ایک دن کی حکومت
ایک جوان کو حکومت حاصل کرنے کی بڑی آرزو تھی،وہ ہمیشہ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر کہا کرتا تھا کہ کاش!مجھے ایک دن کی حکومت مل جائے تو میں بھی ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوں جن سے بادشاہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
لوگ اس کی یہ بات سن کر ہنستے تھے اور ایک دوسرے سے بیان کرتے تھے، اس کی یہ آرزو جب بادشاہ کے درباریوں تک پہنچی تو انہوں نے ایک دن بادشاہ کو اس شخص کی اس خواہش سے آگاہ کیا۔
بادشاہ نے اس جوان کو بلایا اور کہا:میں نے سنا ہے تجھے ایک روزہ حکومت کا بڑا شوق ہے؟
جوان نے کہا:جی ہاں!یہ سچ ہے۔
بادشاہ نے کہا: جوان!ایک دن کی بادشاہی سے تجھے کیا ملے گا؟
جوان کہنے لگا:بس میرے دل کی یہ شدید خواہش ہے،میں چاہتا ہوں کہ میں بھی زندگی میں کم از کم ایک دن کے لیے ان لذتوں سے لطف اندوز ہو سکوں جن سے آپ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
بادشاہ نے کہا:تو بس ٹھیک ہے کل صبح یہاںآجانا ہم تجھے ایک دن کی شاہی دیں گے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سن لے کہ سارا دن تجھے تخت پر ہی بیٹھنا ہوگا۔
جوان کو فرطِ مسرت سے رات بھر نیند نہ آئی،صبح ہوئی تو وہ بھاگم بھاگ بادشاہ کے محل میں پہنچ گیا،بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے ایک دن کے لیے شاہی خلعت پہنائی جائے اوراس کے سر پر تاج رکھا جائے،پھر جوان کو حکم دیا کہ وہ تخت شاہی پر بیٹھ جائے۔
جوان خوشی خوشی تخت پر بیٹھا اور بادشاہ سے پوچھا کہ اب آپ بتائیں تخت پر بیٹھ کر آپ کس چیز کا لطف اٹھاتے تھے؟
بادشاہ نے کہا:میں موسیقی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔
جوان نے حکم دیا:ہمیں بھی موسیقی سے لطف اندوز کیا جائے،تھوڑی سی دیر میںموسیقار آگئے۔
اتنے میں ایک وزیر نے جوان کو متوجہ کیا کہ وہ اپنے سر کے اوپر دیکھے۔
جوان نے جب اوپر نگاہ اٹھائی تو اس کے اوسان خطا ہوگئے،اس نے دیکھا کہ اس کے سر پر زہر میں بجھی ہوئی تیز تلوار ایک میٹر بلندی پر لٹک رہی ہے اور وہ تلوار بالکل بال جیسے باریک دھاگے سے بندھی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے اور تلوار اس کی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
سر پر لٹکتی تلوار دیکھ اس کے تمام جذبات ٹھنڈے پڑ گئے اور جیسے ہی سازندوں نے طبلہ بجانا شروع کیا تو اس نے انہیں سمجھایا کہ وہ آہستہ سے طبلہ بجائیں،ایسا نہ ہو کہ طبلے کے شور سے وہ کمزور سا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے۔
بیچارا تلوار کی وجہ سے سخت پریشان رہا اور جب اس کے سامنے شاہی کھانا رکھا گیا تو دو لقموں سے زیادہ نہ کھا سکا اور جیسے ہی کوئی شخص دربار میں داخل ہوتا اور دروازہ کھلتا تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی کہ کہیں کمزور دھاگہ ٹوٹ نہ جائے اور تلوار گر نہ پڑے۔
الغرض سارا دن وہ سخت بے چینی کا شکار رہا،اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہوگیا،اسے اس دن کا ایک لمحہ بھی سالوں پر بھاری لگا،وہ دل میں دعا مانگتا رہا کہ خدا کرے کہ اس کی زندگی کا یہ منحوس ترین دن جلد ختم ہو تو اسے اس تخت سے رہائی نصیب ہو۔
آخر کار سورج غروب ہوا اور جوان تخت سے اترا تو اس کی جان میں جان آئی اور اپنی سلامتی پر خدا کا شکر ادا کیا۔
پھر جوان نے بادشاہ سے کہا:آپ نے تلوار لٹکا کر مجھے بہت بے چین کئے رکھا،ہمارے معاہدے میں یہ تلوار تو شامل نہ تھی۔
بادشاہ نے کہا:جوان!یہ سچ ہے کہ جب میں تخت پر بیٹھا ہوں تومیرے سر پر یہ موجود نہیں ہوتی لیکن تم یقین کروکہ اس تخت پر بیٹھ کر میرا دل بھی تمہاری طرح پریشان رہتا ہے کیونکہ سلطنت کے ہزاروں اندورنی مسائل ہیں اور بیرونی دشمنوں اور آستین کے سانپوں سے مجھے ہر وقت خطرہ رہتا ہے،میں نے اس خطرے کو واضح کرنے کے لیے تلوار لٹکائی تھی تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ سلطنت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے،سارا دن میں اس تخت پر بے چین رہتاہوں،یہ میری حالت ہے جبکہ میں ایک دنیا پرست شخص ہوں اور اگر یہ سلطنت کسی خدا ترس شخص کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ذمے داریوں کی وجہ سے رات کو بھی چین نہیں آئے گا۔
(حوالہ)
(انوارنعمانیہ ص۲۲۰)