اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

بیمار کی عیادت

(سید وقار احمد کاظمی)

اسلام، اجتماعی دین ہے کہ جو انسانوں کو اجتماعی زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے، اس مسئلہ کو اسلامی معارف اور اسلامی اصولوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اجتماعی زندگی بسر کرے، اسلام کے اہم احکام اور دستوروں میں سے ایک اہم حکم اور دستور بیمار کی عیادت ہے، یعنی وہ افراد کہ جنہوں نے کسی بھی طرح سے اپنی سلامتی کھودی ہے (چاہے چھوٹی اور وقتی بیماری یا بڑی اور دائمی بیماری کی وجہ سے) جیسے وہ افراد کہ جو معلول ہو جاتے ہیں۔
یقیناً وہ شخص کہ جو بیمار ہوجاتاہے وہ یہ راہ دیکھتا رہتا ہے کہ ابھی ہمارے دوست واحباب اور رشتہ دار آئیں گے اور ہماری احوال پرسی کریں گے جس کے نتیجہ میں ہم خوشحال ومسرور ہوجائیں گے۔
اسلام کی نگاہ میں بیمار کی عیادت ”ایک ایسا حق ہے کہ دینی بھائیوں کافریضہ ہے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:”من حق المسلم علی المسلم اذا لقیہ ان یسلم علیہ واذا مرض ان یعودہ اذا مات ان یشیع جنازتہ”
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پہ یہ حق ہے کہ جب بھی آپس میں ملاقات کرے تو سلام کرے ،جب بیمار ہوجائے تو اسکی عیادت کرے اور جب اس دنیا سے گذر جائے تو اسکی تشییع جنازہ میں شرکت کرے۔(١)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی ”معلی بن اخنس”فرماتے ہیں:”میں نے امام سے سوال کیا کہ ایک مسلمان کا حق دوسرے مسلمان پہ کیا ہے”؟۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی بابت سات حقوق واجب ہیں اور اگر ان میں سے کسی ایک حق کو بھی ادا نہیں کیا تو انسان (مسلمان) ولایت اور بندگی خدا سے خارج ہو جاتا ہے گویا اس نے خدا کی بندگی نہیں کی۔
راوی نے کہا:مولا ہماری جان آپ پہ نثار!وہ سات حق کون کون سے ہیں؟
امام نے فرمایا: اے معلی! میں تمہارے بارے میں ڈرتا ہوں کہ میں تمہیں وہ حقوق بتادوں اور تم ان حقوق کی رعایت نہ کر وان حقوق کا علم رکھ کے بھی ان پر عمل نہ کرو۔
راوی نے کہا:لَا قُوَةَّ اِلَّا بِاللّٰہِ(قدرت فقط خدا کے اختیار میں ہے )۔
امام نے فرمایا:
”والحقوق السبعة ھی: ان قَبِلَ قسمہ وتجیب دعوتہ وتعود مرضہ وتشھد جنازتہ واذا علمت ان لہ حاجةً تبادرہ الی قضائھا….”
(اے معلی)وہ ساتوں حقوق کچھ اس طرح ہیں :(مسلمان بھائی کی)قسم کو قبول کرو ،اسکی دعوت پہ لبیک کہو،اس کی بیماری میں عیادت کرو،اسکی تشیع جنازہ میں شرکت کرو اور اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ اسے کوئی حاجت ہے تو کوشش کرو کہ اس کی حاجت کو پورا کرو…..۔ (٢)

بیمار کی عیادت کا ثواب
دین اسلام نے بیمار کی عیادت کو واجب حقوق، الٰہی اور انسانی فریضہ میں شمار کرنے کے بعد انسانوں کے اس اہم فریضہ کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے اس عمل کے ثواب اور اجرکو بھی بیان کیا ہے ،امام صادق علیہ السلام بیمار کی عیادت کے ثواب کے بارے میں فرماتے ہیں:”ایما مومن عاد اخاہ فی مرضہ فان کان حین یصبح شَیَّعَہ سبعون اَلفَ ملک فاذا قعد عنہ غمرتہ الرحمة واستغفروا لہ حتی یمسی وان کان مساء ًکان لہ مثل ذلک حتی یصبح”۔
جب بھی کوئی مومن کسی مومن مریض کی عیادت کرتاہے تو اگر یہ عیادت صبح کے وقت ہے تو ستر ہزارفرشتے اس کے ساتھ رات تک رہتے ہیں اوراس کے لئے استغفار کرتے ہیں اورجب وہ بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو رحمت خدا کے حصار میں رہتا ہے۔(٣)
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”اذاعاد الرجل اخاہ المسلم مشیٰ فی خرافة الجنة حتیٰ یجلس فاذا جلس غمرتہ الرحمة فان کان غدوةً صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح”۔
جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کیلئے جاتا ہے تو گویا وہ جنتی راستے پر چلتا ہے یہاں تک وہ بیمار کے پاس بیٹھ جائے اور جب وہ بیمار کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو رحمت خدا اس کا احاطہ کر لیتی ہے (رحمت خدا اس پر نازل ہوتی ہے )،اگر صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو دوسرے دن صبح تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں یعنی اس کے لئے رحمت و مغفرت کی دعاکرتے ہیں ۔(٤)

عیادت کے آداب
١۔ تحفہ لے جانا
ائمہ معصومین کی سفارشوں میں سے ایک سفارش یہ ہے کہ جب بھی کسی کی عیادت کے لئے جائو تو ہدیہ لے کے جائو لیکن ہدیہ دینے اور لے جانے میں بدلہ اور عوض کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ ہمارے لئے لے کے آئے تھے اس لئے ہم بھی لے کے جائیں گے اور فلاں ہمارے لئے نہیں لائے تھے لہٰذا ہم بھی نہیں لے جائیں گے چونکہ یہ پستی کی علامت ہے ،مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس سلسلے میں سفارش کی ہے :”عد من لا یعودک واھد الی من لا یھدی الیک”۔
ایسے شخص کی عیادت کے لئے جاؤ کہ جو تمہاری عیادت کے لئے نہیں آتا اور ایسے شخص کے لئے ہدیہ لے جاؤ کہ جو تمہارے لئے ہدیہ نہیں لاتا۔(٥)
امام صادق علیہ السلام کے ایک غلام کا بیان ہے کہ میری جان پہچان کا ایک شخص بیمار ہوگیا، میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ اسکی عیادت کے لئے جا رہا تھا کہ راستے میں امام سے ملاقات ہوگئی امام علیہ السلام نے سوال کیا کہاں جا رہے ہو؟ہم لوگوں نے جواب دیا :فلاں شخص کی عیادت کے لئے جارہے ہیں،امام علیہ السلام نے فرمایا:رکو!۔ ہم لوگ رک گئے ،امام نے پوچھا:”مع احدکم تفاحة او سفرجلة اواترجة او لعقة من طیب او قطعة من عود بخور؟ فقلنا:ما معنا شی من ھذا، فقال:اما تعلمون ان المریض یستریح الی کل ما ادخل بہ علیہ ”۔
کیا تم میں سے کسی نے سیب،ناشپاتی، عطر یا خوشبو دار لکڑی لی ہے کہ جسے تم بعنوان ہدیہ بیمار کی خدمت میں پیش کرو؟ہم لوگوں نے عرض کی:ہم میں سے کسی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے !۔ امام نے فرمایا:کیا تم لوگوں کو نہیں معلوم! کہ بیمارانسان، ان چیزوں کے سبب سے کہ جو اس کے لئے ہدیہ کے عنوان سے لے جائی جاتی ہیں ذہنی سکون اور اطمینان کا احساس کرتا ہے۔(٦)

٢۔وقت و زمان عیادت کا کم ہونا
ائمہ اطہار علیہم السلام کی سفارش ہے کہ جب کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائو تو اس کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھو بلکہ جلدی سے اٹھ جائو چونکہ پہلی بات تو یہ کہ وہ تھکا ہوتا ہے اوراسے تکلیف اور اذیت کا احساس ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ (مریض) عیادت کے لئے آنے والے لوگوں کی خاطر خود کو زحمت و مشقت میں ڈالتا ہے تاکہ آنے والے افراد کی مہمان نوازی کرسکے، لہٰذا بہترین عیادت وہ ہے جو کم وقت میں ہو جیسا کہ پیغمبراکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ”خَیرا لعِیٰادَةِ اَخَفُّھٰا” یا ”اَعظَمُ العِیٰادَةِ اَجراً اَخَفُّھَا”۔(٧)
روایات میں اس شخص کے لئے خاص اجر و ثواب ذکر ہوا ہے کہ جو بیمار کی عیادت کے لئے جائے اور مختصر وقت میں عیادت کر لے ، جیسا کہ امام علی علیہ السلام سے روایت ہے :”اِنَّ مِن اَعظمِ العُوّادِ اَجرا ًعِندَ اللّٰہِ عزَّوَجَلَّ لِمَن اِذا عٰادَ اَخَاہُ خَفَّفَ الجُلُوسَ اِلّا اَن یَکُونَ المریضُ یُحِبُّ ذلکَ وَیُریدُہُ” ۔
عیادت کرنے والوں میں سب سے زیادہ ثواب اور اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو اپنے مومن بھائی کی عیادت کیلئے جب بھی جائے تو وہاں کم بیٹھے (کم وقت میں عیادت کر لے)مگر یہ کہ خود بیمارکی مرضی اس کے زیادہ دیر رکنے (اوربیٹھنے) میں ہو۔ (٨)
اسی طرح سے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :”اَعظَمُکُم فِی العِیٰادَةِاَخَفُّکُم جُلُوساً”۔
عیادت کرنے والوں میں اس کا اجر وثواب سب سے زیادہ ہے کہ جوبیمار کے پاس کم بیٹھے۔(٩)

٣۔بیمار کی دل جوئی (دل داری)
نفسیاتی بیماری کے علاج کے بہترین طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ بیمار کی دل جوئی کی جائے اور اسے قلبی اطمینان اور قلبی قوت عطا کی جائے یقیناً اس طریقے کا استعمال بیماری کے ٹھیک ہونے میں بہت ہی مؤثر ہے لہٰذا عیادت کرنے والے افراد کے لئے ضروری ہے کہ اس مطلب پر خاص توجہ رکھیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کی رعایت کریں کہ آپ ۖ نے فرمایا:”اِذَا دَخَلتُم عَلَی المَرِیضِ فَنَفِّسُوا لَہُ فِی الاَجلِ فَاِنَّ ذٰلِکَ لایَرُدُّ شَیئاً وَھُوَ یُطَیِّبُ الّنَّفسَ”۔
جب بھی بیمار کے پاس جائو تو اس کے ذہن سے موت کا خیال دور کرو اور اسے آئندہ کی زندگی کی امید دلائو اگرچہ یہ امر کسی چیز کو تبدیل نہیں کرسکتا (یعنی اس کی تقدیر کو نہیں بدل سکتا) لیکن بیمار کے اطمینان کا سبب ضرور بنے گا۔(١٠)

٤۔بیمار کی حالت پوچھنا
بیمار کی عیادت کے آداب میں سے ایک ادب، بیمار کی احوال پرسی کرنا ہے یعنی بیمار کی جسمانی حالت اور اسکی بیماری کے بارے میں سوال کرنا،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک عیادت یعنی بیمار کی احوال پرسی اور اس کی بیماری کے بارے میں پوچھنا:”تَمَامُ عِیٰادَةِ المَریضِ اَن یَضَعَ اَحَدُکُم یَدَہُ عَلَیہِ وَیَسأَلَہُ کَیفَ ھُوَ،کَیفَ اَصبَحتَ وَکَیفَ اَمسَیتَ وَتَمٰامُ تَحِیَّتِکُم المُصٰافَحَةُ” ۔
بیمار کی اصلی عیادت یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی ایک بیمار پہ ہاتھ رکھے اور اس کی احوال پرسی کرے پوچھے کہ اس نے کس حال میں صبح کی اور کس طرح سے دن گزرا؟اورتمہاری تمام تحیت ، مصافحہ کرنا ہے۔(١١)

٥۔بیمار کے لئے دعا کرنا
ائمہ معصومین علیہم السلام نے جوآداب بیمار کی عیادت کے لئے بیان کئے ہیں ان میں ایک سفارش یہ ہے کہ خدا سے بیمار کی سلامتی اور عافیت کی دعاکریں ،اسی طرح سے آپ بیمار سے کہیں کہ وہ آپ کے لئے دعا کرے چونکہ بیمار کی دعا قبول ہوتی ہے۔(١٢)
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”عُودُوا المَرضیٰ…..وَ تَدعُوا لَلمَریضِ فَتَقُولُوااَللّٰھُمَّ الشفِہِ بِشِفٰا ئِکَ وَ دَاوِہِ بِدَوٰائِکَ وَعٰافِہِ مِن بَلاٰ ئِکِ”
بیماروں کی عیادت کرو…اور بیمار کے لئے دعا کرو اور کہو:بار الٰہا!اسے شفا عنایت فرمااور اپنی دواسے مداوافرمااور اسے اپنی بلا سے عافیت عنایت فرما۔(١٣)
خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت یہ تھی کہ جب آپ بیمار کی عیادت کے لئے جاتے تھے توبیمار کے لئے عافیت طلب کرتے تھے جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ جب آپۖ جناب سلمان فارسی کی عیادت کے لئے آئے اور ان کے سرہانے سے اٹھنے لگے تو آپۖ نے فرمایا: ”یٰاسَلمانُ! کَشَفَ اللہُ ضُرَّکَ وَغَفَرَ ذَنبَکَ وَحَفَظَکَ فی دینِکَ وَبَدَنِکَ اِلیٰ مُنتَھیٰ اَجَلِکَ” ۔
اے سلمان!خدا تمہارے رنج ومصیبت کو دور کرے ،تمہارے گناہوں کو معاف کرے اور تمہارے دین اور بدن کو آخری عمر تک محفوظ کرے۔(١٤)
٦۔مہمان نوازی کی توقع نہ رکھنا
بیمار کی عیادت کا ہدف اور مقصد محبت کا اظہار، مسلمان ہونے کا حق ادا کرنا اورمعنوی اجر و ثواب حاصل کرنا ہے لہٰذاجو شخص بھی بیمار کی عیادت کے لئے جائے اسے مہمان نوازی کی امید نہیں کرنی چاہئے چونکہ وہ خود ہی بیمار ہوتا ہے اور اس کے گھر والے بھی بیمار کی تیمار داری میں مشغول ہوتے ہیں لہٰذا ادب کا تقاضا یہ ہے کہ بیمار کی عیادت کے وقت جتنا ممکن ہومریض کے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالیں ۔
آٹھویں امام حضرت رضا علیہ السلام نے اپنے جد مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:”اِنَّ رَسُولَ اللہ ۖ نَھیٰ اَن یُٔوکَلَ عِندَ المَرِیضِ شَیٔ اِذٰا عٰادَہُ العٰائِدُ فَیُحبِطُ اللہُ بِذٰلِکَ اَجرَ عِیٰادَتِہِ” ۔
پیغمبر اکرم ۖ نے بیمار کی عیادت کے لئے جانیوالے شخص کوبیمار کے پاس کچھ بھی کھانے سے منع کیا ہے چونکہ یہ امر سبب بنتا ہے کہ خداوند متعال عیادت کے ثواب کو ختم کر دے ۔ (١٥)
اس مضمون کو ایک عبرت آمیز اورشیریں واقعے کے ساتھ تمام کرتے ہیں ، مرحوم حاجی سبزواری چند لوگوں کے ساتھ ایک بیمارکی عیادت کیلئے جارہے تھے، جب بیمارکے گھر کے قریب پہنچے تو وہاں سے پلٹ آئے،عیادت کے لئے نہیں گئے،جب ساتھ میں جانے والوں نے سوال کیا کہ قبلہ آپ یہاں تک آئے اور پھر واپس؟آپ نے ایسا کیوں کیا؟حاجی سبزواری نے جواب دیا :میرے ذہن و دل میں یہ بات آئی کہ جب میں بیمار کی عیادت کے لئے جائوں گا اور بیمارمجھے دیکھے گا تو اسے بہت ہی خوشی کا احساس ہوگا اور کہے گا کہ واقعا ًحاجی سبزواری کتنے برزگ اور والا مقام انسان ہیں ،اب میں جارہاہوں جب وہ پہلے والا خلوص میرے اندر پیدا ہوجائے گااور بیمار کی عیادت فقط رضائے خداکے لئے ہو گی تب آؤں گا۔(١٦)

حوالہ جات
١۔مکارم الاخلاق:رضی الدین حسن بن فضل طبرسی، ص٣٥٩، انتشارات شریف رضی قم،طباعت چہارم۔
٢۔اصول کافی: ثقة الاسلام کلینی، ج٢، ص١٦٩، ح٢، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، طبع چہارم۔
٣۔مکارم الاخلاق: ص٣٥٩
٤۔اصول کافی:ج٢،ص١٦٩،ح٢۔
٥۔ من لایحضرہ الفقیہ: شیخ صدوق، ج٣، ص٣٠٠، ح٤٠٧٥، موسسہ انتشارات اسلامی۔
٦۔اصول کافی:ج٣،ص١١٨،ح٣۔
٧۔کنز العمال:متقی ہندی،ج٩،ص٩٤ ،ح٢٥١٣٩۔
٨۔اصول کافی:ج٣،ص١١٨،ح٦۔
٩۔مکارم الاخلاق:ص٣٦١۔
١٠۔کنز الفوائد:شیخ ابوالفتح کراجکی،ج١،ص٣٧٩، انتشارات دار الذخائر،قم،طباعت اول۔
١١۔مکارم الاخلاق:ص٣٥٩۔
١٢۔ بحار الانوار: علامہ مجلسی، مؤسسہ الوفائ، بیروت، لبنان،١٤٠٤قمری،ج٩٠،ص٣٦٠،ب٢٢، ح٢١، پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:ثلاث دَعوات مستجابة…. و دعاء المریض؛ تین دعائیں قابل قبول ہیں کہ جن میں ایک بیمار کی دعا ہے ؛پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :”دُعٰائُ المَرِیضِ کَدُعٰا ئِ المَلٰائِکَةِ” بیمار کی دعا فرشتے کی دعا کے مانند ہے۔(کنز العمال: ج٩، ص١٠٣، ح٢٥١٩١)
١٣۔بحار الانوار:ج٧٨،ص٢٢٤،ب٤،ح٣٢۔
١٤۔ مکارم الاخلاق:ص٣٦١۔
١٥۔مستدرک الوسائل:ج٢،ص١٥٤۔
١٦۔در محضر استاد:ص٢٣۔

Related Articles

Back to top button