دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) کا مختصر تعارف

(مؤلف: سید منذر حکیم اور عدی غریباوی)

شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور جناب خدیجہ(علیہا السلام) بنت خویلد کی ہیٹی ھیں-
آپ نے تاریخ بشریت کے سب سے زیادہ عظیم المرتبت والدین کی آغوش میں آنکھ کھولی نیز جس طرح آپ کے والدگرامی نے تاریخ کارخ موڑا ھے اور چند سال کے اندر ھی جس طرح انسانیت کو جس برق رفتاری سے راہ ترقی پر گامزن فرما دیا اسکی مثال دنیا ئے بشریت میں کہیں نظر نہیں اتی ھے اسی طرح اہل تاریخ نے آپ کی والدہٴ گرامی جیسی جری دل اور بے لوث کسی دوسری خاتون کا تذکرہ بھی نہیں کیا جنھوں نے نور ھدایت کے بدلہ آپنے عظیم الشان شوہر نامدار کے قدموں پر اپنی ساری دولت نچھاور کردی-ایسے عظیم المرتبت والدین کی شفقت و محبت کے زیر سایہ جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)نے سفر زندگی کے زینے طے کرنا شروع کئے اور انہیں کی آغوش میں پروان چڑھیں اور ایسے گھر میں پرورش پائی جو آپ کے والد گرامی کی شفقتوں اور مہربانیوں سے معمور تھا جبکہ ان کے کاندھوں پر نبوت کا ایسا بار گراں تھاجس کو برداشت کر لینا پہاڑوں کے بس کی بات بھی نہ تھی،آپ جہاں کہیں تشریف لےجاتے قریش اور ان کے بچے یا نوکر چاکر ھر جگہ آپ کی گھات لگائے ھوئے دکھائی دیتے،جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) اپنی کمسنی کے باوجود تمام باتوں کا مشاھدہ فرماتی تھیں،نیز آپ ان کمر شکن مصائب و آلام کا بوجھ ھلکاکرنے کےلئے اپنی والدہٴ گرامی کا ہاتھ بٹاتی رہیں اور آپ کے اوپرجو سنگین مصیبت بھی پڑی آپ اس کا مقابلہ کرتی رہیں اس کے ساتھ آپ کو اذیت و ازار اور ظلم و بربریت کی اس وادی پُر خار سے گذرنا پڑا جس نے ابتدائی مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا-
شہزادی کائنات(علیہا السلام) نے اپنی کمسنی سے ہی تبلیغ رسالت کی آزمائشوں میں زندگی کا آغاز کیاحتی کہ اپنے والد اور والدہٴ گرامی نیز دوسرے بنی ہاشم کے ساتھ شعب ابوطالب میں اقتصادی اور سماجی محاصرہ کو بھی دیکھا جب کہ محاصرہ کی شروعات میں آپ کی عمر دو سال سے زیادہ نہیں تھی-
تین سال تک جاری رھنے والا یہ تلخ محاصرہ اٹھا ہی تھا کہ آپ کی شفیق والدہٴ گرامی اور آپ کے بابا کے مہربان چچا جناب ابوطالب(علیہم السلام) کی وفات ہو گئی- اس وقت آپ کی عمر چھ سال بھی نہیں ہوئی تھی آپ ان مشکلات اور الآم و مصائب میں اپنے والد گرامی کو تسلی دیتی تھیں اور ان کی تنہائی میں ایک مونس غم ہونے کے ساتھ ساتھ قریش کی ایذا رسانیوں کو برداشت کرنے میں ہر طرح سے رسالت کی شریک کار تھیں-
آٹھ سال کی عمر میں حضرت علی(علیہ السلام) اور(فاطمہ نام کی) بنی ہاشم کی محترم خواتین(جنہیں فواطم کہا جاتا ھے)کے ساتھ مدینہٴ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور جب تک حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی شادی نہ ہوگئی آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ رہیں اور شادی کے بعد اس گھر کی بنیاد رکھی جو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے بعد عالم اسلام کا سب سے بلند و بالا اور عظیم گھر تھا اور بعد میں یہی گھر رسول اللہ کی پاک وپاکیزہ اور طیب و طاھر ذریت اورخداوندعالم کی طرف سے عترت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے کوثر(نسل)کےلئے ایک صدف پُر گھر میں تبدیل ھوگیا-
شہزادی دو عالم(سلام اللہ علیہا)نے تاریخ اسلام کے مشکل ترین دور میں ایک نمونہٴ عمل بیوی اور ایک عالی مرتبت ماں کا بہترین کردار پیش کیا جس میں اسلامی تاریخ قدیم اور بوسیدہ رسم و رواج اور جاہلیت زدہ انسانیت کے درمیان مستقبل کےلئے اعلیٰ اور دائمی منصوبے تیار کررہی تھی ایسی جاہلیت جس میں عورت کی انسانیت ہی زیر سوال تھی اور جس میں بیٹی کی اوقات ذلت و خواری کے بدنما داغ سے زیادہ کچھ نہ تھی
اس میں شہزادی کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رسالت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کی لخت جگر اور دین الہٰی کی اکلوتی بیٹی تھیں کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ اپنے انفرادی، سماجی اور گھر یلوکردار سے ایک ایسا مجسم نمونہٴ عمل پیش کردیں جس میں رسالت کی تمام قدریں ایک ہی جگہ سمٹی ہوئی ھوں-
چنانچہ آپ نے عالم انسانیت کے سامنے یہ ثابت کر دکھا یا کہ ایک خاتون ہونے کے باوجود ھر لحاظ سے ایک کامل شخصیت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کے کرشمہٴ قدرت کی آیت کبریٰ بھی ہیں کیونکہ اسی نے جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)کوبے حدعظمت و جلالت اورنورانیت سے نوازا ھے-
آپ حضرت علی(علیہ السلام) کی زوجہ اور اہل جنت کے سید و سردار فرزندان رسول مختار یعنی دو عظیم المنزلت آئمہ، امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) نیز جناب زینب و ام کلثوم جیسی مجاھد و صابرہ بیٹیوں کی والدہٴ گرامی بھی ہیں جب کہ آپ کے والد گرامی کی وفات کے بعد آپ کے گھر اور بیت وحی و رسالت کی حرمت کی پامالی کے وقت آپ کے آخری فرزند جناب محسن(علیہ السلام) نے آپ کے شکم میں ہی شھادت پائی اور اسی طرح اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد اس مجاھدہ و شہیدہ ماں نے رسالت الہیہٰ کی حفاظت اور امت کو انحراف وگمراہی سے بچانے کےلئے راہ خدامیں سب سے پہلے قربانی پیش فرمائی ھے-
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے سخت ترین حالات میں قدم قدم پر اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور حد درجہ سعی و کوشش اور جہد مسلسل اور زبان وبیان کے ذریعہ اسلام کی نصرت و امداد فرمائی خاص طور سے اہلبیت رسالت(علیہم السلام) کی تربیت میں ایک مثالی کردار پیش کیا جنہیں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعد اسلام کی نصرت و حمایت کا فریضہ سپرد فرمایا تھا-
بالاخر اس تلخ ترین جہاد کے بعد آپ ہی سب سے پہلے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملحق ہوئیں مگر اس عرصہ میں مشرکین اور منافقین کی خود سری اور بربریت کے خلاف مختلف مورچوں پر جہاد کی صفوں کو منظم کردیا اور ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئیں اور جس طرح منحرفین کا مقابلہ کرنے میں آپ کا منفرد مقام ھے اسی طرح عورتوں کی تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالنے میں بھی آپ کا اپنا ایک نمایاں مقام و مرتبہ ھے اور سچ تو یہی ھے کہ آپ جہاد وشجاعت،صبر و شھادت اور ایثار وقربانی کی حقیقی علمبردار ہیں کیونکہ کہ اپنی مختصر سی عمر میں ہی آپ نے ان تمام میدانوں میں بڑے بڑے نامور اور مایہ ناز لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑدیا ھے-
لہٰذا آپ کی مقدس و مطھر بارگاہ میں ھدیہٴ اسلام پیش ھے اس دن،جب آپ دنیا میں تشریف لائیں،جب جام شھادت نوش فرمایا اور جس دن زندہ اٹھائی جائیں گی اور عظمت و جلالت،شرف و منزلت اور کرامت و بزرگی کاھر جامہ آپ کے زیب تن ھوگا-
(اقتباس ازکتاب منارہٴ ھدایت جلد ۳ (سیرت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button