شادی کر لی۔[4] آپ کی شادی جنگ بدر کے بعد ہجرت کے تیسرے سال ربیع الاول میں ہوئی۔ عثمان کو ام کلثوم سے کوئی اولاد نہیں تھی۔[5]بعض شیعہ محقق مثلاً سید جعفر مرتضی عاملی کی نظر میں ام کلثوم رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی اولاد نہیں تھیں بلکہ آپ (ص) کی منہ بولی بیٹی تھیں۔[6]

وفات

ام کلثوم کی وفات شعبان سنہ 9 ہجری میں ہوئی۔[7] حضور (ص) نے آپکی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسماء بنت عمیس اور صفیہ بنت عبد المطلب نے ام کلثوم کو غسل دیا اور امام علی (ع)، فضل، اسامہ بن زید اور ابو طلحہ انصاری قبر میں داخل ہوئے اور آپ کو دفن کیا۔ ام عطیہ انصاری غسل کے وقت وہاں پر حاضر تھیں۔[8] البتہ ابن اثیر کا کہنا ہے کہ ام عطیہ نے خود ام کلثوم کو غسل دیا۔[9]

دفن

جنت البقیع میں حضور (ص) کی بیٹیوں رقیہ، ام کلثوم اور زینب کے نام سے منسوب مزارات ہیں، جو کہ شیعہ اماموں کے مزاروں کے شمال، پیغمبر (ص) کی زوجات کے جنوب کی طرف اور عثمان بن مظعون کی قبر کے نزدیک واقع ہیں۔مآخذ کے مطابق پیغمبر (ص) کے حکم پر رقیہ [10] اور زینب [11] کو بقیع میں عثمان بن مظعون کی قبر کے نزدیک دفن کیا گیا۔ لیکن ام کلثوم کے محل دفن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ صرف پرانے مولفین من جملہ فرہاد میرزا[12] اور رفعت پاشا [13] کے مطابق، ام کلثوم کو پیغمبر (ص) کی دوسری بیٹیوں کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔ ان کی قبروں پر مزار بنائے گئے، قبروں پر ضریح بنائی گئی۔[14] وہابیوں نے ان مزارات کو خراب کر دیا۔

 

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں ابن عبد البر، ج۱، ص۵۰؛ ج۴، ص۱۸۱۸، ج۴، ص۱۹۵۲
  2. اوپر جائیں اسد الغابہ، ج۶، ص۳۸۴
  3. اوپر جائیں ↑ اسد الغابہ، ج۶، ص۳۸۴؛ ابن عبد البر، استیعاب، ج۴، ص۱۹۵۲
  4. اوپر جائیں ابن عبدالبر، استیعاب، ج۲، ص۱۰۳۹، ج۴، ص۱۹۵۲
  5. اوپر جائیں ابن عبد البر، استیعاب، ج۴، ص۱۹۵۲؛طبری، ج۱۱، ص۵۹۵
  6. اوپر جائیں سید جعفر مرتضی عاملی، ج۲، ص۲۱۶
  7. اوپر جائیں الاصابہ، ج۸، ص۴۶۰؛ تاریخ خلیفہ، ص۴۵
  8. اوپر جائیں ابن عبدالبر، استیعاب، ج۴، ص۱۹۵۲-۱۹۵۳؛ الاصابہ، ج۸، ص۴۶۰
  9. اوپر جائیں اسد الغابہ، ج۶، ص۳۸۴
  10. اوپر جائیں ابن شبہ، ج۱، ص۱۰۳؛ کلینی، ج۳، ص۲۴۱؛ ابن سعد، ج۸، ص۳۷
  11. اوپر جائیں احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۳۷؛ ابن عبد البر، ج۳، ص۱۰۵۶؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۹۰
  12. اوپر جائیں فرہاد میرزا، ص۱۵۶
  13. اوپر جائیں رفعت پاشا، ص۴۷۸
  14. اوپر جائیں جعفریان، ج۵، ص۲۴۱

مآخذ

  • ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌ دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء.
  • احمد بن حنبل، مسند احمد، دار صادر، بیروت.
  • حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، مرعشلی کی کوشش، دار المعرفہ، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • جعفریان، رسول، پنجاه سفرنامہ حج قاجاری، نشر علم، تہران، ۱۳۸۹ش.
  • ابن اثیر، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء.
  • ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، محمد عبد القادر کی کوشش، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنوره، شلتوت کی کوشش، قم، دار الفکر، ۱۴۱۰ق.
  • فرہاد میرزا قاجار، سفرنامہ فرہاد میرزا، طباطبائی کی کوشش، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، ۱۳۶۶ش.
  • پاشا، رفعت، ابرہیم، مرآة الحرمین، قم، المطبعۃ العلمیہ، ۱۳۴۴ق.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، دار الحدیث، قم، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش.
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق فواز، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، دار التراث، ط الثانیۃ، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء.

۵۔عبداللہ بن محمد

 

۶۔ابراہیم بن محمد(ص)

ابراہیم بن محمد (ص) (8۔10 ھ) ماریہ قبطیہ کے بطن سے رسول اللہ کے بیٹے ہیں۔ ان کی وفات دو سال کی عمر میں ہوئی اور ان کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا تھا۔ رسول خدا نے کسوف اور بیٹے کی وفات کے باہمی ارتباط کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: سورج و چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ہے۔ ابراہیم بقیع میں عثمان بن مظعون کے پاس دفن ہیں۔

نسب اور ولادت

ابراہیم بن محمد بن عبدالله بن عبد المطلب فرزند پیغمبر اسلام ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ماریہ قبطیہ تھا جو ملوک مصر کی بیٹیوں میں تھیں۔ جنہیں رسول خدا کے خط کے جواب میں حاکم مصر نے تحائف کے ساتھ بھجوایا تھا۔[1]ابراہیم ذی الحجہ سنہ 8 ہجری میں پیدا ہوئے۔ پیغمبر نے اپنے صحابہ سے فرمایا: میرے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔ میں نے اس کا نام اپنے جد کے نام پر ابراہیم رکھا ہے۔[2] آپ (ص) نے ابراہیم کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کیا۔ اس کے سر کے بال تراشے اور انکے ہم وزن چاندی فقرا میں تقسیم کی۔[3]ابراہیم کی ولادت کے موقع پر حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور آپکو ابا ابراہیم کہہ کر سلام کیا۔[4] ابراہیم کی ولادت کے بعد رسول اللہ خوش ہوئے اور نو مولود حضرت عائشہ کو دکھاتے ہوئے فرمایا: دیکھو یہ بچہ کس قدر میرا ہمشکل ہے۔[5]

مربیہ

تاریخی روایات کی بنا پر ابراہیم کی مربیہ آنحضرت (ص) کی خادمہ سلمیٰ تھیں۔ ابراہیم کی ولادت کے بعد اس نے اپنے شوہر ابو رافع کو خبر دی اور اس نے رسول خدا کو آگاہ کیا۔ پیغمبر نے خوش ہو کر اسے ایک غلام بخشا۔[6]ابراہیم کی ولادت کے بعد انصار کی خواتین اسے دودھ پلانے میں سبقت لے رہی تھیں۔ لیکن رسول خدا نے اس کے لئے ام بردة بنت منذر بن زید کا انتخاب کیا۔[7]

وفات

ایک قول کے مطابق ابراہیم کی وفات دہم یا آخر ربیع الاول سنہ 10 ہجری میں ۱۶ ماه کی عمر میں ہوئی[8] ایک اور قول کے مطابق ۱۸ ماہ کی عمر میں وفات ہوئی۔[9] ابن شہر آشوب کے مطابق ایک سال، دس مہینے اور آٹھ دن کی عمر میں ابراہیم کی وفات ہوئی اور بقیع میں عثمان بن مظعون (متوفی 2 ھ) کے پاس دفن ہوئے۔[10] رسول اللہ نے اس کی قبر پر ایک پتھر رکھا اور قبر پر پانی چھڑکا۔[11]

بیان ابن شہر آشوب

ابن شہرآشوب نے کتاب مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے نقل کیا ہے: ایک روز رسول اللہ اپنے دامن میں اپنے فرزند ابراہیم اور حسین کو لئے بیٹھے تھے اس دوران جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: خدا تم پر سلام بھیجتا ہے اور کہتا ہے: ان دونوں کو اکٹھا نہیں رکھوں گا پس ایک کو دوسرے پر فدا کرو۔ رسول خدا نے امام حسین کا انتخاب کیا۔ اس کے تین روز بعد ابراہیم کی وفات ہو گئی۔[12]

پیغمبر کا غم

ابراہیم کی وفات نے آپ کو بہت غمناک کیا۔ آپ نے گریہ کیا بعض کے اعتراض کے جواب میں فرمایا:

إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ تَدْمَعُ الْعَینُ وَ یفْجَعُ الْقَلْبُ وَ لانَقُولُ مَا یسْخِطُ الرَّبَّ وَاللَّهِ یا إِبْرَاهِیمُ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ
میں بھی انسان ہوں، آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے۔ واللہ! اپنے رب کو ناراض کرنے والی بات نہیں کرونگا۔ اے ابراہیم! خدا کی قسم تمہاری موت کی وجہ سے غمگین ہوں۔[13]

ایک روایت میں یوں آیا ہے:

اے پہاڑ! جو میرے ساتھ پیش آیا ہے اگر وہ تیرے ساتھ پیش آتا تو تو ریزہ ریزہ ہو جاتا لیکن ہمیں جس طرح خدا نے حکم دیا ہے ہم کہتے ہیں: إنّا لِلهِ وَ إنّا اِلَیْهِ راجِعونَ وَ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمینَ.[14]

سورج کو گہن لگنا

ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا۔ بعض نے کہا ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گہن لگا ہے۔ آپ کو اس کا پتہ چلا تو آپ باہر آئے حمد الہی کے بعد فرمایا:

سورج اور چاند خدا کی دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۲۰۰
  2. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۸
  3. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۷
  4. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۵۰
  5. اوپر جائیں نک: انساب الاشراف، ج۱،ص۴۵۰.
  6. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۷
  7. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۸
  8. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۵؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۱
  9. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۴؛ أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۰
  10. اوپر جائیں الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۵؛ أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۱
  11. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۵؛ أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۱
  12. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ج۴، ص۸۱
  13. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ج۷۹، ص۹۱؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۴
  14. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۲
  15. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ج۱، ص۴۵۲؛ مجلسی، بحار الأنوار، ج۷۹، ص۹۱

منابع

  • ابن سعد، الطبقات الکبری، دوم، بیروت،‌ دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن شہر آشوب، المناقب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق.
  • بلاذری، أنساب الأشراف،اول، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
  • مجلسی، بحارالأنوار، دوم، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش.

 

Related Articles

Back to top button