دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

جہان انسانیت کے دو عظیم غم: غم رسولؐ اور غم حسینؑ

(سید ظہیر عباس رضوی الہٰ بادی)

علمائے کرام نے رسول خدا ۖ کے بارے میں ایک معروف دعا نقل کی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کی قسم! آج کے دن یعنی بعثت کے دن وہ شخص مبعوث بہ رسالت ہوا جو اسم اعظم کا مظہر ہے، جو اواخر میں اس دارفانی سے کوچ کرکے اپنے حبیب کی بارگاہ میں پہونچ گیا: ”اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ بِالتَّجَلِّیِ الْاَعْظَمْ فِیْ ھَذَا الْیَوْمِ” یا ”فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ”۔(١)
یہ ایساسخت مرحلہ ہے کہ جس نے چاہنے والوں کے دلوں کوچھلنی کردیا۔
مولا علی رسولۖ کی عظیم مفارقت پر فرماتے ہیں: ”لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مَالَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَالاِنْبَائِ وَ اَخْبَارِ الْسَّمَائِ”(٢)
”آپ کی وفات سے وہ تمام چیزیں ختم ہوگئیں جو آپ کے علاوہ کسی بھی نبی کے چلے جانے کے بعد ختم نہ ہوئیںمثلاً نبوت آسمانی خبریں…”۔
آپ سے پہلے اگر کوئی نبی دنیا سے گذر جاتا تھا تو دوسرے نبی کے آنے کی امید رہتی تھی لیکن آپ کے بعد باب نبوت اس طرح بند ہوگیاکہ اب کسی نبی کی امید بھی نہیں کی جاسکتی، لہٰذا آپ کا انتقال میرے لئے سخت مصیبت ہے۔
ازواج رسول سے منقول ہے: ”رسول اکرم ۖ کا اخلاق قرآنی تھا لہٰذا جس طرح قرآن کریم تمام کتابوں پر فوقیت کا حامل ہے اسی طرح رسول اکرمۖ بھی تمام انبیاء کے سید و سردار ہیں، آپ کی وفات پوری انسانیت کے لئے عظیم ترین مصیبت ہے، ظاہراً انسانی معاشرہ آپ کے اخلاق سے خالی ہوگیا تھا اورآپ کے بعد انبیاء کا سلسلہ بھی ختم ہوچکا تھا ”۔
مولا علی نے پیغمبرۖ کی وفات کے موقع پر فرمایا: ”آپکی مصیبت کے آگے،ہرمصیبت ہیچ ہے اور آپ کی ذات عظیم ہے”۔
”وَ اِنَّ مُصَابَنَا بِکَ لَجَلِیْل وَ اِنَّ مَاقَبْلَکَ وَ مَابَعْدَکَ لَجَلَل”۔(٣)
”اے خدا کے عظیم ومحبوب بندے! آپ کی مصیبت سے پہلے اور آپ کی مصیبت کے بعد تمام مصیبتیں حقیر وپست ہیں آپکی مفارقت اتنی زیادہ گراں ہے کہ جس کا بھگتان ممکن نہیں”۔
پھر مولا علی نے رسول ۖ کی رحلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”لَقَدْ خَصَّصْتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّیاً عَمَّنْ سِوَاکَ وَ عَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النَّاسُ فِیْکَ سَوَائً” (٤)
”اے پیغمبر! آپ کی مصیبت اتنی گراں ہے کہ اگر آپ کے علاوہ کوئی اور مصیبت ہوتی تو ہم اسے برداشت کر لیتے، لیکن آپ کی مصیبت کے آگے کسی بھی مصیبت کی کوئی اہمیت نہیںہے، آپ عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے تھے لہٰذا آپ کی مصیبت بھی سبھی کے لئے ہے”۔
دوسرے مقام پر مولا علی نے فرمایا: ”رسول ۖ کے غم میں درو دیوار…غرض ہرچیز غمزدہ تھی، جب تک میں پیغمبرۖ کو غسل دے رہا تھا تب تک فرشتوں کی آمدورفت جاری رہی، ملائکہ نے میری مدد کی تاکہ اچھی طرح غسل دیا جاسکے، میرے کانوں میں فرشتوں کے درود وسلام کی آوازیں آتی رہیںاور انہیں درودوسلام کے سایہ میں حضورۖ کے پرنورجسم کو سپرد خاک کردیا گیا”۔
ایک اور مقام پر حضرت نے فرمایا: ”بِأَبِیْ أَنْتَ وَاُمِّیْ اُذْکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ وَاجْعَلْنَا فِیْ بَالِکَ”۔(٥)
میرے ماں باپ آپ پر قربان! ہمیں اپنے رب کی بارگاہ میںبھول نہ جائیے گا (ہمیشہ یاد رکھئے گا)۔
رسول اکرم ۖ کے دنیا سے گزرجانے کے بعد بھی امت مسلمہ کے فرائض ختم نہیں ہوتے کہ اب تو رسول گزر گئے اب کیا … اب پھر اپنے پرانے دین کی جانب پلٹ جائیں، موت تو ایسی حقیقت ہے کہ جو ہر انسان کو آتی ہے لہٰذا رحلت پیغمبرۖ کے بعد دین پیغمبرۖ سے منھ نہ موڑنا،اپنے آباء واجداد کے دین کی جانب نہ چلے جانا، تمہارا فریضہ یہ ہے کہ سول کی باتوں پر عمل کرو،رسول ہمیں تنہا نہیں چھوڑ کرگئے ہیں بلکہ ہمارے لئے قرآن و اہل بیت جیسی دولت کو چھوڑکر گئے ہیں: ”اِنِّیْ تَارِک فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِیْ”۔(٦)
تمہارا فریضہ یہ ہے کہ نہ تو قرآن کو فراموش کرو اور نہ ہی اہل بیت کو۔ اور یہ بھی یاد رکھنا کہ ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر ہمیں نہیں دیکھ رہے ہیں! بلکہ وہ ہمیں اورہمارے تمام اعمال کو اچھی طرح دیکھ ہے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام وارث انبیاء:
صادق آل محمدۖ کے ارشاد کے تناظر میں حضرت امام حسین کی عظمت و اہمیت کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حضرت فرماتے ہیں: ”اربعین کے روز سورج نکلنے کے بعد حسین کی زیارت کرو، دورکعت نماز پڑھو پھر خدا کی بارگاہ میں امام حسین کا واسطہ دے کر دعا کرو، امام حسین وارث انبیاء ہیں تمام انبیاء کے کمالات ذات حسین میں جمع ہیں”۔
آدم کا علم، نوح کا تقویٰ، ابراہیم کی خلّت، عیسیٰ کی ہیبت غرض تمام انبیاء کی صفات، ایک حسین میں موجود ہیںجس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حسین کی ”ہاں” تمام انبیاء کی” ہاں” ہے اور حسین کی” نہیں” تمام انبیاء کا ”انکار”ہے، ایسی صورت میں اگر حسین ، یزید کی بیعت کرلیتے تو تمام انبیاء کی محنت رائگاںچلی جاتی، حسین نے بیعت یزید کا انکار کرکے تمام انبیاء کی محنت کی حفاظت کی ہے، یہ تو آپ کی حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے کہ آپ نے مدینہ سے کربلا تک خطبے ارشاد فرمائے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ دے کہ حسین غیر اختیاری صورت میں کربلا پہونچ گئے اوران کوانجام کار کاعلم نہیں تھا۔
”فَاعْذَرَ الدُّعَائَ وَ مَنَحَ النُّصْحَ”۔(٧)
(حسین نے) بہانہ تراشی کا ہر راستہ بند کردیا اور نصیحت کو تمام کردیا۔
امام حسین نے حالات کے تقاضہ کے تحت حکمت عملی کا مظاہرہ فرمایا، کبھی نصیحت فرمائی تو کبھی دلیل قائم کی۔
جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ یہ لوگ موعظہ و نصیحت کے اہل نہیں ہیں بلکہ خون حسین کے پیاسے ہیں تو پھر اپنی جان کو راہ خدا میں نچھاور کردیا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”حسین ابن علی نے خود کو راہ خدا میں اس لئے قربان کیا تاکہ خدا کے بندے جہالت و نادانی سے نکل کر ہدایت کی طرف آجائیں”: ”بَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیْکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَہَالَةِ وَ حِیْرَةِ الْضَّلَالَةِ”۔
امام حسین نے اپنے ششماہہ کو قربان کردیا،گھرفدا کردیا یہاں تک کہ اپنا گلا شمشیرکی زد پر رکھ دیا… یہ سب کیوں…!؟ صرف اس لئے کہ امت جاہل نہ رہ جائے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”روز اربعین اپنی ذمہ داری کا احساس کروکہ ہمارا فریضہ کیا ہے، آخر ہم امام کی زیارت کو کیوں جاتے ہیں؟ امام حسین نے ہماری ہدایت کے لئے اپنی جان قربان کردی،ہمیں وعظ و نصیحت کی لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا تزکیۂ نفس کریں، اس راستہ پر چلیں جو امام کا راستہ ہے، امام حسین نے وہی کام کیا جو انبیاء و صالحین نے کیا، انبیاء نے کتاب وحکمت کی تعلیم دی ، امام حسین نے بھی وہی کام انجام دیا، اپنی جان قربان کردی تاکہ جہل علم سے اور برائی اچھائی سے تبدیل ہوجائے” (لِیُعَلِّمَہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةِ) ۔(٨)
ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ظلم وجور چھوڑ کر عدل و انصاف کی طرف آجائیں، امام کے حقیقی شیعہ کی پہچان یہی ہے جس کی طرف امام عسکری نے بھی اشارہ فرمایا ہے کہ مومن کی پانچ علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ زیارت اربعین پڑھے۔ اور جب انسان زیارت اربعین پڑھے گا تو اسے اندازہ ہوگا کہ امام حسین نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں کیوں قربان کیا! اور امام حسین تمام انبیاء کے وارث کیوں ہیں! ۔
امام حسین کی شخصیت وہ عظیم شخصیت ہے کہ جس کی خدمت میں ہم آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، حسین کو کربلا کے تپتے ہوئے دشت میں تین روز کا بھوکاپیاسا شہیدکیا گیا بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے، حضرت کے جسم مبارک پر اتنے زیادہ زخم تھے کہ حسین کی مانجائی”زینب ”بھی نہ پہچان سکیں، کبھی تو آسمان کی جانب دیکھتی تھیں کبھی اپنے نانا سے خطاب کرتی تھیں اور کبھی اپنے بابا علی سے خطاب کرتی تھیں کہ یہ کس کا جسم ہے؟ اس میں تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں زخم نہ ہو! ۔
تبھی تو زینب نے فرمایا: ”أَأَنْتَ أَخِیْ وَ ابْنَ اُمِّیْ”کیا تو ہی میرا بھائی ہے، کیا توہی میرا مانجایا ہے؟۔
اگرچہ زینب کا کارنامہ بھی کوئی کم نہیں تھا،اگر امام حسین کربلا کے بعد زینب کو دیکھتے تو وہ بھی یہی لہجہ اختیار کرتے کہ کیا تم ہی میری بہن زینب ہو!؟

حوالہ جات
١۔المصباح الکفعمی: ص٥٣٥۔
٢۔ نہج البلاغہ: خ٢٣٥۔
٣۔ نہج البلاغہ: کلمات قصار،٢٩٢۔
٤۔ نہج البلاغہ: خ٢٣٥۔
٥۔ نہج البلاغہ: خ٢٣٥۔
٦۔ مستدرک الوسائل: ج٣، ص٣٥٥۔
٧۔ مفاتیح الجنان: زیارت اربعین۔
٨۔ سورۂ آل عمران١٦٤۔

Related Articles

Back to top button