دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

ذکر خدا اور کربلا

(ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی)

ذکر خدا انسان کے لئے مایہ شرف ہے ، شخصیت و کردار کا عطر ہے ، یہ الطاف الٰہی کو اپنی طرف موڑنے کا ذریعہ ہے کیونکہ خدا نے خود فرمایاہے:(فَاذْکُرُونِی َذْکُرْکُمْ) ” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا”۔(١)کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے اندر احساس فرائض زندہ ہے اور جب عبودیت ، احساس فرائض کے ساتھ زندہ و توانا رہے گی تو وعدۂ الہی کے مطابق لامحالہ نعمتوں سے نوازا جائے گا ۔

حدیث قدسی میں ارشاد ہے :
من ذکر نی فی ملأ ذکرتہ فی ملأ خیر من ملاء ہ و من ذکرنی سرا ذکرتہ علانیة ” جو شخص کسی بزم میں میرا ذکر کرتاہے تو میں اس سے بہتر مواقع پر اس کا ذکر کرتاہوں اور جو خفیہ اور پوشیدہ طریقہ پر میرا ذکر کرتاہے تو میں اس کا ذکر علانیہ کرتا ہوں”۔(٢)
ذکر اگر قلب و دماغ میں ہے تو یاد ہے ، زبان پر جاری ہو تو ذکر ہے لیکن اگر قلب و دماغ اور زبان میں پوری طرح رچ بس جائے تو اعضاء و جوارح سے اس کا مظاہرہ ہونے لگتاہے اس طرح عبودیت مرتبۂ کمال حاصل کرلیتی ہے ۔

علمائے اخلاق نے ذکر کے چار مرتبے قرار دئیے ہیں:
پہلا مرتبہ زبان کا ہے ، اللہ کا ذکر زبان سے کیاجائے ، تسبیح و تحلیل صرف زبان سے ہو، آیات و احادیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ زبان کے ساتھ دل بھی ہم آہنگ ہو لیکن بعض حالات میں محسوسات اس کے دل کو اپنی طرف متوجہ کرلیں ۔ اس طرح دل کی ہم آہنگی وقتی و عارضی بن کے رہ جائے ۔ کبھی کبھی اس کا نتیجہ پریشاں خیالی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتاہے ، شخصیت غیر متوازن ہوکے رہ جاتی ہے ۔

تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ زبان کے ساتھ دل بھی ہم آہنگ ہو ۔ زبان ، دماغ اور قلب باہم معاون رہیں ، ذکر کے علاوہ چیزیں اسے اپنی طرف متوجہ نہ کرسکیں اور نہ رکاوٹ بنیں ۔ یہ رسوخ کی منزل ہے ۔

ذکر کا چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ ذکر دل و دماغ میں اس طرح رچ بس جائے کہ خون کی طرف رگوں میں دوڑنے لگے ، یاد اور ذکر ہی اس کی شخصیت بن جائے ، غیر خدا اس کے فکر و خیال میں بھی نہ آئے ، انتہائے مصائب اس کے ذکر کو انگیز کرنے کا ذریعہ بن جائیں بلکہ اس کا مظاہرۂ ذکرسنگدلوں کو تڑپادے ، ظلم و ستم دیکھ کر لرز جائے ۔

عاشور کے دن کربلا میں اس کے بے شمار مظاہرات ملتے ہیں۔امام حسین کی آخری جنگ کا تذکرہ مقاتل میں ہے :
”آپ جنگ کرتے کرتے ذرا دیر کے لئے ٹھہر گئے ، اچانک ایک پتھر آپ کی پیشانی پر لگا اور خون جاری ہوگیا ، آپ نے اسے دامن سے صاف کرنا چاہا کہ ایک سہ شعبہ تیر آپ کے سینے پر لگا ، آپ نے فرمایا: بسم اللہ و باللہ علی ملة رسول اللہ…اس کے بعد آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا: خدا تو جانتا ہے کہ یہ اشقیاء اسے قتل کررہے ہیں کہ روئے زمین پر اس کے سوا دوسرا کوئی فرزند رسول نہیں ۔ آپ نے وہ تیر پشت سینہ سے باہر نکالا کہ پرنالے کی طرف خون جاری ہوگیا” ۔(3)
جس وقت امام حسین اپنے خون میں نہائے ہوئے گھوڑے سے زمین پر آئے ، آپ کی مناجات کے بعض فقرے یہ ہیں :
صبرا علی قضائک یا رب لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین مالی رب سواک و لا معبود غیرک صبرا علی حکمک یا غیاث من لا غیاث لہ…” تیرے فیصلے پر صبر کرتاہوں اے میرے پروردگار ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، اے فریادیوں کے فریاد رس! تیرے سوا میرا کوئی پروردگار نہیں ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تیرے حکم پر صبر کرتاہوں ، اے پناہ ! جس کی کوئی پناہ نہ ہو…”۔(4)
امام حسین کے ساتھ جو لوگ بھی کربلا میں موجود تھے ، بوڑھے ، جوان ، بچے ، خواتین سبھی کے سینے میں حسین کا دل دھڑک رہاتھا ، وہ ذکر کے اعلی ترین مدارج پر اس طرح فائز ہوئے کہ امام حسین سے خراج تحسین وصول کیا ، کمیت کے اعتبار سے مختصر ترین فوج ، کیفیت کے اعتبار سے تاریخ آدم و عالم کا عظیم لشکر اور معرفت و عشق الہی کا اعلی ترین نمونہ تھا ، انہوں نے توحید کو تمام شرائط ( بشرطہا و شروطہا) کے ساتھ اپنے عقیدہ و کردار کا سرنامہ بنالیاتھا ۔
روز عاشور ظہر کا وقت آیاتو ابو ثمامة الصائدی جن کا نام زیاد بن عمرو بن غریب بن حنظلہ بن دارم الصائدہ تھا ، انہوںنے سورج کی طرف دیکھا اور بارگاہ حسین میں عرض کی:
” چاہتاہوں کہ آپ پر فدا ہونے سے پہلے یہ نماز جس کا وقت آگیاہے آپ کی اقتداء میں پڑھ لوں”۔
امام حسین نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا:
ذکرالصلاة جعلک اللہ من المصلین الذاکرین ” تم نے نماز یاد دلائی ، خدا تمہیں مصلیوں اور ذاکروں میں شمار کرے ”۔(5)
امام نے اس دعا میں ذکر کا وہ آخری مرتبہ مراد لیاہے ، جب عشق الہی رگوں میں خون بن کے دوڑتاہے ، لیکن مصلی کا ترجمہ عام طور سے نماز گزار کیاجاتاہے ، جو عاشور کے دن ظہر کے ہنگام سے قطعی صرف نظر کے مترادف ہے ، عام حالات میں نماز پڑھنے والا بھی مصلی کہاجاتاہے ، کربلا میں ظہر کی نماز در اصل ذکر خدا کی وہ آخری منزل تھی جسے صرف سابقین ہی یاد رکھ سکتے ہیں۔
حضرت امیر المومنینؑ جنگ میں مشغول تھے ، اچانک وقت نماز آگیا ، آپ لچکتی تلواروں کے درمیان نماز میں مشغول ہوگئے، ابن عباس نے عرض کی : ماھذا یا امیر المومنین ” اے امیرالمومنین ! یہ کیا کررہے ہیں”۔
انہوں نے عام نماز گزاروں کی طرح مطالبہ کیا کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں، نماز دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھنی چاہئے ۔ حضرت امیر المومنین نے فرمایا : انما قاتلنا علی الصلاة ” ہم ان سے اسی نماز کے لئے جنگ کررہے ہیں”۔(6)
ایسے ماحول میں جب تلواریں چمک رہی ہوں ، تیروں کی بارش ہورہی ہو ، نیزے کلیجوں سے بغلگیر ہورہے ہوں ۔ ایسے میں صرف سابقین ہی کو نماز یاد رہ سکتی ہے ، حبر امت اور امیر المومنین کا شاگرد رشید بھی فراموش کرسکتاہے ۔
لیکن ایسے میں بلکہ اس سے بھیانک اور لرزہ خیز موقع پر نماز یاد رکھنا ابو ثمامہ صائدی اور دوسرے انصار حسین کا قلب تھا ۔ امام نے لفظ مصلین میں اسی حقیقت کی نشاندہی کی ہے ، مصلی ایک تو صلوة کا مشتق ہے لیکن ایک دوسرا مصلی سابق کے مقابل ہے ، گھوڑ دوڑ میں جو تیز رفتار گھوڑا اول آتاہے اسے سابق کہتے ہیں اور دوسرا وہ گھوڑا جو دوسرے نمبر پر آئے اس طرح کہ دوڑ میں سابق کے کانوں کے پاس اس کا منھ ہو اسے مصلی کہتے ہیں۔حدیث معصوم ہے: اذا یلی السابق فھو المصلی ۔(7)
کلام عرب میں اس کے بہت سے شواہد ہیں :
الموقش الاکبر بطور افتخار کہتاہے :
ان تتدر غایة یوما بمکرمة
تلق السوابق منا والمصلینا
”اگر کسی دن شرافت و بزرگی کے نشانے ( مقصد ) تک پہونچنے میں پہل کرنے کا موقع آئے تو ہم ہی میں سابق ( سب سے پہلے پہونچنے والے ) پائوگے اور ہم ہی میں مصلی ( بعد میں پہونچنے والے ) پائوگے ، یعنی اول و دوم ہمارے ہی آدمی ہوںگے ”۔
اس طرح امام نے ابو ثمامہ کو دعا میں جو فقرہ مصلین فرمایا ، اس کا ترجمہ نماز گزار نہیں کیاجانا چاہئے ۔
امام حسینؑ اپنے وفادار صحابی سے فرمارہے تھے کہ تم نے ایسے موقع پر نماز یاددلائی ؟ ایسے موقع پر تو ہم سابقین کو نماز یادرہتی ہے ، خداوندعالم تمہیں ہم سابقین کا ” مصلی ” قرار دے ۔
امام نے فرمایا کہ ان دشمنوں سے نماز پڑھنے کی مہلت طلب کرو ، جب مہلت طلب کی گئی تو حصین بن نمیر نے کہا:تمہاری نماز قبول نہیں ۔
رجل فقیہ حضرت حبیب بن مظاہر نے یہ سن کر فرمایا : اے شرابی ! کیا تیری نماز قبول ہوگی اور فرزند رسول کی نمازقبول نہیں ہوگی ۔(8)
امام حسین نے اسی عالم میں نماز ظہر پڑھی ، زہیر بن قین اور سعید بن عبداللہ بچائو کے طور پر نمازیوں کے آگے گھڑے ہوئے ، روایات میں ہے کہ سعید کے بدن پر اس قدر تیر لگے کہ آپ زمین پر گر پڑے اور امام سے عرض کی : کیا میں نے اپنا عہد پورا کیا؟
امام نے فرمایا : نعم انت امامی فی الجنة ” ہا ں! تم مجھ سے پہلے جنت میں جارہے ہو”۔سعید کے بد ن پر تیرہ تیر پیوست تھے۔(9)

حوالہ جات:
١۔بقرہ ١٥٢
٢۔مستدرک وسائل الشیعہ ج٥ ص ٢٨٦؛ عمدة الداعی ص ٢٥٩
3۔نفس المہموم ص ١٩١؛ لہوف ص ١٢١؛ اعیان الشیعہ ج١ ص ٦١٠ ؛ نیز ملاحظہ ہو : مصائب آل محمدؐ ص ٢٩٨
4۔مقتل الحسین المقرم ص ٣٤٥ ؛ اسرار الشہادة دربندی ص ٤٢٣
5۔مقتل الحسین ،مقرم ص ٣٩٤
6۔وسائل الشیعہ ج١ ص ٢٤٧
7۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک سوال کرنے والے کے جواب میں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث ارشاد فرمائی ہے ؛ ملاحظہ ہو: بحار الانوار ج٢٤ص ٧
8۔تفصیل سے یہ واقعہ فرسان الہیجا ج١ ص ٩٧ پر ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔نیز ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص٢٠٥
9۔مقتل المقرم ص ٢٩٧

ماخوذ از : کتاب شعور شہادت (غیر مطبوعہ)

Related Articles

Back to top button