مقالات

حضرت ہاشم بن عبد مناف

ہاشم بن عبد مَناف بن قُصَی بن کِلاب بن مُرَّہ، رسول اللہ(ص) کے جدّ ثانی اور مکہ کے صاحبان مناصب میں سے تھے۔ وہ بنو ہاشم تک پہنچنے والے مختلف سلسلہ ہائے نسب کے مورث اعلی ہیں۔ حلف المطیبین کے بعد سقایت (= حجاج کو پانی فراہم کرنے) اور رفادت (= حجاج کو کھانا فراہم کرنے) کے دو مناصب ان کو سونپ دیئے گئے۔ مراسمات حج کی تعظیم اور اپنے دو مناصب سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔

ہاشم وہ شخصیت ہیں جنہوں نے قریش کے لئے جاڑے اور گرمی والے تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی۔ وہ قریش کے لئے شوکت اور امن سکون کا اصلی ترین عامل تھے اور قریش دلی طور پر ان سے بہت زیادہ وابستہ تھے؛ یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو وہ بہت زیادہ فکرمند تھے کہ کہیں دوسرے عرب قبائل ان پر غلبہ نہ کرلیں۔ وہ قحط کے مواقع پر لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے اور انھوں نے ہی تجارت سے حاصلہ آمدنی غرباء میں تقسیم کرنے کا قانون وضع کیا تھا اور ان کے یہ دو اقدامات ان کی شہرت کا سبب تھے۔

ہاشم بن عبد مناف
هاشم بن عبدمناف غزه5.png
غزہ میں حضرت ہاشم کا مزار
شناختی معلومات
مکمل نام عمرو بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب
لقب عمرو العُلَی، صاحب ایلاف قریش، بدر و…
کنیت ابو نَضْلہ، ابو زید اور ابو اَسَد
والد عبد مناف بن قصی
والدہ عاتِکہ بنت مُرَّۃ بن ہلال
شریک حیات سلمی بنت عمرو بن زید جو مدینہ کے قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں و دیگر
اولاد 4 بیٹے: عبدالمُطَّلِب، اسد، ابوصَیفی، نَضلہ اور 5 بیٹیاں: "الشّفاء، خالدۃ، رقیۃ، حبیبۃ اور ضعیفۃ”
مسکن یثرب اور مکہ
سبب شہرت مکہ کے سید و سالار، سقایت و رفادت کے عہدے دار، رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومین نیز بنو عبدالمطلب یعنی بنو ابی طالب اور بنو عباس کے مورث اعلی
نسب قریشی
نامور اقرباء رسول اللہ(ص) کے جد ثانی، عبد مناف (والد)، عبدالمطلب (فرزند) اور مُطَلِّب (بھائی)
وفات ملک شام
کیفیت وفات علالت
مدفن غزہ، فلسطین
دینی معلومات
اعتقادی کیفیت مؤمن و یکتا پرست
نمایاں کردار
صاحب ایلاف، قریش کے اتحاد کے باعث و بانی، اطراف کے ممالک سے تجارتی تعاون کے معاہدے منعقد کئے، ا انعقاد اور گرما اور سرما کے تجارتی دوروں کے بانی

نسب، کنیت اور اولاد

ہاشم کا اصل نام "عَمرو” تھا۔[1]۔[2] وہ بظاہر مکہ میں پیدا ہوئے اور ایک قول کے مطابق عبد مناف کے سب سے بڑے فرزند تھے۔[3]۔[4]۔[5] ان کی کنیت کے بارے میں کئی آراء ہیں: ابونَضْلہ، [6] ابوزید یا ابواَسَد۔[7].

ہاشم نے اپنے والد عبد مناف کے بعد عظمت اور شہرت پائی۔[8] وہ نورانی اور روشن چہرے کے مالک تھے[9] حسب و نسب اور اخلاقی محاسن و مکارم کے لحاظ سے قریش کے برترین اور بہترین فرد تھے۔[10] فیاض، کریم اور مہمان نواز تھے اور ان کی سخاوت کا چرچا عام تھا۔[11] ہاشم کے چار بھائی تھے: "عبد شمس، مُطَّلِب، نَوْفَل اور ابوعمرو”، اور ان کی چھ بہنیں تھیں۔ ان کی والدہ عاتِکہ بنت مُرَّۃ بن ہلال تھیں۔[12]۔[13]

کہا گیا ہے کہ ہاشم اور ان کے بھائی عبد شمس پیدائش کے وقت چپکے ہوئے تھے اور انہیں تیز دھار آلے سے الگ کیا گیا اسی بنا پر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق، ان دو بھائیوں کی اولادوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا۔[14] (بنو امیہ عبد شمس کی نسل سے ہیں) ایک روایت کے مطابق، خاندان ہاشم اور خاندان امیہ کے درمیان تنازعے کا آغاز اس وقت سے ہوا جب ہاشم کی مہمان نوازی اور فیاضی کی وجہ سے ان کا بھتیجا امیہ بن عبدشمس حسد کا شکار ہوا اور ان کے درمیان دشمنی کا آغاز ہوا۔[15]

مناصب اور اقدامات

حاجیوں کو پانی اور کھانے کی فراہمی

عبد مناف کی وفات کے بعد ہاشم اور ان کے بھائی (عبد شمس، مطلّب اور نوفل) اور ان کے چچیرے بھائیوں یعنی بنو عبدالدار کے درمیان کعبہ کے مناصب پر تنازعہ کھڑا ہوا۔ فریقین میں سے ہر ایک قریش کے بعض خاندانوں کے ساتھ متحد ہوئے (دیکھئے: حلف المطیبین)۔ آخر کار کوئی جنگ جھگڑا ہوئے بغیر فریقین نے صلح کرلی اور سقایت (= حجاج کو پانی کی فراہمی) اور رفادت (= حجاج کو کھانے کی فراہمی) کے دو مناصب ہاشم کو ملے۔

ہاشم مراسمات حج کی تعظیم اور اپنے دو مناصب سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ ہر سال حج کے ایام میں قریش کے درمیان اٹھ جاتے تھے اور خطبہ پڑھ کر انہیں حجاج کی تکریم و تعظیم کی دعوت دیتے تھے اور ان کو ہدایت کرتے تھے کہ ان ایام میں انہیں بہر صورت مکہ میں ہی ٹہر کر حجاج کے لئے کھانا تیار کریں۔ ہاشم خود بھی بہت زیادہ مال اس کام کے لئے پس انداز کرلیتے تھے اور قریشی بھی اپنی مالی حیثیت کے تناسب سے اپنا حصہ ہاشم کو ادا کرتے تھے۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]

وہ ایام حج میں کعبہ کے قریب کھال کے بنے ہوئے بڑے بڑے حوض رکھواتے تھے اور مکہ کے کنؤوں سے خوشگوار پانی اکٹھا کروا کر ان میں بھروا دیتے تھے۔ نیز سات ذوالحجہ سے لے کر منیٰ سے حاجیوں کی واپسی تک منیٰ اور مکہ نیز مشعر الحرام اور عرفہ میں حاجیوں کو کھانا فراہم کرتے تھے اور نان، ترید، گوشت، گھی اور سویق کے ساتھ ان کی ضیافت کا اہتمام کرتے تھے۔[20]۔[21]۔[22]

ان کے اقدامات میں سے ایک یہ تھا کعبہ کے لئے سنہری دروازہ قرار دیا۔[23]

مکہ میں کنؤوں کی کھدائی

انھوں نے لوگوں کے لئے لئے آب رسانی کے فریضے کی بہتر انجام دہی کے لئے مکہ میں دو کنؤیں کھود لئے۔ "بذّر‌” نامی کنواں شعب ابی طالب] کے دہانے پر کھودا اور اس کا پانی عوام کے لئے وقف کرلیا اور "سجلۃ” نامی کنواں، جو عرصۂ دراز تک قبیلۂ مطعم بن عدی بن نوفل کے زیر استعمال تھا۔[24]

تجارت کی رونق اور تجارتی معاہدوں کا انعقاد

مؤرخین کے مطابق، ہاشم قریش کے پہلے فرد تھے جنہوں نے (یمن یا حبشہ یا یمن اور حبشہ کی جانب) جاڑے کے تجارتی سفروں اور (شام کی جانب) موسم گرما کے سفروں کی بنیاد رکھی۔[25]۔[26]۔[27] قبل ازاں قریش کا تجارتی لین دین مکہ کی حدود سے تجاوز نہیں کرتا تھا اور یہ شہر دوسرے غیر عرب تاجروں اور سوداگروں کی گذرگاہ کا کردار ادا کرتا تھا اور ان

کے پاس اپنا سامان تجارت ہوتا تھا۔ ہاشم جو ان ہی ایام میں تجارت کے لئے شام اور یمن کا سفر اختیار کیا کرتے تھے اور بہت زیادہ سفر کرتے تھے، نے قریش کی تجارت کو منظم اور منضبط کر دیا اور ان ہی کی ترغیب کے نتیجے میں ان کے قبیلے نے دو موسموں میں تجارتی سفروں کا اہتمام کیا۔[28]۔[29]۔[30] (سورہ قریش میں ان سفروں کی طرف اشارہ ہوا ہے)۔

نیز انھوں نے حبشہ کے حکمران نجاشی کو خط لکھا اور ان سے درخواست کی کہ قریشیوں کو اپنے زیر نگیں علاقوں میں کاروبار و تجارت کی غرض سے آمد و رفت کی اجازت دیں۔[31]

ہاشم نے مکہ سے شام تک کے راستے میں آباد عرب قبائل کے سرداروں کے ساتھ قرادادیں منعقد کیں تا کہ قریش امن و امان کے ساتھ ان علاقوں سے گذریں اور اس کے بدلے قریشی ان کا سازوسامان کرایہ وصول کئے بغیر مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیں۔[32]۔[33]

ہاشم ہی بظاہر اس رسم کے بانی تھے کہ ہر قریشی تاجر تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ایک نادار شخص کے ساتھ تقسیم کرے۔ اس اقدام کے نتیجے میں تمام غرباء بھی اغنیاء کی مانند، صاحب مال و ثروت ہوئے۔ یہ سلسلہ ظہور اسلام تک جاری رہا۔ اسی بنا پر عرب قبائل کے درمیان کوئی بھی قبیلہ قریش کی طرح صاحب عزت و حیثیت نہ تھا۔[34]۔[35] قریشی ہاشم کے احکامات کی تعمیل اور ان کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں پر آسائش زندگی سے بہرہ ور ہوئے۔[36] ہاشم قریش کی شوکت و عظمت اور آسائش فکر کا بنیادی سبب تھے اور قریش قریش دلی طور پر ان سے بہت زیادہ وابستہ تھے؛ یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو وہ بہت زیادہ فکرمند تھے کہ کہیں دوسرے عرب قبائل ان پر غلبہ نہ کرلیں۔[37]

وفات

ہاشم اپنے آخری سفر میں قریش کے چالیس افراد کے ہمراہ شام کی طرف چلے گئے اور جب غزہ پہنچے تو بیمار پڑگئے اور وہیں وفات پاگئے۔ ان کے ساتھی ان کی تدفین کے بعد ان کے اموال ان کے فرزندوں کے لئے لے گئے۔[38]۔[39]۔[40] علامہ مجلسی نے بھی ہاشم کے تجارتی سفر اور غزہ میں ان کی وفات کا واقعہ بحار الانوار میں بیان کیا ہے۔[41] زیادہ تر مؤرخین نے وفات کے وقت ہاشم کی عمر کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے؛ بلاذری کے بقول ہاشم بوقت وفات 20 سالہ یا 25 سالہ نوجوان تھے۔[42] تاہم بلاذری کا یہ خیال، ہاشم کی سماجی منزلت اور فرزندوں کی تعداد کو مد نظر رکھ کر قابل قبول نہیں آتا۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ آخری سفر میں ہاشم کا ایک ساتھی (قبیلۂ بنو عامر بن لؤی کا) ابو رہم بن عبدالعزی العامری 20 برس کا نوجوان تھا[43] معلوم ہوتا ہے دوسرے مؤرخین کی رائے درست نہیں ہے اور انھوں ے اس عدد کو ہاشم کی عمر قرار دیا ہے۔

ہاشم نے اپنے بھائی مطلب کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا اور بعد کے زمانوں میں بنو ہاشم اور بنو المطلب ہمیشہ متحد رہے۔[44]

القاب

ان کو ہاشم کا لقب ملا کیونکہ جن سالوں میں قریش قحط کا شکار ہوئے تھے، ہاشم نے ان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے شام یا فلسطین کا سفر اخیار کیا اور ہدایت کی بہت زیادہ روٹیاں تیار کی جائیں۔ بعد ازاں روٹیوں کو اونٹوں پر لاد لیا اور مکہ منقل کیا۔ وہاں روٹیوں کے ٹکڑے کردیئے اور ترید تیار کیا ((هَشَم الثَریدَ/ الخُبزَ) اور اونٹوں کو نحر کیا اور پکایا اور مکیوں کا پیٹ بھر دیا۔ اسی بنا پر انہیں ہاشم (ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا) کہا گیا۔[45]۔[46]

قریش کو قبائل کے سربراہوں اور پڑوسی بادشاہوں کے ساتھ مانوس و متحد کرنے کی بنا پر "صاحب ایلاف قریش” کا لقب دیا گیا ہے۔[47]۔[48]۔[49]

ہاشم کو "عمرو العلیٰ” کہا جاتا تھا جس کا سبب ان کی ذاتی خصوصیات اور نمایاں اور اعلی ذاتی صفات تھیں۔[50]۔[51]۔[52] "‌ابو الشعث الشجیات‌” بھی ہاشم کا ایک نام تھا۔[53]۔[54] "بدران” بھی ایک لقب تھا جو لوگوں نے ہاشم اور ان کے بھائی عبد مناف کو دیا تھا۔ اس لقب کا سبب یہ تھا کہ وہ دونوں بہت زیادہ خوبصور اور حسین و جمیل تھے۔[55]۔[56] "‌اقداح النضار‌” ــ یعنی خالص اور خوبصورت پیمانے ـ بھی ایک اجتماعی عنوان اور خطاب تھا جو ہاشم اور ان کے بھائیوں (عبد شمس، مطلب اور نوفل]]) کو دیا گیا تھا۔[57]

"مجیرون” (= پناہ دینے والے) یا "مجیزون (= اجازت دینے والے اور گذارنے والے) دوسرا اجتماعی عنوان تھا جو ہاشم اور ان کے بھائیوں کو دیا گیا تھا؛ کیونکہ وہ بہت سخی اور فیاض تھے اور دوسرے عربوں پر سیادت و اعزاز رکھتے تھے اور ان کے درمیان ہاشم نے شام، روم اور غسان کے بادشاہوں کے ساتھ معاہدے کئے اور ان کے بھائیوں نے ایران، حبشہ اور یمن کے بادشاہوں کے ساتھ معاہدے کئے اور ان سب نے قریش کے لئے امان نامے وصول کئے تاکہ وہ خاطر جمعی اور سکون و آسائش کے ساتھ ان بادشاہوں کے قلمرو میں تجارت کرسکیں۔ بروایت دیگر، چونکہ خداوند متعال نے ان کے وسیلے سے قریش کی غربت اور بدحالی کا ازالہ کیا چنانچہ انہیں "‌مُجَبِّرون‌” (= جبران یا ازالہ کرنے والے) کہا گیا۔[58]۔[59]۔[60]۔[61]

ازواج اور اولاد

ہاشم نے کئی شادیاں کیں اور ان سے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے باپ بنے۔[62] ان کے بیٹوں کے نام "عبدالمُطَّلِب، اسد، ابوصَیفی، اور نَضلہ”۔[63] ۔[64] اور بیٹیوں کے نام "الشّفاء، خالدۃ، رقیۃ، حبیبۃ[65] اور ضعیفۃ” ہیں۔[66]

پیغمبر عبد المطلب کی نسل سے ہیں اور امام علی(ع) کی والدہ فاطمہ اسد بن ہاشم کی بیٹی ہیں۔

ہاشم کی نسل صرف عبد المطلب سے چلی ہے۔[67] جبکہ نضلہ اور اسد کی نسل باقی اور جاری نہیں رہی۔[68] البتہ ابو صیفی کا "صیفی” نامی بیٹا تھا جو طفولت ہی میں وفات پاچکا تھا اور ان کی دو دوسرے بیٹے "عمرو اور ضحاک” بھی تھے۔ نیز نضلہ ایک بیٹا تھا جس کا نام "ارقم” تھا۔[69] لیکن چونکہ عرب نسب شناس ابو صیفی اور نضلہ کے مقطوع النسل ہونے کے قائل ہوئے ہیں لہذا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بیٹوں سے کوئی نسل باقی نہيں رہی ہے۔[70] اسد کے لئے بھی فاطمہ بنت اسد کے سوا کسی فرزند کا تذکرہ نہیں ہوا ہے جو (ابو طالب کی زوجۂ مکرمہ اور) امام علی علیہ السلام کی والدہ ہیں۔[71]

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص1۔
  2. اوپر جائیں طبری، تاریخ، ج2، ص251۔
  3. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل، ج2، ص16۔
  4. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص138۔
  5. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص75۔
  6. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ص64۔
  7. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص80۔
  8. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص242۔
  9. اوپر جائیں ابن حجر عسقلانی، الاصابه، ج3، ص96۔
  10. اوپر جائیں باعونی، جواهر المطالب، ج1، ص26۔
  11. اوپر جائیں ثعالبی، ثِمار القلوب، 609۔
  12. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص111ـ112۔
  13. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص61۔
  14. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص242۔
  15. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص76۔
  16. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص143۔
  17. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص60۔
  18. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص242۔
  19. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، ج15، ص209، 211۔
  20. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص78۔
  21. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص242۔
  22. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص210ـ211۔
  23. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص211۔
  24. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص149۔
  25. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص143۔
  26. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص75۔
  27. اوپر جائیں نیز رجوع کریں: یعقوبی، تاریخ، ج1، ص242۔
  28. اوپر جائیں فخررازی، التفسیر الکبیر، ج32، ص100۔
  29. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص202۔
  30. اوپر جائیں حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ج10، ص519۔
  31. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص78۔
  32. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص78۔
  33. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص243۔
  34. اوپر جائیں رجوع کریں: به فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج32، ص100۔
  35. اوپر جائیں حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ج10، ص519۔
  36. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص202۔
  37. اوپر جائیں یعقوبی، تاریخ، ج1، ص244۔
  38. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص146ـ147۔
  39. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص79۔
  40. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص210۔
  41. اوپر جائیں رجوع کریں: مجلسی، بحارالانوار،ج15، صص51-53۔
  42. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص63۔
  43. اوپر جائیں الطبقات‏الکبری، ج‏1، ص65۔
  44. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص79۔
  45. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، 1/75ـ76۔
  46. اوپر جائیں ابن حبیب، المنمق، ص219؛ ابن جوزی، المنتظم، ج2، ص210۔
  47. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص75۔
  48. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص59۔
  49. اوپر جائیں ثعالبی، ثِمار القلوب، ص115ـ116۔
  50. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات، ج1، ص76۔
  51. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص210۔
  52. اوپر جائیں حلبی، السیرة الحلبیة، ج1، ص7۔
  53. اوپر جائیں رجوع کریں: ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص148ـ150۔
  54. اوپر جائیں ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص212۔
  55. اوپر جائیں بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص61۔
  56. اوپر جائیں رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل، ج2، ص17۔
  57. اوپر جائیں حلبی، السیرة الحلبیة، ج1، ص7۔
  58. اوپر جائیں رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج2، ص252۔
  59. اوپر جائیں ابن کثیر، ج2، ص253۔
  60. اوپر جائیں صالحی شامی، سبل الهدی، ج1، ص269۔
  61. اوپر جائیں حلبی، السیرة الحلبیة، ج1، ص7۔
  62. اوپر جائیں رجوع کریں: ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص112ـ113؛ ابن سعد، الطبقات، ج1، ص79-80۔
  63. اوپر جائیں ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص113۔
  64. اوپر جائیں ابن حزم، جمهرة أنساب‏ العرب، متن، ص14۔
  65. اوپر جائیں سبل‏الهدی، ج‏1، ص271۔
  66. اوپر جائیں السیرةالنبویة، ج‏1، ص107۔
  67. اوپر جائیں ابن حزم، جمهرة أنساب‏ العرب، متن، ص14۔
  68. اوپر جائیں ابن حزم، جمهرة أنساب‏ العرب، متن، ص14۔
  69. اوپر جائیں الطبقات‏الکبری، ج‏1، ص69۔
  70. اوپر جائیں تاریخ الیعقوبی، ج‏1، ص244۔
  71. اوپر جائیں ابن حزم، جمهرة أنساب‏ العرب، متن، ص14۔

مآخذ

  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، 1407 ہجری قمری /1986 عیسوی۔
  • ابن الاثیر، الکامل۔
  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغۃ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، 1412 ہجری قمری /1992 عیسوی۔
  • ابن حبیب، محمد، المنمق فی اخبار قریش، بیروت، 1405 ہجری قمری /1985 عیسوی۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت، 1412 ہجری قمری /1992 عیسوی۔
  • ابن حزم (م 456)، جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق لجنۃ من العلماء، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، 1403 ہجری قمری /1983 عیسوی۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، 1410 ہجری قمری /1990 عیسوی۔
  • ابن ہشام، السیرۃالنبویہ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاہرہ، 1355 ہجری قمری / 1936 عیسوی۔
  • آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدید نظر و اضافات: دکتر ابوالقاسم گرجی، چاپ ہفتم، تہران، دانشگاہ تہران، 1385 ہجری شمسی۔
  • باعونی، محمد بن احمد، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ محمد باقر محمودی، قم، 1415 ہجری قمری۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، چاپ محمد حمید اللہ، مصر، 1959 عیسوی۔
  • ثعالبی، عبدالملک بن محمد، ثِمار القلوب، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1384 ہجری قمری / 1965 عیسوی۔
  • حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، 1405 ہجری قمری /1985 عیسوی۔
  • حلبی، علی بن برہان الدین، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، 1400 ہجری قمری۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، چاپ عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض بیروت، 1414 ہجری قمری /1993 عیسوی۔
  • طبری، تاریخ (بیروت)۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر اَوْ مفاتیح الغیب، بیروت، 1421 ہجری قمری /2000 عیسوی۔
  • المجلسی، العلامۃ الحجۃ محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الائمۃ الاطہار، مؤسسۃ الوفاء – بیروت – لبنان – الطبعۃ الثانیۃ المصححۃ 1403 ہ‍ / 1983 ع‍
  • یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔

Related Articles

Back to top button