امام حسن علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

امام حسن علیہ السلام نے انسانی معاشرے کوعظیم درس دیا

(مؤلف: آیت اللہ امامی کاشانی)

جب امام حسن علیہ السلام کی ولادت کی خبرپیغمبراسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی توآپ اس وقت مسجد نبوی میں تھے آپ فوراً سیدہ عالمین (س) کے گھر تشریف لائے اور حضرت علی اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھما کومبارکباد پیش کی۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے مولود مسعود کے ایک کان میں اذان کہی اوردوسرے کان میں اقامت ۔

علم امام
کوفہ میں ایک شامی شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں آپ سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر وہاں حضرات حسنین علیھماالسلام اورجناب محمد حنفیہ بھی موجود تھے۔ مولائے کائنات نے فرمایا کہ یہ دونوں یعنی حسن وحسین (ع) رسول اسلام (ع) کے فرزند ہیں اوریہ محمد حنفیہ میری اولاد ہیں تم ان تینوں میں سے جس سے چاہو اپنا سوال پوچھ سکتے ہو۔
اس شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی طرف پہلے دیکھا پھر ان سے سوال کیا کہ: حق اور باطل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟
امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا کہ حق اورباطل کے درمیان فاصلہ اتنا ہے جتنا کان اور آنکھ کے درمیان ہوتا ہے؛ جو آنکھ سے دیکھو وہ حق ہے اورجو کا ن سے سنو وہ زیادہ ترباطل ہوتا ہے۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جہاں ہمیشہ حق اورباطل پرہی گفتگو ہوتی تھی ۔امام حسن علیہ السلام نے حق وباطل کی تشریح کان اورآنکھ کے فاصلے سے کرکے معاشرے اور مسلمانوں کو بہت بڑا درس دیا ہے۔چونکہ اس دورمیں سنی سنائی بات پربہت ہی کچھ ہوجاتا تھا اوربہت سی لڑائیاں اورجھگڑے سنی سنائی باتوں پرہی ہوجاتے تھے اسی لئے مقتضائے حال کے مطابق سبط اکبرنے یہ عظیم درس اخلاق دیا اور امام حسن علیہ السلام کا درس ہمارے آج کے معاشرے کے لئے بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔

آج بھی لوگ حق اسی بات کو سمجھتے اورتسلیم کرتے ہیں جو دامن عقل میں سماتی ہے اورجو بات دامن عقل میں نہیں سماتی اسےحق نہیں سمجھا جاتا ۔ یعنی اگرمعاشرہ عقلانی اور منطقی معاشرہ ہوتا ہے تو حق کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔
پس آج اگر ہم اپنے فرائض پرعمل کریں تو گویا ہم نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے اس عظیم درس اخلاق پرعمل کیا ہے کہ "جو اپنی آنکھوں سے دیکھو اسے حق سمجھو”۔
15 رمضان المبارک امام حسن علیہ السلام کا یوم ولادت باسعادت ہے اس لئے ہم سب کا فرض ہے کہ مستحق افراد خصوصاً یتیموں کا خاص خیال رکھیں اوران کی ضرورت پوری کرنے اورانھیں کھانا کھلانے سے کسی بھی طرح گریزنہ کریں کیونکہ اس کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔

Related Articles

Back to top button