حضرت محمد مصطفیٰ (ص)دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

بعثت ؛ انسانوں پر احسانِ خداوندی

 

(سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری)

بعثت کی ضرورت
١۔ سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ انسان کی خلقت کس لئے ہوئی ہے ؟
کیا خداوندعالم نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس دنیا کے توالد و تناسل میں روز بروز اضافہ ہوتارہے ، کیا انسان کی خلقت صرف عیش و عشرت کے لئے ہوئی ہے …؟ یا انسان اس لئے پیدا کیاگیاہے کہ زمین میں پوشیدہ ذخیروں کا پتہ لگا کر اپنی دولت و ثروت میں برابر اضافہ کرتا رہے …؟بہت سے وہ افراد جو انسان کی حقیقت سے ناواقف اور اس کی عظمت و منزلت سے بے بہرہ ہیں وہ خلقت انسانی کے سلسلے میں ایسا ہی نظریہ پیش کرتے ہیں لیکن جو واقعی انسان شناس ہیں ان کی نظر میں انسان کو صرف انہیں امور میں محدود کردینا کم عقلی ہے بلکہ اسے ان سے بلند مرتبہ مقاصد کے پیدا کیاگیاہے جسے معنویت اور روحانیت کہاجاتا ہے اور جو کمال و سعادت کی آخری منزل ہے ، انسان کو چاہئے کہ وہ کمال کے ہر پہلو پر نظر رکھے اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔
٢۔ اس بیان کے بعد یہ سوال بالکل مناسب ہے کہ کیا صرف انسان کی عقل اور اس کا ضمیر کمال و سعادت کی آخری منزل تک پہونچنے کے لئے کافی ہیں ؟ اگر عقل کی تمام تر خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر غور و فکر کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ صرف عقل اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی راہنمائی کرے اور زندگی کے ہر موڑ پر ہدایت کرے اس لئے کہ ضمیر اس معدن کی طرح ہے جو پہاڑ کے دامن میں پوشیدہ ہے ، ضرورت ہے کہ اس کو تلاش کیاجائے اور اس کو پاک و صاف کیاجائے تاکہ استعمال کے قابل ہوسکے اور کندن بن جائے ، عقل بھی بسا اوقات سماج اور ماحول کے رنگ میں رنگ جاتی ہے اور اپنی اصلی اور صحیح راہ سے منحرف ہوجاتی ہے ۔لہذا ایک سعادت مند اور پر افتخار زندگی کے لئے کسی ایسے کا ہونا ضروری ہے جو ہر شعبۂ حیات میں انسان کی راہنمائی اور ہدایت کرسکے ۔
٣۔ یہ بات بھی طے ہے کہ بشری نظریات اس اہم ترین ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے ، اس لئے کہ انسان کی معلومات نہات محدود ہیں ، سعادت اور کمال کے تمام پہلوئوں پر اس کی نظر نہیں ہے ، انسان اخلاقی اور مادی پہلوئوں سے بطور کامل آشنا نہیں ہے ، اس بناپر انسان کبھی اس بات پر قادر نہ ہوسکا کہ وہ کوئی ایسا نظریہ پیش کرسکے جو انسان کے تمام فطری تقاضوں کا مکمل اور بھرپور جواب ہو۔
لہذا تمام شعبۂ زندگی میں ایک ایسے معصوم رہبر کا ہونا ضروری ہے جس کی تعلیمات و نظریات ، انسانی زندگی کو کمال و سعادت تک پہونچا سکیں ۔ انبیائے کرام ایسے ہی قائد و رہبر ہیں جن کی ضرورت سے قطعی انکار نہیں ، آپ حضرات نے الٰہی تعلیمات کے ذریعہ ہدایت و سعادت کا راستہ دکھایا ۔ حضرت علی انبیاء کی غرض بعثت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”خداوندعالم نے پیغمبروں کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ فراموش شدہ نعمتوں کو یاد دلائیں اور عقل و فکر کے پوشیدہ خزانوں کو ابھاریں اور صحیح راہ پر لگائیں ”۔(١)
عظیم فلسفی ” بو علی سینا ” تحریر فرماتے ہیں :” انسان کی بقاء اور حصول کمال کے لئے انبیاء کی بعثت پلک اور ابرو کے اوپر بال اگنے اور تلوے کی گہرائی(جس کے بغیر انسان صحیح طریقے سے کھڑا نہیں ہوسکتا) سے کہیں زیادہ ضروری اور لازمی ہے”۔(٢)
غرض خلقت کے حصول کے لئے مادی و معنوی منزلت میں کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خداوندعالم انبیاء کو بھیجے تاکہ مشعل وحی کے ذریعہ بشریت کی ہدایت کی جاسکے ۔اس تناظر میں یہ کہاجاسکتاہے کہ بعثت بشریت پرخداوندعالم کی عظیم ترین نعمت ہے۔لہذا اب اگر خداوندعالم اس عظیم نعمت کے عطا کرنے پر احسان جتلائے تو یہ عین حق ہے ، چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :” یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیاہے کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجاہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتاہے ، انہیں پاکیزہ بناتاہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے ، اگر چہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ”۔(٣)
آیۂ کریمہ کے لحن کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ جب معاشرے میں احسان جتانے کو معیوب سمجھاجاتاہے تو پھر خداوندعالم نے بعثت کے سلسلے میں احسان کیوں جتایا ؟ بعثت کے کیا اہداف و مقاصد اور خصوصیات ہیں ؟
اصل میں” منّ ” منت سے مشتق ہے جس کا صحیح معنی وزن کا باٹ ہے جو انتہائی عظیم نعمت کے لئے بھی استعمال ہوتاہے اس اعتبارسے ہرباعظمت نعمت کے لئے منت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔
اس کااستعمال دوطرح سے ہے: قولی اورعملی؛اگرکوئی عملی طور پر کسی کونعمت دے تواسے عملی منت کہاجائے گا ۔اس کازیادہ تراستعمال تربیتی،ہدایتی اورمعنوی مسائل میں ہوتاہے یہ چیزپسندیدہ اورقابل قدرہے ۔بعض کاکہناہے کہ یہ منت خداوند عالم سے مختص ہے ، اگرکوئی اپنے چھوٹے سے کام کوبہت بڑابیان کرے تویہ انتہائی مکروہ اورقبیح ہے اس کی مثالیں سماج و معاشرے میں جا بجا ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ پس رسالت جیسی عظیم ترین نعمت پرمنت گزاری یااحسان جتلاناحسین وزیباہے۔من اللہ یعنی خداوندعالم نے انتہائی عظیم نعمت مومنین کے اختیار میں دی ۔
ایک دوسری جگہ خداوندعالم نے ایمان کی طرف انسان کی ہدایت کے سلسلے میں بھی منت کا لفظ استعمال فرمایا ہے :”یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو ، یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دے دی ہے ، اگر تم واقعاًدعوائے ایمان میں سچے ہو”۔(٤)
اگراسلام قبول کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کوبہت زیادہ مشکلات اٹھانی پڑیں ہیں توانہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ خداوندعالم نے ان کو انتہائی عظیم نعمت سے نوازاہے اور وہ ہے ” رسول خدا کی بعثت ”۔
آنحضرت کو اس لئے مبعوث کیاگیا تاکہ انسانوں کی تربیت کی جاسکے اور انہیں جہالت و گمراہی کے گھپ اندھیرے سے نکال کر علم و عمل اور ہدایت و سعادت کی روشنی سے بہرہ مند کیاجاسکے ،لہذا اس نعمت کی حفاظت اورکوشش میں جوقیمت بھی اداکرنی پڑے کم ہے۔

بعثت کے اہداف و مقاصد
قرآن مجید کی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات کی طرف رجوع کرنے سے بعثت کے بہت سے اہداف و مقاصدمعلوم ہوسکتے ہیں ، یہاں ان میں سے بعض کی جانب اشارہ کیاجارہاہے :

١۔ تبلیغ :
انبیائے کرام علیہم السلام خداوندعالم کے پیغامات کو بندوں تک پہونچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ، یہ ان کی زندگی کا اساسی کام ہے ، وہ لوگ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ خدا کے اصول و قوانین کو بغیر کسی تغیر و تبدل کے لوگوں تک ابلاغ کریں ، لوگوں کے لئے اچھائیوں اور برائیوں کو بیان کریں ، سعادت و کامرانی کے راستوں کی نشاندہی کریں ۔ لائق ذکر بات یہ ہے کہ آپ حضرات اس دشوار گزار راستے میں کسی سے خوف زدہ نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف خدا کا خوف انہیں کامیابی سے ہمکنار کرتاتھا ؛ قرآن اس سلسلے میں فرماتاہے :”وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ”۔(٥)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی حیات طیبہ میں مصائب و آلام کے ساتھ ساتھ خوف خدا کے نظائر ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ، کفار و مشرکین نے آپ کو خوف زدہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی ، جسمانی اذیت کے ساتھ روحانی اذیت دیتے رہے لیکن آپ محکم ایمان و عقیدے کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ۔

٢۔ تعلیم و تربیت :
انبیائے کرام کی بعثت کا ایک ہدف ” انسان کی تعلیم و تربیت ” ہے ، یہ بات بدیہی ہے کہ تعلیم و تربیت میں معلم و مربی کا عملی کردار اس کے قول سے کہیں زیادہ موثر ہوتاہے ، صرف گفتار میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ صحیح طور پر تربیت کرسکے ۔ اسی لئے انبیاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایسے صفات و کمالات سے آراستہ ہوں کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور ان سے خطا و لغزش کا بھی امکان نہ ہو تاکہ کامیابی سے انسان کی تربیت کرسکیں اور ایک مقصد کی طرف اس کی صلاحیتوں کو جذب کرسکیں ۔ خداوندعالم نے متعدد آیتوں میں بعثت انبیاء کے اس ہدف کی طرف اشارہ فرمایاہے :”اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انہیں مٰں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے ارو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ”۔(٦)
اس آیت میں دو اہم ترین باتوں کی جانب اشارہ کیاگیاہے :آیات کی تلاوت اور تربیت ۔

آیات کی تلاوت :
”یتلوا”تلاوت سے ہے جس کامعنی پے درپے انجام دینا،پیروی کرنااورمنظم اندازسے پڑھناہے۔(٧)
یہ چیزآیات الٰہی کوغوروفکراورتدبرسے پڑھنے کوبھی شامل ہے ۔گویاقاری آیات کی پیروی کرتاہے یایہ کہ آیات کے حروف اورکلمات کوایک دوسرے کے ساتھ ساتھ قراردیتاہے ۔آنحضرت آیات الٰہی کی تلاوت اورلوگوں کے قلوب وافکارکوان آیات سے آشنا کر کے انہیں تربیت کے لئے آمادہ فرماتے ہیں ۔

تربیت :
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی بعثت کا اہم ترین ہدف انسانوں کی تربیت ہے ۔
تربیت کامطلب یہ ہے کہ کسی ہدف کے حصول کے لئے انسانی صلاحیتوں کی نشونمااوررشدوتکامل کی خاطرزمین ہموارکی جائے خلیفة اللہ بننے کے لئے صلاحیتوں کے مختلف پہلوہوتے ہیں ۔رسول کاکام یہ ہے کہ لوگوں کوعملی طورپراس طرح تیارکرے کہ ان کارابطہ خداسے،دوسرے انسانوں سے،معاشرتی قوانین سے ،اپنے خاندان سے اوراپنی ذات سے ایسے برقرارہوجائے کہ یہی انسان مسجودملائکہ ہوجائے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے چنانچہ آپ نے بہت تھوڑی مدت میں علی وزہراسلام اللہ علیہما ،سلمان فارسی،ابوذراور مقدادجیسے عظیم انسانوں کی تربیت فرمائی ۔انسان سونے اورچاندی کی کانوں کی طرح ہے اورپیامبران کانوں کے منکشف کرنے والے ہیں،انسان کوچاہئے کہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کوکشف کرے تاکہ اپنی حقیقی قدروقیمت کوجان سکے ۔
آیت میں ”یزکیہم”استعمال کیاگیاہے ،اس کا اصل مادہ زکو ہے جس کامعنی رشداوراضافہ ہے۔
یہاں اس سے مرادتربیت وپاکیزگی ہے یعنی اعتقادی ،اخلاقی اورعملی آلودگیوں سے پاک ہونا۔اگرچہ تربیت کامصدرربوہے اوراس کامعنی بھی نشوونما اوراضافہ ہے لیکن قرآن کریم میں تہذیب نفس اور پاکیزگی نفس کے لئے تزکیہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے : (قد افلح من تزکی)”سعادت مندہے وہ جس نے تزکیہ نفس کیا”۔
قرآن کریم میں معنوی اورورحانی پاکیزگی کے لئے تزکیہ کی لفظ اورمادی وجسمانی اصلاح کیلئے تربیت کی لفظ استعمال ہوئی ہے جیسے کہ ارشادہے :” کیاتمہارابچپن میں ہم نے تمہیں اپنے پاس رکھ کرتمہاری تربیت نہیں کی”۔(٨) یعنی جسمانی اورمادی لحاظ سے تمہاری پرورش کی۔
اخلاقیات اورپاکیزگی نفس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ آج انسانی معاشرے اسی کے محتاج ہیں ۔ گمراہی ، فساد و جہالت ، جنگ اورخون ریزی وغیرہ سے اسی صورت نجات مل سکتی ہے کہ انسان کے اخلاقیات درست ہوجائیں اوراعلی انسانی اقداررواج پاجائیں ۔
آنحضرت اپنی بعثت کاہدف بیان فرماتے ہیں : بعثت لاتمم مکارم الاخلاق” میں تمہارے اخلاقی فضائل کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں”۔(٩)

٣۔ قیام عدالت
انبیائے کرام اس لئے آئے ہیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دین جس میں عدل وانصاف کا رواج ہو ، جس میں خود لوگ عدالت کے لئے کوشاں رہیں ، قرآن کا ارشاد ہے :(لیقوم الناس بالقسط)۔(١٠)
آپ اس لئے تشریف لائے تاکہ ایسے معاشرے کی تشکیل دیں جس میں نہ ظالم کا وجود ہو اور نہ ہی مظلوم کی فریاد و فغاں ؛ قرآن فرماتاہے :” نہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیاجائے گا”۔(١١)

٤۔ فرد و اجتماع کا احیاء
انبیائے کرام کی بعثت کا ایک ہدف یہ ہے کہ وہ انسان کی اس فردی و معاشرتی زندگی کو زندہ کریں جو ظلم و زیادتی کی وجہ سے تاریخ ہوتی جارہی ہے ؛ قرآن کا ارشاد ہے :”اے ایمان والو!اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے ”۔(١٢)
اس کے علاوہ بھی بعثت کے بہت سے اہداف و مقاصد ہیں جن میں توحید کی تکمیل ، رفع اختلاف اور اتمام حجت …وغیرہ شامل ہیں ، بہت سی آیتوں اور روایتوں ان اہداف و مقاصد کو موضوع بحث قرار دیاگیاہے جن سے ان کی اہمیت واضح و آشکار ہوتی ہے ۔

حوالہ جات
١۔ نہج البلاغہ ، خطبہ١
٢۔ کتاب شفا بحث الٰہیات فصل نبوت
٣۔ آل عمران ١٦٤
٤۔ حجرات ١٧
٥۔احزاب ٣٩
٦۔جمعہ ٢
٧۔ قاموس اللغہ
٨۔شعرائ١٨
٩۔ احتجاج طبرسی…وغیرہ
١٠۔ حدید٢٥
١١۔ بقرہ١٧٩
١٢۔ انفال٢٤
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

Back to top button