اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

شوہر کی غم خوار وہمدرد

مصنف:آیت اللہ ابراھیم امینی

خواہر عزیز اگر آپ کے شوہر بیمار پڑگئے ہیں تو ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ مہربانی کا برتاؤ کیجئے۔ ان سے اظہار ہمدردی کیجئے اور افسوس کا اظہار کیجئے ۔ ان کی علالت پر اپنے شدید رنج و غم کو ظاہر کیجئے ۔ان کو تسلی دیجئے ۔ ان کے آرام کا خیال رکھئے ۔ اگر ڈاکٹر یا دوا کی ضرورت ہو تو مہیا کیجئے ۔ جس غذا سے انھیں رغبت ہو اور ان کے لئے مناسب ہو فوراً تیار کیجئے ۔ باربار ان کی احوال پرسی کیجئے اور تسلی دیجئے ۔ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کیجئے ۔ اگر دردوتکلیف کی شدت سے انھیں نیند نہ آرہی ہو تو آپ بھی کوشش کریں کہ ان کے ساتھ جاگتی رہیں ۔ اگر آپ کو نیند آگئی تو جب آنکھ کھلے تو ہلکے سے ان کا سر سہلا کے دیکھئے اگر بیدار ہیں تو ان کا حال پوچھئے اگر رات جاگ کر گزری ہے تو صبح کو ناراضگی کا اظہار نہ کیجئے ۔ دن میں ان کے کمرے میں تنہائی اور خاموشی کا اہتمام رکھئے شاید کو نیند آجائے ۔ آپ کی ہمدردیاں اور نوازشیں ان کی تکلیف میں تسکین کا سبب بنیں گی اور ان کے صحت یاب ہونے میں معاون ثابت ہوں گی ۔ اس کے علاوہ اس قسم کے کام وفاداری ، صمیمیت اور سچی محبت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں زندگی میں لگن وحوصلہ پیدا ہوتاہے آپس میں محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر آپ بیمار ہوں گی تو یہی سلوک وہ آپ کے ساتھ کریں گے ۔
جی ہاں آپ کا یہ عمل ایک قسم کی شوہرداری ہے ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : عورت کا جہاد یہ ہے کہ شوہر کی نگہداشت اچھی طرح کرے ۔ (1)
راز کی حفاظت کیجئے ۔ عام طور پر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے شوہر کے اسرار و رموز سے باخبر رہیں وہ چاہتی ہیں کہ کسب معاش کی کیفیت ، تنخواہ ، بینک ، بیلنس ، دفتر رموز اور اس کے مستقبل کے فیصلوں اور ارادوں سے مطلع رہیں مختصر کہ اپنے شوہر سے توقع رکھتی ہیں کہ اپنے تمام رازوں کو ان پر برملا کردے اور ان سے کچھ پوشیدہ نہ رکھے اس کے برعکس بہت سے مرد اس بات پر تیار نہیں کہ اپنے تمام رازوں کو اپنی بیویوں پر ظاہر کردیں ۔ اور کبھی کبھی یہی موضوع گرما گرمی اور بدگمانی کا سبب بن جاتا ہے بیوی شکالیت کرتی ہے کہ میرے شوہر کو مجھ پر اعتبار نہیں اپنے رازوں کو مجھ سے مخفی رکھتا ہے اپنے خطوط مجھے پڑھنے نہیں دیتا ۔ اپنی آمدنی اور پس انداز کے بارے میں نہیں بتاتا ۔ مجھ سے اپنے دل کا حال نہیں کہتا ۔ میرے سوالوں کے جواب دینے میں تامل کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے ۔ اتفاق سے بعض مرد بھی اپنی زندگی کے اسرار و رموز بیوی سے پوشیدہ رکھنا پسند نہیں کرتے لیکن ان کا عذر یہ ہوتا ہے کہ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں سکتی ۔ وہ کسی بات کو پوری طرح پوشیدہ نہیں رکھ پاتیں ۔ ادھر کچھ سنا اور فوراً دوسروں سے کہدیا ۔ کوئی بھی بہانے بہانے سے اسرار ورموز کو ان کے منھ سے اگلواسکتا ہے ۔ اور اس طرح خواہ مخواہ ان کے لئے مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے ۔
اگر کوئی انسان کسی کے رازوں کو جاننا چاہے تو آسانی کے ساتھ اس کی بیوی کو فراب دے کر اس کے ذریعہ سے اپنا مقصد پورا کرسکتا ہے یہ بھی ممکن ہے بعض عورتیں رازوں سے واقف ہونے کے سبب اس سے سوء استفادہ کریں ۔ حتی کہ اس کو شوہر پر غلبہ حاصلہ کرنے کا وسیلہ قرار دیں اور تسکین نہ ہونے کی صورت میں اس کی پریشانی کے اسباب فراہم کردیں ۔
البتہ مردوں کا یہ عذر کسی حد تک مدلل ہے ۔ عورتیں جلدی جذبات اور احساسات سے مغلوب ہوجاتی ہیں اور عام طور پر ان کے احساسات و جذبات ان کی عقل پر غالب آجاتے ہیں ۔ جب غصہ میں ہوتی ہیں تو مروت برتنا ان کے لئے دشوار ہوجاتا ہے ۔ ایسے وقت میں ممکن ہے رازوں کو جاننے کے سبب اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور مرد کے لئے مصیبت کھڑی کردیں ۔
قارئین گرامی اس قسم کے واقعات سے آپ خود بھی واقف ہوں گے ۔ لہذا عورت اگر چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رکھے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ رازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور محتاط رہیں کہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی سے بھی اور کسی صورت میں بھی کوئی بات نہ کریں ۔ حتی اپنے قریبی عزیزوں اور گہرے دوستوں سے بھی اپنے شوہر کے رازوں کو نہ کہیں ۔ راز کی حفاظت کے لئے یہ کافی نہیں کہ خود تو دوسروں یہ کہہ دیں اور اس سے کہیں کہ کسی سے نہ کہنا ۔ یقینا جس کو راز دار بنایا گیا ہے اس کے بھی کچھ دوست ہوں گے اور ممکن ہے وہ آپ کے راز اپنے دوستوں سے کہہ دے اور کہے کہ کسی اور سے نہ کہنا ۔ ایک وقت انسان متوجہ ہوتا ہے کہ اس کا راز فاش ہوگئے ہیں لہذا عقلمند انسان اپنے رازوں میں کسی کو شریک کرنا ناپسند نہیں کرتا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : عاقل انسان کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتا ہے ۔ (2)
حضرت علی علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے کہ دنیا و آخرت کی خوبیاں دوچیزوں میں مضمر ہیں رازکی حفاظت کرنے اور اچھے لوگوں سے دوستی کرنے میں ۔ اور تمام برائیاں دو چیزوں میں جمع ہوتی ہیں رازوں کو فاش کرنے اور بدکار لوگوں سے دوستی کرنے میں ۔ (3)

1۔ بحارالانوار ج 103 ص 247
2۔ بحار الانوار ج 75 ص 71
3۔ بحارالانوار ج 74 ص 178

Related Articles

Back to top button