دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

قمر بنی ہاشم حضرت عباس علیہ السلام؛منتظرین کے اسوہ اور آئیڈیل

(سید وقار احمد کاظمی)

مشہور ہے کہ اگر انسان کامیابی چاہتا ہے تو کسی نہ کسی کواپناآئیڈیل اور اسوہ بنانا ہوگا، ہرشخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کے نزدیک کوئی نہ کوئی اسوہ اور آئیڈیل ہوتا ہے جس کو پیش نظررکھ کر وہ اپناہر عمل اسی کی طرح انجام دینے کی کوشش کرتا ہے اب وہ اسوہ اور آئیڈیل یا مادی ہوتاہے جیسے ہیرو، کھلاڑی وغیرہ یاروحانی ہوتاہے جیسے امام، رسول ،صالحین وغیرہ ۔
اس سلسلے میںقرآن مجید فرماتاہے: (لَقَد کٰانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَة حَسَنَة)”تمہارے لئے پیغمبر اکرمۖ کی ذات بہترین نمونۂ عمل اور آئیڈیل ہے” امام زمانہ (عج) کا ارشاد گرامی ہے :”وفِی ابنَةِ رَسُولِ اللّٰہِ لِی اُسوَةحَسَنة ” بنت نبی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی ذات ہمارے لئے بہترین نمونۂ عمل اور آئیڈیل ہے۔
اس تناظر میں انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیاوی اور مادی آئیڈیل کا انتخاب کرے اور دنیا کے زرق وبرق میں گم ہو کر رہ جائے یاپھر اپنے لئے روحانی اسوہ و آئیڈیل اختیار کرے تاکہ دنیاکے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور سکے ، ہر دور میں کچھ ایسے لوگ تاریخ کے فراز پر درخشاں رہے ہیں جنہوں نے نمائندہ الٰہی کی اس انداز میں اطاعت کی کہ وہ خود لوگوں کے لئے نمونہ عمل اور آئیڈیل بن گئے چاہے ہم رسول خداکی حیات طیبہ کا مطالعہ کریںیا خونین کفن شہید حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات جاوید کا جائزہ لیں ہمیں بعض لوگ ایسے ضرور ملیں گے جنہوںنے اپنے زمانے کے الٰہی نمائندے کی اس انداز میں اطاعت کی کہ رہتی دنیاتک نہ صرف وہ خود بلکہ ان کو نمونہ عمل اور آئیڈیل ماننے والے افراد دنیا کے کامیاب ترین افراد شمار کئے جاتے ہیں،حیات نبوی کے مطیع وفرمانبردارکو دنیا”حیدر،علی ،امیرالمومنین” کے نام سے اورحیات حسینی کے مطیع و فرمانبردار کو دنیا ”ثانی حیدر ، قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس ” کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
جس عہد میں ہم سانسیں لے رہے ہیں اور روز وشب گزار رہے ہیں اسے”عصر غیبت” کہا جاتا ہے۔اِس دور کا افضل ترین عمل” انتظار فرج” ہے (اَفضَلُ الاَعمٰالِ اِنتِظٰارُ الفَرَج)لہٰذاجب بہترین عمل انتظارہے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انتظار کریں لیکن کیاانتظار کاواقعی مفہو م یہ ہے کہ ہم صرف زبان سے کہیں کہ ہم امام کا انتظار کر رہیں ہیں یا نہیں بلکہ واقعی منتظر ہونے کے لئے عمل درکار ہے ؟ظاہر ہے ہر عقل سلیم رکھنے والایہی جواب دے گاکہ صرف طلاقت لسانی کافی نہیں بلکہ عمل ضروری ہے جب عمل ضروری ہے تو ہمارے سامنے کسی کا عمل ہو نا چاہئے کہ جس کوہم اپنا نمونہ ٔ عمل اور آئیڈیل بنا سکیںاور اسی کے مطابق عمل کریں۔
بے شک اپنے زمانے کے امام کے سلسلے میں حضرت عباس کا عمل ایک ایسا نمونہ عمل ہے کہ جس سے افضل اور بہترکوئی نمونہ عمل وآئیڈیل نہیںلہٰذا اس زمانے میں امام زمانہ( عج)کے منتظرین کیلئے حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کی ذات بہترین نمونہ عمل اور آئیڈیل ہے،اس حقیقت کو درک کرنے ا ور سمجھنے کیلئے یہاں صرف آپ کے رجز کا تجزیہ وتحلیل پیش کیا جارہا ہے اگرچہ آپ کی زیارت میںبے پناہ دروس موجود ہیں جیسے:زمانے کے امام کے سامنے تسلیم ، ان کی تصدیق، ان سے وفا، ان کی نصرت ، ایثار کا جذبہ ،خضوع وخشوع اور بصیرت… وغیرہ۔
ہر شخص کے اشعار، رجز اوراس کے نعرے(شعار)اس کے شعور،افکار اور خواہشوں کے عکاس ہوتے ہیں ،رجز دل میں پوشیدہ جوہر (خواہشات)کو ظاہر کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے لہٰذا ہم حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے رجز پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ مفہوم رجز کے ذریعہ حضرت عباس کی عظمت ظاہر ہوسکے اور اِس زمانے کے لئے درس اورمشعل راہ قرار پائے :
جب حضرت عباس علمدار پانی لانے کیلئے نہر فرات کی طرف چلے تو آ پ نے دشمنوں پر حملہ کیا اور اُس وقت اِس انداز میں رجزخوانی کی :
نَفسِی لِسِبطِ المصطفیٰ الطُّھرِوِقی
اِنِّی اَنا العَبّاسُ اَغدُو بالسّقا (١)
ہماری جان حضرت محمد مصطفےۖ کے فرزند پر قربان، میںعباس ہوں(مشک لے کے) پیاسوںکوسیراب کرنے آیا ہوں ۔
امام زمانہ(عج)کے چاہنے والے ، عاشقین اور منتظرین دعائے ندبہ میں متعدد بار ”بنفسی انت”(ہماری جان آپ پرقربان)کے جملے کی تکرا رکرتے ہیں مگر ذرا اپنے ضمیرکو ٹٹول کرسوال کیجئے کہ کیا ہم اپنے زمانے کے امام کے لئے اسی طرح ہیں کہ جس طرح حضرت عباس باوفا اپنے زمانے کے امام کے لئے تھے ؟کیاہمارا سلوک حضرت عباس کے سلوک سے میل کھاتاہے؟!
آپ نے نہر فرات سے نکلنے کے بعد فرمایا:
ھٰذا الحُسَین واردَ المَنونِ وَ تَشرَبِین باردَ المَعِین(٢)
”یہ حسین ہیں جو لب تشنہ اور موت کے قریب ہیں اور توچاہتاہے کہ ٹھنڈا پانی پئے!
جناب عبا س کے متذکرہ ارشاد کے تناظر میں اب امام زمانہ (عج)کے منتظرین اور ناصرین کا اس زمانے میں کیا شعارہونا چاہئے اورامام کے ماننے والوں کو کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے، امام زمانہ (عج) زندان غیبت (٣)میں حکم خدا کے منتظر ہیں اور ہم ان کی یاد کوبھلاکردنیاوی رعنائیوں اور لذتوں میںپڑے رہیں؟! نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہمیں دعا ومناجات کرنا چاہئے اور اپنے اعمال وکردار سے زمینہ فراہم کرنا چاہئے تاکہ امام عصر(عج) غیبت کے قید خانے سے باہر آئیں اور قاتلان امام حسین سے بھر پور بدلہ لیں۔
جب آپ کا داہنا بازو امام کی نصرت میں قلم ہواتو آپ نے فرمایا:
واللہِ اِن قَطَعتُم یَمِینی
اِنِّی اُحامی اَبدا ً عن دِینی
و عن امامٍ صادقِ الیقینِ
َنجل النّبیِ الطاھرِ الامینِ (٤)
”بخدا !اگرچہ تم لوگوں نے ہمارا داہنا بازو قطع کردیا ہے ، لیکن جب تک زندہ ہوں اپنے دین اوراس امام کا جس پر سچا یقین ہے اور پیغمبر امین کا فرزند ہے، دفاع کرتا رہوں گا”۔
اس سلسلے میںعبد الرزاق مقرم کا افادہ لائق توجہ ہے، وہ لکھتے ہیں:
فلم یعبأ بِیَمینہِ بعدَاَن کانَ ھَمُّہُ ایصالُ المائِ الی اَطفالِ الحسین ، حضرت ابو الفضل العبا س کا داہنہ بازوقلم ہو گیا”لیکن انہوں نے ہاتھ کے کٹنے اور جدا ہونے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان کا ساراہم وغم اورمقصد یہ تھا کہ حسین کے بچوں تک پانی پہنچ جائے۔(٥)
اگر ہم امام زمانہ (عج)کی نصرت کی راہ میں زحمت وسختی میں گرفتار ہوجائیں تو کیا ہم اسی طرح سے اپنے عمل کو انجام دے سکتے ہیں جس طرح زحمت وسختی سے پہلے انجام دے رہے تھے ؟
فَجادَ بالیَمِینِ وَ الشِّمال
لِنُصرةِ الدِّینِ وَحِفظِ الآل(٦)
”پس اس نے اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ کو (خدا کی راہ میں )قربان کردیا تاکہ دین کی مدد ہو اور خاندان رسالت محفوظ رہے”۔
ہم نے اپنی زندگی کا کتنا حصہ اپنے زمانے کے امام کی مدد کے لئے وقف کیا ہے اور کتنی آمادگی رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کریں ؟ اس سلسلے میں ہر شخص کو اچھی طرح غور وفکر کرنا چاہئے ۔
الموتُ تحتَ ضَبابِ السیفِ مَکرَمة
اِن کانَ مِن بَعدِہِ اِسکانَ جَنّات
لا تاسِفَنَّ علیٰ الدُّنیٰا وَ لذَّتِھا
فَعِندَ جَدِّی تُغفر کُلُّ زلّاتِ(٧)
”تلوار کے ذریعہ موت ،عظمت وسر بلندی اور بزرگواری ہے جب اس کے بعد بہشت میں سکونت ملے،دنیا اور اسکی لذتوں پر بالکل افسوس نہ کرو، صرف اورصرف ہمارے جد کے نزدیک تمام خطائیں معاف ہوسکتی ہیں۔
اگر ہم اس خاندان سے شفاعت کے متمنی ہیں تو ہمیں اس دن (قیامت) کے لئے زاد و سرمایہ اکٹھا کرناچاہئے، اور امام زمانہ(عج) کی نصرت سے بہتر کوئی سرمایہ نہیں۔
اس رجز سے ہمیں درس ملتا ہے کہ دنیا اور اسکی فانی لذتوں سے منھ موڑکر اپنی زندگی امام زمانہ(عج)کی نصرت میں اور ان کی راہ میں بسرکریں اور اس راہ میں ہر سختی برداشت کریں۔
جب جناب عباس اپنی تلوار کے ذریعہ اپنے زمانے کے امام کے دشمنوں کوپراکندہ اور متفرق کر رہے تھے تو یہ رجز پڑھ رہے تھے:
اَذُبُّ عن سبط النَّبِیِّ اَحمَدِ
اَضرِبُکُم بِالصّارِمِ المُھَنَّدِ
”پیغمبر اسلام حضرت احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کی حمایت اور ان کا دفاع کررہا ہوں اور تیزی سے کاٹنے والی تلوار کے ذریعہ تمہیں قتل کروں گا ”۔
آج کل شیعوں کے دشمن ہر طرف اور ہر وسیلے سے مسئلہ امامت اور ولایت پر حملہ کررہے ہیں ،بد بخت صہیونست فیلم اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ مہدویت کے مسئلہ پر حملہ آور ہو رہے ہیں ،لہٰذا یہ مسئلہ اس بات کا مطالبہ کررہا ہے کہ ہر شخص ہر ممکن طریقے سے شیعوں اور خصوصاً مہدویت کا دفاع کرے،ہرشخص جتنابھی ہوسکے اپناوقت اپنی استطاعت اپنی قدرت حضرت عباس کی طرح اپنے زمانے کے امام کے لئے اور ان کی نصرت کیلئے صرف کرے۔
مختصر یہ کہ جناب عباس کے رجز کی روح وجان چار چیزیں ہیں:
فدائی،حامی،ساعی،مواسی

١۔فدائی(فدا ہوجانے والا)
حضرت عباس اپنے مولا کے فدائی یعنی ان پر فدا ہوجانے والے تھے ،جو کچھ تھا سب اپنے زمانے کے امام کی خدمت میں پیش کردیا اور دین پرقربان کردیا یہاں تک کہ اپنے دونور نظر کو امام پرنثار کردیا ۔(٩) لہٰذاہم زیارت ناحیہ میں یہ پڑھتے ہیں:
”الفٰادِی لہ”(١٠)
جس نے خود کو اپنے بھائی پر فدا کردیا۔
امام زمانہ (عج) کوبھی فدائی کی ضرورت ہے امام کو ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اپنا سب کچھ آپ پر قربان کر دینے کیلئے تیار ہو۔

٢۔حامی(حمایت کرنے والا)
حمایت کی آخری حد کو باب الحوائج قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس کہتے ہیں ، آپ کا اپنے زمانے کے امام کی حمایت کرنا روز روشن کی طرح واضح ہے اور اسکازندہ ثبوت آپ کے رجزہیں لہٰذا ہم روز عرفہ کی زیارت میں پڑھتے ہیں :
فنِعمَ الاَخ ُالصَّابرُ المجاھِدُ المُحامِی النَّاصرُ(١١)
آپ کتنے بہترین ،صابر ،مجاہد،حمایت کرنے والے اور مدد کرنے والے بھائی ہیں ۔
اب غور کریں کہ کتنی دیر ہم اپنی زندگی کا اپنے زمانے کے امام کی حمایت میں صرف کرتے ہیں ،حمایت تو دور ان کی یاد میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟!

٣۔ساعی (سعی وکوشش کرنے والا)
امام حسین علیہ السلام کے اہداف کیلئے تلاش وکوشش (سعی) کرنے والوں میں جو سب سے نمایاں نام ہے وہ دلاور کربلا حضرت ابو الفضل العباس کانام ہے،آپ کے رجز اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں آپ نے ایک لحظہ بھی بی توجہی ،بہانہ یا میدان عمل سے فرارنہیں کیا (ایسا سوچنا بھی غلط ہے)آپ کے بازو جسم سے جدا ہوگئے لیکن آپ نے اپنے مقصد کی طرف حرکت کو ترک نہیں کیا،لہٰذا امام علی نقی علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کے مقام ومنزلت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
السَّاعِی اِلَیہِ بِمائِہ(١٢)
”(حضرت عباس )جس نے اپنی ساری سعی وکوشش پیاسوں کے ہونٹوں تک پانی پہنچانے میں صرف کردی” ۔
اگر عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کی تمنا یہ تھی کہ پانی خیمہ تک پہنچ جائے اور جناب عباس نے اس تمنا کو پورا کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی تو آج زمانے کے امام کی تمنا یہ ہے کہ ”خالص اسلامی معارف” اور ”مہدویت کی حقیقت ” تشنگان عالم تک پہونچایا جائے تو پھر ہمیں اس سلسلے میں تمام تر کوششیں صرف کردینی چاہئے ۔

٤۔مواسی(نصرت ومدد کرنے والا)
مواسی ،مواسات سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ، نصرت اور ہمدردی کے ہیں ، اور اسکے اصلی معنی” کاٹنے اور قطع کرنے” کے ہیں بہرحال یہ کلمہ ہمدردی اور محبت کی شدت کے لئے استعمال ہوتا ہے ،قمر بنی ہاشم جناب عباس علمدار اپنا رشتہ وناتا ساری دنیا سے توڑ کر اپنے بھائی اور زمانے کے امام حسین بن علی سے جوڑ کر بھر پور معرفت کے ساتھ اپنے مولاکی خدمت میں حاضر تھے اسی لئے تو امام ھادی علیہ السلام نے آپ پر اس طرح سلام بھیجا ہے :
اَلسَّلامُ علیٰ اَبَی الفَضلِ العباسِ بنِ اَمیرِ المُؤمنین ،المُواسِی اَخاہُ بِنَفسِہِ
”سلام ہو حضرت ابو الفضل العباس بن امیرالمومنین پر کہ جنہوں نے کمال نصرت و ہمدردی کے ساتھ اپنی جان اپنے بھائی پر نثار کر دی”۔
اورروز عرفہ کی زیارت میں اس طرح پڑھتے ہیں :
فنعم الاخ المُواسِی”آپ ہمدردی اور نصرت کے اعتبار سے(امام حسین کے) کتنے بہترین بھائی ہیں (ہمدردی اور نصرت میں آپ سے بہتر کوئی نہیں تھا )۔
عید فطر کی زیارت میں پڑھتے ہیں :
السَّلامُ عَلَیکَ ایُّھا العَبدُ الصّالِحُ وَالصِّدِّیقُ المُواسِی اَشہَدُ…واسیتَ بِنَفسِک
”سلام ہو آپ پر ا ے صالح ،صادق اور ناصر بندے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے تمام وجود کے ذریعہ رسول خدا کے بیٹے کی نصرت اور ہمدردی کی”۔
ایک شاعر نے کیا بہترین شعر کہا ہے:
و من واساہُ لا یثنیہ شیٔ
وجادَلَہُ علیٰ عَطَشٍ بمائ
اور وہ کہ جس نے امام حسین کے ساتھ ہمدردی و نصرت کامظاہرہ کیا اور کسی بھی چیز ( سختی اور مشکل)نے بھائی کی ہمدردی اور نصرت سے منصرف نہیں کیا اورجب پانی تک پہنچے توسخت پیاس کے باوجود ایک قطر ہ پانی نہیں پیا۔
آخر میں خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا ہمیں حقیقی منتظربننے کی توفیق عنایت فرمائے!

حوالہ جات
١۔بحار الانوار،ج٤٥،ص٤٠
٢۔ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٤٥
٣۔ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیاہے کہ آپ نے امام زمانہ(عج) اور بعض انبیاء کی شباہت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:” فی صاحب الامر …سنة من یوسف…واما من یوسف فالسجن والغیبة”(کمال الدین ،باب٣٢،ح١١)
٤۔ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٤٥
٥۔مقتل مقرم،ص٢٦٩
٦۔سردار کربلا،ص٢١٢
٧۔پرچم دار نینوا،ص١٧٦
٨۔ علامہ سید محسن امین نے جناب عباس کے دو فرزند (محمداورعبد اللہ )کا ذکر شہیدا ن کربلا میں کیا ہے ”اعیان الشیعہ ،ج١ص٦١٠”لیکن محدث کبیر ،ابن شہر آشوب نے جناب عباس کے ایک فرزند(محمد)کا شمار شہدائے کربلا میںکیاہے ،”مناقب آ ل ابیطالب، ج٤ص١١٢”
٩۔اقبال الاعمال،ج٣،ص٧٤؛ بحار الانوار، ج٤٥، ص٦٦
١٠۔مفاتیح الجنان ،زیارت حضرت عباس ،روز عرفہ
١١۔اقبال الاعمال،ج٣ص٧٤؛بحار الانوار، ج٤٥،ص٦٦
١٢۔لہوف،سید بن طائووس ،ص١٦٨

Related Articles

Back to top button