اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

اخلاقی انقلاب


مصنف:سیّد علی حسینی خامنہ ای

اخلاقی انقلاب
اخلاقی انقلاب یعنی یہ کہ انسان تمام رزائل اخلاقی ، صفات بد ، اخلاق بد وغیرہ مختصراً یہ کہ ان تمام صفات سے کنارہ کش ہو جائے جو دوسروں کی یا خود کی اذیت و ضرر کا باعث ہوتی ہوں اخلاقی انقلاب یعنی یہ کہ انسان خود کو مکارم اخلاق اور فضائل اخلاق سے آراستہ کرے ۔
اگر کسی معاشرہ میں صاحب فکر و نظر افراد پائے جاتے ہوں اور وہ اپنے افکار کو دوسرے افراد کے خلاف استعمال نہ کرتے ہوں یا تعلیم یافتہ افراد پائے جاتے ہوں اور وہ اپنے علم کو دوسرے افراد کو نقصان پہنچانے اور دشمن کو قوی کرنے کا ذریعہ نہ بناتے ہوں بلکہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے اور خیر سگالی کے ساتھ زندگی گذارنے والے ہوں ، حاسد اور کینہ پرور نہ ہوں ، فقط اپنی زندگی کا اور اپنا خیال نہ رکھتے ہوں تو ایسے معاشرے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں اخلاقی انقلاب آگیا ہے ۔
مسائل بشر
اخلاقیات اور تزکیہ نفس بھی زندگی کے ان اہم نکات میں سے ہیں جن کے لئے قرآن کریم اور احادیث میں شدید تاکید کی گئی ہے ۔ عالم اسلام میں متفقہ علیہ حدیث نبوی موجود ہے کہ ’’ بعثت لا تمم مکارم الاخلاق ‘‘ یعنی میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ فضائل اخلاقی کی تکمیل کروں واضح ہے کہ جس معاشرہ میں اخلاقی اقدار ، صفات حسنہ اور  مکارم اخلاقی وغیرہ رائج ہوں گے اس معاشرے کی عام انسانی زندگی کا معیار کتنا بلند و عالی ہوگا ۔
آج بشریت کے مسائل و مشکلات انہیں مذکورہ صفات و اقدار کے نہ ہونے کی بنا پر پیدا ہو رہے ہیں ۔ اگر معاشرہ اسلامی خلقیات و اخلاقی اقدار مثلاً صبر و استقامت کا حامل ہو ،توکل ، تواضع ، حلم جیسی صفات کا احترام کرتا ہو اور پابند ہو تو یقینا جنت نشان بن جائے گا ۔
معاشرے کے بنیادی ستون
اسلامی اخلاق سے بہرہ مند ہونے سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں پرہیز گاری ، بردباری ، شہوت پرستی سے اجتناب ، دنیا طلبی ، حرص ، ذخیرہ اندوزی جیسی صفات سے دوری ، اخلاص ، پارسائی ، نیکی اور دیگر اخلاقی صفات پائی جاتی ہوں اور ان صفات کو اہمیت بھی دی جاتی ہو ۔
اگر ان اسلامی اقدار اور اخلاقی صفات پر عمل کر لیا جائے تو معاشرہ اسلامی رشد و ارتقائ کی منزلیں طے کرتا اور قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا۔ استعداد اور صلاحتیں سامنے آنے لگیں گی اور پھر ایسا اسلامی معاشرہ دوسری اقوام اور ملتوں کے لئے نمونہ بن جائے گا ۔
طالب علم اور خود سازی
نوجوان طالب علموں کی ایک اہم ترین ذمہ داری خود سازی اور تکمیل اخلاق ہے ۔ نوجوانی خود سازی اور تزکیہ نفس کے لئے بہترین وقت ہوتا ہے ۔ اس سے استفادہ کیجئے ۔ علم اور صنعتی ، سیاسی ، سماجی رشد و ارتقائ ، اخلاق کے زیر سایہ ہو تو قابل تعریف ہے ۔ یہاں پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قرب خدا ، اخلاقی رشد و ارتقائ کی بنیاد و اساس ہے ۔
اخلاق تمام امور کی بنیاد
تبلیغ دین اور حقائق دین کی ترویج علماء اور مبلغین اسلام کی ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم اقتصادی نقطہ نظر سے اپنا ایک مقام بنا لیں ، سیاست کے شعبے میں اپنا تشخص قائم کرلیں، اپنے موجود ہ مقام و منزلت میں خاطر خواہ اضافہ کر لیں لیکن ہمارا اخلاق اسلامی اخلاق نہ ہو یعنی ہمارے درمیان صبر ، علم ، ایثار ، عفو جیسی صفات کا فقدان ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ظاہر تو خوبصورت اور حسین ہے لیکن ہماری بنیادیں کھوکھلی ہیں کیونکہ اخلاق تمام افعال و امور کی بنیاد و اساس ہے ۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبوں میں ترقی و ارتقاءاخلاق حسنہ کے لئے مقدمہ کے مانند ہے ۔ رسول اکرم کا فرمان ہے: ’’ بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ‘‘ یعنی مجھے مبعوث اسی لئے کیا گیا ہے کہ فضائل اخلاقی کی تکمیل کروں ۔ اسلامی حکومت کا فلسفہ یہی ہے کہ معاشرے کی تربیت کرے ، معاشرے میں اخلاق حسنہ کی ترویج کرے ، معاشرہ قرب خدا حاصل کرے ، تمام افعال و امور قربت کی نیت سے انجام دئے جائیں ۔ اسلامی نقطہ نظر سے سیاست میں بھی قصد قربت ضروری ہے ۔ قصد قربت کس وقت کیا جاتا ہے ؟ اس وقت کیا جاتا ہے جب انسان مطالعہ و جستجو کرے اور دیکھے کہ خدا وند عالم کی رضا کس چیز میں پوشیدہ ہے ۔ لہٰذا انسان جس فعل میں رضائے خدا کا مشاہدہ کرتا ہے اسے انجام دیتا ہے اور جس فعل میں رضائے خدا کا مشاہدہ نہیں کرتا ہے اس فعل کو انجام نہیں دیتا ہے ۔
راہ امام خمینی ؒ
ایک بار میں نے امام خمینی ؒ سے سوال کیا کہ مشہور دعاوں میں سے کونسی دعا سے آپ زیادہ انس رکھتے ہیں ؟ اور کس دعا پر آپ کو زیادہ اعتقاد و یقین ہے ؟ آپ نے کچھ دیر بعد فرمایا : دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ ۔ ان دونوں دعاوں میںمناجات ، حالت استغفار ، استغاثہ اورخضوع و خشوع کو عاشقانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ دعائیں ایسی دعائیں ہیں کہ ہمارے اور خدا کے درمیان رابطہ عشق و محبت کو مستحکم اور عمیق کرتی ہیں ۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے امام خمینی ؒنے اپنی پوری حیات گذار دی تھی ۔
انسانی کمال خواہشات نفسانی سے مقابلہ
انسان کی عالی ترین اور کامل ترین زندگی وہ ہے کہ جس میں وہ راہ خدا میں قدم آگے بڑھاتا ہے اور خداوند عالم کو خود سے راضی کرتا ہے اور ہوا و ہوس کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیتا ہے ۔ ایسا شخص انسان کامل ہے ۔ اس کے برعکس وہ انسان جو اپنے جذبات و احساسات ، ہوائے نفسانی اور غیض و غضب کا اسیر ہوتا ہے ،وہ انسان پست اور حقیر ہے خواہ وہ ظاہراً مقام و مرتبت کا حامل ہو۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ملک کا وزیر اعظم یا امیر ترین شخص اگر اپنی خواہشات نفسانی کا مقابلہ نہ کر سکے تو وہ بھی ایک حقیر انسان ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک عام سا اور نادار شخص اگر اپنی خواہشات پر قابو پا لے اور غلبہ حاصل کر لے تو انسان بزرگ اور کامل ہے ۔
تحول اخلاقی جوانوں کے لئے آسان
خوش قسمتی سے ان آخری کچھ برسوں میں جمہوری اسلامی نے معنوی لحاظ سے خاطر خواہ پیشرفت کی ہے ۔ جوانوں میں معنویات ، دین و عبادت کی طرف رغبت ، نماز و روزہ میںخضوع و خشوع اور قرب خدا رائج اور عام ہو گیا ہے لیکن فقط یہی سب کچھ تحول اخلاقی نہیں ہے اور شاید کہا جا سکتا ہے کہ ایک ملت کے لئے تحول اخلاقی کس حد تک مشکل   ہے اور اسی لئے جب اخلاقی تحول کے حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے تو پہلے مرحلے میں جوانوں کو مخاطب قرار دیاجاتا ہے کیونکہ ان کے اندر تبدیلی اور تغیر کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے ۔ جوانوں کے قلوب روشن اور ان کی طبیعت پاک و سالم ہوتی ہے ۔ ان میں جاہ طلبی ، شہرت طلبی ، ثروت طلبی وغیرہ نہایت کم پائی جاتی ہے۔ لہذا جوانوں میں تحول اخلاقی آسان تر ہے البتہ بزرگ اور سن رسیدہ افراد کو مایوس نہیں ہوجانا چاہیے کہ ان کے اندر اخلاقی تحول نہیں ہو سکتا ۔
انقلاب ، معنویات اور اخلاق اسلامی کے بغیر ناممکن
انقلاب اسلامی مکمل طور پر فقط اس صورت میں تحقق پا سکتا ہے جب ملت حقیقی طور پر مسلمان اور مومن ہو جائے ۔ اسلام کا ایک حصہ افراد کے عمل سے متعلق ہے جس کی بنا پر نظام کلی اجتماعی عالم وجود میں آتا ہے اور دوسرا حصہ افراد کے ذاتی اور شخصی عقائد ، کیفیات روحی اور عمل و کردار پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اگر اسلامی انقلاب اور جمہوری حکومت تمام مادی اور معنوی وسائل کے ہوتے ہوئے لوگوں کے قلوب اور خلقیات کو اسلامی نہیں کر سکی ہے جو دیرینہ غلط تربیت کی بنا پر عالم وجود میں آئے ہیں تو یہ انقلاب قطعاً کامیاب اور حقیقی نہیں ہے ۔ حقیقی انقلاب وہ انقلاب ہے جو عوامی ہے ، اجتماعی اور اقتصادی حوالوں سے انقلاب ، عوامی انقلاب کی فرع و شاخ ہے ۔ اگر لوگوں کے قلوب تبدیل نہ ہوں تو ایسا انقلاب اور اقتصادی۔ سیاسی تبدیلیاں لا حاصل ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے یہاں اوائل میں روحی انقلاب رونما ہوا کہ جو بذات خود ایک نہایت اہم قدم تھا اور جس کا نتیجہ وہی سامنے آیا جو آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
اس انقلاب کی بدولت جو کچھ رونما اور واقع ہوا اگر مزید دوام اور استحکام حاصل نہ کر سکے اور موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اپنے اندر شامل نہ کر سکنے کے علاوہ خدا نخواستہ ظاہراً تو اسلام ، جمہوری اسلامی اور انقلاب اسلامی باقی رہ جائے لیکن در حقیقت واقعہ کچھ اور ہو تو یہ انقلاب قطعی طور پر موفق اور کامیاب نہیںہے ۔ خدا نخواستہ ایسی صورت پیش آنے سے پہلے ہم خدا سے پناہ کے خواستگار ہیں ۔ ہمیں کسی بھی صورت میں ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ دشمن آج انہیں نکات اور پہلووں پر آنکھیں گاڑے ہوئے ہے ۔ تمام افراد مخصوصاً علمائ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کی تربیت اور قلبی ، روحی اور اخلاقی انقلاب کے استحکام کے لئے کوشاں رہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کے دوران اس مملکت کے بعض جوانوں میں ایک معنوی اور حقیقی انقلاب پیدا ہو گیا تھا ۔ شہدائ کے وصیت نامے کہ جن کے مطالعہ کے لئے امام خمینی ؒ نے تاکید کی ہے اسی لئے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک منفرد شخص کے انقلاب کی عکاس ہیں ۔ ان وصیت ناموں کو جب ایک انسان پڑھتا ہے تو خود بخود ان شہداء کے اندر پیدا ہونے والے ذاتی اور درونی انقلاب سے آگاہ ہو جاتا ہے ۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس روش کو عا م اور رائج کر دیں اور ایسا کرنا ممکن بھی ہے ۔ اگر سو فیصد ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ تو ممکن ہے کہ اکثریت کے اندر اس اندرونی اور ذاتی انقلاب کی آبیاری کی جا سکے لیکن اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے خود نصیحت کرنے والے شخص کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اخلاق معنویات کے علاوہ توکل بر خدا مستحکم ہو جائے ۔
بہتر ہے اس سمت میں قبل از ہمہ ہم لوگ قدم آگے بڑھائیں یعنی خود اپنی ذات سے شروع کریں ۔ واقعیت یہی ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے اندر بھی اس سلسلے میں نقص یا کمی باقی رہ گئی تو دوسروں پر ہماری بات کا غلط اثر پڑے گا ۔
اخلاق، بعثت کا ایک اہم پیغام
ہمیں چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں ، اپنے اخلاق کی اصلاح کریں ، خود کو باطنی لحاظ سے خدا سے قریب کریں ، ایک فرد کی حیثیت سے شخصی اور ذاتی اصلاح کریں ، خدا وند کریم کی آیات کا مشاہدہ کریں اور قرب خداوند حاصل کریں ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہماری یہ ذاتی و فردی مسؤلیت کی انجام دہی، ہمارے دوسرے افراد اور معاشرے سے متعلق امور اور وظائف کی بہتر طور پر انجام دہی میں معاون ثابت ہو گی ۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ اخلاق اور تزکیہ نفس کے سلسلے میں اپنے اور اپنے دوسرے افراد کے لئے مجاہدت کریں ۔ بعثت کے اہم پیغامات میں سے ایک پیغام یہی تھا ۔
اخلاق حسنہ
ہمارے یہاں الٰہی حدود و مقررات نافذ ہو چکے ہیں ، اسلامی نظام اور عدالت اجتماعی تحقق پا چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد بھی ہم ابتدائی منازل یا پہلے ہی مرحلے میں ہیں ۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ افراد جو اس اسلامی نظام کے تحت پر سکون اور عادلانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں اخلاق حسنہ کے حصول کے لئے رغبت اور شوق پیدا ہو جائے ۔ تشکیل حکومت کا اصل ہدف یہی ہے ۔
لوگ خود بخود اخلاق کی جانب قدم بڑھائیں ۔ اخلاق حسنہ کا حصول، تکامل معنوی ، روحی اور معرفت کا موجب ہوتا ہے ۔ اسی راستے کے ذریعہ انسان کامل بنا جا سکتا ہے ۔ رسول اکرم نے فرمایا تھا : انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ‘‘ مجھے اسی لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ فضائل اخلاقی کی تکمیل کروں ۔ یہ حدیث شیعہ اور سنی دونوں ہی جانب سے نقل ہوئی ہے ۔
یہاں لفظ ’’ انما ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے یعنی میری بعثت کا ہدف ہی فضائل اخلاقی کی تکمیل ہے ۔بقیہ تمام چیزیں مقدمہ کے طور پر ہیں ’’ لا تمم مکارم الاخلاق ‘‘ تاکہ مکارم اخلاق تمام ابنائے نوع کے درمیان جگہ بنا لے اور میری امت کمال تک پہنچ جائے ۔
اگر کسی اسلامی معاشرہ میں اخلاق الٰہی اور اخلاق اسلامی کو طاق پر رکھ دیا جائے اور معاشرہ بے راہ روی ، خود پرستی ، کجروی جیسی صفات کے دلدل میں پھنس کر رہ جائے تو کس طرح اس حکومت کو اسلامی اور الہی حکومت کہا جا سکتا ہے ؟
حکومت اسلامی فقط وہی حکومت ہو سکتی ہے جس میں تمام اخلاق صفات رائج ہوں اور یہی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کی اساس بھی ہے ۔ آج موجودہ دنیا کو اسی اساسی چیز کی ضرورت ہے لیکن مادی دنیااس خصوصیت سے کلی طور پر محروم ہے ۔
اخلاق کے اثرات وثمرات
پیغام انقلاب اسلامی ، پیغام معنویت ، اخلاق ، قرب خدا اور اس عنصر کو انسانی زندگی میں راسخ کرتا ہے۔ جہاں جہاں اسلامی انقلاب کے پیغام نے اپنا جھنڈا گاڑا ہے وہاں وہاں معنویت کو اپنے ساتھ لے کر گیا ہے حتی بعض عیسائی اور غیر اسلامی ممالک اورمعاشروں میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان معاشروں میں انقلاب اسلامی سے درس لیا گیا اور استفادہ کیا گیا ہے تو معنویت نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے اور یہی معنویت انقلاب اسلامی کا اولین پیغام ہے ۔
معنویت اور اخلاق سے عاری علم ایٹم بم کے مانند ہے
اگر علم ، معنویت ، وجدان ، اخلاق ، عواطف اور بشری احساسات سے عاری ہو تو کسی بھی صورت میں بشر کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتا ۔ علم اخلاق و معنویت کے بغیر ایٹم بم کے مانند ہے جہاں گرے گا معصوم افراد کو قتل کرے گا ۔ ایسا علم ، علم نہیں بلکہ اسلحہ بن جاتا ہے اور پھر لبنان ، فلسطین اور دیگر جگہوں کے غیر فوجی افراد کو اپنا ہدف قرار دیتا ہے ۔ ایسا علم مہلک کیمیکل بن جاتا ہے اور پھر دنیا بھر میں نہ جانے کہاں کہاں مرد و عورت اور بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ اس طرح کے مہلک کیمیکل کہاں سے نمودار ہوئے ؟ یہ سب انہیں علمی مراکز اور یوروپی ممالک سے صادر ہوئے ہیں ۔ ان جگہوں پر ان مہلک اشیائ کو تیار کیا گیا اور پھر نااہل حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور پھر نتیجہ وہی ہے جو آپ کے سامنے ہے ۔
موجودہ مختلف النوع اسلحہ جات ابھی تک دنیا کو آرام نہیں بخش سکے ہیں اور نہ ہی بخش سکتے ہیں ۔یہ سب اس لئے ہے کیونکہ اخلاق و معنویات کو علم سے جدا کر دیا گیا ہے ۔ ہم نے تمدن اسلامی اور نظام جمہوری اسلامی میں اس بات کی کوشش کی ہے اور اسی کو اپنا ہدف بنایا ہے کہ علم کو اخلاقیات اور معنویات کے ساتھ ساتھ لے کر چلیں ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button