دانشکدہسیرت اھلبیت

مقام اہلبیتؑ

مصنف:
مترجم:
محمدی ری شہری

_ 1مثال سفینہ نوح
حنش کنانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوذر کو در کعبہ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سناہے، کہ جس نے مجھے پہچان لیا وہ تو جانتا ہی ہے اور اگر کسی نے نہیں پہچانا تو پہچان لے میں ابوذر ہوں اور میں نے رسول اکرم(ص) کی زبان سے سناہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے کہ جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ ڈوب مرا
_( مستدرک 3 ص 163 / 4720 ، فرائد السمطین 2 ص 246 _ 519 ، ینابیع المودۃ 1 ص 94 /5 شرح الاخبار 2 ص 501 / 887 ، امالی طوسی 6 ص 88، 733 ، 1532 ، کمال الدین ص 239 / 59 ، احتجاج 1 ص 361 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 937 ، مناقب ابن مغازلی ص 132 ، 134 ، بشارۃ المصطفی ص 88 رجال کشی 1 ص 115 / 52)_
_ رسول (ص) اکرم کا ارشاد ہے کہ ہم سب سفینہ نجات ہیں جو ہم سے وابستہ ہوگیا نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ ہلاگ ہوگیا _ جس کو اللہ سے کوئی حاجت طلب کرنا ہو وہ ہم اہلبیت (ع) کے وسیلہ سے طلب کرے_
(فرائد السمطین 1 ص 37 از ابوہریرہ، احقاق الحق 9 ص 203 از ارحج المطالب)_
امام علی (ع) نے کمیل سے فرمایا کہ کمیل رسول اکرم(ص) نے 15 رمضان کو عصر کے بعد مجھ سے یہ بات اس وقت فرمائی جب انصار و مہاجرین کا ایک گروہ سامنے تھا اور آپ منبر پر کھڑے تھے_ یاد رکھو کہ علی (ع) اور ان کے دونوں پاکیزہ کردار فرزند مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، یہ سب سفینہ نجات ہیں جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ بہک گیا ، نجات پانے والے کی جگہ جنت ہے اور بہکنے والے کاٹھکانا جہنم کے شعلے ہیں_( بشارۃ المصطفی ص 30 از بصیر بن زید بن ارطاۃ)_
امیر المؤمنین (ع) نے اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا خدا کی قسم میں نے کسی امر کی طرف اقدام نہیں کیا مگر یہ کہ میرے پاس رسول اکرم(ص) کی ہدایت موجود تھی خوشا بہ حال ان کا جن کے دلوں میں ہماری محبت راسخ ہوجائے اور اس کے وسیلہ سے ایمان کو احد سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوجائے اور یاد رکھو جس کے دل میں ہماری محبت ثابت نہ ہوگی اس کا ایمان اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتاہے_
خدا کی قسم _ عالمین میں رسول اکرم(ص) کے نزدیک میرے ذکر سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں تھی اور نہ کسی نے میری طرح دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے_ میں نے بلوغ سے پہلے سے نماز ادا کی ہے اور یہ فاطمہ (ص) بنت رسول (ص) جو پارہ جگر پیغمبر (ص) ہے یہ میری شریک حیات ہے اور اپنے دور میں مریم بنت عمران کی مثال ہے_
اور تیسری بات یہ ہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) جو اس امت میں سبط رسول(ص) ہیں اور پیغمبر کے لئے دونوں آنکھوں کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح میں آپ کے لئے دونوں ہاتھوں کی جگہ پر تھا اور فاطمہ (ع) آپ کے وجود میں قلب کی حیثیت رکھتی تھیں ، ہماری مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ڈوب مرا _(کتاب سلیم بن قیس 2 / 830)_
امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ جس نے ہمارا اتباع کرلیا وہ نیکیوں کی طرف آگے بڑھ گیا اور جو ہمارے علاوہ کسی دوسرے سفینہ پر سوار ہوگیا وہ غرق ہوگیا _( غرر الحکم ص 7894 ، 7893)_
امام زین العابدین (ع) ہم ہیں جو شدتوں کی گہرائیوں میں چلنے والے سفینوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا_( ینابیع المودۃ 1 ص 76 / 12)_
امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے وقت نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے اور اس طرح صلوات بھیجتے تھے_
‘ خدایا محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر اور رسالت کے مرکز تھے، ان کے گھر ملائکہ کی آمد و رفت تھی اور وہ علم کے خزانہ دار اور وحی کے اہلبیت (ع) تھے، خدایا آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو شدتوں کے سمندروں میں نجات کے سفینے تھے کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا، ان سے آگے بڑھ جانے والا دین سے نکل جاتاہے اور ان سے دور رہ جانے والا ہلاک ہوجاتاہے_ بس ان سے وابستہ ہوجانے والا ہی ان کے ساتھ رہتاہے_(جمال الاسبوع ص 251_
2_ مثال باب حطّہ
رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ تمھارے درمیان میرے اہلبیت (ع) کی مثال بناسرائیل میں باب حطہ کی ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا اسے بخش دیا گیا _( المعجم الاوسط 6 ص 85 / 5870، المعجم الصغیر 2 ص 22 ، صواعق محرقہ ص 152 ، غیبت نعمانی ص 44)_
رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ جو میرے دین کو اختیار کرے اور میرے راستہ پر رہے اور میری سنّت کااتباع کرے اس کا فرض ہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کو تمام امت پر مقدم رکھے کہ ان کی مثال اس امت میںبن اسرائیل کے باب حطّہ جیسی ہے_( امالی صدوق 69 / 6 تنبیہ الخواطر 2 ص 156)_
رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نو صلب حسین (ع) سے ہوں گے اور نواں قائم ہوگا ، یاد رکھو ان سب کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور ان کی مثال بن اسرائیل کے باب حطہ جیسی ہے_( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 ، کفایۃ الاثر ص 38 از ابوذر)_
عباد بن عبد اللہ لا سدی کا بیان ہے کہ میں مقام رحبہ میں امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آکر اس آیت کے معنی دریافت کرے … کیا وہ شخص جو پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی ہو … تو آپ نے فرمایا کہ قریش کے کسی شخص پر لمحات عقیقہ کا گذر نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں قرآن میں کچھ نہ کچھ نازل ضرور ہوا ہے_ خدا کی قسم یہ لوگ ہم اہلبیت (ع) کے فضائل اور رسول اکرم(ص) کی زبان سے بیان ہونے والے مناقب کو سمجھ لیں تو یہ ہمارے لئے اس وادی رحبہ کے سونے چاندی سے بھر جانے سے زیادہ قیمتی ہے_ خدا کی قسم اس امت ہماری مثال سفینہ نوح (ع) کی ہے اور نب اسرائیل کے باب حطہ کی ہے_(کنز العمال 2 ص 434 / 4429، امالی مفید 145 / 5 شرح الاخبار 2 ص 480 ، 843 تفسیر فرات کوفی ص 190 / 243)_
ابوسعید خدری ، رسول اکرم(ص) نے نماز جماعت پڑھائی اور اس کے بعد قوم کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا _ میرے صحابیو میرے اہلبیت (ع) کی مثال تمھارے درمیان کشتی نوح (ع) اور باب حطہ کی ہے لہذا میرے بعد ان اہلبیت (ع) اور میری ذریت کے ائمہ راشدین سے متمسک رہنا کہ اس طرح کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتے ہو_
لوگوں نے عرض کی یا رسول (ص) اللہ ، آپ کے بعد کتنے امام ہوں گے؟ فرمایا کہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوںگے_
فرمایاکہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے_(کفایۃ الاثر ص 33 _ 34)_
امام علی (ع) ہم باب حطہ اور باب السلام ہیں، جو اس دروازہ میں داخل ہوجائے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ رہ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا ۔
_( خصال 626 / 10 از ابوبصیر و محمد بن مسلم از امام صاد ق (ع) تفسیر فرات کوفی 367 / 499 ، غرر الحکم 10002)_
_ امام علی (ع) _ آگاہ ہوجاؤ کہ جو علم لے کر آدم آئے تھے اور جو فضائل تمام انبیاء و مرسلین کو دیئے گئے ہیں وہ سب خاتم النبیین (ص) کی عترت میں موجود ہیں تو تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاہے اور تم کہاں چلے جارہے ہو؟ اے اصحاب سفینہ کی اولاد ، تمھارے درمیان وہ مثال موجود ہے کہ جس طرح اس سفینہ پر سوار ہونے والے نجات پاگئے تھے اسی طرح عترت سے تمسک کرنے والے نجات پا جائیں گے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ویل ہے ان کے لئے جو ان سے الگ ہوجائیں، ان کی مثال اصحاب کہف اور باب حطہ جیسی ہے_ یہ سب باب السلام ہیں لہذا سلم میں داخل ہوجاؤ اور خبردار شیطان کے اقدامات کی پیروی نہ کرنا _( تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ،از مسعدہ بن صدقہ ، الغیبتہ نعمانی ص 44 ، ینابیع المودۃ 1 ص 332 / 4 المستر شدہ ص 406)_
_ امام محمد باقر (ع) ہم تمھارے لئے باب حطہ ہیں_( تفسیر عیاشی 1 ص 47 از سلیمان جعفری از امام رضا (ع) ، مجمع البیان 1 ص 247)_
3_ مثال خانہ خدا
رسول اکرم(ص) نے اما م علی (ع) سے فرمایا کہ یا علی (ع) تمھاری مثال بیت اللہ کی مثال ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا وہ عذاب الہی سے محفوظ ہوگیا اور اسی طرح جس نے تم سے محبت کی اور تمہاری ولایت کا اقرار کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ ہوگیا اور جس نے تم سے بغض رکھا وہ جہنم میں ڈال دیا گیا_ یا علی (ع) لوگوں کا فریضہ ہے کہ خانہ خدا کا ارادہ کریں اگر ان میں استطاعت پائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہے تو اس کا عذر اس کے ساتھ ہے یا اگر فقیر ہے تو معذور ہے یا اگر مریض ہے تو معذور ہے لیکن تمھاری محبت اور ولایت میں کوتاہی کرنے والے کو ہرگز معاف نہیں کیا جائےگا چاہے فقیر ہو یا غنی _ بیمار ہو یا صحیح، اندھا ہو یا بصارت والا_ (خصائص الائمہ ص 77 از عیسی بن المنصور)_/ 769 از معاویہ)_
رسول اکرم(ص) جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس کے پاس میری اولاد میں سے کوئی امام نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتاہے اور اس نے جاہلیت یا اسلام میں جو کچھ کیاہے سب کا حساب لیا جائے گا۔
_( عیون اخبار الرضا 2 ص 58 / 214 از ابومحمد الحسن بن عبداللہ الرازی التمیمی ، کنز الفوائد 1 ص 327)_
ابان بن عیاش نے سلیم بن قیس الہلالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے سلمان، ابوذر اور مقداد سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ جو شخص مرجائے اور اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے_
اس کے بعد اس حدیث کو جابر اور ابن عباس کے سامنے پیش کیا تو دونوں نے تصدیق کی اور کہا کہ ہم نے بھی سرکار دو عالم (ص) سے سناہے اور سلمان نے تو حضور(ص) سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ یہ امام کون ہوں گے ؟ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء میں ہوں گے اور جو بھی میری امت میں ان کی معرفت کے بغیر مرجائے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ، اب اگر ان سے بے خبر اور ان کا دشمن بھی ہوگا تو مشرکوں میں شمار ہوگا اور اگر صرف جاہل ہوگا نہ ان کا دشمن اور نہ ان کے دشمنوں کا دوست تو جاہل ہوگا لیکن مشرک نہ ہوگا_ ( کمال الدین 413 / 15)_
عیسی بن السری کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا کہ مجھے ارکان دین اسلام سے باخبر کریں تا کہ انھیں اختیار کرلوں تو میرا عمل پاکیزہ ہوجائے اور پھر باقی چیزوں کی جہالت نقصان اور نہ وہ ان سے الگ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوجائیں_ ان ائمہ میں سب سے پہلا میرا بھائی علی (ع) ہے ، اس کے بعد میرا فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد میرا فرزند حسین (ع) ، اس کے بعد اولاد حسین (ع) کے نو افراد_( الغیبتہ النعمانی 84 / 12 ، کتاب سلیم بن قیس 2/686 / 14 ، فضائل ابن شاذان ص 114 ، مشارق انوار الیقین ص 192) _
امام علی (ع) آگاہ ہوجاؤ کہ آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب کوئی ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتاہے_(نہج البلاغہ خطبہ 100)_
امام صادق (ع) کوئی عالم ہمارے علاوہ ایسا نہیں ہے جو دنیا سے جائے تو اپنا جیسا خلف چھوڑ جائے_ البتہ ہم میں سے جب کوئی جاتاہے تو اس کی جگہ دوسرا اس کا جیسا موجود رہتاہے کہ ہماری مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے_( جامع الاحادیث قمی ص 249 از حصین بن مخارق )_
5 _ مثال دو چشم
رسول اکرم(ص) دیکھو میرے اہلبیت (ع) کو اپنے درمیان وہی جگہ دو جو جسم میں سرکی اور سرمیں دونوں آنکھوں کی ہوتی ہے کہ جسم سر کے بغیر اور سر آنکھوں کے بغیر ہدایت نہیں پاسکتاہے_( امالی طوسی 482 / 1053 ، کشف الغمہ 2 ص 35 از ابوذر ، کفایۃ الاثر ص 111 از واثلہ بن الاسقع)_

Related Articles

Back to top button