دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

کربلا۔۔۔۔۔ قلم کی جولانگاہ

(تحریر: فدا حسین بالہامیؔ )

حوادث کی اس دنیا میں جو کچھ اولادِ آدم کے ساتھ پیش آتا ہے، اس سے ایک محدود زمان و مکان میں متاثر ہوکر بالآخر اس پیش آمدہ واقعے کو بھول جانا انسانی فطرتِ کا خاصہ رہا ہے، کیونکہ رفتہ رفتہ اس واقعہ کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مگر انسانی تاریخ میں انگشت شمار چند واقعات ایسے بھی ہیں جو اس قاعدہ کلیہ سے مثتثنٰی ہیں۔ بالفاظِ دیگر ان اشتثنائی واقعات کے اثرات تادیر باقی رہتے ہیں اور ان کی یاد کو محو کر دینا انسانی قلب و ذہن کے بس کی بات نہیں۔ زمانے کی نیرنگی، لیل و نہار کی آمد و رفت، معاشرت کا ارتقاء اور انسانی سوچ و اپروچ میں تغیر و تبدل بھی اس قبیل کے واقعات پر اثر انداز نہیں ہو پاتا ہے۔ واقعہ کربلا متذکرہ واقعات میں سے سر فہرست ہے۔ صدیاں گذر جانے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کل پرسوں ہی واقعہ کربلا پیش آیا ہو۔ شہدائے کربلا کے خون کی تازگی اب بھی باقی ہے۔ اس کی حرارت و حرکت معدوم نہیں ہوپائی ہے۔ جہاں تک اس واقعے کے اثرات کا تعلق ہے، ہر دور میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں۔

علی الخصوص اہلِ دانش و بینش اس کی اثر آفرینی کے نہ صرف معترف رہے ہیں بلکہ اثرات قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات بھی بہترین پیرایہ میں بیان کئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تحریر و تقریر کا ایک وسیع خزانہ کربلا سے تعلق رکھتا ہے، جس کو پڑھنے اور سننے کیلئے عمرِ خضر درکار ہے۔ بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ جتنا کچھ کربلا کے متعلق لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ اس حوالے سے تاریخِ عالم کا کوئی بھی واقعہ اسکے مقابلے کی تاب نہیں لاسکتا ہے۔ بظاہر چند گھنٹوں پر محیط اس واقعے کو تاریخ کے ایک آدھے صفحے پر ہی سمیٹا جاسکتا ہے لیکن اس کی معنوی وسعت کا احاطہ ہزار ہا صفحوں پر بھی بھاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جن صاحبانِ علم نے کربلا پر قلم فرسائی کی، وہ اپنی تحریر کو حرفِ آخر نہیں گردانتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ ان کی کدو کاوش سے کربلا کی حق ادئیگی نہ ہوسکی بلکہ جوں جوں اس میداں میں آگے بڑھتے گئے انہوں نے کربلا کے تئیں اپنی کم ظرفی کو محسوس کیا۔ در اصل الفاظ و معنی اس درد و کرب کو من و عن پیش کرنے سے حقیقتاً قاصر ہیں، جس کو کربلا والوں نے جھیلا ہے۔ علمی دنیا کس زبان و بیان میں ان بلند تر انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی شایان شان طریقے پر کرسکتی ہے، جن کے امامِ حسین ؑ ، ان کے آل و اولاد اور با وفا اصحاب حامل تھے۔

شہدائے کربلا کے خون کی لافانی تاثیر ہی ہے کہ جتنے آنسو آج تک اس واقعے پر بہائے گئے، اگر ان کو جمع کیا جائے تو آنسؤوں کا سمندر وجود میں آ جائے گا۔ بقولِ مولانا ابوالکلام آزاد ’’جس واقعہ نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، وہ ان (امام حسین ؑ ) کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے۔ بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسلِ انسانی کے اس قدر آنسو نہیں بہے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گذر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا۔ امام حسینؑ کے جسم خونچکاں سے دشتِ کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے۔‘‘ اتنا ہی نہیں بلکہ جس قدر علماء و فضلا اور اہل قلم حضرات نے کربلا کی یاد میں صفحائے قرطاس پر روشنائی بکھیر دی، وہ روشنائی ان آنسؤوں کے سمندر سے کسی قدر بھی کم نہیں ہے۔ دراصل کربلا میں وہ تمام عناصر موجود ہیں۔ جو قلم کو متحرک رکھنے کیلئے کافی موثر ہوا کرتے ہیں۔ امام عالی مقام کی قربانی سے جہاں مذہبی، سیاسی، معاشرتی سطح پر ایک مثبت انقلاب وقوع پزیر ہوا، وہاں علمی اور قلمی دنیا نے بھی اس کی فیض یابی سے اپنے جیب و دامن میں بہت سے بیش قیمتی لعل و جوہر سمیٹ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صنف اور شعبے سے تعلق رکھنے والے صاحب قلم نے اس داستان خونچکان کے لئے اپنا خونِ جگر نذرِ قرطاس کیا۔

کربلا سے شاعر نے سوز پایا۔ مورخ کو زندہ و جاوید حقیقت ہاتھ آئی۔ اصلاحی فکر رکھنے والے مفکر کو اصلاح احوال کا حوصلہ ملا۔ مقصدیت کے تابع صاحب قلم افراد کو عظیم تر مقصد پر سب کچھ لٹانے کی ایک ناقابلِ تردید دلیل مل گئی۔ معلم اخلاق نے کربلا میں انسانی اخلاق و اقدار کے حیرت انگیز پہلو کا مشاہدہ کیا۔ الوہیت کے اثبات و ابلاغ کے لئے واقعہ کربلاء موثر ترین وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک توحید پرست عارف و مبلغ نے امام حسینؑ کی ذاتِ پاک میں توحید کو اس حد تک گھل مل پایا کہ انہوں نے اپنے چند ایک لافانی اشعار کے ذریعے اعلان فرمایا کہ ذاتِ اقدسِ امام عالی مقام توحید کی ایک زندہ علامت ہے۔
شاہ است حسین، پادشاہ است حسین
دین ہست حسینؑ دین پناہ ہست حسینؑ
سر داد، نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الا است حسین (خواجہ محی الدین چشتی ؒ )
المختصر، حیات و کائنات پر گہری نظر رکھنے والے اس حساس طبقے کو کربلا سے مقصد زیست حاصل ہوا۔ پراگندہ فکریں مجتمع ہوگئیں۔ قلمی صلاحیتوں کو جلاء ملی، دلوں کو سوز اور شجر حیات کو برگ و ساز نصیب ہوا۔ اس لحاظ سے سیدالشہداء اور شہدائے کربلا پر علامہ اقبال کے ان چند اشعار کا اطلاق بے محل نہیں ہے۔
کیا تو نے سحرا نشینوں کو یکجا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
تلاش جسکی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں

واقعاً امام عالی مقام نے اپنے اصحاب باوفا کو ہدف و مقصد سے یوں روشناس کرایا تھا کہ انہوں نے اپنے خون کی ہر بوند سے شجر اسلام کو سینچنے میں کسی قسم کی بخیلی سے کام نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حیات نے بطورِ مجموعی ان کربلا والوں کے سامنے اپنی جھولی پھیلا دی۔ کربلا نے قلم کو سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عزت و وقار بھی بخشا۔ نیز تحریر کو لافانی رعنائی و توانائی سے ہمکنار کیا۔ قلم کو دنیائے علوم میں اعتبار تھا ہی، مگر کربلا نے اس کی اعتباریت کو دوبالا کر دیا۔ ہدایت و آگہی کے متلاشی طالبانِ حق نور و ہدایت کے ماخذ سے روشناس ہوئے۔ مرثیہ گو حضرات نے درد و الم کے اچھوتے مناظر کو الفاظ کا جامہ پہنایا اور رجز خوانوں نے بہادری کے لامثال قصّے کربلا سے اخذ کرکے صفحہ ہائے قرطاس کے حوالے کر دیئے۔ معلمینِ اخلاق کے سامنے کربلا ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، جس سے وہ اخلاقی علوم کے مختلف باب نقل کرتے آئے ہیں۔ محقق کو اس سے بڑھ کر کس واقعے میں جاذبیت محسوس ہوسکتی ہے۔؟ امتِ مسلمہ سے تعلق رکھنے والے صاحب قلم افراد کیلئے نہضت حسینی عقیدت سے مملو موضوع کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کربلا کے حوالے سے غیر مسلم دانشوروں نے بھی قلم فرسائی کی ہے اور سینکڑوں صفحات رقم کر ڈالے۔ شاعری میں تو کربلا بطورِ مستقل استعارہ مستعمل ہے اور ایک صنفِ سخن یعنی مرثیہ نے بھی ادب میں ایک قابلِ رشک مقام پایا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا کے بیشتر زبان و ادب میں واقعہ کربلاء ایک خاص توجہ کا حامل رہا ہے۔
چنانچہ کم و بیش ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم حضرات نے کربلا سے متعلق اپنے قلمی جوہر دکھائے ہیں۔ لہٰذا تحریکِ کربلا پر اس قدر علمی اور قلمی کاوشیں منصہ شہود پر آچکیں ہے کہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی پہلو یہاں تشنہ نہیں رہ پایا ہے۔ ہر پہلو کو کسی نہ کسی اعتبار سے موضوعِ بحث ٹھہرایا گیا ہے۔ بہت سے علماء و مجتہدین نے اپنے آپ کو اسی تحریک کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام علمی توانائیوں کو کربلائی فکر اجاگر کرنے کیلئے صرف کیا۔
ہر سال دنیا کے کم و بیش تمام ممالک کے مختلف اخبارات و رسائل میں خصوصی شمارے، ضمیمے، گوشے اور محرم نمبر چھپتے رہتے ہیں۔ مثبت امر یہ ہے کہ ہر بار کربلا کے نئے نئے گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ آج تک لکھنے والے ہی اچاٹ ہوئے ہیں اور نہ قارئین ہی اکتاہٹ کے شکار ہوئے ہیں۔ عمومی قاعدے کے مطابق ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس ایک واقعہ پر چودہ صدیوں سے جتنا کچھ لکھا جاچکا ہے، اس سے مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں رہ پاتی، لیکن واقعۂ کربلا اس قسم کے مسئلے سے کبھی بھی دوچار ہوا ہے اور نہ ہوگا۔

قلم کی حقیقی قدر و قیمت کے پیش نظر بھی کہا جاسکتا ہے کہ کربلا واقعاً سنہرے حروف سے لکھے جانے کی مستحق ہے۔ چنانچہ خالق ِ لوح و قلم نے قرآن مجید میں قلم کی شان "والقلم” اور "اعلم بالقلم” کہہ کر بیان کی ہے۔ حدیثِ پیغمبر ؐ کے مطابق علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے بھی افضل قرار پائی ہے۔ اس لحاظ سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قلم کی روشائی کی قدر کی جائے، اس بیش بہا شے کو فضولیات کے بجائے شایانِ شان موضوعات پر ہی صرف کیا جانا چاہئیے۔ یعنی صاحبانِ قلم کو لکھنے سے قبل اس بات کا تعین ضرور کرنا چاہئے کہ کون سا موضوع ضبطِ تحریر کے لائق ہے۔ اس اہم اصول کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہی ہے کہ بعض اوقات قلم ذہنی عیاشی کا ایک آلہ بن جاتا ہے۔ مگر کسی بھی چیز کے غلط استعمال سے تب تک اس کی قدر و قیمت میں ہرگز کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے کہ جب تک اس کا صحیح استعمال بھی ہوتا رہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہے کہ اپنی آبرو کو برقرار رکھنے کے لئے قلم، کربلا کا مرہون منت ہے اور کربلا کے عمیق اور تہ در تہ فلسفہ کو بیان کرنے کے لئے علمی اور تاریخی بساط پر جنبشِ قلم نہایت ضروری ہے۔ لیکن حقیقت احوال اس کے برعکس ہے، برصغیر علی الخصوص ہندوستان میں کربلا کو اب خطابت تک ہی محدود کئے جانے کی رسم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ہمارے بیشتر علماء عشروں اور خطبوں پر ہی سارا زور صرف کر رہے ہے اور تصنیف و تالیف کی صعوبتوں کو جھیلنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جوشِ خطابت کی نسبت تحریر کا ہنر ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ خطابت تحریر کی بہ نسبت کافی کم محنت طلب کام ہے۔

اس رویہ سے ہمارے علماء کی تساہل پسندی اپنے آپ ہی آشکار ہوتی ہے، حالانکہ تصنیف و تالیف کی ضرورت ان سے زیادہ اور کون محسوس کرسکتا ہے۔ اس بات سے بھی یہ بخوبی واقف ہیں کہ قلم کو زبان پر اور تحریر کو تقریر پر علمی دنیا میں کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجالس، کانفرنس، مشاعروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ صاحبانِ قلم کو اس بات کے لئے آمادہ کیا جائے کہ وہ کربلا کو اپنے قلم کی جولانگاہ بنائیں۔ اس حوالے سے علماء کرام ایک بڑی ذمہ داری کے حامل ہیں کہ وہ مجالس و محافل میں آکر اپنے نورانی خطابات سے ضرور قلوبِ مومنین کو منور کریں، لیکن انہیں خلوت میں بیٹھ کر تحقیق، تالیف اور تصنیف جیسے گرانقدر کام میں منہمک رہنا ہوگا۔ کیونکہ متحرک تصویری (Audio Visual) میڈیا کی جانب روز بروز رغبت بڑھتی ہی جا رہی ہے، حتیٰ کہ اسکی جاذبیت اور آسانی کی وجہ سے تحریر کی طرف مائل ہونا عام انسان کے لئے بارگراں ہی معلوم ہوتا ہے۔ دین فہمی کے معاملے میں بھی زیادہ تر لوگ تقاریر اور مختلف تاریخی سیرئیلوں پر ہی اکتفاء کر رہے ہیں۔ علم کا بنیادی اور معتبر ترین ذریعہ یعنی مطالعۂ کتب کا ذوق و شوق بہت حد تک ماند پڑتا جا رہا ہے۔ سہل پسندی کی بناء پر سنی سنائی باتوں تک ہی ذاتی معلومات کو محدود کرنا شیوۂ عصر بن گیا ہے۔ علمی دنیا کی ایک اہم ترین سنت یعنی کتب بینی کو از سر نو فروغ دینا اس وقت تک ناممکن ہے کہ جب تک صاحبانِ فکر و دانش عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ قلمی کام کو جاری و ساری نہ رکھیں۔

معرکہ حق و باطل کی طویل تاریخ میں قلم کو تلوار پر اور روشنائی کو خون پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ شمشیر اگر جغرافیائی حدود کی حفاظت کے کام آتی ہے تو قلم فکری سرحدوں کی دفاع کے کام آتا ہے۔ جہاں شمشیر و سناں ، تیر و تبر یا آج کی اصطلاح میں بندوق و بارود سے لڑی جانے والی جنگ کی حدیں ختم ہوتی ہیں، وہاں سے قلمی اور علمی جہاد کی سرحد شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ زورِ بازو کے بل پر لڑی جانے والی جنگ ایک قلیل مدت پر محیط ہوتی ہے، لیکن اس جنگ سے قبل ہی جو نظریاتی معرکہ شروع ہوچکا ہوتا ہے، وہ صدیوں تک مسلسل جاری رہتا ہے اور نظریات کی جنگ میں قلم سے بڑھ کر آج تک کوئی ہتھیار ایجاد نہیں ہوا ہے۔ اس کے سامنے باقی تمام ہتھیاروں کی اثر آفرینی ماند پڑجاتی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر پیام اعظمیؔ
تیغ کام آئی نہ طبل اور علم کام آئے
نظریوں کے تصادم میں قلم کام آئے

معرکہ افکار و عقائد میں مجاہدینِ قلم کی بیباکی میدان جنگ میں سر بکف مجاہدین سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ حق کے دفاع میں جب بھی ان فکری مجاہدوں نے قلم اٹھایا تو ہر بار ان کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ حق گوئی کے الزام میں ان کا سر بھی قلم ہوسکتا ہے۔ گویا حق کی راہ میں قلم فرسائی دراصل میدان جہاد کی جانب قدم فرسائی کے مترادف ہے۔ بظاہر اطمنان اور سکون بخش دکھائی دینے والا قلمی جہاد خوف و خطر سے مبرا نہیں ہے۔ اس راہ میں شہادت سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے۔ کربلا ہی کی بات کریں تو واقعہ کربلا کے بعد نظامِ ظلم و ستم نے بہت سے ہتھکنڈے استعمال کئے، تاکہ امام عالی مقام اور ان کے یار و انصار کی قربانی رائگاں ہوجائے اور حق کی یہ تحریک اپنی موت آپ مر جائے۔ لیکن دوسری جانب حق کے متوالوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر یادِ کربلا کو زندہ رکھا۔ ایسی صورت میں کربلا کو زندہ رکھنے کے لئے صاحبان قلم کا کردار بھی قابلِ داد ہے۔ واقعہ کربلا سے منسوب ایک ایک لمحہ آج ہمارے دل و دماغ میں جب ہی محفوظ ہے کہ جب مورخوں اور مقاتل نگاروں نے اس واقعہ کی کلی اور جزوی صورت کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ وہ یہ کہہ کر اس ’’داستانِ خونچکاں‘‘ کو لکھتے رہے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے (غالبؔ)

حسینی فکر کی روشنی میں کلمہ حق کی سربلندی اپنی جلو میں ہزار ہا مصائب و مشکلات رکھتی ہے۔ اس راہ میں چلنے والا ہر قدم کانٹوں بھرے راستے سے ہو کر گزرتا ہے اور اس کی آخری منزل شہادت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حق کے حامی اہل فکر افراد نے اسی توقع کے ساتھ اپنے افکار پھیلائے کہ انہیں بدلے میں کوئی انعام نہیں ملنے والا بلکہ انہیں دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا ہی کرنا ہوگا۔ عالمِ عرب کے مشہور مداحِ اہلبیت اور شاعر فرذوقؔ کو جب حق گوئی کی پاداش میں اس وقت کے ظالم حکمران نے ڈرایا دھمکایا تو انہوں نے حاکمِ وقت سے کمال جرأت مندی کے ساتھ مخاطب ہو کر کہا کہ ’’میں اپنی صلیب (تختہ دار) یعنی اپنی موت اپنے کاندھے پر لئے پھرتا ہوں۔‘‘
کسی شاعر نے خوب کہا ہے
گفتارِ صدق مایۂ آزار می شود
چوں حرفِ حق بلند شود دار می شود
ترجمہ: صداقت پر مبنی ہر بات باعثِ تکلیف ہوتی ہے۔ جب ’’حرفِ حق‘‘ بلند ہوتا ہے تو وہ پھانسی کی شکل اختیار کر لیا کرتا ہے۔‘‘
تحریکِ کربلا کے دفاع میں جاری ایک طویل قلمی جہاد کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس راہ میں بھی بہت سارے جانبازوں نے جان کی بازی لگا دی۔

چنانچہ اس قلمی جہاد کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہذا دورِ حاضر میں اس کی نوعیت گذشتہ ادوار سے قدرے پیچیدہ ہے۔ ایک طرف یزیدیت کے وظیفہ خوار قلم کار ہیں کہ جو اپنی تمام تر توانائی کو رو بہ کار لا کر صفحوں کے صفحے سیاہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حسینت کو ایک نفع بخش انڈسڑی (industry) سمجھنے والے خطیبوں، ملاؤں اور خود غرض ذاکروں کی بڑی تعداد ہے کہ جو کربلا کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے میں مشغول ہیں۔ اول الذکر افراد کی ہرزہ سرائی کا لبِ لباب یہی ہے کہ ’’معاذاللہ یزید کو خلیفۃ المسلمین جتلا کر امام حسین ؑ کو باغی قرار دیا جائے۔‘‘ ثانی الذکر افراد محض مادی مفاد اور سستی شہرت کی خاطر مجالسِ حسینی کے نام پر ہی مقصدِ حسینی پائمال کر رہے ہیں۔ گویا اس قلمی جہاد میں مصروف افراد کو بیک وقت دو طرفہ دفاعی محاذ پر کام کرنا ہوگا۔ ایک طرف وہ دشمن ہے کہ جو کھلم کھلا تحریکِ کربلا کی مخالفت میں آئے روز کوئی نہ کوئی شاہکار اور نئی تحقیق (انکی اپنی نظر میں) پیش کرتا ہے اور دوسری جانب ذاکری کو معاش اور سماجی توقیر کا ذریعہ سمجھنے والے ذاکروں کا گروہ ہے کہ جو واقعہ کربلا سے منصوب تحریف شدہ روایات کو بیان کرکے کربلا کی حقیقی شکل و صورت کو مسخ کرنے میں سرگرم ہے۔

Related Articles

Back to top button