اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

محاسبہ ؛ اصلاح نفس کا بہترین ذریعہ

(سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری)

” اصلاح معاشرہ” اسلام کا اولین مقصد وہدف ہے. اسلام نے تشکیل معاشرہ پربے پناہ زور دیا ہے، اس نے اپنے دستور ات میں تشکیل معاشرہ اور تزئین معاشرت کے لئے چند بنیادی ہدایات میں تاکید فرمائی ہے. اس تاکید کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اس سلسلے میں لاابالی پن کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ حساس بن کر اس واقعی نکتہ پر غورو خوض کرے۔ لیکن چونکہ اصلاح نفس بھی تشکیل وتزئین معاشرت کا اولین اور انتہائی اہم زینہ ہے؛ لہذا اسلام نے اس سلسلے میں انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اصلاح معاشرہ سے زیادہ اصلاح نفس پر زور دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح نفس کے بغیر ایک معاشرہ کی اصلاح نا ممکن ہے۔
اصلاح نفس کے بہت سے ذرائع بیان کئے گئے ہیں لیکن اگرغائرانہ نظر سے جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ نفس کی اصلاح وتزئین کا بہترین اور موثر ترین ذریعہ ”محاسبۂ نفس” ہے جس کے بارے میں علمائے اخلاق اور ارباب معرفت نے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

محاسبہ کیاہے..؟
لغوی اعتبار سے محاسبہ: ”حساب وکتاب ” کرنے کو کہتے ہیں ، محاسبۂ نفس یعنی نفس کی حساب رسی کرنا۔ اسی معنی کی وضاحت میں مرحوم علامہ نراقی فرماتے ہیں:”انسان اپنے نفس کا حساب و کتاب کرنے کے لئے روز وشب میں سے کسی ایک وقت کا تعین کرے کہ آج کتنے اعمال انجام دیئے ہیں اور اپنی فرمانبرداری اور نا فرمانی کا موازنہ کرے، اگر اس دن خدا کی نا فرمانی کی یا معصیت کا مرتکب ہوا ہو تو چاہیئے کہ اپنے نفس کی ملامت کرے اور اگر واجبات انجام دیئے ہوں یامعصیت کا مرتکب نہ ہوا ہو تو خدا کا شکر بجا لائے نیز اگر مستحبات پر عمل کیا ہے تو مزید شکر بجا لائے”۔(١)
امام خمینی ؒنے اس تعریف کے علاوہ مزید اضافہ کیا ہے کہ اگر وہ معصیت کا مرتکب ہوا ہو تو چاہیئے کہ وہ اپنے نفس کو سر زنش کرے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ بھی کرے۔(٢)
آئندہ گناہ سے پر ہیز کا مصمم ارادہ کافی اہمیت کا حامل ہے؛ انسان خطاونسیان کا پیکر ہے اس سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ، لیکن ارتکاب گناہ کے بعد صرف توبہ پر اکتفا کرنا اور خداوند عالم سے بخشش ومغفرت طلب کرنا مفید نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے اور توبہ بھی کرتا ہے لیکن پھر کچھ ہی لمحوں بعد ایک دوسرے گناہ کا مرتکب ہوجاتاہے، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں توبہ قطعی مفید نہیں ۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے ایسے توبہ واستغفار کی سخت مذمت فرمائی ہے،چنانچہ آپ کے سامنے ایک شخص نے استغفر اللہ کہا تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے کیا تو استغفار کا مطلب جانتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا : یہ استغفاربلند مرتبہ لوگوں کا مقام ہے اور یہ چھ باتوں پر مشتمل ہے انسان جب تک یہ چھ باتیں پیدا نہ کرلے اس وقت تک استغفار نہیں کرنا چاہیئے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے گناہوں سے دور رہنے کا مصمم ارادہ کرے۔(٣)
آئندہ گناہ نہ کرنے پر اس لئے زور دیاگیاہے کیونکہ جب انسان گناہ نہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کچھ دنوں تک فعل بد اور ارتکاب گناہ سے قطعی طور پر محفوظ رہتا ہے ، اس کے علاوہ اگر بغور دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ ترک گناہ کا عزم ، تربیت نفس کا بہترین ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اساتذۂ تربیت نے اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے اس گوشہ پر زیادہ زور دیا ہے کہ انسان خود ہی اپنے نفس کو سنوارنے کی صلاحیت رکھتا ہے بس شرط یہ ہے کہ اس کا ضمیر بید ار ہو۔
محاسبہ کے سلسلے میں بھی آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ بہت اہم ہے؛ مولا علی علیہ السلام نے ایک طویل روایت میں جہاں محاسبہ کے معنی بیان کئے ہیں وہیں اس نکتہ کی طرف بھی خاص طور سے زور دیا ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے: ”تم میں دانا ترین اور عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا حساب وکتاب کرتا ہے اور موت کے بعد کی طویل زندگی کے لئے سامان فراہم کرتا ہے”۔ ایک شخص نے سوال کیا :اے امیر المومنین ! اپنے نفس کا محاسبہ کیسے کیاجائے؟ آپ نے فرمایا: ” جب انسان دن کی ہنگامہ خیزیوں کے بعد شب کی تاریکی اور سناٹے میں قدم رکھے تو اسے چاہیئے کہ اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور کہے: اے نفس! تیرے لئے یہ دن جو تھا وہ گذر چکا اور پلٹ کر آنے والا نہیں ہے، خدا وند متعال اس دن کے بارے میں تجھ سے سوال کرے گا کہ اسے کیسے گذارا؟ اس میں کون سے اعمال انجام دئیے؟ کیا خدا وند عالم کو یاد کیا اور اس کی توصیف کی؟ کیا اس دن ایک بندۂ مومن کی ضرورت کو پورا کیا، اس کے غم واندوہ کو دور کیا؟ کیا اپنے دینی اور ایمانی بھائی کی غیبت سے پر ہیز کیا؟ اس دن تو نے کیا کیا…؟پس ہر وہ چیز جسے انسان جانتا ہے یاد کرے اگر اسے یاد آئے کہ اس نے کار خیر انجام دیا ہے تو اسے خداوندعالم کا شکریہ ادا کرناچا ہئے اور وہ توفیق جو خدا وند عالم نے ایک نیک کام انجام دینے کے سلسلہ میں مرحمت فرمائی ہے اس کی تعظیم کرے اور اگر اسے یاد آئے کہ اس سے ایک گناہ سرزد ہوا ہے تو چاہیئے کہ خدا وند عالم سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرے۔(٤)
ان روایتوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ صرف گناہوں کو یاد کرنا اور اس پر افسوس کرنا قابل قدر اور ضروری نہیں ہے بلکہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھنا، سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔

اہمیت محاسبہ:
ان چند لمحوں کی بر رسی اور روزو شب میں انجام دیئے گئے اعمال کا سرسری مطالعہ ، بے پناہ اہمیت کا حامل ہے ؛ ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنی احادیث میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے اور اہمیت محاسبہ کو روشن کیا ہے۔
چنانچہ امام حضرت علی رضاؑ فرماتے ہیں:لیس منا من لم یحاسب نفسہ فی کل یوم”جو شخص ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتا وہ ہم(اہل بیت) سے نہیں ہے”۔(٥)
دوسری حدیث میں بھی تاکید کا یہی لہجہ اختیار کیا گیا ہے چنانچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : ”اگر کوئی شخص ہروز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے” ۔(٦)
مذکورہ دونوں حدیثوں کو دیکھ کر محاسبہ کے سلسلہ میں معصومین علیہم السلام کی حساسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،یہ حساسیت اصل میں بنی نوع بشر کو ایک لمحۂ فکریہ دے رہی ہے تاکہ ہر انسان غور کرنے پر مجبور ہوکہ یہ محاسبہ کتنی اہمیت کا حامل ہے اوراس سلسلہ میں معصومین علیہم السلام کی تاکید کو دیکھ کرخود بھی حساس بنے اور محاسبۂ نفس کرے۔
ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ایک عاقل انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور دین، رائے، اخلاق وادب کے سلسلے میں جتنے عیوب رکھتا ہے انھیں اپنے ذہن ودل پر محفوظ کر لے یا ایک کاغذ پر تحریر کرے اور انھیں دور کرنے کے لئے تلاش وکوشش کرے” ۔(٧)
مولا علی علیہ السلام نے متذکرہ حدیث مین محاسبہ کے ذریعہ انسان کو دو فائدوں کی نوید دی ہے:
ایک یہ کہ جب انسان روزوشب کا مطالعہ کرتا ہے تو اپنے گذشتہ اعمال سے با خبر ہوتا ہے اگر وہ خیر سے مملو ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے لیکن جب شرو شرارت کی جھلکیاں نظرآتی ہیں تو نا امیدی کا شکار ہوتا ہے ایسے میں مولا علی علیہ السلام نے بڑھ کر سہاراد یا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حوصلہ کے ساتھ اسے دور کرنے کی کوشش کرو ۔ ظاہر ہے کہ جب انسان صدق دل سے کوشش کرے گا اور منصفانہ طریقہ سے اپنے اعمال وکردار کو دیکھے گا تو لامحالہ آغاز کے ساتھ ساتھ انجام بھی خوبصورت اور لطیف ہوگا، اسی لئے امام علیہ السلام نے صرف ذہنی جولانی کو کافی نہیں سمجھا بلکہ شدت کے ساتھ لکھنے کی بھی تاکید کی ہے تاکہ جب تک وہ نظروں کے سامنے رہے، انسان اسے دیکھ کر اپنے آئندہ روزوشب کو حسین بنانے کی کوشش بھی جاری و ساری رکھے۔

محاسبہ کیسے کریں..؟
ایک لمحہ کا حساب کتاب پوری زندگی کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے لیکن کیا یہ سوچا جاسکتاہے کہ وہ ایک لمحہ کا محاسبہ بھی بہت آسان ہے اور انسان بہت آسانی سے اپنے نفس کو چنگل میں لیکر اسے دین کے آہنی اصول و ضوابط اور خدا کے واقعی فرمان پر چلا سکتا ہے؟
نہیں بلکہ اپنے نفس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا، میدان کارزار میں دشمنوں سے نبرد آزمائی کرنے سے کہیں زیادہ مشکل اور دشوار ہے اسی لئے اسے جہاد اکبر کہا گیا ہے، محاسبہ بھی جہاد اکبر کی ایک شاخ ہے انسان اس کے فوائد سے آشنائی حاصل کرنے کے با وجود بہت آسانی سے اپنے نفس کی حساب رسی نہیں کر پاتا اور اس سلسلہ میں لا اُبالی پن کا مظاہرہ کر ہی جاتا ہے۔
لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام نے اس سلسلے میں بہت اچھے راستوں کی نشان دہی کی ہے کہ انسان ان پر غور کرے تو یقیناً محاسبہ کے سلسلے میں حساس بن سکتا ہے۔ چنانچہ جن باتوں کی طرف بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ان میں یادِ قیامت سرِ فہرست ہے، مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا وزنوھا قبل ان توازنوا”قبل اس کے کہ روز قیامت تمہاری حساب رسی کی جائے اپنے نفس کا محاسبہ کرو اور اس سے پہلے کہ تمھارے اعمال کا موازنہ و مقائسہ کیا جائے خود ہی موازنہ ومقائسہ کر لو”۔(٨)
یادِ قیامت میں زندگی کے تربیتی نقوش بدرجۂ اتم موجود ہیں، اگرا نسان روز قیامت کے ھنگامہ خیز لمحوں کو یاد کرلے تو محاسبہ کے سلسلے میں یقیناً حسا س بن سکتا ہے ، قرآن کریم نے وہاں کے حساب وکتاب کی بہت دقیق آئینہ بندی کی ہے کہ انسان کے اعمال و کردار خود اس کی آنکھوں کے سامنے بیان کئے جائیں گے، بلکہ روایتوں کے مطابق وہاں کی حساب رسی اس قدر شدید ہوگی کہ خدا و ند عا لم خود انسان کے اعضاء وجوارح کو قوت گویائی عطا فرمائے گا جو خود سے صادر ہونے والے حرکات وسکنات اور گناہوں کو بیان کریں گے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے(الیوم نختم علیٰ افواھھم و نکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون) اس دن (قیامت کے دن) ہم ان کے منھ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ اور پیر وہ سب بتائیں گے جو کچھ انھوں نے کسب کیا۔(٩)
اور سب سے زیادہ مقام تعجب اور لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ یہ بیان وتقریر کسی گوشۂ تنہائی میں نہیں ہوں گے بلکہ اس ھنگام خیز ماحول میں جہاں جن وانس کی بہتات ہوگی، ایک عجیب وغریب نفسا نفسی کا عالم ہوگا، ایسے میں جب اعضاء وجوارح برے اعمال کی گواہی دیں گے تو انسان اپنے آپ مرتا نظر آئے گا، وہاں تو خفی وجلی کے امتیاز بھی لغو ہیں انسان جن چیزوں کو چھپاتا ہوا رخصت ہو چکا ہے وہ بھی آشکار ہوجائیں گے۔(١٠)وہاں ایک لحظہ کا خیرو شر بھی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔(١١)اور یہ بھی طے ہے کہ یہ دن بہت دور نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے اپنی اصطلاح میں اسے ”نزدیک” سے تعبیر کیا ہے۔(١٢)
ظاہر ہے کہ ایسے پر آشوب اور شدید دن کو ہلکا شمار کرنا بے وقوفی ہے اس کے لئے ماحول بنانا اور آمادگی ظاہر کرنا بہت ضروری ہے ”محاسبۂ نفس” اس پر آشوب دن کی آمادگی کا ذریعہ اور اس عظیم دن کے ماحول کا مقدمہ ہے۔
اگر انسان روز قیامت کو دل ودماغ کے گوشوں میں محفوظ کر لے تو یقیناً اس کے لئے محاسبۂ زندگی اولین وضروری امر قرار پائے گا۔
رسول اسلام ؐنے جناب ابوذر کو جو تاکید کی ہے اس میں بھی محاسبہ کو قیامت کے حیرت انگیز اور پر آشوب دن کا مقدمہ بیان فرمایا ہے اور اس دن کی آمادگی کے لئے خصوصی حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
”اے ابوذر! قبل اس کے کہ قیامت کے دن تمہارا محاسبہ کیا جائے اسی دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کر لو، اس لئے کہ آج کا محاسبہ کل (قیامت) کے محاسبہ سے کہیں زیادہ آسان اور سہل ہے، اور اپنا موازنہ روز قیامت کے موازنہ سے پہلے کر لو، اور اسی وسیلہ سے قیامت کے لئے آمادہ رہو کہ جس دن اعمال، خدا کے سامنے ظاہر ہوں گے اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس پر مخفی نہ ہوگی۔
اے ابوذر! انسان، صاحب تقویٰ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے ، پس انسان کو چاہیئے کہ وہ کھانے، پینے، پہننے اور دوسری چیزوں پر غورو فکر کرے کہ کس راستے سے حاصل کیا ہے،حلال ہے حرام؟
اور اے ابوذر! اگر کوئی یہ پرواہ نہیں کرتا کہ مال ودولت اور دوسری چیزوں کو کس راستے سے حاصل کیا ہے تو خدا وند عالم بھی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے جہنم میں کس دروازے سے داخل کرے؟”۔(١٣)
اصل میں رسول اسلام, جناب ابوذر کے ذریعہ نسل بشریت کو متوجہ فرمایاہے کہ انسانی زندگی میں محاسبۂ نفس کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ اور جس میں انسان کے بہت سے دنیاوی واخروی فوائد مضمر ہیں، لہٰذا: ہمیں چاہئے کہ ہم رسول خداؐسے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نفس کا محاسبہ کریں تاکہ ہماری دنیا و آخرت سنور سکے۔

حوالہ جات
١۔جامع السعادات:ج٣،ص٦٤٠
٢۔چھل حدیث، امام خمینی
٣۔کلمات قصار٤١٧
٤۔وسائل الشیعة: کتاب الجھاد النفس، جھاد با نفس:ص٣٥٣
٥۔اصول کافی:ج٢،ص٤٥٥
٦۔جھاد بانفس٤٥٥
٧۔بحار الانوار:ج١٧،ص١١٦
٨۔غرر الحکم٣٨٥
٩۔سورۂ یٰس٦٥
١٠۔سورۂ بقرہ٢٨٤
١١۔سورۂ زلزال٨
١٢۔سورۂ رحمن٢٦
١٣۔جھادبا نفس٣٥٩

Related Articles

Back to top button