دانشکدہقرآن و سنتمقالات

قرآنی دعاؤں کا فلسفہ

(سید سعید الحسن نقوی)

جس طرح معرفت خدا اورخداپرستی ایک فطری تقاضا ہے اسی طرح دعابھی فطرت انسانی کا ایک جزء لاینفک ہے ،اس سلسلے میں یہی دلیل کافی ہے کہ دنیا میں ہرشخص اپنی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے دوسرے افراد کا محتاج ہے جس کا لازمی نتیجہ طلب اوردرخواست ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان ،انسان کامحتاج رہے اوراس سے درخواست کرے مگر خدائے کریم جوخالق انسان ہے اس سے بے نیاز ہوجائے؛”انتم الفقراء الی اللّٰہ واللّٰہ ھو الغنی الحمید”۔(١)
اس طرح انسان سراسر نیاز اور ہرآن دعا کا محتاج ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جس کے سامنے چاہادست گدائی پھیلا دیا اسلام قطعاً اس نظریے کو اچھی نگا ہ سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ چاہتاہے کہ فقط اس غنی مطلق کی بارگاہ میں دست نیاز بلند کیاجائے جس کے یہاں فقر وناداری کاکوئی تصور نہیں،ممکن ہے کہ یہاں سوال پیدا ہوکہ اگر دعا ایک فطری امرہے توانسان خدا کے علاوہ دوسروں کی چوکھٹ پرکیوں جھک جاتا ہے ؟دراصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے فطری ہونے کامطلب یہ نہیں کہ انسان اس کے مصداق میں خطا نہ کرے کیونکہ فطرت اصل وجود کے ثبوت میں معاون ومددگار ہے لیکن وہ وجود کون ساہے لازم نہیں فطرت اس تک بھی رہنمائی کر سکے ،مثال کے طور پر معرفت خدا ،کہ یہاں آکر انسان مصداق کے تعین میں خطا کربیٹھا اور کائنات کی مختلف چیزوں کوخدامان بیٹھا ،بالکل اسی طرح انسان کی فطرت میں طلب بھی ہے یہ اور بات ہے کہ مصداق میں خطاکرے اوراپنے اعتبار سے کسی بھی مافوق شے سے طلب حاجت کرلیتا ہے . قرآن مجید دعاکے فطری ہونے کوقبول کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے :(فاذا رکبوا فی الفلک دعوااللّٰہ مخلصین لہ الدین فلما نجا ھم الی البر اذھم یشرکون)(٢)پھر جب وہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں توایمان وعقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انھیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں گویا انسان کی سوئی ہوئی فطرت اس لمحہ جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی مصیبت سے دوچارہوتاہے اوراس کی بارگاہ میں تضرع وزاری کرتے ہوئے ”دعواللہ مخلصین ” کی مکمل تفسیر بن جاتاہے ،خدا وندعالم نے نہ صرف یہ کہ دعا کی ضرورت کو تکویناً انسانی زندگی کاتقاضا قرار دیا ہے بلکہ جس قدر ممکن ہو دعا کرنے کاحکم بھی دیاہے(ادعوا ربکم تضرعا وخفیة ) (٣) تم اپنے رب کوگڑگڑا کراورخاموشی کے ساتھ پکارو . دوسری جگہ ارشاد فرمایا :(وادعو ہ خوفا وطمعا ان رحمة اللہ قریب من المحسنین) (٤) امر خدا سے ڈرتے ڈرتے اورامید وار بن کردعاکرو کہ اس کی رحمت صاحبان حسن عمل سے قریب تر ہے۔
دعاکرنے کاحکم دینے کے علاوہ قرآن کریم نے ترک دعا کوعبادت سے گریز وتکبر شمارکیاہے اورمتکبر کی سزا جہنم میں ابدی ذلت وخواری قرار دی ہے۔
غرض کہ خداوندعالم نہ صرف تکوینی طور پر بلکہ تشریعی اعتبار سے بھی اس بات کاخواہاں ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں اپنی حاجات طلب کریں۔
واضح رہے کہ دعاایک ایسا تقاضاہے جسے خالق کائنات نے خودانسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے لہذا خود خدا پربھی لازم ہے کہ اگر وہ کسی چیز کو انسان کی خلقت کاجزء قراردے تو قاعدہ لطف کی بنیاد پر اسکی تسکین کاسامان بھی خود ہی مہیا کرے کیونکہ اس کی ذات سے یہ امر بعید ہے کہ وہ درد تو پیدا کرے لیکن دوا پیدا نہ کرے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں اس نے دعاکی ضرورت کو خلق کیا وہیں پاک وپاکیزہ کتاب میں انبیاء و صالحین کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے دعائیہ کلمات کوبنی نوع انسانی کے لئے تحریر کردیا تاکہ وہ وقت ضرورت انہیں دعاؤں کے ذریعہ اس کے حضور میں تضرع وزاری کریں خداوندعالم نے قرآن مجید میں انبیاء اورصالحین کی دعائوں کواپنے الفاظ میں ڈھال کراس لئے پیش کیا تاکہ انسان کو اس بات کا احساس ہوسکے کہ اس کی بارگاہ میں دعائیں بھی بغیر وسیلے کے قبول نہیں ہوتی ہیں، اس مرحلے میں بھی وہ خاصان خداکا محتاج ہے ، دعاکرتے وقت خاصان الہی کامحتاج ہونا شاید اس لئے بھی ہوکہ انبیاء وصالحین دعا کے آداب و شرائط کوجانتے تھے ، اورانہیں معلوم تھا کہ خالق کائنات سے کس طرح راز ونیاز کیا جائے کیونکہ بزرگوں سے گفتگو کرنے سے پہلے ان کی زبان اور ان کی بارگاہ میں حضور کے آداب سیکھنے چاہئیں تاکہ ایسے کلمات زبان پر جاری نہ ہوں جو ان کی شان ومنزلت کے خلاف ہوں،ایسانہ ہونے پر یہی کلمات ان کی نظر عنایت وکرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے ان کی سرد مہری بلکہ غیض و غضب کاسبب بھی بن سکتے ہیں ،لہذا بہتریہی ہے کہ ان دعائوں کے ذریعہ جو قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں اپنی حاجات دنیوی واخروی کو طلب کیاجائے اور پروردگار عالم سے جوکچھ بھی مانگا جائے قرآن واہلبیت علیہم السلام کی زبان میں مانگا جائے۔

حواشی:
١۔ سورۂ فاطر ١٥
٢۔ سورۂ عنکبوت ٦٥
٣۔ سورۂ اعراف ٥٥
٤۔ سورۂ اعراف ٥٦

Related Articles

Back to top button