امام علی علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیت

امیرالمومنینؑ کی بزرگی و عظمت

مصنف:سیّد علی حسینی خامنہ ای
حضرت کے ہمرزم ہوجائیے:
میرے عزیزو! ایک نکتہ جسکا ربط ہم سب سے ہے ہم اسکی طرف توجہ کریں:آپکی پیروی اور اتباع تنہا زبان سے تو ہو نہیں سکتی ۔مثلاً آپ میدان جنگ میں اتر کر رٹ لگائیں کہ فلاں ہمارے سپہ سالار ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں انہیں پسند کرتا ہوں اور وہی سپہ سالار آپ کو فوجی ٹریننگ کے لئے بلائے اور آپ اپنی جگہ سے نہ ہلیں وہ آپکو دشمن پر حملہ کے لئے حکم دے مگر آپ اس سے رخ موڑ لیں۔جبکہ انسان اپنے دشمن اور جسے وہ نا پسند کرتا ہے اس سے یہ رویہ اختیار کرتا ہے، امیرالمومنین علیہ السلام ہمارے مولا ہیں امام ہیں آقا و سردار ہیں ہم شیعوں کو انکی محبت پر ناز ہے اگر ہم لوگوں کے سامنے کوئی علی علیہ السلام کو انکی عظمت و بزرگی سے گھٹاتا ہے تو ہم اس سے بھی بغض و نفرت کرتے ہیں اسے ناپسند کرتے ہیں تو پھر ان کی ولایت کا کچھ نہ کچھ اثر ہماری عملی زندگی میں بھی نظر آنا چاہئیے۔
میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ امیرالمومنین علیہ السلام جیسے بنیئے خود حضرت امام سجادعلیہ السلام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح عمل نہیں کرسکتے خود حضرت علیہ السلام نے عثمان بن حنیف سے فرمایا: ’’ الا و انکم لا تعدون علی ذالک‘‘تم میری طرح نہیں ہو سکتے یہ تو بالکل واضح ہے لیکن تم سے یہ توقع ضرور ہے کہ ہمارے ہمرزم بنو ہمارے پائے رکاب میں قدم رکھو اور ہمارے پیچھے پیچھے چلو اگر آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی آواز سے آواز ملانا چاہتے ہیں تو ہمیں انکے زمانہ حکومت کی دوخصوصیتوں کو اپنانا پڑیگا۔کہ جسکا تعلق ہمارے اور آپکے زمانے سے ہے اور ہم سے اور آپ سے اسکا ربط پایا جاتا ہے۔اور وہ ہے نمبر۱۔اجتماعی عدالت و مساوات، نمبر۲۔دنیا کی نسبت بے توجہی اور اس سے دل نہ لگانا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی اجتماعی عدالت:
عزیزان گرامی: ان دونوں خصوصیتوں کو پرچم کی طرح اپنے ہاتھوں میں لیکر معاشرے میں عملی کرنے کی کوشش کریں عدالت اجتماعی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا قانون یکساں طور پر معاشرے کے ایک ایک فرد کو زیر نظر رکھے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کرے، انسان ایک دوسرے سے مختلف قسم کا رابطہ رکھتا ہے جسکی بناء پرآپس کے برتاؤ میں بھی فرق آجاتا ہے اسلئے کہ کوئی کسی کا رشتہ دار ہے تو کوئی دوست ہے کسی سے جان پہچان ہے تو کسی سے نہیں ہے البتہ جو شخص بھی کسی بھی مقام یا منصب کا مالک ہے ، یہاں میری مراد یہ ہے کہ قانون اسکے ہاتھ میں ہے اس لئے کسی تفریق کے بغیر، سب کو ایک نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ خصوصاً ایک اسلامی نظام حکومت میں ہر ایک فرد کو یہ اطمینان اور احساس ہونا چا ہیے کہ اسکے ساتھ قانون کی نگاہ نہیں بدلے گی، جو جسقدر زحمت ومشقت اٹھائے گا اسی لحاظ سے بہرہ مند بھی ہو گا، اگرچہ کچھ لوگ کاہل اور سست اور کام چور ہوتے ہیں جو کام چوری کرتے ہیں وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتے ہیں، کام کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں لہٰذا ان کا دوسرے لوگوں سے مسئلہ ہی یہاں جدا ہے یہاں عدالت اجتماعی کے معنی یہ ہیں کہ بغیر دلیل کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو سب کے لئے ایک قانون ہو اور امیرالمومنین علیہ السلام نے یہ کام اپنی حکومت میں انجام دیا اور اسی کو عدالت اجتماعی کہتے ہیں۔
علی علیہ السلام سے دشمنی کی بنیاد یہی تھی، وہ نجاشی شاعر، جس نے امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے اشعار کہے تھے، آپکے دشمنوں سے ٹکر لی تھی آپ کا محب تھا، دشمنوں کے مقابلے پر بھی علی علیہ السلام کا دامن نہیں چھوڑا ، لیکن جب وہی حرمت الٰہی کو توڑتا ہے، ماہ مبارک رمضان میں شراب پیتا ہے تو لوگوں کے اصرار کے باوجود،آپ فرماتے ہیں سب کچھ اپنی جگہ درست، اسکی محبت قابل قدر اسکی دوستی اپنے مقام پر لیکن چونکہ اس نے حرمت الٰہی کو توڑا ہے اسلئے اس پر حد خدا جاری ہوگی وہ بھی ناراض ہو کر آپ کو چھوڑ کر معاویہ کی طرف چلا گیا یعنی امیرالمومنین علیہ السلام حدود خداوندی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں کہ گویااُنکی نگاہ میں اہمیت صرف اور صرف قوانینِ الٰہی ہے اور خدا سے ہٹ کر کوئی شے ارزش و اہمیت نہیں رکھتی۔
یہی امیرالمومنین علیہ السلام ہیں کہ جب ایک شخص چوری کرتاہے اور وہ آپکے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں تم کو قرآن کتنا یاد ہے اس نے سنا دیا تو فرمایا! ’’قد وھمیت یدک لسورۃ البقرۃ‘‘ تمہارے عمل کی بنیاد پر تو تمہارا ہاتھ کاٹ دینا چاہئے تھا مگر اس سورہ مبارکہ بقرہ کی وجہ سے تیرے ہاتھ کو بخش دیا جاؤ پھر ایسی حرکت نہ کرنا۔
یہ کوئی بیجا امتیاز نہیں ہے بلکہ قرآن کی وجہ سے آپ نے اسکے ساتھ یہ برتاؤ کیا۔امیرالمومنین علیہ السلام اقتدار اسلامی اور اصول وقوانین ِدینی کے سامنے کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے وہاں محب ہونے کے باوجود اسکے فسق و فجور کی بنیاد پر حدجاری کرتے ہیں اور یہاں قرآن کی بنیاد پر اس چور کو معاف کر دیتے ہیں یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام جو صد در صد الہیٰ معیار کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں یہ ہے آپکی عدالت، جس کسی نے بھی یہ کہا ہو مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں یہ کس کا قول ہے ’’ قتل فی محراب عبادتہ لشدّۃ عدلہ‘‘علی علیہ السلام محراب عبادت میں اپنی انصاف پسندی کی شدّت کی وجہ سے قتل کر دیے گئے ۔
مگر کہنے والے نے درست کہا ہے یعنی عدالت امیرالمومنین علیہ السلام اثر ورسوخ رکھنے والوںاور صاحبان نفوذ کے لئے ناقابل برداشت تھی یہاں تک کہ اسی وجہ سے وہ لوگ انکے قتل کے درپے ہوگئے۔
اب ذرا ملاحظہ کریں آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناب آپ کس طرح اس اسلامی معاشرے میں اسی عدالت کو برقرار کر سکتے ہیں جسکی وجہ سے علیؑ آخر تک حکومت نہیں کر سکے! میں کہتا ہوں جس قدر اسے عملی کرنا ممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ اس اندازہ کے مطابق معاشرہ میں اسے عملی کریں ہم کب کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ با لکل عدل امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح ہم عدل جاری کرنا چاہتے ہیں۔ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ جس قدر بھی ایک مومن اس پر عمل کر سکتا ہے ، انجام دے کم از کم جتنا ہو سکتا ہے اسے تو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔
اگر یہی عدالت فرھنگ و تمدن (کلچر)کی صورت اختیار کرے اور عوام اُس کو سمجھ جائیں تولوگ خود بخود اسکو برداشت کریں گے۔ عدالت امیرالمومنین علیہ السلام سے عوام الناس خوشحال تھے محض صاحبان نفوذ کو برُا لگتا تھا وہ اس سے ناراض تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام کو ان لوگوں نے یہ خود شکست دی اور معرکہ صفین پیش آیا ۔کہ جس میں حضرت علیہ السلام کو خون ِدل پینا پڑا اور اسکے بعد آپکو شہید کر دیا گیا ان سب کی وجہ یہ تھی کہ عام لوگ اسوقت مسائل کو صحیح طور پر سمجھنے سے عاجز تھے اور اسکا صحیح تجزیہ انکے بس سے باہر تھا۔
صاحبان نفوذ ومطلب پرست عام لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ رکھتے تھے انہیں سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے تھے اسلئے ،درک و فھم پیدا کرنا چاہئیے لوگوں کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ایک دن عدالت اجتماعی کو پورے معاشرے میں جاری کیا جاسکے ۔
پارسائی و زہد امیرالمومنین علیہ السلام:
ایک دوسرا مسئلہ امیرالمومنین علیہ السلام کا زھد ہے جو نہج البلاغہ کا ایک نمایاں پہلو ہے ، جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس زھد و پارسائی کو لوگوں کے سامنے بیان کیا تھا اسے اسلامی معاشرے کی بنیاد ی بیماری کے علاج کے طور پر پیش فرمایا تھا اور میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ آج ہمیں انہیں مسائل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے، امیرالمومنین علیہ السلام جب یہ فرمارہے تھے کہ دنیا کی لذتوں اور اسکے زرق برق میں مبتلا نہ ہوں توکچھ لوگ ایسے بھی تھے جنکے ہاتھ وہاں تک پہنچے ہوئے تھے آپکا خطاب ان سے تھا ’’ان لوگوں سے نہیں جو فقیر تھے کہ جنکی اسوقت اکثریت تھی‘‘امیر المومنین علیہ السلام ان سے خطاب کر رہے تھے جو فتوحات اسلامی کی وجہ سے دولت و ثروت کی بہتات اور مملکت اسلامی کے پھیلنے کے نتیجہ میں دنیا اور اسکی لذات میں غرق ہوتے جا رہے تھے۔آج جب ہم بھی اس صفت کے بارے میں دو باتیں کہنا چاہتے ہیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جنکے پاس وہ مادی اسباب ووسائل نہیں ہیں، جی ہاں ہمارا خطاب بھی ان سے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان اسباب و وسائل کے مالک ہیں ان لوگوں کے لئے ہے جو صاحب ثروت و دولت ہیں۔
جو لوگ حرام طریقوں سے دنیا کی لذتوں کو حاصل کر سکتے ہیں ہمارا خطاب بھی ان سے ہے البتہ ان لوگوں کے علاوہ وہ حضرات بھی توجہ رکھیں جو حلال راستوں سے دنیا کی شیرینیاں اکٹھا کر سکتے ہیں ان سے بھی ہماری یہی گذارش ہے کہ وہ زہد اختیار کریں اور لذائذ دنیا میں غوطہ زن نہ ہو جائیں۔

Related Articles

Back to top button