اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

مقام و شہرت طلبی سے پرہیز

(قاسم علی بنارسی)

مقدمہ
علم و حکمت اور اخلاق و کردار کے عظیم درجے پر فائز افراد کے اعمال و رفتار کو اسوہ اور نمونے کے اعتبار سے دیکھنا اس امر کا باعث ہے کہ انسان اپنے اعمال و رفتار میں غور و فکر کرے اور ان افراد کی شخصیات کو اسوہ اور نمونہ قرار دیتے ہوئے اپنی اخلاقی شخصیت کو سنوارنے ، سجانے اور بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ شہرت و مقام طلبی سے پرہیز کرنا ایک ایسی اخلاقی فضلیت ہے جو انسان کے خلوص نیت کی بیانگر اور ان کے تمام امور کے قربة الی اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ اور یہ خصوصیات علماء اور دانشوروں کی زندگی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، لیجئے آئندہ سطور میں ان کی کچھ جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔

اجباری صورت میں مرجعیت قبول کرنا
صاحب جواہر اعلی اللہ مقامہ نے ایک جلسہ تشکیل دینے کی تاکید کی اور اس بات پر زور دیا کہ اس میں نجف اشرف کے تمام مشہور اور برجستہ علمائے دین شرکت کریں۔ اس جلسہ میں شیخ انصاری کے علاوہ تمام علمائے نجف تشریف لائے، حالانکہ شیخ انصاری کی موجودگی ، صاحب جواہر کے لئے بہت ضروری تھی، لہذا حکم دیا کہ جلد از جلد انہیں جلسے میں بلایا جائے، لوگوں نے بڑی تلاش و جستجو کے بعد انہیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے حرم مطہر میں اس حالت میں پایا کہ قبلے کی طرف رخ کر کے کھڑے ہیں اور صاحب جواہر کی شفایابی کی دعا کر رہے ہیں، لوگوں نے انتظار کیا اور جب دعا ختم ہو گئی تو انہیں بتایا کہ صاحب جواہر نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ یہ سنتے ہی بہت تیزی کے ساتھ صاحب جواہر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، صاحب جواہر نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا اور ان کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور فرمایا: ”موت میرے لئے اب لذت بخش ہے” اس کے بعد حاضرین جلسہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”یہ شخص میرے بعد آپ کے درمیان مرجع اور رہبر ہے” اس کے بعد شیخ انصاری کی طرف رخ کر کے فرمایا: ” احتیاط اور سختی میں کمی لائو اس لئے کہ دین اسلام ایک آسان دین ہے”۔

ابھی جلسے کو ختم ہوئے چند گھنٹے ہی گذرے تھے کہ صاحب جواہر کا انتقال ہو گیا، ان کی رحلت کے بعد ان چار سو علماء نے شیخ انصاری کی اعلمیت کا اعلان کیاجو مجتہدین میں سے تھے؛ لیکن شیخ انصاری نے مرجعیت قبول نہیں کی اور احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے فتویٰ نہیں دیا۔ انہوں نے اس ذمہ داری سے بچنے کے لئے قم میں موجود ”سعید مازندرانی” کو ایک خط میں اس طرح لکھا: ”آپ جب کربلا میں تحصیل علم میں مشغول تھے تو درس کو مجھ سے بہتر سمجھتے اور پڑھتے تھے اب جبکہ صاحب جواہر اس دنیا میں نہیں رہے آپ نجف اشرف تشریف لائیں اور مرجعیت کا عہدہ سنبھالیں۔” سعیدالعلماء مازندرانی نے ان کے جواب میں اس طرح لکھا: ”آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن اس وقت یہ عہدہ اور مقام آپ کے لئے زیادہ مناسب ہے کیونکہ آپ نے حوزے میں موجود رہ کر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن میں زیادہ تر لوگوں کے امور کی انجام دہی میں مشغول رہا ہوں۔” جس وقت شیخ انصاری کو سعیدالعلماء کا جواب ملا حضرت علی علیہ السلام کے حرم مطہر میں تشریف لائے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے امام علیہ السلام سے دعا کی کہ اس اہم اور عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے میں ان کی مدد کریں۔(١)

افسوسناک خوشحالی
زمین میرزا شیرازی کے بابرکت وجود سے خالی ہو گئی اور لوگ ان کے فیوض و برکات سے محروم ہو گئے، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کی آنکھیں ان کی رحلت کی خبر سن کر اشکبار نہ ہوئی ہوں؛ لیکن انہیں افراد کے درمیان میرزا شیرازی کے ایک شاگرد محمد فشار کا حال کچھ اور ہی تھا، کیونکہ میرزا شیرازی جیسے استاد کا انتقال ہوا تھا لہذا ان کے فراق و غم میں سیاہ لباس تو پہن رکھا تھا لیکن دل ہی دل میں ایک ایسی خوشی کا احساس ہو رہا تھا جو خود ان کی نظر میں پسندیدہ نہیں تھی۔ انہوں نے بہت زیادہ غور و فکر کیا کہ آخر اس خوشی کی وجہ کیا ہے؟ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ شاید میرزا شیرازی کے بعد عہدہ مرجعیت نصیب ہو جائے گا۔ حکومت و ریاست کی ہی طمع اور لالچ ان کے اندر خوشی کا احساس پیدا کر رہی ہے۔ غور و فکر کے عالم میں مولائے کائنات حضرت علی ابن ابیطالب کے حرم مطہر میں تشریف لائے اور ساری رات گریہ و زاری کی حالت میں گزار دی، یہاں تک صبح نمودار ہوئی، اور امام علیہ السلام کی قبر مطہر پر ایک ہی دعا کرتے رہے کہ اس ریاست و حکومت کی طمع ان کے دل سے دور کریں۔ اس کے بعد اسی حالت میں کہ آنکھیں پوری رات گریہ و زاری کے سبب سرخ ہو چکی تھیں میرزا شیرازی کی تشیع جنازہ میں شرکت کی اور کبھی بھی مرجعیت کا عہدہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ (٢)

گمنام مؤلف
سلطان الواعظین شیرازی سرداب (غیبت) کی زیارت کے لئے سامرا تشریف لے گئے ، ان کے ہمراہ مفاتیح الجنان بھی تھی جو اسی زمانے میں پہلی بار چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ سلطان الواعظین اسی مفاتیح الجنان سے اعمال انجام دے کر زیارت پڑھ رہے تھے کہ ان کے پاس ذکر الٰہی میں مشغول ایک بزرگ شخص نے ان کو دیکھ کر کہا: ”اس کتاب کا مؤلف کون ہے؟” سلطان الواعظین نے جواب میں فرمایا: ”اس کتاب کے مؤلف محدث قمی ہیں” اور بڑی ہی تعریف و تمجید کے ساتھ شیخ عباس قمی اور ان کی کتاب کا تعارف کرایا۔ اس بزرگ نے سلطان الواعظین کی گفتگو سن کر کہا: ” جیسی آپ ان کی تعریف و تمجید کر رہے ہیں وہ اس طرح نہیں ہیں۔” سلطان الواعظین یہ سن کر غضبناک ہو گئے اور اس شخص سے کہا: ”یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ” وہیں بیٹھا ہوا ایک دوسرا شخص بولا: ”آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ شخص کوئی اور نہیں خود شیخ عباس قمی تھے” سلطان الواعظین نے جیسے ہی یہ بات سنی نہایت شرمندگی کے ساتھ بڑی تیزی سے اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور شیخ عباس قمی کی پیشانی کا بوسہ لیا اور ان سے معذرت خواہی کی، اس کے بعد ان کے ہاتھوں کا بوسہ لینے کے لئے جھکے لیکن محدث قمی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور خود جھک کر سلطان الواعظین کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور فرمایا: ” آپ سید اور اولاد پیغمبر ۖ میں سے ہیں”۔ (٣)

توضیح المسائل نشر کرنے کی ممانعت
حضرت امام خمینی چاپلوس اور احسان جتانے والے افراد سے کبھی راضی و خوشحال نہیں ہوئے، اور اپنے طرفداروں کو ان کی شخصیت پامال کرنے اور منظر عام پر لانے کی سختی سے ممانعت کرتے، جیسا کہ امام خمینی چاہتے تھے حتی اس افواہ کو جو امام خمینی کے گھر میں ان کو مرجع اور رہبر بنانے کی مہم چل رہی ہے لوگوں کے درمیان سے نیست و نابود کر دیں، لہذا یہ اعلان کر دیا کہ: ”میں اس بات سے قطعی راضی نہیں ہوں کہ میرے گھر میں اس سلسلے میں کوئی بحث و گفتگو کی جائے یا اقدام کیا جائے۔” کوئی شخص ایک نمونہ بھی پیش نہیں کر سکتا کہ امام خمینی کے گھر سے چاہے انقلاب سے پہلے یا اس کے بعد امام خمینی کی ایک تصویر یا توضیح المسائل بھی کسی کو تقسیم کی گئی ہو۔ بعض دوستوں نے بیان کیا ہے کہ انقلاب سے پہلے ١٣٤١ یا ١٣٤٢ (ہجری شمسی) میں مختلف شہروں اور ملکوں خاص طور سے پاکستان سے امام خمینی کی توضیح المسائل کا تقاضا کیا گیا لہذا ہم نے بہت کوشش کی کہ امام کو راضی کریں کہ وہ ہمیں اس بات کی اجازت دیں کہ ہم رقوم شرعی کو اس کام میں خرچ کریں۔ امام خمینی نے اس سلسلے میں جو بات کہی تھی وہ یہ ہے ک: ”میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے مرجعیت تک پہنچنے کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا ہے، لیکن ہاں اگر مرجعیت خود میرے پاس چل کر آئے تو میں اسے قبول کرنے میں کوئی خوف و تردد محسوس نہیں کروں گا۔” (٤)

آپ سے یہ امید نہیں تھی
مرحوم آیة اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد قم کے تمام فقہاء اور علماء نے سوال و جواب کے جلسے کا انعقاد کیا، لیکن امام خمینی نے ایسا نہیں کیا۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ: ”آپ اگر اجازت دیں تو میں بعض فقہاء اور علماء کو اس بات کی دعوت دوں کہ وہ کچھ اوقات آپ کے گھر تشریف لائیں، اور آپ ان کے سامنے فقہ کے کچھ مشکل مسائل بیان کریں تاکہ وہ بحث و مباحثہ کریں اور اس امر میں پختہ ہو جائیں۔” البتہ میں اس سے وہی سوال و جواب کا جلسہ مراد لے رہا تھا لیکن میں نے اس کا نام اس لئے نہیں لیا کہ امام خمینی کہیں انکار نہ کر دیں۔ میری گفتگو تمام ہونے کے بعد امام خمینی نے میری طرف نگاہ کی اور فرمایا: ”آقائے امینی! مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی! میں تو منتظر تھا کہ آپ مجھ سے کہیں گے کہ : آپ تو بوڑھے اور ضعیف ہو گئے ہیں آپ کی موت قریب ہے لہذا آپ خدا ، آخرت اور قیامت کی فکر کریں اور نفس امارہ سے جہاد کر کے اپنی اصلاح کریں۔”

جی ہاں ! امام خمینی تمام چیزوں سے زیادہ اپنے نفس کی مراقبت کرتے تھے اور تمام شرک آلود نفسانی خواہشات و میلانات سے ہمیشہ برسرپیکار رہتے ہوئے اپنے عمل میں خلوص پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ (٥)

شہرت پسندی سے پرہیز
مرحوم آیة اللہ حکیم جب اس دنیا سے رخصت ہو ئے، ابھی ان کے جنازے کو دفن کے لئے نجف اشرف نہیں لایا گیا تھا۔ حضرت امام خمینی کا ایک خادم جس کا نام ”مشہدی حسین” تھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ”حضرت (امام خمینی) نے بلایا ہے۔” صبح کا وقت تھا میں ان کے گھر پہنچا، امام خمینی تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: ”میرے دوستوں سے کہہ دیجئے بات نہ کریں۔” امام خمینی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ انہیں چاہتے اور دوست رکھتے تھے ان کی موجودگی اور بزرگی و کرامت کی تبلیغ کرنے سے پرہیز کریں۔ میں ان لوگوں کے درمیان پہنچا اور امام خمینی کے پیغام کو ان تک پہنچایا کہ: ”کوئی بھی شخص مراسم کے وقت ان کی تجلیل و تکریم بیان نہ کرے” ۔ اگر حضرت امام خمینی یہ حکم نہ دیتے تو ان کی تبلیغ کرنے والوں میں خود میں بھی ہوتا۔ یہاں تک کہ جتنے بھی دوستوں سے ملاقات ہوئی سب تک امام خمینی کا یہ پیغام پہنچایا۔ لیکن اگر خدا کسی کو عزتوں سے نواز کر بزرگ و محترم بنانا چاہے تو کوئی اسے بزرگ و محترم ہونے سے روک نہیں سکتا۔ اور خدا یہی چاہتا تھا کہ اسلام کے پرچم کو امام خمینی کو ہاتھوں میں دے۔ (٦)

اپنی واہ واہ کو ناپسند سمجھنا
مرحوم آیة اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد ایک غیرمعروف گروہ نے اس بات کی بہت زیادہ تبلیغ کی کہ مرحوم آیة اللہ بروجردی کی مجالس عزاداری میں کسی مرجع کا نام نہ لیا جائے۔ لیکن ١٨ روز بعد شہنشاہی دربار نے آیة اللہ بروجردی کی خبر اس امید کے ساتھ نجف اشرف تک پہنچائی کہ مرجعیت قم سے منتقل ہوکر نجف اشرف چلی جائے اور حوزہ علمیہ قم آہستہ آہستہ مضمحل و نابود ہو جائے۔ اس وقت صرف ایک ہی راستہ بچا تھا وہ یہ کہ مسجد اعظم میں جہاں چالیس روز تک مجالس برپا ہونے والی تھی حوزۂ علمیہ قم کی مشہور و معروف شخصیتوں کی طرف سے مجلس فاتحہ منعقد کی جائے… مرحوم آیة اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد پندرہ روز گذر چکے تھے یہاں تک کہ مجلس فاتحہ منعقد کرنے والی معروف و مشہور شخصیتوں کی فہرست تمام ہو چکی تھی جو ایک بہت بڑی مصیبت و پریشانی کا باعث تھی لیکن حضرت امام خمینی کی طرف سے ابھی مجلس فاتحہ منعقد نہیں ہوئی تھی۔

٢٥ شوال المکرم کو جو امام صادق علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے آیة اللہ سعیدی علمائے مشہد کے ایک گروہ کے ساتھ امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اگر آیة اللہ بروجردی کی رحلت میں آپ مجلس فاتحہ منعقد نہیں کریں گے تو اس کا منفی اثر ہوگا۔ آیة اللہ سعیدی اور طلاب مشہد کی فرمائش کے مطابق ٢٥ شوال کو امام خمینی کی طرف سے مجلس فاتحہ منعقد کی گئی۔ جس وقت بانی مجلس امام خمینی مجلس میں داخل ہوئے، اعلان کرنے والے نے امام خمینی کے آنے کی خبر دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ: ”یہ مجلس فاتحہ آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی کی طرف سے منعقد کی گئی ہے۔” امام خمینی نے اسے بلایا اور سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے اس سے فرمایا: ” شام تک یہ مجلس برقرار رہے گی اس درمیان تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی زبان پر ایک مرتبہ بھی میرا نام لاؤ۔” (٧)

حوالہ جات
١۔ زندگانی و شخصیت شیخ مفید، حسین علی نویان، ص٧٣،٧٤
٢۔ یادنامہ شہید قدوسی، ج١، ص٢٠٣
٣۔ سیمای فرزانگان، رضا مختاری، ص٢٥٤
٤۔ ویژگیھای امام خمینی، ص٨٢
٥۔ پرتوی از خورشید، حسین رودسری، ص٢٤
٦۔ سرگذشتہای ویژہ از زندگی امام خمینی، ج٦، ص١٤٧
٧۔ گفتہ ہا و ناگفتہ ہا از زندگی امام خمینی، ج٣، ص١٧٩

Related Articles

Back to top button