امام حسن علیہ السلاممقالات

امام حسن مجتبی علیہ السلام

امام حسن مجتبی علیہ السلام

امام حسن مجتبی علیہ السلام
بقیع در 1308 قمری.jpg
سنہ 1308ھ میں ائمہ بقیعؑ کا مزار
منصب شیعوں کے دوسرے امام
نام حسنؑ بن علیؑ
کنیت ابو محمد
القاب سید، تقی، طیب، زکی، سبط
تاریخ ولادت 15 رمضان، سنہ 3 ہجری
جائے ولادت مدینہ
مدت امامت 10 سال (40-50ھ)
شہادت 28 صفر، 50 ہجری
سبب شہادت جعدہ کے زہر سے مسموم
مدفن بقیع، مدینہ
رہائش مدینہ، کوفہ
والد ماجد امام علی
والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ
ازواج ام بشیر، خولہ، ام اسحق، حفصہ، ہند، جعدہ
اولاد زید، ام الحسن، ام الحسین، حسن، عمرو، قاسم، عبداللہ، عبدالرحمن، حسین، طلحہ، فاطمہ، ام عبداللہ، ام سلمہ، رقیہ
عمر 48 سال
ائمہ معصومینؑ

امام علیؑ • امام حسنؑ  • امام حسینؑ • امام سجادؑ • امام محمد باقرؑ • امام صادقؑ  • امام موسی کاظمؑ • امام رضاؑ  • امام محمد تقیؑ  • امام علی نقیؑ • امام حسن عسکریؑ • امام مہدیؑ
 

حسن بن علی بن ابی طالب امام حسن مجتبیؑ

(350ھ) کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کے پہلے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔ آپ کی امامت کا دورانیہ دس سال (4050ھ) پر محیط ہے نیز آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں سے آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

تاریخی شواہد کی بنا پر آپ کا اسم گرامی "حسن” پیغمبر اکرمؐ نے رکھا تھا اور حضورؐ آپ سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔

خلیفہ دوم کی طرف سے اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں بطور گواہ حاضر تھے۔ اس کے علاوہ خلیفہ اول اور دوم کے زمانے میں آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص بات تاریخ میں ثبت نہیں ہوئی۔ اسی طرح خلیفہ سوم کے دور میں ہونے والی بعض جنگوں میں بھی آپ کی شرکت کے حوالے سے تاریخ میں بعض شواہد ملتے ہیں۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت کے دوران امام علیؑ کے حکم سے آپ عثمان کے گھر کی حظافت پر مأمور ہوئے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اس واقعے میں آپ زخمی بھی ہوئے تھے۔ امام علیؑ کی خلافت کے دروان آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ کوفہ تشریف لائے اور جنگ جمل اور جنگ صفین میں اسلامی فوج کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔

21 رمضان 40ھ کو امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن تقریبا 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کیں۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کیا۔ یہاں تک کہ ایک خوارج کے ہاتھوں امام پر سوء قصد بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں آپؑ زخمی ہوئے اور علاج کیلئے آپ کو مدائن لے جایا گیا۔ اسی دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے معاویہ کو خط لکھا جس میں امامؑ کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کرنے یا آپ کو شہید کرنے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ معاویہ نے کوفہ والوں کے خطوط کو بھی امامؑ کی طرف بھیجا اور آپ کو صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؑ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ معاویہ کے ساتھ ہونے والے صلح کی وجہ سے بعض شیعہ آپ سے ناراض ہوگئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین” (مؤمنین کو خوار و ذلیل کرنے والا) کے نام سے یاد کرنے لگا۔

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ کو مدینہ واپس آئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی اور اجتماعی طور پر بھی مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولیعہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجا تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کریں۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔ ایک قول کی بنا پر آپؑ نے اپنے نانا رسول خداؑ کے جوار میں دفنائے جانے کی وصیت کی تھی لیکن مروان بن حکم اور بنی امیہ کے بعض دوسرے لوگوں نے اس کام سے منع کیا یوں آپ کو بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل اور مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپؑ اصحاب کسا کے چوتھے رکن ہیں جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے 20 یا 25 دفعہ پیدل حج ادا کیا۔آپؑ کی احادیث اور مکتوبات کا مجموعہ نیز آپ کے 138 راویوں کا نام مسند الامام المجتبیؑ نامی کتاب میں جمع کیا گیا ہے۔

مختصر تعارف

حسن بن علی بن ابی‌ طالب امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑکے سب سے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔[1] آپ کا نسب بنی‌ہاشم اور قریش تک منتہی ہوتا ہے۔[2]

  • نام، کنیت اور القاب
  • "حسن” اور "حسین” عبرانی زبان کے لفظ "شَبَّر” اور "شَبیر”(یا شَبّیر)،[5] کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔[6] اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔[7]آپؑ کی کنیت "ابومحمد” اور "ابوالقاسم” ہیں۔[8] آپ کے القاب میں مجتبی(برگزیدہ)، سَیّد (سردار) اور زَکیّ (پاکیزہ) مشہور ہیں۔[9] آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کے ساتھ مشترک ہیں جن میں "سیّد شباب اہل الجنۃ”، "ریحانۃ نبیّ اللہ”[10] اور "سبط” ہیں۔[11] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں یوں آیا ہے: "حسن” اسباط میں سے ایک ہے”۔[12] آیات و روایات کی رو سے "سبط” اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔[13]

    امامت

    حسنؑ بن علیؑ شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپؑ 21 رمضان سنہ 40ھ کو اپنے والد ماجد امام علیؑ کی شہادت کے بعد امامت کے عہدے پر فائز ہوئے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔[14] شیخ کلینی(متوفی 329ھ) نے اپنی کتاب کافی میں امام حسنؑ کو منصب امامت پر نصب کئے جانے سے مربوط احادیث کو جمع کیا ہے۔[15] ان روایات میں سے ایک کے مطابق امام علیؑ نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اولاد اور شیعہ بزرگان کے سامنے اس کتاب اور تلوار کو اپنے فرزند ارجمند امام حسنؑ کو عطا فرمایا جو امامت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بعد آپ کے فرزند "حسن بن علیؑ” کو اپنا جانیشن اور وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔[16] ایک اور حدیث کے مطابق امام علیؑ نے کوفہ تشریف لے جانے سے پہلے امامت کی مذکورہ نشانیوں کو ام سلمہ کے حوالے فرمایا جسے امام حسنؑ نے کوفہ سے واپسی پر ام سلمہ سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔[17] شیخ مفید (متوفی 413ھ) نے اپنی کتاب ارشاد میں یوں تحریر کیا ہے کہ حسن بن علیؑ ان کی خاندان میں اپنے والد ماجد امام علیؑ کے جانشین اور وصی ہیں۔[18]

    اسی طرح آپؑ کی امامت پر رسول خدا سے نقل ہونے والی بعض احادیث بھی صراحتا دلالت کرتی ہیں: اِبنای ہذانِ امامان قاما او قَعَدا(ترجمہ: این یہ میرے دونوں بیٹے(حسنؑ اور حسینؑ) تمہارے امام ہیں چاہے یہ قیام کریں یا صلح۔)»[19] اسی طرح حدیث ائمہ اثنا عشر[20] سے بھی آپ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔[21]

    امام حسنؑ اپنی امامت کے ابتدائی مہینوں میں جس وقت آپ کوفہ میں تشریف رکھتے تھے، منصب خلافت پر بھی فائز تھے لیکن بعد میں معاویہ کے ساتھ کے بعد خلافت سے دستبردار ہوئے خلافت سے کنارہ کشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔

    انگوٹھی کا نقش

    امام حسن مجتبیؑ کی انگشتری کے دو نقش منقول ہیں: الْعِزَّۃُ لِلَّہِ؛[22] اور حَسْبِی اللَّہُ۔[23]

    بچپن اور جوانی کا زمانہ

    مشہور قول کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت 15 رمضان سنہ 3 ہجری ہے۔[24] لیکن بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت سنہ 2 ہجری بھی لکھا گیا ہے۔[25] آپ مدینہ میں پیدا ہوئے[26]، پیغمبر اکرمؐ نے آپ کی کان میں اذان دی [27] اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کے ذبح کر کے آپ کا عقیقہ کیا گیا۔[28]

    بعض منابع کے مطابق امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی توسط سے آپ کا نام "حسن” رکھنے سے پہلے اپنے بیٹے کا نام حمزہ[29] یا حرب[30] رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب رسول خدا نے امام علی سے سوال کیا کہ اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو آپ نے فرمایا میں اس کام میں خدا اور اس کے رسول پر پہلی نہیں کرونگا۔[31]

    بچپن اور نوجوانی

    آپ کی بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں۔[32] آپ نے صرف آٹھ سال سے بھی کم عرصہ اپنے نانا رسول خداؐ کی زندگی کو درک کیا[نوٹ 1]اس بنا پر آپ کا نام پیغمبر اکرمؑ کے اصحاب کے آخری طبقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔[33]

    آپؑ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بے پناہ محبت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت منابع میں بہت سی واقعات ذکر کی گئی ہیں۔[34]

    آپ کی زندگی کے اس دور کا اہم ترین واقعہ اپنے والدین، بھائی اور نانا رسول خداؐ کے ہمراہ نجران کے عیسائیوں ساتھ ہونے والے مباہلے میں شرکت ہے اور آیہ مباہلہ میں موجود لفظ "اَبناءُنا” کا مصداق بنا۔[35] سید جعفر مرتضی کے بقول آپؑ بیعت رضوان میں بھی موجود تھے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی حضورؐ کی بیعت کیں۔[36] قرآن کی بعض آیات آپ اور اصحاب کساء کے دوسرے ارکان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔[37] کہا جاتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے نانا رسول خداؐ کے مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضورؐ پر وحی ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کو مطلع کرتے تھے۔[38]

    سلیم بن قیس (متوفی پہلی صدی کے اواخر) نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر نے جب خلافت پر قبضہ کیا تو حسن بن علی اپنے والد ماجد امام علی، والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اور بہائی امام حسینؑ کے ساتھ رات کو انصار کے گھروں میں جاتے تھے اور ان کو حضرت علیؑ کی مدد کرنے کی دعوت دیتے تھے۔[39] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ منبر رسول پر ابوبکر کے بیٹھنے کا مخالف تھا اور اس حوالے سے اپنی نارضایتی کا اظہار کرتے تھے۔[40]

    جوانی

    امام حسنؑ کے ایام جوانی سے متعلق معلومات انتہائی محدود ہیں، کتاب "الامامۃ و السیاسۃ” کے مطابق خلیفہ دوم کے حکم سے حسن بن علیؑ خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں گواہ کے عنوان سے حاضر ہوئے۔[41]

    اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ حسنینؑ سنہ 26 ہجری قمری کو جنگ افریقیہ[42] اور سنہ 29 یا 30 ہجری قمری کو جنگ طبرستان[43] میں شریک تھے۔ البتہ ان احادیث کی صحت و سقم سے متعلق محدثین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ان احادیث کے سندی اشکالات اور ائمہ معصومین کی جانب سے فتوحات کی مخالفت پر منی طرز زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علماء من جملہ جعفر مرتضی عاملی نے ان احادیث کو جعلی قرار دیئے ہیں اور اپنی بات کی تائید میں امام علیؑ کی طرف سے حسنینؑ کو جنگ صفین میں شرکت کی اجازت نہ دینے کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔[44] ویلفرد مادلونگ کہتے ہیں کہ امام علیؑ اپنے فرزند ارجمند کو عالم جوانی میں جنگی امور سے آشنا کرکے ان امور سے متعلق آپ کے تجربات میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔[45] بعض علماء کا خیال ہے کہ حسنین شریفین کا خلفاء کے دور میں مختلف فتوحات میں شامل ہونا امت اسلامی کی مصلحت اور امام علیؑ کو اسلامی معاشرے کے گوشہ و کنار سے آگاہ کرنے نیز لوگوں کو اہل بیتؑ سے آشنا کرنے کیلئے تھا۔[46]

    آپ کی زندگی کے اس دور سے متعلق نقل ہونے والے دیگر اہم واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ عثمان کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان کے پاس بھجتے ہیں۔[47] بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں قتل کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔[48] قاضی نعمان مغربی (متوفی 363ھ) جو کتاب دلائل الامامۃ کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد ماجد امام علیؑ کے حکم پر عثمان کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔[49] بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔[50]

    ازواج اور اولاد

    تفصیلی مضمون: ازواج امام حسن

    امام حسنؑ کی ازواج کی تعداد کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ تاریخی میں آپ کے صرف 18 ازواج کا نام درج ہے،[51] ان کی تعداد 250،[52] 200،[53] 90[54] اور 70[55] تک بیان کی گئی ہیں۔

    بعض منابع میں آپ کو شادی اور طلاق کی کثرت کی وجہ سے "مِطلاق” (بہت زیادہ طلاق دینے والا) کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[56] اس کے علاوہ آپ کی بعض کنیزیں بھی تھیں جن سے آپ صاحب فرزند بھی تھے۔[57]

    البتہ آپ کو "مطلاق” کہنے والی بات کو بعض پرانے اور معاصر منابع میں تاریخی، سندی اور محتوایی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔[58]

    مادلونگ کے بقول پہلا شخص جس نے یہ شایع کیا تھا کہ امام حسنؑ کی زوجات کی تعداد 90 ہیں، وہ "محمد بن کلبی” تھا اور یہ تعداد "مدائنی” (225ھ) کی جعلیات میں سے تھی۔ اس کے باوجود خود کلبی نے آپ کی گیارہ زوجات کا نام لیا ہے جن میں سے 5 کا امام کی ازواج میں سے ہونا بھی مشکوک ہے۔[59] قرشی اس خبر کو بنی عباس کا سادات حسنی کے مقابلے میں اٹھایا جانے والے اقدامات میں شمار کرتے ہیں۔[60]

    آپ کی اولاد کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ مفید نے آپ کی اولاد کی تعداد 15 ذکر کئے ہیں۔[61]

  • ازواج اولاد
    جعدہ
    ام بشیر زید، ام الحسن و ام الحسین
    خولہ حسن مثنی
    حفصہ
    ام اسحاق حسین، طلحہ و فاطمہ
    ہند
    نَفیلہ یا رَملہ عمر، قاسم و عبداللہ
    بعض دیگر ازواج عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ و رقیہ

    طبرسی نے امام حسنؑ کی اولاد کی تعداد 16 بتاتے ہوئے ابوبکر کو بھی آپ کی اولاد میں شمار کیا ہے جو واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے تھے۔[62]

    • نسل امام حسن
    تفصیلی مضمون: سادات حسنی

    نسل امام حسنؑ حسن مثنی، زید، عمر اور حسین اثرم سے چلی ہے۔ حسین اور عمر کی نسل کچھ عرصہ بعد ختم ہوئی اور صرف حسن مثنی اور زید بن حسن کی نسل باقی رہی،[63] جنہیں سادات حسنی کہا جاتا ہے۔[64] آپ کی نسل سے بہت ساری شخصیات نے دوسری اور تیسری صدی کے دوران بنی عباس کی حکومت کے خلاف مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں کی قیادت کی اور اسلامی دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں مختلف حکومتیں قائم کی ہیں۔ یہ شخصیات بعض مناطق میں شُرَفاء کے نام سے معروف‌‌ تھے۔[65]

    امام علی کا دور خلافت اور کوفہ میں قیام

    امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کے چار سالہ دور خلافت میں شروع سے لے کر آخر تک اپنے والد گرامی کے ساتھ رہے۔[66] کتاب الاختصاص کے مطابق حسن بن علیؑ نے لوگوں کی طرف سے امام علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے بعد اپنے والد ماجد کے حکم سے ممبر پر تشریف لے جا کر لوگوں سے خطاب فرمایا۔[67] وقعۃ صفین نامی کتاب کے مطابق امام علیؑ کا کوفہ میں آنے کے پہلے دن سے ہی حسن بن علی بھی اپنے والد ماجد کے ساتھ کوفہ میں قیام پذیر ہوئے۔[68]

    جنگ جمل میں

    تفصیلی مضمون: جنگ جمل

    ناکثین کی عہد شکنی اور شورش کے بعد امام علیؑ لشکر لے کر ان کا مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں امام حسنؑ نے امام علیؑ کو اس جنگ سے دور رہنے کی درخواست کی۔[69] [نوٹ 2]شیخ مفید (متوفی413ھ) کے مطابق امام حسنؑ اپنے والد گرامی کی طرف سے عمار بن یاسر اور قیس بن سعد کے ساتھ کوفہ جا کر لوگوں کو امام علیؑ کے لشکر میں شامل ہونے کیلئے آمادہ کرنے پر مأمور ہوئے۔[70] آپ نے کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا اور امام علیؑ کے فضائل اور آپ کے مقام و منزلت نیز ناکثین (طلحہ‌ و زبیر) کی عہد شکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو امام علیؑ کی مدد کرنے کی درخواست کی۔[71]

    جنگ جمل میں جب عبداللہ بن زبیر نے امام علیؑ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائی تو امام حسنؑ نے ایک خطبہ دیا جس میں عثمان کے قتل میں طلحہ اور زبیر کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا۔[72] امام حسن مجتبیؑ اس جنگ میں لشکر اسلام کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔[73] ابن شہر آشوب سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اس جنگ میں اپنا نیزہ محمد حنفیہ کو دیا اور عایشہ کی اونٹنی کو مار دینے کا کہا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اس کے بعد امام حسنؑ نے اس کام کی ذمہ داری سنبھالی اور عایشہ کی اونٹنی کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوئے۔[74] بعض منابع میں آیا ہے کہ جنگ جمل کے بعد امام علیؑ بیمار ہوئے اس موقع پر آپ نے بصرہ میں نماز جمعہ پڑھانے کی ذمہ داری امام حسنؑ کے سپرد کیا۔ آپ نے نماز جمعہ کے خطبے میں اہل بیتؑ کے مقام و منزلت اور ان کے حق میں کوتاہی کرنے کے انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔[75]

    جنگ صفین میں

  • نصر بن مزاحم (متوفی 212ھ) کے بقول امام حسنؑ نے صفین کی طرف لشکر کے روانہ ہونے سے قبل ایک خطبہ دیا جس میں لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔[76] بعض احادیث کے مطابق جنگ صفین میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ لشکر کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔[77] اسکافی (متوفی 240ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب حسنؑ بن علیؑ کا جنگ کے دوران لشکر شام کے کسی بزرگ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے امام حسنؑ کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے رسول خداؐ کو اونٹ پر سوار ہو کر میری طرف آتے دیکھا اور آپ ان کے آگئے اسی اونٹ پر سوار تھے۔ میں نہیں چاہتا رسول خداؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ آپ کا خون میرے گردن پر ہو۔[78]
  • کتاب وقعۃ صفین میں آیا ہے کہ عبیداللہ بن عمر (فرزند خلیفہ دوم) نے حسن بن علیؑ سے ملاقات میں آپ کو اپنے والد گرامی کی جگہ خلافت قبول کرنے کی پیشکش کی کیونکہ قریش علیؑ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ امام حسنؑ نے جواب میں فرمایا: خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔اس کی بعد فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم آج یا کل مارے جاؤگے اور شیطان نے تمہیں دھوکا دیا ہوا ہے۔ مذکورہ کتاب کے مطابق عبیداللہ بن عمر اسی جنگ میں مارا گیا۔[79] جنگ کے خاتمے اور حکمیت کے واقعے پر بعد امام حسنؑ نے اپنے والد ماجد کے حکم سے لوگوں سے خطاب فرمایا۔[80]صفین سے واپسی پر راستے میں امام علیؑ نے اخلاقی تربیتی موضوع پر مشتمل ایک خط اپنے فرزند امام حسنؑ کے نام لکھا،[81] جو نہج البلاغہ میں مکتوب نمبر 31 کے عنوان سے آیا ہے۔[82]کتاب "الاستیعاب” میں آیا ہے کہ حسن بن علیؑ نے جنگ نہروان میں بھی شرکت کی۔[83]

    اس دور سے متعلق دیگر واقعات میں سے ایک امام علیؑ کی وصیت کے تحت آپ کی جانب سے انجام پانے والے خیریہ امور جیسے وقف اور صدقات وغیرہ کی نگرانی آپؑ بعد امام حسنؑ کے سپرد کیا جانا ہے۔[84] کافی کے مطابق یہ وصیت 10 جمادی الاولی سنہ 37ھ کو لکھی گئی۔[85] بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام علیؑ اپنی زندگی کے آخری ایام میں معاویہ کے ساتھ مقابلہ کیلئے دوبارہ تیاری کر رہے تھے جس میں آپ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کو اپنی فوج کے دس ہزار نفری کا سپہ سالار مقرر فرمایا۔[86]

    خلافت کا مختصر دور

    امام حسن مجتبیؑ 21 رمضان سنہ 40ھ[87] کو اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد 6 سے 8 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔[88] اہل سنت پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث کی رو سے آپ کو خلفائے راشدین میں سے آخری خلیفہ جانتے ہیں۔[89] آپ کی خلافت عراق کے لوگوں کی بیعت اور دوسرے مناطق کی حمایت سے شروع ہوئی۔[90] لیکن شام والوں نے معاویہ کی قیادت میں اس بیعت کی مخالفت کی۔[91] معاویہ لشکر لے کر شام سے اہل عراق کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوا۔[92] آخر کار یہ جنگ امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان صلح نیز خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے ساتھ اختتام ہوا یوں معاویہ خلافت بنی امیہ کا پہلا خلیفہ بن گیا۔[93]

    مسلمانوں کی بیعت اور اہل شام کی مخالفت

    شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ 40ھ کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کیں۔[94] بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبید اللہ بن عباس پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔[95] کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ 21 رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا جس میں اپنے والد گرامی کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنی ذاتی کمالات نیز اہل بیت کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔[96] آپ کی تقریر کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوا: اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔ اس کے بعد لوگوں نے نے آپ کی بعنوان خلیفہ بیعت کیں۔[97] منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔[98] بعض منابع کے مطابق قیس بن سعد بن عبادہ جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔[99]

    حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بہت سارے اصحاب جو اس وقت کوفہ میں مقیم تھے، نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔[100] جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔[101] وہ کہتے ہیں کہ یمن اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔[102]

    بعض منابع میں آیا ہے کہ بیعت کے وقت بعض شرائط کا بھی ذکر کیا گیا تھا، کتاب "الامامۃ و السیاسۃ” کے مطابق انہی شرائط کے ضمن میں جسن بن علیؑ نے لوگوں سے کہا: آیا میری اطاعت کرنے کی بیعت کرتے ہو؟۔ آیا جس سے میں جنگ کروں اس سے جنگ اور جس سے میں صلح کروں اس سے صلح کروگے؟ لوگ ان باتوں کو سننے کے بعد شک و تردید میں پڑ گئے اور حسین بن علیؑ کے پاس گئے تاکہ ان کی بیعت کی جائے، لیکن آپ نے فرمایا: میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں جب تک میرے بھائی حسنؑ زندہ ہیں تم لوگوں سے بیعت نہ کروں۔ اس کے بعد لوگ دوبارہ حسن بن علیؑ کے پاس لوت آئے اور ان کی بیعت کیں۔[103] طبری (متوفی 310ھ) کہتے ہیں: قیس بن سعد نے بیعت کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ آپ کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر عمل کریں گے اور ان لوگوں سے جنگ کریں گے جو مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں۔ لیکن امام حسنؑ نے صرف کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی شرط کو قبول کیا اور دوسری شرط کو پہلے شرط سے ماخوذ قرار دیا۔[104] اس طرح کے مختلف واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ امام حسنؑ ایک صلح پسند اور جنگ‌ گریز شخیت کے مالک تھے اور آپ کی سیرت اپنے والد گرامی اور بھائی امام حسینؑ سے مختلف تھی۔[105]

    رسول جعفریان معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔[106] بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔[107]

    معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح

    امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔[108] جب عراق کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ حجاز، یمن اور فارس[109] والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن شام والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے معاویہ کی بیعت کی۔[110] معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ رکھا تھا جسے وہ اپنی تقاریر اور امام حسنؑ کے ساتھ ہونے والے خط و کتابت میں برملا اظہار کرتا تھا۔[111] معاویہ جو عثمان کے قتل کے بعد خلافت کیلئے پر طول رہا تھا،[112] لشکر لے کر شام سے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔[113] تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد گرامی کی شہادت اور عراق والوں کی آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے 50 دن تک جنگ یا صلح کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔[114] لیکن جب آپ کو معاویہ کے شام سے حرکت کرنے کی خبر دی گئی تو آپ بھی لشکر لے کر کوفہ سے راونہ ہو گیا اور عبیداللہ بن عباس کی سربراہی میں ہراول دستہ معاویہ کی طرف روانہ کیا۔[115]

    دونوں سپاہیوں کے درمیان جنگ

    دونوں سپاہیوں کے درمیان پہلی تصادم کے بعد جس میں معاویہ کے سپاہیوں کو شکست ہوئی، معاویہ نے رات کی تاریکی میں عبیداللہ کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن علیؑ نے مجھے صلح کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ خلافت میرے حوالے کرے گا۔ ساتھ ساتھ معاویہ نے عبیدالله کو ایک میلین درہم دینے کا بھی وعدہ دیا یوں عبیدالله معاویہ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد قیس بن سعد نے لشکر کی کمانڈ سنبھالی۔[116] بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبیداللہ کے معاویہ کی طرف جانے کے بعد معاویہ اس خیال سے کہ اب امام حسنؑ کا لشکر کمزور ہ گیا ہے، ان پر بھر پور حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن امام کے سپاہیوں نے قیس کی قیادت میں شامیوں کو شکست دیا۔ معاویہ نے قیس کو بھی عبیداللہ کی طرح لالچ دے کر اسے بھی راستے سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔[117]

    ساباط میں امام کی صورت حال

    امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ ساباط تشریف لے گئے۔ شیخ مفید کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے…؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا ہے…”

    امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کر کے خلافت معاویہ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی بہانے بعض لوگوں نے امام کے خیمے پر حملہ کیا اور اسے غارت کرنا شروع کیا یہاں تک کہ امامؑ کی جائے نماز تک کو بھی آپ کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ کر لے گئے۔[118] لیکن یعقوبی (متوفی 292ھ) کے مطابق اس حادثے کی علت یہ تھی کہ معاویہ نے مذاکرات کیلئے چند لوگوں کو امام حسنؑ کے پاس بھیجا تھا۔ ان لوگوں نے جب امام کے پاس سے واپس آئے تو بلند آواز میں لوگوں تک آواز پہنچاتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا: خدا نے فرزند رسول خدا کے توسط سے مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرمایا اور فتنہ کو خاموش کیا اور حسن بن علیؑ نے صلح کو قبول کیا۔ جب باتیں امام کے سپاہیوں نے سنی تو وہ غصے میں آگئے اور امام کے خیمے پر حملہ آور ہوئے۔[119] اس واقعے کے بعد امامؑ کے اصحاب نے آپ کی حفاظت اپنے ذمے لئے لیکن رات کی تاریکی میں ایک خارجی[120] آپ کے قریب آیا اور کہا: اے حسن آپ مشرک ہو گئے ہو جس طرح آپ کے والد علی بن ابی طالب مشرک ہو گئے تھے؛ یہ کہہ کر اس نے ایک خنجر سے امام پر وار کیا جس سے امام کا ران زخمی ہوا اور آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔[121] وہاں سے آپ کو مدائن لے جایا گیا جہاں پر آپ زخم ٹھیک ہونے تک سعد بن مسعود ثقفی کے گھر مقیم رہے۔[122]

    معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ رسول جعفریان کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور شیعوں کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔[123] اس قرارداد کے مطابق خلافت معاویہ کے سپرد کیا گیا۔[124]

    معاویہ کے نام امام حسنؑ کے خط کا ایک حصہ

    جب پیغمبر اکرمؐ رحلت فرما گئے تو عربوں نے ان کی جانشینی پر اختلاف کھڑا کیا، قریشیوں نے کہا: ہم پیغمبرؐ کے ہم قوم اور رشتہ دار ہیں لہذا ان کی جانشینی پر ہم سے اختلاف سزاوار نہیں۔ عربوں نے قریش والوں کی اس دلیل کو قبول کیا لیکن جب ہم نے قریش والوں سے وہی کہا جو انہوں نے دوسرے عربوں سے کہا تھا تو انہوں نے عربوں کے بر خلاف ہمارے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔ اے معاویہ آج اس منصب کی طرف تمہاری نظریں اٹھنے سے سب کو حیرت میں ڈھوبنا چاہئے کیونکہ تم اس کا اہل ہی نہیں ہو، تم اسلام مخالف ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہو، قریش میں رسول خداؐ کے سب سے بدترین دشمن تم ہو۔ جب حضرت علیؑ شہید ہوئے تو مسلمانوں نے خلافت میرے حوالے کئے ہیں۔ پس باطل سے ہاتھ اٹھا کر میری بیعت کرو اور تم خود اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ اس منصب کیلئے خدا کے نزدیک میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔

    ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۴۔
  • امام حسنؑ کے نام معاویہ کے خط کا ایک حصہ

    اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ تہذیب، امت اسلام کی مصلحت اندیشی، سیاست، اور مال و دولت جمع کرنے نیز دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مجھ سے بہتر اور طاقتور ہوتے تو میں آپ کی بیعت کرتا لیکن چونکہ میں ایک طولانی مدت تک بر سر اقتدار رہنے کی وجہ سے زیادہ باتجریہ اور سیاستمدار ہوں نیز عمر کے لحاظ سے بھی میں آپ سے بڑا ہوں پس سزاوار ہے کہ آپ میری حاکمیت کو قبول کریں۔

    ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷۔
امام حسنؑ نے معاویہ کی موجودگی میں ایک خطبے میں فرمایا:

معاویہ بن صخر نے یہ گمان کیا ہوا ہے کہ میں انہیں خلافت کی نسبت اپنے سے سزوار سمجھتا ہوں۔ وہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ خدا کی قسم قرآن اور احادیث رسول خدا میں اس منصب کیلئے تمام لوگوں سے زیادہ ہم سزاوار ہیں، لیکن ہم اہل بیتؑ، پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد سے مظلوم واقع ہوئے ہیں۔ خدا ہم اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے۔

مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۱۰، ص۱۴۲.

معاویہ سے صلح کا واقعہ

شام اور عراق کے سپاہیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہی امام حسنؑ مورد حملہ قرار پاکر زخمی ہوئے جس کی وجہ سے آپ کو مداوا کے لئے مدائن لے جایا گیا۔[125]مدائن میں امام حسنؑ کے معالجے کے دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے مخفیانہطور پر معاویہ کو خط کے ذریعے حمایت اور اطاعت کا وعدہ دیا۔ انہوں نے معاویہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور انہیں وعدہ دیا کہ حسن بن علیؑ کو قتل کر دیں گے یا ان کے حوالے کر دیں گے۔[126] شیخ مفید (متوفی 413ھ) کے مطابق جب امام حسنؑ کو کوفہ والوں کی غداری اور عبیدالله بن عباس کا معاویہ کے ساتھ مل جانے کی خبر ملی اور دوسری طرف سے اپنے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی کا مشاہدہ کیا تو آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اہل شام اور معاویہ کے عظیم لشکر کے مقابلہ صرف آپ کے حقیقی پیروکاروں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جن کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔[127] زید بن وہب جہنی نقل کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے مدائن میں قیام کے دوران ان سے فرمایا: "خدا کی قسم اگر میں معاویہ کے ساتھ جنگ کروں تو یہ عراق والے میری گردن پکڑ کر مجھے معاویہ کے حوالے کر دے گا۔ خدا کی قسم اگر باعزت طریقے سے معاویہ کے ساتھ صلح کرنا معاویہ کے ہاتھوں اسیر ہو کر قتل ہونے یا میرے اوپر منت چڑا کر میرے قتل سے صرف نظر کرکے ہمیشہ کیلئے بنی ہاشم کو رسوا کرنے سے بہتر ہے۔”[128]

معاویہ کی جانب سے صلح کی پیشکش

یعقوبی کے مطابق معاویہ کی طرف سے جنگ کو صلح کے ذریعے خاتمہ دینے کیلئے مختلف حربے بروی کار لایا گیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک طرف سے اس نے اپنے جاسوسوں کو امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان بھیج کر یہ شایع کرنا شروع کیا کہ قیس بن سعد بھی معاویہ کے ساتھ جا ملے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سے اس نے اپنے بعض جاسوسوں کو قیس کے سپاہیوں کے درمیان بھیج کر یہ شایع کرنا شروع کیا کہ امام حسنؑ نے صلح کی پیشکش کو قبول کیا ہے۔[129] اسی طرح معاویہ نے کوفیوں کی جانب سے اپنی حمایت میں لکھے گئے خطوط کو امام حسنؑ کی طرف بھیجا اور آپؑ کو صلح کی پیشکش کی۔ شیخ مفید کے مطابق امام حسنؑ کو اگرچہ معاویہ پر اعتماد نہیں تھا اور آپ اس کی چالاکیوں سے بخوبی آگاہ تھے لیکن آپ کو صلح کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا۔[130] بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے سفید کاغذ پر مہر اور دستخط کر کے امام حسنؑ کی خدمت میں بھیجا تاکہ صلح کے شرائط امام اپنی مرضی کے مطابق تعیین کریں۔[131] امام حسنؑ نے درپیش صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے صلح اور جنگ کے حوالے سے لوگوں سے رائ طلب فرمایا۔ اس موقع پر سب نے "البقیة البقیة” کا نعرہ بلند کر کے صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کی حامی بھر لی۔[132] یوں امام حسنؑ نے صلح کو قبول فرمایا جس کی تاریخ 25 ربیع‌الاول سنہ 41 ہجری قمری ہے۔[133] جبکہ بعض منابع میں ربیع الاخر یا جمادی الاولی[134] کی 25 تاریخ ذکر ہوئی ہے۔

صلح کے مندرجات

اس صلح نامے کے مندرجات کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔[135] من جملہ وہ مواد یہ ہیں:

  1. خلافت معاویہ کے سپرد کی جائیگی بشرط اینکہ وہ قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل پیرا ہو۔
  2. معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا۔
  3. شیعیان حیدر کرار سمیت تمام لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔[136]

شیخ صدوق کہتے ہیں کہ امام حسنؑ نے خلافت معاویہ کے حوالے کرتے وقت اس شرط پر اس کی بیعت فرمائی کہ اسے امیر المؤمنین کہہ کر نہ پکارا جائے۔[137]

بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ معاویہ کے بعد خلافت خود امامؑ کی طرف منتقل ہوگی اس کے علاوہ معاویہ 5 میلین درہم امام حسنؑ کو دے گا۔[138] بعض محققین کا خیال ہے کہ ان دو شرطوں کو امام حسنؑ کے نمائندے نے اضافہ کیا تھا جسے امام حسنؑ نے قبول نہیں کیا اور ان دو شرطوں کے بارے میں فرمایا معاویہ کے بعد خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی باہمی مشورت حل و فصل ہو گا اور معاویہ کو بیت المال میں اس طرح کی تصرف کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔[139] بعض مورخین کا خیال ہے کہ مال دینے کی شرط خود معاویہ یا اس کے نمائندے نے رکھی تھی[140]

خلافت سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو امام مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔[141]

رد عمل اور اثرات

منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا[142] یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین”(مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگا۔[143] امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام” کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ صلح حدیبیہ کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو حضرت خضر اور حضرت موسی کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔[144]

متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا[145] اور حجر بن عدی سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔[146] تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔[147] اسی طرح اس نے مزید کہا: میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کیا بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔[148]

امام حسنؑ:

اے لوگو! اگر مشرق سے مغرب تک ڈھونڈو گے تو میں اور میرے بھائی کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤگے جس کا نانا رسول خداؐ ہو۔ بتحقیق معاویہ ایک ایسی چیز(خلافت) میں جو میرا مسلمہ حق ہے، میری مخالفت پر اتر آیا ایسے میں میں نے امت کی مصلحت کی خاطر اپنے حق سے چشم پوشی کیا۔

ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۳۴.

مدینہ میں دینی مرجعیت

حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے گئے[149] اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ اس دوران آپؑ نے صرف مکہ[150] اور شام[151] کا سفر کیا۔ کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی وصیت سے مختلف امور من جملہ وقف اور صدقات کا متولی بھی تھے۔[152]

مرجعیت علمی

مدینے میں لوگوں کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کی خاطر امام حسنؑ کی طرف سے برگزار ہونے والے علمی محافل کا تذکرہ مختلف منابع میں ملتا ہے۔ ابن سعد (متوفی 230ھ)، بلاذری (متوفی 279ھ) اور ابن عساکر (متوفی 571ھ) نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علیؑ صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہرین کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی روٹین ہوتی تھی۔[153] کتاب الفصول المہمۃ میں بھی آیا ہے کہ حسن بن علیؑ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر مختلف موضوعات پر آپ سے سوال کرتے تھے جس کا آپ جواب دیتے تھے۔[154]

مذکورہ تمام باتوں کے باوجود مہدی پیشوایی کے مطابق حسن بن علیؑ مدینہ میں قیام کے دوران لوگوں کی طرف سے عدم توجہ کی بنا پر ایک طرح سے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جس کی وجہ سے اس وقت کا معاشرہ اخلافی تنزلی کا شکار ہوا۔[155]

سماجی مقام و منزلت

بعض تاریخی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کو اس وقت کے سماج میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ابن سعد (متوفی 230ھ) کہتے ہیں کہ جب لوگ حج کے موقع پر حسن بن علیؑ کو دیکھتے تو ان سے متبرک ہونے کے لئے ان کی طرف ہجوم لے جاتے تھے یہاں تک کہ حسین بن علیؑ بعض دوسرے افراد کی مدد سے لوگوں کو آپ سے دور کرتے تھے۔[156] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ابن عباس بزرگان صحابہ[157] اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑے ہونے کے باوجود حسن ابن علیؑ کے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت ان کے لئے گھوڑے کے رکاب پکڑتے تھے۔[158]

سیاست سے دوری اور معاویہ کا ساتھ نہ دینا

امام حسنؑ کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد خوارج میں سے ایک گروہ معاویہ سے جنگ کے لئے نخیلہ نامی مقام پر جمع ہوئے۔ معاویہ نے امام حسنؑ کے نام ایک خط میں آپ سے واپس آکر خوارج سے جنگ کرنے کی درخواست کی۔ امامؑ نے معاویہ کی اس درخواست کو رد کرتے ہوئے ان کے خط کے جواب میں فرمایا: اگر اہل قبلہ میں سے کسی سے جنگ کرنا تھا تو سب سے پہلے تمہارے ساتھ جنگ کرتا۔[159] اسی طرح حوثرہ اسدی کی قیادت میں خوارج کے ایک اور گروہ نے معاویہ کے خلاف قیام کیا تو معاویہ نے پھر وہی درخواست دہرائی اس کے جواب میں امامؑ نے بھی وہی جواب دہراتے ہوئے معاویہ سے لڑنے کو زیادہ سزاوار قرار دئے۔[160]

بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ نے نہ فقط معاویہ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کے بہت سارے اقدامات پر اعتراض بھی فرمایا کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود آپ معاویہ کی جانب سے بھیجے گئے تحفے تحائف کو قبول فرماتے تھے۔[161] ان تحائف کے ساتھ معاویہ سالانہ ایک میلین درہم[162] یا ایک لاکھ دینار[163] تک امام حسنؑ کی خدمت میں ارسال کرتے تھے۔ اس رقم سے کبھی اپنے قرضہ جات کو ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم کو اپنے ماتحت افراد اور رشتہ داروں میں تقسیم فرماتے تھے۔[164] اور کبھی ان تمام تحائف کو دوسرں میں تقسیم کرتے تھے۔[165] بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی بنا پر حسن بن علیؑ معاویہ کی طرف سے بھیجے گئے تحائف کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔[166] یوں اس قسم کے احادیث کی وجہ سے بعض لوگوں میں شک و تردید[167] ایجاد ہوتے اور چہ بسا ان سے متعلق کلامی اعتبار سے بعض بحث و مباحثے بھی وجود میں آتے تھے۔ مثلا سید مرتضی معاویہ سے مال دریافت کرنے اور ان سے صلہ رحمی کو امام حسنؑ کے لئے جایز بلکہ لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے والے حکمرانوں سے لوگوں کی اموال کو واپس لینا ضروری ہونے کے عنوا سے اسے واجب بھی سمجھتے تھے۔[168]

بنی امیہ کا برتاؤ

منابع میں بنی امیہ کی طرف سے امام حسنؑ کے ساتھ روا رکھنے والے برے سلوک کا تذکرہ ملتا ہے۔[169] اسی طرح کتاب احتجاج میں امام حسنؑ اور معاویہ اور اس کے کارندں کے ساتھ ہونے والے بعض مناظرات بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں آپؑ اہل بیت کے مقام و منزلت کا دفاع اور اپنے دشمنوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے تھے۔[170]

مدینہ میں دینی مرجعیت

حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے گئے[149] اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ اس دوران آپؑ نے صرف مکہ[150] اور شام[151] کا سفر کیا۔ کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی وصیت سے مختلف امور من جملہ وقف اور صدقات کا متولی بھی تھے۔[152]

مرجعیت علمی

مدینے میں لوگوں کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کی خاطر امام حسنؑ کی طرف سے برگزار ہونے والے علمی محافل کا تذکرہ مختلف منابع میں ملتا ہے۔ ابن سعد (متوفی 230ھ)، بلاذری (متوفی 279ھ) اور ابن عساکر (متوفی 571ھ) نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علیؑ صبح کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہرین کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی روٹین ہوتی تھی۔[153] کتاب الفصول المہمۃ میں بھی آیا ہے کہ حسن بن علیؑ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے اور لوگ آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر مختلف موضوعات پر آپ سے سوال کرتے تھے جس کا آپ جواب دیتے تھے۔[154]

مذکورہ تمام باتوں کے باوجود مہدی پیشوایی کے مطابق حسن بن علیؑ مدینہ میں قیام کے دوران لوگوں کی طرف سے عدم توجہ کی بنا پر ایک طرح سے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جس کی وجہ سے اس وقت کا معاشرہ اخلافی تنزلی کا شکار ہوا۔[155]

سماجی مقام و منزلت

بعض تاریخی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کو اس وقت کے سماج میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ابن سعد (متوفی 230ھ) کہتے ہیں کہ جب لوگ حج کے موقع پر حسن بن علیؑ کو دیکھتے تو ان سے متبرک ہونے کے لئے ان کی طرف ہجوم لے جاتے تھے یہاں تک کہ حسین بن علیؑ بعض دوسرے افراد کی مدد سے لوگوں کو آپ سے دور کرتے تھے۔[156] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ابن عباس بزرگان صحابہ[157] اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑے ہونے کے باوجود حسن ابن علیؑ کے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت ان کے لئے گھوڑے کے رکاب پکڑتے تھے۔[158]

سیاست سے دوری اور معاویہ کا ساتھ نہ دینا

امام حسنؑ کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد خوارج میں سے ایک گروہ معاویہ سے جنگ کے لئے نخیلہ نامی مقام پر جمع ہوئے۔ معاویہ نے امام حسنؑ کے نام ایک خط میں آپ سے واپس آکر خوارج سے جنگ کرنے کی درخواست کی۔ امامؑ نے معاویہ کی اس درخواست کو رد کرتے ہوئے ان کے خط کے جواب میں فرمایا: اگر اہل قبلہ میں سے کسی سے جنگ کرنا تھا تو سب سے پہلے تمہارے ساتھ جنگ کرتا۔[159] اسی طرح حوثرہ اسدی کی قیادت میں خوارج کے ایک اور گروہ نے معاویہ کے خلاف قیام کیا تو معاویہ نے پھر وہی درخواست دہرائی اس کے جواب میں امامؑ نے بھی وہی جواب دہراتے ہوئے معاویہ سے لڑنے کو زیادہ سزاوار قرار دئے۔[160]

بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ نے نہ فقط معاویہ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کے بہت سارے اقدامات پر اعتراض بھی فرمایا کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود آپ معاویہ کی جانب سے بھیجے گئے تحفے تحائف کو قبول فرماتے تھے۔[161] ان تحائف کے ساتھ معاویہ سالانہ ایک میلین درہم[162] یا ایک لاکھ دینار[163] تک امام حسنؑ کی خدمت میں ارسال کرتے تھے۔ اس رقم سے کبھی اپنے قرضہ جات کو ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم کو اپنے ماتحت افراد اور رشتہ داروں میں تقسیم فرماتے تھے۔[164] اور کبھی ان تمام تحائف کو دوسرں میں تقسیم کرتے تھے۔[165] بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی بنا پر حسن بن علیؑ معاویہ کی طرف سے بھیجے گئے تحائف کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔[166] یوں اس قسم کے احادیث کی وجہ سے بعض لوگوں میں شک و تردید[167] ایجاد ہوتے اور چہ بسا ان سے متعلق کلامی اعتبار سے بعض بحث و مباحثے بھی وجود میں آتے تھے۔ مثلا سید مرتضی معاویہ سے مال دریافت کرنے اور ان سے صلہ رحمی کو امام حسنؑ کے لئے جایز بلکہ لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے والے حکمرانوں سے لوگوں کی اموال کو واپس لینا ضروری ہونے کے عنوا سے اسے واجب بھی سمجھتے تھے۔[168]

بنی امیہ کا برتاؤ

منابع میں بنی امیہ کی طرف سے امام حسنؑ کے ساتھ روا رکھنے والے برے سلوک کا تذکرہ ملتا ہے۔[169] اسی طرح کتاب احتجاج میں امام حسنؑ اور معاویہ اور اس کے کارندں کے ساتھ ہونے والے بعض مناظرات بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں آپؑ اہل بیت کے مقام و منزلت کا دفاع اور اپنے دشمنوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے تھے۔[170]

شہادت اور تشییع کا واقعہ

بہت سارے شیعہ اور اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کو زہرا دے کر شہید کیا گیا۔[171] بعض منابع کے مطابق آپ کو شہادت سے پہلے کئی بار زہر سے مسموم کیا گیا تھا لیکن ہر بار آپ کو موت سے نجات ملی تھی۔[172]

ائمہ بقیع کے مزارات سنہ 1308 ہجری قمری میں

آخری دفعہ آپ کو مسموم کئے جانے کے بارے میں جس سے آپ کی شہادت واقع ہوئی، شیخ مفید کہتے ہیں کہ جب معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی جانشینی کے لئے لوگوں سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا تو اس نے جعدہ بنت اشعث بن قیس (زوجہ امام حسن) کی طرف ایک لاکھ درہم بھیجا اور اسے یہ وعدہ بھی دیا کہ حسن ابن علیؑ کو مسموم کرنے کے عوض انہیں یزید کے ساتھ شادی کی جائیگی۔[173] جعدہ کا نام حسن بن علیؑ کے قاتل کے عنوان سے اہل سنت میں بھی آیا ہے۔[174] مادلونگ معتقد ہیں کہ یزید کی جانشینی کا مسئلہ اور اس سلسلے میں معاویہ کی جد و جہد، امام حسنؑ کو مسموم کرنے میں معاویہ کے ملوث ہونے اور اس کام میں جعدہ کی خدمات حاصل کرنے کی تائید کرتی ہے۔[175] بعض منابع میں ہند (زوجہ امام حسن)[176] یا آپ کے خادموں میں سے ایک[177] کو امام حسنؑ کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام حسنؑ اس واقعے کے 3 دن[178] یا 40 دن[179] یا دو ماہ[180] بعد شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔

کہا جاتا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ کی شہادت پر پورا شہر مدینہ گریہ و زاری اور غم و اندوہ میں ڈھوب گیا۔[181] یہ بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت آپ کو قبرستان بقیع میں دفن کیا جا رہا تھا تو اس وقت بقیع لوگوں سے کھچا کھچ بھر کیا تھا اور مدینہ کے بازار 7 دن تک بند رہے۔[182] اہل سنت بعض منابع میں آیا ہے کہ عربوں کی پہلی ذلت و رسوائی حسن بن علیؑ کی وفات تھی۔[183]

پیغمبر اکرمؐ کے پہلو میں دفنانے سے ممانعت

بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے بھائی امام حسینؑ کو وصیت کی تھی کہ آپ کو اپنے نانا رسول خداؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔[184] ایک اور قول میں آیا ہے کہ حسن بن علیؑ نے اس بارے میں اپنی زندگی میں عائشہ بات کر کے ان کی موافقت بھی لی تھی۔[185] کتاب "انساب الاشراف” کی نقل کے مطابق جب مروان بن حکم کو اس وصیت کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے معاویہ کو اس بارے میں اطلاع دی اور ان سے اس کام کو روکنے کی سخت سفارش کی۔[186]

قبور ائمہ بقیع کا ایک منظر

لیکن شیخ مفید (متوفی 413ھ)، طبرسی (متوفی 548ھ) اور ابن شہرآشوب (متوفی 588ھ) کے مطابق امام حسن مجتبیؑ نے وصیت کی تھی ان کی تابوت کو تجدید عہد کی خاطر قبر پیغمبرؐ لے جایا جائے پھر اپنی نانی فاطمہ بنت اسد کے پہلوں میں دفن کیا جائے۔[187] اس قول میں آیا ہے کہ حسن بن علیؑ نے سفارش کی تھی کہ ان کی تشییع اور دفن کے دوران کسی بھی جھگڑے اور فساد سے پرہیز کیا جائے[188] تاکہ کسی کا ناحق خون نہ بہایا جائے۔[189]

جب بنی ہاشم نے امام حسن مجتبیؑ کے تابوت کو قبر پیغمبرؐ لے گئے تو مروان نے بنی امیہ کے بعض دوسرے افراد کے ساتھ اسلحہ اٹھا کر ان کا راستہ روک لیا تاکہ آپ کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا جائے۔[190] ابوالفرج اصفہانی (متوفی 356ھ) لکھتے ہیں کہ عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر آئی اور بنی امیہ کو اس کام سے منع کرنے کا مطالبہ کیا۔[191] لیکن بلاذری کی نقل میں آیا ہے کہ جب عائشہ نے دیکھا کہ فساد برپا ہوا ہے اور عنقریب یہ جھگڑا خونریزی میں تبدیل ہو گا، اس موقع پر انہوں نے کہا: یہ گھر میرا گھر ہے اور میں اس میں کسی کو دفن ہونے نہیں دونگی۔[192] نقل ہوا ہے کہ مروان نے کہا ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے کہ عثمان شہر سے باہر دفن ہوا ہو اور حسن بن علیؑ پیغمبرؐ کے پہلو میں دفن ہو جائے۔[193][نوٹ 3] بنی ہاشم اور بنی امیہ میں لڑائی ہونے والی تھی[194] لیکن امام حسینؑ نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق جھگڑے سے منع کیا۔ یوں امام حسنؑ کا جنازہ بقیع لے جایا گیا اور فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔[195]ابن شہرآشوب کی روایت میں آیا ہے کہ بنی امیہ نے امام حسن مجتبیؑ کے جنازے کی طرف تیر چلائی۔ اس نقل کے مطابق امام حسن کے جنازے سے 70 تیر نکالا گیا۔[196]

تاریخ شہادت

تاریخی منابع میں امام حسنؑ کی شہادت کے سال میں اختلاف پایا جاتا ہے اور 49 یا 50 یا 51 سنہ ہجری ذکر کیا گیا ہے۔[197] اس کے علاوہ اس سلسلے میں مزید اقوال بھی موجود ہیں۔[198] بعض محققین بعض قرائن و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے سنہ 50 ہجری قمری کو صحیح قرار دیتے ہیں۔[199]شیعہ منابع میں آپ کی شہادت کو صفر کے مہینے میں قرار دیتے ہیں[200] لیکن اکثر اہل سنت منابع میں ربیع الاول[201] کا تذکرہ ملتا ہے۔[202]اسی طرح شیعہ منابع میں شہادت کے دن کے حوالے سے بھی مختلف اقوال ہیں: شیخ مفید[203]، شیخ طوسی[204] (متوفی 460ھ)، طبرسی[205] (متوفی 548ھ) اور ابن شہرآشوب[206] (متوفی 588ھ) 28 صفر کو آپ کی شہادت کا دن قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شہید اول (متوفی 786) 7 صفر[207] اور کلینی آخر صفر کو آپ کی شہادت کا دن قرار دیتے ہیں۔[208] "یداللہ مقدسی” ان اقوال کی سند میں تحقیق کے بعد 28 صفر کو معتبر قرار دیتے ہیں۔[209]ایران میں 28 صفر کو پیغمبر اسلامؐ کی وفات اور امام حسنؑ کی شہادت کے عنوان سے سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے اور اس دن اس حوالے سے عزاداری برگزار ہوتی ہے۔ لیکن بعض ممالک من جملہ عراق میں 7 صفر کو امام حسنؑ کی شہادت کے عنوان سے عزاداری کرتے ہیں۔ حوزہ علمیہ نجف پرانے زمانے سے 7 صفر کو امام حسنؑ کی شہادت کا دن قرار دیتے ہیں اور حوزہ علمیہ قم میں بھی شیخ عبدالکریم حائری کے دور میں 7 صفر کو اس سلسلے میں عزاداری برگزار کرتے تھے۔[210]آپ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اس سلسلے میں بعض نے 46 سال[211] بعض نے 47 سال[212] اور بعض نے 48 سال[213] ذکر کی ہیں۔

فضائل اور خصوصیات

یعقوبی (متوفی 292ھ) کے مطابق حسن بن علیؑ شکل و شمائل اور سیرت میں رسول خداؐ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے۔[214] آپ درمیانے قد اور گھنے محاسن کے مالک تھے[215] اور سیاہ رنگ سے خضاب کرتے تھے۔[216] اسلامی منابع میں آپ کی انفردی اور اجتماعی فضایل کا تذکرہ ملتا ہے۔

انفرادی خصوصیات

آپ کی انفرادی خصوصیات کے حوالے سے منابع میں مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں:

پیغمبر اکرمؐ آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے

بہت ساری احادیث میں آیا ہے کہ رسول خداؐ اپنے نواسے حسن بن علیؑ کو بہت چاہتے تھے۔ منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امام حسنؑ کو اپنے کاندوں پر سوار کر فرماتے تھے: خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں پس آپ بھی اسے دوست رکھ۔[217] بعض اوقات جب پیغمبر اکرمؐ نماز جماعت میں سجدہ میں چلے جاتے تو امام حسنؑ حضورؐ کی پشت پر سوار ہوتے تھے اس وقت پیغمبر اکرمؐ اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھاتے تھے جب تک امام حسنؑ خود آپؐ کی پشت سے نیجے نہ اترتے، جب صحابہ سجدوں کے طولانی ہونے کے بارے میں پوچھتے تھے تو حضورؐ فرماتے تھے میں چاہتا تھا کہ حسن خود اپنی مرضی سے میری پشت سے نیچے اتر آئے۔[218]

فرائد السمطین نامی کتاب میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ آپ کے بارے میں فرماتے تھے: وہ بہشت کے جوانوں کے سردار اور میری امت پر خدا کی حجت ہیں… جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہے اور جو اس سے روگردانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔[219]

آپ کے بارے میں قرآن کی چند آیتیں

حسن بن علیؑ، پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت میں سے ہیں جن کے بارے میں مفسرین کے مطابق قرآن کی بہت سی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ من جملہ ان میں آیت اطعام ہے، شیعہ اور اہل سنت بہت سی احادیث کے مطابق یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے اور چونکہ امام حسنؑ اہل بیت میں سے ہیں اس بنا یہ آیت آپ کی فضیلت بھی شمار ہو گی۔[220] اسی طرح بہت سارے مفسرین احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت مودت بھی پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[221] یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا اجر مودت اہل بیت کو قرار دیتے ہیں۔ آیت مباہلہ جو پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے وقت نازل ہوئی، اس واقعے میں امام حسنؑ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ کو "اَبناءنا” کے مصادیق میں جانا جاتا ہے۔[222]

اسی طرح آیہ تطہیر اصحاب کسا کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک امام حسن مجتبیؑ ہیں اور یہ آیت اہل بیتؑ کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے۔[223

پیدل حج

امام حسن مجتبیؑ نے کئی بار پیدل حج ادا فرمائی۔ آپ سے منقول ہے کہ فرماتے تھے مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ اس سے ملاقات کروں حالنکہ اس کے گھر کی طرف قدم نہ اٹھایا ہو۔[224] کہا جاتا ہے کہ آپ نے 15[225] یا 20[226] یا 25[227] دفعہ پیدل حج ادا فرمائی۔ حالانکہ بہترین اونٹ آپ کے اختیار میں ہوتے تھے۔[228]

آپ کی بردباری زبان زد عام تھی

اسلامی منابع میں آپ کی بردباری کی وجہ سے آپ کو "حلیم” کا نام دیا گیا ہے۔[229] بعض اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ مروان بن حکم جو آپ کا سرسخت دشمن ہونے اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے پہلو میں دفنانے نہ دینے کے باوجود آپ کی تشییع جنازہ میں شرکت کر کے آپ کی تابوت کو کاندہ دیا۔ جب اس حوالے سے اس پر اعتراض کیا گیا کہ تم زندگی میں اسے تنگ کرتے تھے ابھی کیوں اس کی تابوت کو کاندہ دے رہے ہو تو اس نے کہا میں نے ایک ایسی شخصیت کو تنگ کیا ہوں جس کی بردباری پہاڑ کی مانند تھی۔[230] کہا جاتا ہے کہ شام کے ایک باشندے نے جب امام حسنؑ کو دیکھا تو آپ کی شان میں گستاخی کی۔ جب وہ شخص خاموش ہوا تو امام حسن مجتبیؑ نے اسے سلام کیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: لگتا ہے کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو۔ تمہاری جو بھی خواہش ہو میں اسے پورا کرونگا۔ اس پر وہ شخص روتے ہوئے کہنے لگا خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرنا ہے(یعنی وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ امام حسنؑ پیغمبر اکرمؐ کے فرزند ہیں اور خدا کو معلوم تھا کہ نبوت کو کس خاندان میں قرار دینا تھا)۔[231]

سماجی خصوصیات

منابع میں آپ کی بعض سماجی خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے:

سخاوت اور لوگوں کی مدد کرنے میں شہرت رکھتے تھے

اسلامی منابع میں شیعوں کے دوسرے امام کو بخشنے والا اور کشادہ دل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اسی لئے آپ "کریم”، "سخیّ” اور”جواد” کے نام سے مشہور تھے۔[232]

منابع میں آبا ہے کہ آپ نے دو دفعہ اپنی پوری جمع پونجی خدا کی راہ میں بخش دیا اور تین دفعہ اپنی جائدات کا نصف حصہ غریبوں میں تقسیم فرمایا۔[233] مناقب ابن شہرآشوب میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی شام سفر کے دوران معاویہ نے بہت سارا مال آپ کی خدمت میں بھیجا۔ جب آپ معاویہ کے پاس سے باہر تشریف لائے تو ایک خادم نے آپ کے جوتے کی مرمت کی۔ امام نے وہ سارا مال اس خادم کو بخش دیا۔[234]

کہا جاتا ہے ہے کہ امام حسنؑ نے ایک دفعہ کسی شخص کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ "خدایا مجھے دس ہزار درہم عطا فرما”، اس موقع پر آپ گھر تشریف لے گئے اور مذکورہ مبلغ اس شخص کے لئے ارسال فرمایا۔[235]

کہا جاتا ہے کہ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت” کا لقب دیا گیا تھا۔[236] لیکن احادیث میں ایسی کوئی تعبیر نہیں آئی ہے۔

لوگوں کی مالی مدد کے حوالے سے بھی مختلف واقعات نقل ہوئی ہیں، اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ دوسروں کی حاجت روائی کیلئے اعتکاف اور طواف کو ناتمام چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور اس کام کی علت بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ فرماتے تھے جس میں آپؐ نے فرمایا: جو شخص کسی مؤمن بھائی کی ضروریات پوری کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سالوں سال خدا کی عبادت میں مشغول ہے۔[237]

آپ کی عبادت سے متعلق آیا ہے

جب آپ وضو کرنے لگتے تو آپ کے ہاتھ پیر لرزنے لگتے اور آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا… جب مسجد کے دروازے پر پہنچتے تھے تو فرماتے تھے: اے احسان کرنے والی ذات! گناہگار تیری درگاہ میں آیا ہے پس میری خطاؤوں کو اپنی نیکیوں کے مقابلے میں نظر انداز فرما۔

ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴۔
ماتحتوں کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے تھے

کہا جاتا ہے کہ ایک دن مسکینوں کے قریب سے آپ کا گذر ہوا جو خشک روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو آپ کو دعوت دی تاکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر تناول فرمائے۔ آپ گھوڑے سے نیچے آئے اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ساتھ غذا تناول فرمایا اور سب سیر ہو گئے۔ اس کے بعد ان مسکینوں کو اپنی دولت سرا آنے کی دعوت دی اور انہیں کھانا اور لباس عطا فرمایا۔[238]

نیز منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ کے کسی خادم سے کوئی خطا سر زد ہونے کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق قرار پایا۔ اس خدمتکار نے امام حسنؑ سے کہا: "و العافین عن الناس” اس پر آپؑ نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ خدمتکار نے مزید کہا: "و الله یحب المحسنین” امام حسن مجتبی نے فرمایا: میں نے تمہیں خدا کی راہ میں آزاد کر دیا اور تمہاری مزدوری کے دو برابر تمہیں بخش دیتا ہوں۔[239]

معنوی میراث

مسند الامام المجتبی، امام حسنؑ کے کلمات کا مجموعہ

امام حسنؑ سے مختلف موضوعات پر نقل ہونے والی احادیث کی تعداد تقریبا 250 احادیث تک پہنچتی ہیں۔[240] ان احادیث میں سے ایک حصہ خود امامؑ کی اپنی احادیث ہیں جبکہ دوسرا حصہ ان احادیث پر مشتمل ہے جنہیں آپ نے پیغمبر اکرمؐ، امام علیؑ اور حضرت فاطمہ زہرا(س) سے نقل کی ہیں۔[241]

کتاب مسند الامام المجتبی(ع) میں آپ کے کلمات اور خطوط کو جمع کیا گیا ہے۔ ان کلمات میں آپ کے خطبات، نصیحتیں، گفتگو، دعائیں، مناظرے اور فقہی اور اعتقادی مسائل کو ان کے اسناد کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔[242] بلاغۃ الامام الحسن نامی کتاب میں بھی ان احادیث کو آپ سے منسوب اشعار کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔

احمدی میانجی نے کتاب مکاتیب الائمۃ میں امام حسنؑ سے مربوط 15 خطوط کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے 6 خطوط آپؑ نے معاویہ کے نام، 3 خطوط زیاد بن ابیہ کے نام، ایک خط اہل کوفہ کے نام اور ایک خط حسن بصری کے نام تحریر فرمائے ہیں۔[243] اسی طرح میانجی نے امام حسینؑ، محمد حنفیہ، قاسم بن حسن اور جنادۃ بن ابی امیہ کے نام امام حسنؑ کی سات(7) وصیتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔[244]

عزیزاللہ عطاردی نے امام حسنؑ سے احادیث نقل کرنے والے 137 راویوں کا نام لیا ہے۔[245] شیخ طوسی نے بھی آپؑ کے اصحاب کے عنوان 41 افراد کا نام لیا ہے۔[246]

امام حسنؑ کے کلام سے اقتباس

  • لوگوں کے ساتھ اس طرح برتاؤ رکھو جس طرح تم اپنے ساتھ برتاؤ کے خواہاں ہو۔[247]
  • کسی سے دوستی اور بھائی چارہ قائم نہ کرو مگر یہ کہ جان لو کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔[248]
  • جس نے بھی سلام سے پہلے کلام کیا اس کا جواب مت دو۔[249]
  • ایک شخص کے جواب میں جس نے حق اور باطل کے درمیان فاصلے کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: حق اور باطل کے درمیان چار(4) انگلیوں کا فاصلہ ہے، جو کچھ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ حق ہے اور تمہاری کانوں سے بہت ساری باتیں سنے کو ملیں گے جو باطل ہیں۔[250]

کتابیات

"سبط النبی کانفرنس” میں پیش کئے گئے مقالات تین(3) جلدوں میں شایع ہو چکے ہیں۔

امام حسنؑ کے بارے میں بہت ساری کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں۔ "کتاب‌ شناسی امام مجتبیؑ” کے عنوان سے لکھے گئے مقالے میں مختلف زبانوں من جملہ فارسی، عربی، ترکی اور اردو زبان میں لکھی گئی تقریبا 130 کتابوں کا نام لیا ہے۔ [251]

آپؑ کے بارے میں لکھی گئی بعض اہم کتابیں درج ذیل ہیں:

اسی طرح "سبط النبی کانفرنس” میں پیش کئے گئے مقالات تین(3) جلدوں میں شایع ہو چکے ہیں۔

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۔
  2. اوپر جائیں ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۳۔
  3. اوپر جائیں ابن حنبل، المسند، دار صادر، ج۱، ص۹۸، ۱۱۸؛ کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۶، ص۳۳ـ۳۴
  4. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۳، ص۳۹۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۴۴۔
  5. اوپر جائیں ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۳۹۳؛ زبیدى، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۴۔
  6. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۱۷۱۔
  7. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۶، ص۳۵۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج۲، ص۱۰۔
  8. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۴۴، ص۳۵۔
  9. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹۔
  10. اوپر جائیں ابن صباغ مالکی، الفصول المہمۃ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۷۵۹۔
  11. اوپر جائیں قندوزی، ینابیع المودۃ، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۱۴۸۔
  12. اوپر جائیں ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
  13. اوپر جائیں ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۷۴-۴۷۷۔
  14. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۔
  15. اوپر جائیں کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۷-۳۰۰۔
  16. اوپر جائیں کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔
  17. اوپر جائیں کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔
  18. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷۔
  19. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۰۔
  20. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۵۳۔
  21. اوپر جائیں طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۷؛ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۴۸۲۔
  22. اوپر جائیں عزت و قدرت اللہ کے لئے ہے: کلینی، الکافی، ج6 ص474۔صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2 ص56۔
  23. اوپر جائیں خدا ہی میرے لئے کافی ہے: کلینی، وہی ماخذ، ص473۔
  24. اوپر جائیں کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۵۳۷۔
  25. اوپر جائیں کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۳۹
  26. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۴۰
  27. اوپر جائیں ابن حنبل، مسند، دار صادر، ج۶، ص۳۹۱؛ ترمذی، سنن الترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۶؛ ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۲
  28. اوپر جائیں نسائی، سنن النسائی، دارالکتب العلمیۃ، ج۴، ص۱۶۶؛ کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۶، ص۳۲-۳۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۳۷
  29. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ الدمشق، ج۱۳، ص۱۷۰
  30. اوپر جائیں حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۱۶۵
  31. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۳۹-۲۴۴؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۹، ص۶۳۔
  32. اوپر جائیں مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۴۔
  33. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸، ج۱۰، ص۳۶۹۔
  34. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۴۳، ص۲۶۱-۳۱۷؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۳۲۳-۳۲۲؛ احمد بن حنبل، المسند، دار صادر، ج۵، ص۳۵۴؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۴۰۲؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۸۷۔
  35. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸، ج۶، ص۴۰۶ـ۴۰۷؛ شیخ صدوق، عون اخبار الرضا، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۸۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۶۸۔
  36. اوپر جائیں عاملی، الصحیح من السیرۃ النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲۱، ص۱۱۶۔
  37. اوپر جائیں زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ذیل آیہ ۶۱ آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۰۵ق، ذیل آیہ ۶۱ سورہ آل عمران،احمد بن حنبل، دارصادر، مسند احمد، ج ۱، ص۳۳۱؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۷۹۹؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج۴، ص۲۷۹۔
  38. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۷۔
  39. اوپر جائیں سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی‏، ۱۴۰۵ق، ص۶۶۵ و ۹۱۸۔
  40. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۶-۲۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۰۰۔
  41. اوپر جائیں ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۔
  42. اوپر جائیں ابن خلدون، العبر، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۵۷۳-۵۷۴۔
  43. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۶۹۔
  44. اوپر جائیں جعفرمرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الحسن، دارالسیرۃ، ص۱۵۸۔
  45. اوپر جائیں http://www۔iranicaonline۔org/articles/hasan-b-ali
  46. اوپر جائیں زمانی، حقایق پنہان، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۸-۱۱۹۔
  47. اوپر جائیں ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دارالکتب العلمیہ، ج۵، ص۵۸-۵۹۔
  48. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۵۸-۵۵۹
  49. اوپر جائیں قاضی نعمان، المناقب و المثالب، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۱؛ طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۸۔
  50. اوپر جائیں دیار بکری، تاریخ الخمیس، دارالصادر، ج۲، ص۲۶۲۔
  51. اوپر جائیں حقایق پنہان، پژوہشی در زندگانی سیاسی امام حسن، ص۳۳۹-۳۴۰؛ قرشی، حیاۃ الإمام الحسن بن على،۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۵۵-۴۶۰
  52. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۰۔
  53. اوپر جائیں مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۷۴
  54. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۵
  55. اوپر جائیں مجلسی، بحار الانوار، بیروت ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۱۷۳
  56. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۲۹۰ و ۳۰۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۵؛ کلینی، الکافى، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۵۶۔
  57. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۷۳۔
  58. اوپر جائیں مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۹۔
  59. اوپر جائیں مادلونگ، جانشینى محمد، ۱۳۷۷ش، ص۵۱۴-۵۱۵۔
  60. اوپر جائیں قرشی‏، حیاۃ الامام الحسن بن على، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۵۳-۴۵۴۔
  61. اوپر جائیں المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۔
  62. اوپر جائیں طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۱۶۔
  63. اوپر جائیں المجدی فی أنساب الطالبیین، ص۲۰۲۔
  64. اوپر جائیں الأنساب، ج‌۴، ص۱۵۹۔
  65. اوپر جائیں یمانی، موسوعۃ مکۃ المکرمہ، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۵۸۹۔
  66. اوپر جائیں دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۴.
  67. اوپر جائیں شیخ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۲۳۸.
  68. اوپر جائیں نصر بن‌مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۶.
  69. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۴، ص۴۵۸؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۲، ص۱۰۴.
  70. اوپر جائیں شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص ۲۴۴ و ۲۶۱.
  71. اوپر جائیں شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۲۶۳.
  72. اوپر جائیں ابن أعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج‏۲، ص۴۶۶-۴۶۷؛ شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۲۷.
  73. اوپر جائیں شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۴۸؛ ذہبی، تاریخ الإسلام‏، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۸۵.
  74. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱.
  75. اوپر جائیں مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۳۱، شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۸۲؛ اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۳۶.
  76. اوپر جائیں نصر بن‌مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۱۳-۱۱۴.
  77. اوپر جائیں ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱، ج۳، ص۲۴؛ ابن شهرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.
  78. اوپر جائیں اسکافی، المعیار و الموازنۃ، ۱۴۰۲ق، ص ۱۵۰ – ۱۵۱.
  79. اوپر جائیں نصر بن‌مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۲۹۷ – ۲۹۸.
  80. اوپر جائیں ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۵۸؛ابن شہرآشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۹۳.
  81. اوپر جائیں سید رضی، نہج البلاغۃ، ترجمہ شہیدی، ۱۳۷۸ش، ص۲۹۵.
  82. اوپر جائیں محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ انتہای کتاب، ۱۳۶۹ش، ص۲۳۸.
  83. اوپر جائیں ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص۹۳۹.
  84. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷.
  85. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۷، ص۴۹.
  86. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۷، ص۹۳-۹۴؛ قندوزی، ینابیع المودۃ، ۱۴۲۲ق، ج‏۳ ، ص۴۴۴.
  87. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۔
  88. اوپر جائیں منابع میں معاویہ کو خلافت تفویض کرنے کی تاریخ 25 ربیع‌الاول(مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۶۔) یا ربیع الاخر یا جمادی الاولی(ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۵۔) سنہ 41ھ ثبت ہے۔
  89. اوپر جائیں مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۹؛ مقدسى، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۳۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۶، ص۲۵۰۔
  90. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸-۱۶۱۔
  91. اوپر جائیں ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔
  92. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔
  93. اوپر جائیں جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۷-۱۴۸۔
  94. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۱۵۸؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۶۔
  95. اوپر جائیں بلاذری، انساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۔
  96. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷-۹؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۶۲۔
  97. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۸-۹۔
  98. اوپر جائیں مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸، ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۵،دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۸۹، نویری، نہایۃ الأرب، ۱۴۲۳ق، ج۲۰، ص۲۲۹۔
  99. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۱۵۸۔
  100. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸
  101. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸-۱۶۰
  102. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱
  103. اوپر جائیں ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۸۴۔
  104. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۵۸۔
  105. اوپر جائیں http://www۔iranicaonline۔org/articles/hasan-b-ali، جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۲ش، ص ۱۶۱۔
  106. اوپر جائیں جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۳۲۔
  107. اوپر جائیں ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۶۴
  108. اوپر جائیں ہاشمى نژاد، درسى كہ حسین بہ انسان‌ہا آموخت، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۔
  109. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔
  110. اوپر جائیں ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔
  111. اوپر جائیں ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷ بہ بعد؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۲۵ بہ بعد۔
  112. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔
  113. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔
  114. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۹
  115. اوپر جائیں ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۱۔
  116. اوپر جائیں ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۳-۷۴۔
  117. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۸۔
  118. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۔
  119. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴۔
  120. اوپر جائیں دینوری، الأخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۱۷۔
  121. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۔
  122. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵۔
  123. اوپر جائیں جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۸-۱۵۵۔
  124. اوپر جائیں آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱۔
  125. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵.
  126. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲.
  127. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳.
  128. اوپر جائیں طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲۹۰.
  129. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴.
  130. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳-۱۴.
  131. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۲.
  132. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۶۸.
  133. اوپر جائیں مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۶.
  134. اوپر جائیں ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۵.
  135. اوپر جائیں آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۸-۲۵۹.
  136. اوپر جائیں آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱.
  137. اوپر جائیں شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۲.
  138. اوپر جائیں مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸.
  139. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۰-۱۸۱.
  140. اوپر جائیں جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۶۲.
  141. اوپر جائیں جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۵.
  142. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۲۹.
  143. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۵ و ۴۸.
  144. اوپر جائیں شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۱.
  145. اوپر جائیں مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۶۰؛ امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷.
  146. اوپر جائیں طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۲۷۵.
  147. اوپر جائیں مقدسى، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۳۷.
  148. اوپر جائیں ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۱۳۱.
  149. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۱۶.
  150. اوپر جائیں ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۳۷؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۳، ص۳۳۱.
  151. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۱۸.
  152. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷.
  153. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۹۷؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۱.
  154. اوپر جائیں ابن صباغ مالکی، الفصول المہمۃ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۷۰۲.
  155. اوپر جائیں پیشوایی، تاریخ اسلام، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۴۴۰.
  156. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ۴۰۶.
  157. اوپر جائیں ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۹۳۵.
  158. اوپر جائیں عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۳۹.
  159. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ش، ج‏۳، ص۴۰۹.
  160. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۳۶.
  161. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۴۱.
  162. اوپر جائیں قاضی عبد الجبار، تثبیت دلائل النبوۃ، دار المصطفی، ج۲، ص۵۶۷.
  163. اوپر جائیں موصلی، مناقب آل محمد، ۱۴۲۴ق، ص۹۳.
  164. اوپر جائیں قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.
  165. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.
  166. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.
  167. اوپر جائیں ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ۱۳۸۸، ج۳، ص۳۸-۳۹.
  168. اوپر جائیں سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، الشریف الرضی، ج۱، ص۱۷۳-۱۷۴.
  169. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۸.
  170. اوپر جائیں طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷۰-۲۸۴.
  171. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ۱۴۱۴، ج۲، ص۱۵؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۸۰-۸۱؛ مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۳۵ و ۳۵۲.
  172. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۵؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۸۱
  173. اوپر جائیں المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵
  174. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۵؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۴۳؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۶، ص۵.
  175. اوپر جائیں مادلونگ، جانشینی حضرت محمد، ۱۳۷۷ش، ص۴۵۳. (منبع اصلی: Madelung, The Succession T0 Muhamad, p.331)
  176. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۹.
  177. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۳۵.
  178. اوپر جائیں مسعودی، مروج‏ الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۷.
  179. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۴۱؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹.
  180. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان ۱۳۶۴ش، ج۲، ص۶۶.
  181. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۴۲؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۹۱.
  182. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۵۱-۳۵۲.
  183. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۵۳؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۹۵؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق. ج۵، ص۲۷۹.
  184. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۰-۶۲؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۲۱؛ شیخ طوسی، امالی، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۰.
  185. اوپر جائیں ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۱، ص۳۸۸؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۵۱۷.
  186. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۲.
  187. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷؛ طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۱۴؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۴۴.
  188. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۰-۶۲.
  189. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷.
  190. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸. ، بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۴-۶۵؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۲۱؛ شیخ طوسی، امالی، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۰-۱۶۱.
  191. اوپر جائیں ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفہ، ص۸۲
  192. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۱.
  193. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸-۱۹؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۴۴.
  194. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸.
  195. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۴-۶۵؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۲۱؛ شیخ طوسی، امالی، ۱۴۱۴ق، ص۱۶۰-۱۶۱.، شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸-۱۹؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۴۴.
  196. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۴۴.
  197. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۴؛ کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۶۱ و ۴۶۲؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ۳۶۱؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۹۳؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۹.
  198. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان،۱۳۹۱ش، ص۲۶۰.
  199. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان،۱۳۹۱ش، ص۲۵۵-۲۵۹.
  200. اوپر جائیں کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۶۱ ؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵؛ طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۳؛ اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۴۸۶.
  201. اوپر جائیں بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۶؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ۳۶۱؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۹۳؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۹.
  202. اوپر جائیں مقدسی، یداللہ، بررسی و نقد گزارش ہای تاریخ شہادت امام حسن مجتبیؑ، ۱۳۸۹ق، ص۹۴-۹۵.
  203. اوپر جائیں شیخ مفید، مسار الشیعۃ، قم، ۴۶-۴۷.
  204. اوپر جائیں شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۷۹۰.
  205. اوپر جائیں طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۳.
  206. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹.
  207. اوپر جائیں شہید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷.
  208. اوپر جائیں کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۶۱.
  209. اوپر جائیں مقدسی، یداللہ، بررسی و نقد گزارش ہای تاریخ شہادت امام حسن مجتبیؑ، ۱۳۸۹ق، ص۱۰۹-۱۱۰.
  210. اوپر جائیں مرکز تخصصی ائمہ اطہار، خبرگزاری مہر
  211. اوپر جائیں مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ۳۶۱؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۹۳.
  212. اوپر جائیں کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۴۶۱ و ۴۶۲؛؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ۳۶۱؛ دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۹۳؛ اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۴۸۶.
  213. اوپر جائیں المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹.
  214. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۲۶.
  215. اوپر جائیں ابن شهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۸
  216. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۱۴.
  217. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۶۱۔
  218. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۳، ص۲۹۴۔
  219. اوپر جائیں حموی شافعی، فرائد السمطین، ۱۴۰۰ق،ج۲، ص۳۵۔
  220. اوپر جائیں مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۶ش، ج۵، ص۳۵۴۔
  221. اوپر جائیں طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج۹، ص۴۳-۴۴؛
  222. اوپر جائیں زمخشری، تفسیر الکشاف، ۱۴۱۵ق، ذیل آیہ ۶۱ آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۰۵ق، ذیل آیہ ۶۱ آل عمران؛ بیضاوی، تفسیر انوار التنزیل و اسرار التأویل، ۱۴۲۹ق،‌ ذیل آیہ ۶۱ آل عمران۔
  223. اوپر جائیں شیخ مفید، المسائل العُکبریۃ، ۱۴۱۳ق، ص۲۷؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۳۰۹-۳۱۳۔
  224. اوپر جائیں عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۲؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴۔
  225. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۹۔
  226. اوپر جائیں عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۲؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴؛ کلینی، الکافى، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۴۶۱۔
  227. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۴؛ اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۱۶۔
  228. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۹۔
  229. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
  230. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۷؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ۳۵۴۔
  231. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۹۔
  232. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
  233. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۹؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
  234. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۱۸۔
  235. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۲۳۔
  236. اوپر جائیں کیوں امام حسنؑ کو کریم اہل بیت کہا جاتا ہے؟
  237. اوپر جائیں ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۸-۲۴۹؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۹۴، ص۱۲۹۔
  238. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۳۔
  239. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۳، ص۳۵۲۔
  240. اوپر جائیں پیشوایی، تاریخ اسلام، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۴۴۰.
  241. اوپر جائیں مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۱۲.
  242. اوپر جائیں عطاردی، مسند الإمام المجتبى، ۱۳۷۳ش، ص۴۸۳-۷۳۳.
  243. اوپر جائیں میانجی، مکاتیب الائمۃ، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۱۱-۵۸.
  244. اوپر جائیں میانجی، مکاتیب الائمۃ، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۵۰-۸۰.
  245. اوپر جائیں عطاردی، مسند الإمام المجتبى، ۱۳۷۳ش، ص۷۳۵-۷۹۰.
  246. اوپر جائیں شیخ طوسی، رجال الطوسی، ۱۴۱۵ق، ص۹۳-۹۶.
  247. اوپر جائیں کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ۵۲۱.
  248. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۷۵، ص۱۰۵-۱۰۶.
  249. اوپر جائیں کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۳۸.
  250. اوپر جائیں ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۳.
  251. اوپر جائیں کتابشناسی امام مجتبی اور کتابشناسی امام حسن
  1. اوپر جائیں حسن بن علی 3 ہجری کو متولد ہوئے (کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱) اور پیغمبر اکرم نے 11 ہجری کو وفات پائی۔( ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۰۸۔)
  2. اوپر جائیں یہ درخواست مختلف عبارات کے ساتھ منابع میں موجود ہے (نمونے کے طور پر مراجعہ فرمائیں: طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۴، ص ۴۵۶ و ۴۵۸؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۲، ص۱۰۴.) لیکن بعض معاصر محققین اسے جعلی قرار دیتے ہیں۔ سید جعفر مرتضی نے کتاب تحلیلى از زندگانى سیاسى امام حسن مجتبى، ص۲۴۰ پر، باقر شریف قرشی نے کتاب حیاۃ الإمام الحسن بن على، ج۱، ص۳۹۴ پر اور ہاشم معروف حسنی نے کتاب سیرۃ الأئمۃ الاثنی عشر، ج۲، ص۴۸۹ پر اسے جعلی قرار دیا ہے۔ بعض احادیث کے مطابق امام علیؑ نے امام حسنؑ کے جواب میں فرمایا میں اس انتظار میں نہیں رہوں گا تاکہ وہ مجھے دھوکے دے کر شکست دیں۔ اسی طرح آپ نے طرف مقابل کے عہد شکنی اور پیغمبر اکرمؐ کے دور سے لے کر اب تک آپ کا حق غصب کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ (مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۲، ص۱۰۴.)
  3. اوپر جائیں بنی امیہ امام علیؑ پر عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کی تہمت لگاتے تھے۔ (ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۲۷؛ ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۳، ص۱۶۵)

مآخذ

  • ابن ابی اثلج، تاریخ الائمہ، در مجموعۃ نفیسۃ فی تاریخ الائمہ، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1406۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ 1379ق۔
  • ابن اثیر، اسد الغابہ، بیروت: دارالکتاب العربی۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، بیروت، 1411۔
  • ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، قم 1363ش۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، چاپ احسان عباس، بیروت 1968-1977
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق لجنہ من اساتذہ النجف الاشرف، نجف: مکتبہ الحیدریہ، 1376۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم۔
  • ابن صوفی، علی، المجدی فی انساب الطالبیین، بہ کوشش احمد مہدوی دامغانی، قم: 1409ق/1989م۔
  • ابن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، چاپ ماجد بن احمد عطیہ، بیروت 1420ق۔
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، بیروت، 1412ق۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، 1415ـ1421۔
  • ابن عنبہ، احمد، عمدۃ الطالب، بہ کوشش محمدحسن آل طالقانی، نجف: 1380ق/19601م۔
  • ابن قتیبہ،الامامۃ والسیاسۃ، بہ کوشش طہ محمد زینی، قاہرہ، مؤسسۃ الحلبی۔
  • ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسیہ، المعروف بتاریخ الخلفاء، چاپ علی شیری، بیروت 1410/1990
  • ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہرہ، 1960
  • ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دارصادر۔
  • اربلی، کشف الغمہ، ناشر مجمع جہانی اہل بیتؑ 1426ق۔
  • اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، چاپ احمد صقر، بیروت 1408ق۔
  • اصفہانی،ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، نجف 1385ق۔
  • الامین، السید محسن، اعیان الشیعۃ، حققہ و اخرجہ السید محسن الامین، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، 1418ق/1998م۔
  • البخاری، سہل، سر السلسلۃ العلویۃ، بہ کوشش محمدصادق بحرالعلوم، نجف: 1381ق/1962م۔
  • الزمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج1، قم، نشر البلاغہ، الطبعۃ الثانیۃ، 1415 ق۔
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی‌تا
  • الطوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، تہران، 1390۔
  • العاملی، جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الحسن، قم، 1363ش۔
  • العطاردی، عزیزاللہ، مسند الامام المجتبی، قم: عطارد، 1373ش۔
  • القاب الرسول و عترتہ، در مجموعۃ نفیسۃ فی تاریخ الائمہ۔
  • القرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت، ج10(الامام الحسن بن علیؑ، تحقیق: مہدی باقر القرشی، قم: دارالمعروف، 1430ق/2009م۔
  • المحمودی، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، ج7، نجف: 1385ق/1965م۔
  • مسعودی، علی بن حسین، كتاب التنبیہ والاشراف، چاپ دخویہ، لیدن 1894
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، چاپ شارل پلّا، بیروت 1965-1979
  • المفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمہ خراسانی انتشارات علمیہ اسلامیہ 1380
  • المفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، بیروت، 1414۔
  • المفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، سعید بن جبیر، 1428ق
  • المفید، الجمل، ناشر مکتب الاعلام الاسلامی، 1371
  • بخاری، صحیح بخاری، ناشر دارالفکر
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، 1394ق۔
  • بلاذری، انساب الاشراف، بیروت: دارالتعارف، 1397ق۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، بیروت، 1403/1983۔
  • جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، انتشارات انصاریان 1381
  • جوہری، احمد، السقیفہ و فدک، بہ کوشش محمدہادی امینی، تہران، 1401ق/1981م۔
  • جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ المحمودی بیروت، 1980 م۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت 1406۔
  • خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبری، بیروت، 1406/1986
  • راضی یاسین، صلح الحسن، ترجمہ سید علی خامنہ‌ای، انتشارات گلشن چاپ سیزدہم 1378
  • رسائل الامام حسنؑ، بہ کوشش زینب حسن عبدالقادر، قاہرہ، 1411ق/1991م۔
  • زمانی، احمد، حقایق پنہان، قم: دفتر تبلیعات اسلامی، چ 3، 1380۔
  • سیوطی، تاریخ الخلفاء، بی‌جا بی‌تا
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: لجنۃ من الادباء، توزیع‌دار التعاون عباس احمد الباز، مکۃ المکرمۃ۔
  • شوشتری، محمد تقی، رسالۃ فی تواریخ النبی، قم1423۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ، قم 1412ـ1414۔
  • شہیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، 1390ش۔
  • شیخ صدوق، امالی، انتشارات کتابخانہ اسلامی1362
  • شیخ صدوق، امالی، ترجمہ کمرہ‌ای 1363
  • شیخ صدوق، علل الشرایع، نجف، 1385ـ1386ق۔
  • شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ترجمہ آقا نجفی۔
  • طبرسی، الاحتجاج انتشارات اسوہ 1413 ہ‍۔ق
  • عاملی، جعفر مرتضی، تحلیلی از زندگی امام حسن مجتبی، مترجم: سپہری، انتشارات دفتر تبلیغات، 1376
  • عقیقی بخشایشی، عبدالرحیم، چہاردہ نور پاک، تہران: 1381ش۔
  • علی بن ابراہیم قمی، تفسیر قمی، ناشر مکتبۃ الہدی نجف۔
  • قرشی، باقر شریف، الحیاۃ الحسن، ترجمہ فخر الدین حجازی، انتشارات بعثت، 1376۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسن بن علیؑ: دراسۃ و تحلیل، بیروت: 1413ق/1993م۔
  • کلینی، اصول کافی، دارالحدیث
  • كلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، چاپ علی اكبر غفاری، بیروت 1401
  • مالقی، محمد، التمہید و البیان، بہ کوشش محمدیوسف زاید، قطر، 1405ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار (ط – بیروت)،
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت: مؤسسہ الوفا، 1403۔
  • مجموعہ مقالات ہمایش بین‌‌المللی سبط النبی، قم: مجمع جہانی اہل بیت، 1393۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، مطہر البدء و التاریخ، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، کتاب البدء و التاریخ، چاپ کلمان ہوار، پاریس، 1899-1919۔
  • منتخب فضائل النبی و اہل بیتہ علیہم السلام من الصحاح الستۃ و غیرہا من الکتب المعتبرۃ عند اہل السنۃ، تقدیم: محمد بیومی مہران، بیروت: الغدیر، 1423/2002۔
  • نسائی، احمد بن علی، سنن النسائی، بشرح جلال‌ الدین سیوطی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ۔
  • نرم افزار جامع الاحادیث، نسخہ 3/5 مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور
  • نرم افزار نور السیرہ 2، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور۔
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی انتشارات علمی و فرہنگی 1362
  • Madelung, W۔, The Succession to Muhammad, Cambridge, 1977۔

Related Articles

Back to top button