اخلاق اسلامیمقالات

وقت پھر لوٹ کر نہیں آتا

(آقائے محمد حسین نبوی)
(مترجم : سید عابد رضا نوشاد رضوی )

ہر شخص اپنے اغراض ومقاصد تک پہنچنے کیلئے مناسب وقت کی تلاش میں رہتا ہے، وقت کا بجا استعمال ہر خردمند کا خاصہ ہے، موقع سے صحیح فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور غلط بھی ،جس کا تعلق اغراض و مقاصد کے پاک یا ناپاک ہونے سے ہے ،کفار و منافقین اپنے ناپاک عزائم کے تحت موقع کی تاک میں لگے رہتے ہیں، مومنین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے پاک مقاصد اور اعلیٰ اھداف کے حصول کیلئے مناسب موقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ۔
حضرت امیرالمومنین ؑکا ارشاد گرامی ہے: ”انتھزوا فرص الخیر فانھا تمرکمر السحاب” ۔ (١)
’’نیک موقعوں کو غنیمت جانو اس لئے کہ یہ بادل کی طرح گذر جاتے ہیں‘‘
تبلیغ دین کے مرحلے میں بھی مبلغ کو چاہئے کہ موقع سے بجا فائدہ اٹھائے ۔

قرآن اور فرصتیں
خدا نے مختلف تاریخی نشیب و فراز، موقعوں، نزاکتوں اور مناسبتوں پر آیات قرآنیہ نازل فرماکر صحیح اور غلط راستوںکی شناخت کرا دی ہے، جب جنگ احد میں قتل پیغمبر ۖ کی افواہ کے بعدانگشت شمار افراد کے علاوہ سب پا بہ فرار تھے تو آیۂ کریمہ نازل ہوئی:
(أفان مات أو قتل انقلبتم علی ٰاعقابکم)(٢)
اگر نبی فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے گذشتہ عقیدہ کی طرف پلٹ جائو گے یعنی مناسب موقع آتے ہی اللہ نے مسلمانوں کو ایک اہم پیغام دے دیا کہ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے تمہارا ایمان بھی رخصت ہو جائے گا !اگر ایسا ہے تو پھر در حقیقت یہ ایمان ہی نہیں ہے۔
ایک بار کچھ لوگ اپنے قبیلہ کی برتری جتانے کیلئے قبرستان گئے اور مردوں کی قبریں شمار کرنے لگے تو فوراً قرآن مجید نے ان کو متنبہ کیا اور انھیں قیامت کی طرف متوجہ کیا :(الھٰکم التکاثر حتی زرتم المقابر کلا سوف تعلمون کلالو تعلمون علم الیقین لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم)(٣)
تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال واولاد نے غافل بنا دیا ہے، یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کر لی ،دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا اور پھر خوب معلوم ہو جائے گا، دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہو جاتا کہ تم جہنم کو ضرور دیکھو گے پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے اور پھر تم سے اس دن نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

انبیاء اور فرصتیں
انبیاء علیہم السلام نے ہر مرحلہ پر فرصتوں اور طلائی لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، قرآن مجید میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں، بعنوان مثال: حضرت یوسف قید میں ہیں دنیا کی زرق وبرق اور چکا چوندسے بالکل الگ تھلگ گوشئہ زندان میں محو عبادت و مشغول راز ونیاز ہیں، دوسروں کی ناجائز خواہشات سے دل برداشتہ ہو کر زندان کو اپنا محبوب بنا لیا اور فرمایا : ( رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ)(٤)
اے میرے پروردگار! زندان میرے لئے اس چیز سے زیادہ بہتر ہے، جس کی طرف مجھے راغب کیا جا رہا ہے، اسی زندان کے دو قیدیوں نے خواب دیکھے تعبیر کیلئے حضرت یوسف کی طرف آئے ،خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور انھیں اپنے خدا کی طرف متوجہ کیا فرمایا:(یا صٰحبی السجن أ ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القھار)(٥)
اے میرے دو قیدی دوستو! یہ بتائو کہ مختلف و متفرق خدا بہتر ہیں یا خدائے واحد قھار؟ آپ نے اس فکر انگیز سوال کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا پھر آپ نے تعبیر خواب بھی بیان فرمائی ،یہ واقعہ موقعوں سے فائدہ اٹھانے کی بہترین مثال ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ دین اسلام کی نشر واشاعت میں موقعوں اور فرصتوں سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

موقع تلاشئے بھی تراشئے بھی
انبیاء علیہم السلام فرصتوں اور موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ خود فرصتیں اور موقعے ایجاد بھی کرتے تھے، حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ شہر پر ایک سکوت طاری ہے، موقع غنیمت جانا اور تمام بتوں کو توڑ ڈالا اب تک اھالیان شہر جن بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے اب وہی بت زمین پر بکھرے پڑے تھے، حضرت ابراہیم نے ایک مناسب موقع پیدا کرنے کیلئے ایک بت کو باقی رکھا اور کلہاڑی اس کی گردن میں ڈال دی ،جب ساکنان شہر لوٹ کر آئے تو اپنے بتوں اور پرکھوں کی میراث کو زمین بوس پایا، کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، سارے شہر میں عجیب وغریب حالات پیدا ہو گئے، سب کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا کہ آخر کس نے ! کون ہے وہ …!؟کس کا کام ہو سکتا ہے یہ؟کس میں اتنی ہمت پیدا ہو گئی ؟باریک بینوں نے ابراہیم کو پہلا متہم قرار دیا ابراہیم کو گرفتار کرکے موقع واردات پر لایا گیا ،سب ابراہیم کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، سب کی نظر میں ابراہیم ہی مجرم ہیں ممگر ابراہیم اس شور وغل سے بے پرواہ اپنے تبلیغی مقصد پر غور کر رہے ہیںم اتنا بڑا مجمع اور اتنا بڑا واقعہ، تبلیغ کا اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے ابراہیم کی توحیدی آواز اٹھی، شیطانی شور و غل تھم گیا (بل فعلھم کبیرھم ھٰذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون)(٦)
یہ بت میں نے نہیں توڑے بلکہ یہ کام تو ان میں سے بڑے والے بت کا ہے، اگر وہ بول سکے تو انہی سے دریافت کر لو(فرجعوا الی انفسھم فقالوا انکم انتم الظالمون)(٧)
یہ سن کر وہ لوگ ہوش میں آئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے تم لوگ ظالم ہو، یہ وہی مرحلہ تھا جس کے لئے حضرت ابراہیم نے سعی وکوشش کی تھی اور جس کا انھیں انتظار تھا۔

فرصتیں اور نزول قرآن
کلی طور پر قرآن کے تدریجی نزول کی بنیاد بھی مختلف موقعوں اور مناسبتوں پر دینی تعلیمات کی توضیح اور تشریح تھی ،جب کوئی ایسا موقع آتا ایک آیت یا چند آیات نازل ہوتیں، لوگوں کے اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر لیتیں اور دلوں میں نفوذ کر جاتیں؛ دوسری طرف قرآن نے ثقافت وقت کے برجستہ امتیاز یعنی فصاحت وبلاغت کا بھی بھرپور استعمال کیا اور سب سے زیادہ فصیح وبلیغ جملات کے ذریعہ موجودہ تمام ثقافتی وتہذیبی افکار ونظریات کو اپنا شیفتہ وگرویدہ کر لیا ۔

پیغمبر اکرم ﷺ اور موقعوں کی ایجاد
اکثر وبیشتر پیغمبر اکرم ۖ اپنی تعلیمات کوزندہ و جاوید رکھنے کیلئے پہلے موقع ایجاد کرتے تھے اور پھر اپنا پیغام سناتے تھے بعنوان مثال :ایک بار حضور اکرم ۖ اپنے اصحاب وانصار کے ساتھ بے آب وگیاہ صحرا سے گذر رہے تھے، آپ ۖنے اپنے اصحاب کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا ،سب نے عرض کی یا رسول اللہ! اس لق ودق صحرا میں لکڑیاں کہاں ؟تلاش کرو تو سہی جتنی بھی مل جائیں لے آئو، سب کے سب صحرا میں پھیل گئے اور لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف ہو گئے، تھوڑی دیر میں سب واپس آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لکڑیوں کا ایک بڑا ڈھیر وجود میں آگیا، سب حیرت میں تھے، حضورۖ نے بھی اپنے اس ایجاد کردہ موقع سے بخوبی فائدہ اٹھایا اور ایک اہم پیغام دے دیا ”تمہارے گناہ بھی تمہیں تھوڑے نظر آتے ہیں اور جب جمع ہوتے ہیں تو ایسا ہی ڈھیر لگتا ہے، جس سے تم غافل ہوتے ہو۔

مبلغین اور فرصتیں
مبلغین دین ومذہب کو ماہ رمضان، محرم و صفر، ایام فاطمیہ ،اور گرمی کی چھٹیوں جیسے دیگر موقعوں اور مناسبتوں سے بہترین فائدہ حاصل کرنا چاہئے اور اس کے علاوہ پورے سال فرصت اور موقع تلاشنے اور تراشنے میں مصروف رہنا چاہئے اور خدا پسندانہ عمل کے لئے سب سے پہلے مقصد تبلیغ واضح رہنا چاہئے کہ کیا کرنا ہے ،کیوں کرنا ہے ،اور منزل کہاں ہے!؟۔

غرض تبلیغ
سب سے بڑا مقصد تبلیغ اللہ اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دینا ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: (ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا)(٨)
اوراس سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل بھی کرے ،جو مبلغ خدا کی طرف دعوت نہ دے یا دعوت دے لیکن عمل صالح کا حامل نہ ہو وہ بہترین مبلغین کے دائرے سے خارج ہے ،واضح ہو کہ تبلیغ کا اصل مقصد وھدف تمام بندگان خدا کو خدا اور نیک اعمال کی طرف دعوت دینا ہے قرآن مجید نے اس مقصد کو تمام انبیاءکا مقصد بتایا ہے، ارشاد ہوتا ہے (ولقد بعثنا فی کل امة رسولا ان اعبدواللہ واجتنبوا الطاغوت)(٩)
یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

مقصد کے حصول کا راستہ
تبلیغی موقعوں اور فرصتوں سے پورا فائدہ اٹھانے کیلئے مبلغ کو چاہئے کہ مقصد کی صحیح تعیین ، شیطانی وسوسوںکے نفوذ اور غیر الہٰی اغراض ومقاصد سے گریز وپرہیز کے علاوہ صحیح منصوبہ بندی کرے اور معاشرہ ،مخاطبین ،تبلیغی ضرورتوں ،معاشرتی اخلاقی خطرات کی صحیح شناخت ،معاشرے کی دشواریوں اور آسانیوں کا بقدر کافی مطالعہ کرنے کے بعد راستے کا انتخاب کرے اور پھراپنے مقصد کی طرف گامزن ہو جائے ۔
حوالہ جات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔غرر الحکم۔
٢۔سورۂ آل عمران ١٤٤۔
٣۔سورۂ تکاثر٧،١۔
٤۔سورۂ یوسف٣٣۔
٥۔سورۂ یوسف٣٩۔
٦۔سورۂ انبیائ٦٣۔
٧۔سورۂ انبیائ٦٤۔
٨۔سورۂ فصلت ٣٣۔
٩۔سورۂ نحل٣٦۔

Related Articles

Back to top button