دانشکدہقرآن و سنتمقالات

قرآن مجید ، مکمل نظام زندگی

(سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری)

تمہید
قرآن گزشتہ آسمانی کتابوں کا عطر ہے ، جس طرح موسم بہار میں پھول کھلتے ہیں ، ہر طرف رنگ و بو کا ماحول چھا جاتاہے اور یہ وقتی رنگ و بو کا ماحول ایک محدود مدت میں ختم ہوجاتا ہے ۔ لیکن عطر ساز اس محدود رنگ و بو کو عطر کی شکل میں ابدی شکل دے دیتا ہے ، اسی طرح خداوندعالم نے گزشتہ شریعتوں اور آسمانی کتابوں کو ابدی شکل دے کر اس کا عطر شریعت محمدی(ص) اور قرآن کی شکل میں نازل فرمایاہے ۔
قرآن کتاب ہدایت اور کتاب قانون ہے ، یہ تمام انسانوں سے ہدایت کے لہجے میں گفتگو کرتاہے اور مسلمانوں سے قانون کے لہجے میں بات کرتاہے ،اس کتاب میں انسانی زندگی کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے اور انسانی تمدن ومعاشرت ، سیاست و عبادت اور دیگر مختلف شعبوں کے وہ جامع اور اٹل قوانین بیان کئے گئے ہیں جو دوسری جگہ نایاب ہیں ۔
خداوندعالم نے جہاں قرآن مجید کے بہت سے اہداف و مقاصد کی نشاندہی کی ہے وہیں اس کے ایک اہم ترین مقصد کی طرف روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :
” ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے ” ۔(١)
اس آیت میں خداوندعالم نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایاہے کہ قرآن ایک جامع ترین کتاب ہدایت ہے ۔ آیت کا انداز صاف طور پریقین دلارہا ہے کہ یہ کتاب صرف ایک فردیا ایک معاشرہ کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ پوری انسانیت کی ہدایت اور اصلاح اس کا اولین مقصد و ہدف ہے ، یہ خداوند عالم کی لافانی کتابِ قانون و ہدایت ہے ، یہ دنیا کی عام کتابوں کی طرح نہیں ہے کہ جسے ایک مرتبہ پڑھا ، دیکھا اور پھر طاقوں کی زینت بنادیا بلکہ یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے ، یہ کامیاب ترین زندگی کا بہترین معاون و ساتھی ہے ، اس میں وہ تمام رموز و اسرار موجود ہیں جن سے انسان کی زندگی دینی قوانین کے مطابق روز افزوں ترقی کرسکتی ہے ۔
اگر آپ انسانی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں دو پہلو پائے جاتے ہیں: جسمانی اور روحانی یا دنیاوی و اخروی ۔خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان دونوں پہلوئوں پر مبنی تمام تر ضرورتوں کو بہترین اندازمیں بیان فرمایا ہے :

١۔ جسمانی زندگی
خداوندعالم نے انسان کی خاطر تمام ضروریات زندگی کوخود ہی زمین سے لے کر آسمان تک اس کے گرد پھیلادیا ہے اور جابجا قرآن میں ان کا ذکر کرکے انسان کو ان کی طرف توجہ دلائی ہے ، کائنات کا ہر ایک ذرہ اس کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہے ، زمین کو گرمادینے والا سورج ، چمکتے دمکتے چاند تارے ، گھنگور گھٹائیں ، بجلی کی کڑک ، چمک اور موسلا دھار بارش …۔جن کا ذکر جابجا قرآن میں موجود ہے ،یہ تمام چیزیں انسانی نظام حیات کے لئے بقاء کا سامان فراہم کرتی ہیں ، ان سے فائدہ یا نقصان اٹھانا خود انسان پر موقوف ہے ۔
انسان کی مادی اور دنیاوی زندگی کے کچھ عملی گوشے ہیں ، قرآ ن نے ان گوشوں کوبھی بہترین انداز میں پیش کرتے ہوئے اس میدان میں پیش آنے والی ضرورتوں کو اجاگر کیا ہے:

الف) گھریلو زندگی :
گھراور خاندان ایک چھوٹا سا معاشرہ ہے، جس کے اعضاء و جوارح گھر کے افراد ہوتے ہیں یعنی ماں ، باپ ، شوہر ، بیوی ، بھائی ، بہن اور دیگر افراد خانوادہ۔اسی طرح بچے جو گھر کی رونق شمار ہوتے ہیں، چنانچہ ایک مکمل اور صحت مند گھریلو نظام قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گھر کی ہر فرد کے لئے مضبوط قوانین مرتب کئے جائیں۔ قرآن نے گھر کی ہر فرد چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ،سب کے لئے ایک مستحکم قانون اور فریضہ معین کیا ہے کہ اگر اس پر احسن طریقہ سے عمل کیا جائے تو یقینا گھر جنت نشان بن سکتا ہے ۔
ماں باپ اور اولاد کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں قرآن کا بہترین اصول ملاحظہ فرمائیے :
” تمہارے ماں باپ ہوں یا بیٹے، تم نہیں جانتے کہ تمہارے حق میں زیادہ منفعت رساں کون ہے”۔(٢)
متذکرہ آیۂ مبارکہ والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات کے بارے میں اسلامی نظریہ کو پوری طرح واضح و آشکار کررہی ہے ،زندگی کے ابتدائی دور میں جب انسان کی فطرت طفولیت کے مراحل سے گذرتی ہے تو وہ ماں باپ ہی کی بے مثال محبت اور عطوفت ہے جو بچوں کو انتہائی بے بسی اور عاجزی کی منزل سے گزارکر جوانی اور خود اعتمادی کے درجہ تک پہونچاتی ہے۔اسی کے برعکس انسان ضعیفی کے عالم میں بالکل نادان بن جاتا ہے اور اس کا جسم و دماغ اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم فرماتا ہے :
” اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں بچپنے کی طرف واپس کردیتے ہیں ”۔(٣)
ایسے ضعیفی کے عالم میں جب والدین کو اولاد کی ضرورت ہوتی ہے تو اسلام اولاد کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر آواز دیتاہے :
”بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور بھی ہے” ۔ (٤)
اسلام اولاد کو سمجھانا چاہتاہے کہ کل والدین نے تمہاری عاجزی کو سہارا دیاتھا آج تم ان کی ضعیفی اور شکستگی کو سہارادو۔
بیوی اور شوہر کے سلسلے میں ایک دوسرے کے باہمی تعلقات کو بہترین انداز میں بیان فرمایا ہے، قرآن نے سب سے پہلے شادی اور نکاح کی طرف بے حد ترغیب و توجہ دلائی اور بتایا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی فطری صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ پورا کریں، عورت فطری طور پر کسب معاش کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور مرد فطری طور پر خانہ داری کے خیال سے بھاگتا ہے ، شادی دونوں کو ملاکر ایک کردیتی ہے اور اس طرح دونوں مل کر ایک دوسرے کی خامیوں کا مداوا کرتے ہیں،خداوندعالم نے مندرجہ ذیل آیۂ مبارکہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
”اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے”۔ ( ٥)
اس کے علاوہ قرآن نے بتایا کہ اگر دونوں میں نااتفاقی پیش آئے تو اصلاح کی کیا صورت ہوگی اور اگر اصلاح کی بھی کوئی صورت نہ ہو تو پھر طلاق کا بہترین قانون نا فذ کیا تا کہ انسان اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرسکے۔
مختصر یہ کہ اس نے گھر اور خاندان کی ہرفرد کے لئے مخصوص فرائض و حقوق معین کئے ہیں ۔

ب) معاشرتی زندگی
انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے ؛ معاشرے سے صرف نظر کرنا ، اپنے ہم نوع افراد سے قطع رابطہ کرکے گوشۂ تنہائی میں محدود ہوجانا ناممکن ہے ، کیونکہ انسان ایک نیاز مند مخلوق ہے اور اس کی نیاز مندی کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے ، اسی لئے فطرت و ضرورت کا تقاضا ہے کہ انسان کی زندگی معاشرہ کی بنیاد پر استوار ہو،تا کہ تعاون اور ایک دوسرے کے سہارے زندگی کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلتی جائیں ۔ اصل میں اجتماعی اور معاشرتی زندگی بھی چند شرائط پر موقوف ہے،انسان جیسے جیسے معاشرہ میں قدم رکھتا ہے اس پر ان قیود و شرائط کی پابندی ضروری ہوتی جاتی ہے ۔
قرآن نے انھیں قیود و شرائط کو نظام اور قانون کی شکل میں بیان کیا ہے ، اس کی نظر میں معاشرہ کی ہر فرد ایک مخصوص حق رکھتی ہے ، غریب ہو یا امیر ، ناچار ہو یا مجبور، اسے بھی گلزار زندگی سے کچھ پھول چن لینے کا حق حاصل ہے ۔قرآن مجید نے (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ)(٦) کے آفاتی نعرہ کے ذریعہ اتحاد و اتفاق کی مضبوط بنیاد رکھ کر ہر شخص کو یہ باور کرایا ہے کہ نہ غریت ،امیر سے جدا ہے اور نہ امیر غریبوں سے ۔
مختصر یہ کہ قرآن نے معاشرہ کے معمولی مسائل کو بھی تشنہ تکمیل نہیں رکھا ، قرآن مجید نے اتنا جامع معاشرتی نظام اس لئے بنایا تاکہ سب مل جل کر پیار و محبت اور اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کریں ۔اسی کے ساتھ ساتھ اگر نزاع و اختلاف کی صورت پیش آجائے تو قرآن نے اصلاح کی شدید تاکید کی ہے ؛ خدافرماتاہے :
”مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو”۔(٧)

٢۔روحانی زندگی
نظام حیات میں روحانیت کی اصلاح کے لئے قرآن مجید میں بے شمار آیتیں موجود ہیں ، حیات بعد از موت کے مرحلہ میں انسان کے لئے جو کچھ پیش آتاہے ان سب کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ، جنت و دوزخ کا نقشہ ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا گیا، یہ بھی بتایا گیا کہ زندگی چند روزہ ہے، اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے:
”پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور آخرت صاحبان تقوی کے لئے بہترین جگہ ہے ”۔(٨)
جس طرح جسمانی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی زندگی کی بقا ودوام کے لئے چند مخصوص غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ان میں سے ایک اہم ترین ” تقوی ”ہے جس کا تذکرہ اس سے قبل کی آیت میں کیاگیا۔اس کے علاوہ قرآن مجید میں روحانی زندگی کی تمام تر ضرورتوں کو بیان کیاگیاہے تاکہ انسان اپنی آخرت کو بہتر بناسکے ۔

ایک اہم ترین سوال
قرآن کے اس ہمہ گیر اور آفاقی نظام حیات کو دیکھ کر ایک سوال ذہن کو ٹہوکا دیتا ہے کہ آج کا مسلمان اتنے ہمہ گیر نظام کے باوجود اس قدر تہی دست کیوں ہے ، مسلم معاشروں میں برائیوں کا رواج اتنا عام کیوں ہے…؟ !
اس کا واحد سبب یہ ہے کہ” تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ” اگر قرآن کے آفاتی نظام کو صرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے پر اکتفا نہ کیا جاتا بلکہ مکمل طور پر اس کی پیروی کی جاتی تو خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوتا ، مگر قرآن کی سب سے بڑی مظلومیت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کے ہاتھوں میںجتنا پر زور اور آفاقی نظام دیا اسے حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے میں اتنی ہی سستی دکھائی گئی ۔
چنانچہ اسی سستی سے شاکی ہوکر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ محشر میں شکایت کریں گے:
(یَارَبِّ ِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا)”میرے مالک ، میرے پروردگار !میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا”۔(٩)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی یہ شکایت قابل غور ہے ،کیا یہ شکایت کفار و مشرکین کے لئے ہوگی کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا یا یہ شکایت مسلمانوں کے لئے ہوگی ، جن کے پاس قرآن کی آیت تو تھی لیکن اس پر عمل کرنے کا وقت نہیں تھا …؟
اس کے علاوہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی شکایت کا ابتدائیہ بڑا معنی خیز ہے ، آنحضرت ”یا اللہ ” نہیں کہیں گے، بلکہ ”یا رب” کہیں گے ۔ ربوبیت کا لازمہ ہے نظام تربیت ۔ تربیت زندگی کے تمام معیار کا احاطہ کرتی ہے ، جو لوگ قرآن سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری چیزوں سے وابستہ ہیں وہ لوگ قرآن کا مذاق اڑارہے ہیں ۔ قرآن نازل ہوا ہے پوری زندگی میں بسا لینے کے لئے ، زندگی کی ہر موڑ پر اسی سے روشنی لینے کے لئے ۔ کیا ہماری زندگی کے ہر موڑ پر قرآن ہی ہمارا راہنما ہے …؟
ذرا نگاہیں اٹھا کر مسلم معاشروں کا جائزہ لیجئے تو آپ کو بخوبی احساس ہوگا کہ مسلمانوں نے قرآن اور اس کے پیام کو حاصل کرنے میں کتنی سستی دکھائی ہے۔ آج گھروں میں قرآن ہے لیکن طاقوں کی زینب بناہوا ایک قاری کی تلاش میں سرگرداں ہے ، مہینوں بعد اگر کسی کو احساس ہوجاتا ہے تو اٹھا کر گرد وغبار کو صاف کرکے پھر اسی مقام پر رکھ دیتا ہے گویا یہ قرآن کا حقیقی احترام ہے جو ایک مسلمان اپنی زندگی میں پیش کررہا ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:
ثلاثة یشکون الی اللہ عزو جل یوم القیامة : مسجد خراب لایصلی فیہ اھلہ و عالم بین جھال و مصحف معلق قد و قع علیہ الغبار ولایقرء فیہ” قیامت کے دن تین چیزیں خداوندعالم سے شکایت کریں گی :
١۔وہ خراب مسجد جس میں اس کے اہل نماز نہیں پڑھتے ؛
٢۔ جاہلوں کے درمیان عالم ؛
٣۔ اور کتاب (قرآن ) جس پر گردو غبار پڑا ہو ہے اور اس کی قرائت و تلاوت نہیں ہورہی ہے” ۔ (١٠)
افسوس تو یہ ہے کہ ہم خود کو اہل بیت کا حقیقی چاہنے والا کہتے ہیں اورقرآن کا اصلی پیروکار مانتے ہیں ، لیکن اس سے تمسک کا انداز انتہائی عامیانہ ہے اور اسی عامیانہ تمسک نے پورے عالم اسلام کو گرداب مصائب میں پھنساکر رکھ دیا ہے ۔
علامہ اقبال نے بڑی اچھی بات کہی :
امت مرحوم کا جب تک تھا قرآں پر عمل
اس کی شوکت ساری دنیامیں رہی ضرب المثل

چھوڑ کر قرآں کو مسلم حق سے بیگانہ ہوا
دین بھی رسوا ہوا اور آپ بھی رسوا ہوا
آج رونے اور دست سوال پھیلانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ضروری ہے کہ از سرنو اس آفاقی نظام کی پیروی کی جائے جس میں ہماری زندگی کے خوبصورت پہلو، لطیف گوشے اور اصلاح معاشرہ کے ہزاروں راستے موجود ہیں ۔

حوالہ جات
١ ۔ بقرہ ١٨٥
٢۔نساء ١١
٣۔یٰسین ٦٨
٤۔رحمن ٦٠
٥۔نور ٣٢
٦۔آل عمران ١٠٣؛ ترجمۂ آیت :اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔
٧۔حجرات ١٠
٨۔نساء ٧٧
٩۔فرقان ٣٠
١٠۔اصول کافی ج٢ ص ٦١٣؛بحار الانوار ج٨٩ص١٩٥؛ وسائل الشیعہ ج٥ ص ٢٠١

Related Articles

Back to top button