مقالاتکربلا شناسی

شہادت امام حسین ؑ اور مولانا ابوالکلام آزاد

(ثاقب اکبر)

آج ہم برصغیر کی ایک اور نامور شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کے افکار فرزند رسولؐ امام عالی مقام علیہ السلام کے بارے میں اختصار سے ذکر کریں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جنھیں بعض لوگ ان کی عظیم المرتبت شخصیت اور علمی و سیاسی وجاہت کی وجہ سے امام الہند بھی کہتے ہیں، کا پورا نام ابو الکلام محی الدین احمد آزاد تھا۔ وہ 11 نومبر 1888ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 22 فروری 1958ء میں ہوئی۔ ان کے والد 1857ء کی جنگ آزادی کے حالات میں بہ امر مجبوری حجاز مقدس کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد وہیں متولد ہوئے اور ابتدائی تعلیم اسی پاک سرزمین پر حاصل کی۔ 14 برس کی عمر میں انھوں نے علوم شرقیہ کا تمام نصاب مکمل کر لیا۔ وہ نوجوانی ہی میں ہندوستان واپس آگئے اور پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ 1914ء میں انھوں نے الہلال نکالا۔ اس مجلہ کو بہت شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس میں انھوں نے ترقی پسندانہ سیاسی خیالات بیان کئے۔ وہ مذہبی تعلیمات کو عقلی بنیاد پر بیان کرتے تھے۔ تاہم عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث تھے۔ سیاسی طور پر وہ آل انڈیا کانگرس سے وابستہ تھے۔ آخر تک وہ اسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔ آخر میں وہ پاکستان بننے سے پہلے کانگرس کے صدر بنائے گئے۔ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد انھیں بھارت کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وہ اسی عہدے پر تھے جب ان کی وفات ہوئی۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی بہت سی کتابیں ہیں۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے قرآن حکیم کے تفسیری مطالب تین جلدوں پر مشتمل ان کی قرآن شناسی پر شاہد ہیں۔ دیگر کئی دینی موضوعات پر بھی ان کی کتابیں ہیں۔ ’’مسئلہ خلافت‘‘ ان میں سے ایک ہے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران میں وہ ایک عرصے تک قید و بند میں بھی رہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ان کی ایام قید ہی کی یادگار ہے۔ امام حسینؑ کے حوالے سے انھوں نے ’’شہید اعظم‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کے ٹائیٹل پر یہ عبارت بھی درج ہے ’’سیدنا حضرت

امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمٰی کے مستند تاریخی واقعات اور اسوۂ حسین‘‘ ہمارے سامنے اس کا وہ نسخہ ہے جسے تاج پبلشر دہلی نے جون 1977ء میں شائع کیا۔ کتاب کے دیباچہ میں مولانا رقم طراز ہیں: ’’بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی الم ناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے، جس قدر اس حادثہ پر بہہ چکے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا۔ امام حسینؓ کے خونچکاں حادثہ سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے۔‘‘ اس دیباچہ کے آخر میں مولانا نے 15 جولائی 1927ء کی تاریخ لکھی ہے۔ مولانا اپنی کتاب کا آغاز اس جملے سے کرتے ہیں: ’’اہل بیت شروع سے اپنے تئیں خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔‘‘

کتاب بنیادی طور پر مولانا نے اپنے نقطۂ نظر سے قیام حسینی اور شہادت امام حسینؑ کے مستند واقعات کو بیان کرنے کے لئے لکھی ہے۔ چنانچہ یہ کتاب یزید کے تخت حکومت پر براجمان ہونے سے واقعات کو بیان کرنا شروع کرتی ہے اور اس کے بعد امام حسینؑ کی مدینہ اور پھر مکہ سے ہجرت کو بیان کرتی ہے۔ آپ کے جن عزیزوں نے آپ کو مکہ نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا، ان کا بھی ذکر کرتی ہے اور پھر مکہ سے کوفہ تک کے حالات اختصار سے بیان کرتی ہے۔ کتاب میں امام حسینؑ کے مختلف خطبوں کو ذکر کیا گیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جو بلند پایہ ادیب بھی ہیں، نے بہت ہی اعلٰی درجے کا ترجمہ کیا ہے۔ حُر کے لشکر کے سامنے امام حسینؑ کا ایک خطبہ مولانا آزاد کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے: ’’اے لوگو! اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانو تو یہ خدا کی خوشنودی کا باعث ہوگا۔ ہم اہل بیت ان مدعیوں سے زیادہ حکومت کے حق دار ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ تم پر ظلم و جور سے حکومت کرتے ہیں، لیکن اگر تم ہمیں ناپسند کرو، ہمارا حق نہ پہچانو اور اب تمھاری رائے اس کے خلاف ہوگئی ہو، جو تم نے مجھے اپنے خطوں میں لکھی اور قاصدوں کی زبانی پہنچائی تھی تو میں واپس چلے جانے کے لئے بہ خوشی تیار ہوں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ امام حسینؑ کے خطبوں سے بہتر کوئی چیز نہیں جو امام حسینؑ کے قیام کے مقاصد بیان کرسکے۔ آیئے مولانا آزاد کے ترجمہ سے قیام حسینی کے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’اے لوگو! رسول اللہ صلعم نے فرمایا ہے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے، خدا کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے۔۔۔عہد الٰہی شکستہ کرتا ہے، سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے، خدا کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے، نہ اپنے قول سے، سو خدا ایسے لوگوں کو اچھا ٹھکانا نہیں بخشے گا۔ دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں۔ رحمٰن سے سرکش ہوگئے ہیں۔ فساد ظاہر ہے، حدود الٰہی معطل ہیں۔ مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ حقدار ہوں۔ تمھارے بیشمار خطوط اور قاصد میرے پاس پیام بیعت لے کر پہنچے۔ تم عہد کرچکے ہو کہ تم مجھ سے بے وفائی نہ کرو گے اور نہ مجھے دشمنوں کے حوالے کرو گے۔ اگر تم اپنی اس بیعت پر قائم رہے تو یہ تمھارے لئے راہ ہدایت ہے، کیونکہ میں حسین بن علی رضی اللہ عنہ، رسولؐ کا نواسہ ہوں۔ میری جان تمھاری جان کے ساتھ، میرے بال بچے تمھارے بال بچوں کے ساتھ ہیں۔ مجھے اپنا نمونہ بناؤ اور مجھ سے گردن نہ موڑو، لیکن اگر تم یہ نہ کرو، بلکہ اپنا عہد توڑ دو اور اپنی گردن سے میری بیعت کا حلقہ نکال پھینکو، تو یہ بھی تم سے بعید نہیں۔ تم میرے باپ، بھائی اور عم زاد مسلم کے ساتھ ایسا ہی کرچکے ہو۔ وہ فریب خوردہ ہے جو تم پر بھروسہ کرے لیکن یاد رکھو، تم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے اور اب بھی اپنا ہی نقصان کروگے۔ تم نے اپنا حصہ کھو دیا۔ اپنی قسمت بگاڑ دی، جو بدعہدی کرے گا، خود اپنے خلاف بد عہدی کرے گا، خدائے تعالٰی عنقریب مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا۔‘‘

ایک دوسری جگہ تقریر فرمائی: ’’معاملہ کی جو صورت ہوگئی ہے تم دیکھ رہے ہو، دنیا نے اپنا رنگ بدل دیا۔ مونہہ پھیر لیا، نیکی سے خالی ہوگئی۔ ذرا سی تلچھٹ باقی ہے، حقیر سی زندگی رہ گئی ہے۔ ہولناکی نے احاطہ کر لیا ہے۔ افسوس تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے؟ باطل پر علانیہ عمل کیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے۔ وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں لقائے الٰہی کی خواہش کرے۔ میں شہادت ہی کی موت چاہتا ہوں۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود جرم ہے۔‘‘ اس کے بعد عبادت کے لئے ایک رات کی مہلت کا بیان ہے اور پھر روز عاشور کے واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ امام حسینؑ کی اور ان کے ساتھیوں کی بہادری اور ایمان کی دل آویز پیرائے میں تصویر کشی کی گئی ہے، جو تاریخ کی معتبر کتابوں کے حوالوں سے مزین ہیں۔ ہم اس کا مطالعہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ امام حسینؑ کی شہادت کے حوالے سے مختصراً مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریر یہاں نقل کئے دیتے ہیں: ’’اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ دشمن اگر چاہتا تو آپ کو بہت پہلے قتل کر ڈالتا۔ مگر یہ گناہ کوئی بھی اپنے سر نہیں

لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن چلّایا: تمھارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کیوں کام تمام نہیں کرتے؟ اب ہر طرف سے پھر نرغہ ہوا۔ آپ نے پکار کر کہا: کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو؟ واللہ میرے بعد کسی بندے کے قتل پر بھی خدا اتنا ناخوش نہیں ہوگا۔ جتنا میرے قتل پر ناخوش ہوگا۔‘‘ ’’مگر اب وقت آچکا تھا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کے بائیں ہاتھ کو زخمی کیا پھر شانے پر تلوار ماری، آپ کمزوری سے لڑکھڑائے۔ لوگ ہیبت سے پیچھے ہٹے مگر سنان بن انس نخعی نے بڑھ کر نیزہ مارا اور آپ زمین پر گر پڑے۔ اس نے ایک شخص سے کہا ’’سرکاٹ لے۔‘‘ وہ سر کاٹنے کے لئے لپکا مگر جرأت نہ ہوئی۔ سنان بن انس نے دانت پیس کر کہا: خدا تیرے ہاتھ شل کر ڈالے۔ پھر جوش سے اترا۔ آپ کو ذبح کیا اور سر تن سے جدا کر لیا۔ جعفر بن علی بن محمد سے مروی ہے کہ قتل کے بعد دیکھا گیا کہ آپ کے جسم پر نیزے کے 32 زخم اور تلوار کے 34 گھاؤ تھے۔‘‘

’’سنان بن انس قاتل کے دماغ میں کسی قدر فتور تھا۔ قتل کے وقت اس کی عجیب حالت تھی۔ جو شخص بھی حضرت کی نعش کے قریب آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا تھا۔ وہ ڈرتا تھا، کوئی دوسرا ان کا سر کاٹ نہ لے جائے۔ قاتل نے سرکاٹ کر خولی بن یزید اصبحی کے حوالہ کیا اور خود عمرو بن سعد کے پاس دوڑا گیا۔ خیمہ کے سامنے کھڑا ہو کر چلّایا۔
اوقد رکابی فضۃ و ذھبا انا قتلت الملک المحجبا
مجھے سونے چاندی سے لاد دو، میں نے بڑا بادشاہ مارا ہے۔
قتلت خیرالناس اما وابا وخیر ھم اذینسبون نسبا
میں نے اسے قتل کیا ہے جس کے ماں باپ سب سے افضل اور جو اپنے نسب میں سے اچھا ہے۔
عمرو بن سعد نے اسے اندر بلا لیا۔ بہت خفا ہوا۔ کہنے لگا ’’واللہ تو مجنون ہے۔‘‘ پھر اپنی لکڑی سے اسے مار کر کہا: پاگل ایسی بات کہتا ہے۔ بخدا اگر عبیداللہ بن زیاد سنتا تو تجھے ابھی مروا ڈالتا۔‘‘(ابن جریر)
اس کے بعد لاشوں کی پامالی، سروں کا نیزوں پر اٹھایا جانا، اہل بیتؑ کی اسیری اور پھر کوفہ و دمشق میں ان کا لے جایا جانا اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔ دمشق کے واقعات بیان کرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے امام حسینؑ، ان کے اہل بیتؑ اور انصار کی شہادتوں کی ذمے داری کا بوجھ ابن زیاد پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اگلے مرحلے پر جا کر مولانا آزاد کا نظریہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ گفتگو پڑھنے والی ہے، جو حضرت زینبؑ نے یزید کے دربار میں کی اور مولانا آزاد نے اسے ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’حضرت فاطمہ بنت علیؓ سے مروی ہے کہ جب ہم یزید کے سامنے بٹھائے گئے تو اس نے ہم پر ترس ظاہر کیا۔ ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا۔ بڑی مہربانی سے پیش آیا۔ اسی اثنا میں ایک سرخ رنگ کا شامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: امیرالمومنین یہ لڑکی مجھے عنایت کر دیجیے اور میری طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں کمسن اور خوبصورت تھی، میں خوف سے کانپنے لگی اور اپنی بہن زینب کی چادر پکڑ لی۔ وہ مجھ سے بڑی تھیں، زیادہ سمجھدار تھیں، جانتی تھیں یہ بات نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے پکار کر کہا: تو کمینہ ہے نہ تجھے اس کا اختیار ہے نہ اسے (یزید کو) اس کا حق ہے۔ اس جرأت پر یزید کو غصہ آگیا۔ کہنے لگا: تو جھوٹ بکتی ہے، واللہ مجھے یہ حق حاصل ہے، اگر چاہوں تو ابھی کرسکتا ہوں۔ زینب نے کہا: ہرگز نہیں، خدا نے تمھیں یہ حق ہرگز نہیں دیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ تم ہماری ملت سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلو۔ یزید اور بھی خفا ہونے لگا: دین سے تیرا باپ اور تیرا بھائی نکل چکا ہے! زینب نے بلاتامل جواب دیا: اللہ کے دین سے میرے باپ کے دین سے میرے بھائی کے دین سے، میرے نانا کے دین سے تو نے، تیرے باپ نے تیرے دادا نے ہدایت پائی ہے۔ یزید چلّایا: اے دشمن خدا! تو جھوٹی ہے! زینب بولیں: تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے۔ ظلم سے گالیاں دیتا ہے، اپنی قوت سے مخلوق کو دباتا ہے!”

جان کلام وہ حصہ ہے، جو مولانا نے اسوۂ حسین کے زیر عنوان قلمبند کیا ہے۔ بہت ایمان افروز اور حدت عشق سے معمور ہے اور مقاصد حسینی کو بہت عمدگی سے آشکار کرتا ہے۔ ہمارے لئے بہت مشکل ہے کہ اس حصے میں سے کسی خاص عبارت کا انتخاب کریں۔ بہرحال چند جملے نقل کرکے ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’بنی امیہ کی حکومت ایک غیر شرعی حکومت تھی۔ کوئی حکومت جس کی بنیاد جبر و شخصیت پر ہو، کبھی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے اسلام کی روح حریت و جمہوریت کو غارت کیا اور مشورۂ اجماع امت کی جگہ محض غلبۂ جابرانہ اور مکروخدع پر اپنی شخصی حکومت کی بنیاد رکھی۔ ان کا نظام شریعت الٰہیہ نہ تھا، بلکہ محض اغراض نفسانیہ و مقاصد سیاسیہ، ایسی حالت میں ضرور تھا کہ ظلم و جبر کے مقابلہ کی ایک مثال قائم کی جاتی اور حق و حریت کی راہ میں جہاد کیا جاتا۔ حضرت سید الشہداء نے اپنی قربانی کی مثال قائم کرکے مظالم بنی امیہ کے خلاف جہاد حق کی بنیاد رکھی اور جس حکومت کی بنیاد ظلم و جبر پر تھی اس کی اطاعت و وفاداری سے انکار کر دیا۔ پس یہ نمونہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر ظالمانہ و جابرانہ حکومت کا علانیہ مقابلہ کرو اور کسی ایسی حکومت و اطاعت و وفاداری کی بیعت نہ کرو، جو خدا کی بخشی ہوئی انسانی حریت و حقوق کی غارت گر ہو اور جس کے احکام مستبدہ جائرہ کی بنیاد، صداقت و عدالت کی جگہ جبر و ظلم ہو۔‘‘

Related Articles

Back to top button