حکایات و روایاتکتب اسلامی

خوشامد کی سزا

کریم خان ژند ایک مشہور حکمران تھا،وہ ہر روز صبح سے دوپہر تک دربار عام منعقد کرتا تھا جس میں مظلوم اور ستم زدہ افراد اپنے دکھڑے اس کو سناتے اور انصاف کے طلبگار ہوتے۔
ایک دن ایک مکار شخص اس کے دربار میں آیا اور آتے ہی رونے لگا،اس کاسیلاب اشک کسی طور تھمنے میں نہیں آتا تھا،زیادہ رونے کی وجہ سے وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں تھا۔
کریم خان نے کہا:اس مظلوم کو فی الحال ہماری آرام گاہ میں بٹھا دیا جائے اور جب اس کی طبیعت سنبھل جائے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔
کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بحال ہوئی تو اسے کریم خان کے پاس لایا گیا۔
حاکم نے پوچھا کہ تم پر کس نے ظلم کیا ہے کہ تم اتنا رو رہے تھے؟
اس نے کہا:مجھ پر کسی نے کوئی ظلم نہیں کیا،اصل بات یہ ہے کہ میں شکم مادر سے ہی نابینا پیدا ہوا تھا،میری پوری زندگی اندھیروں میں گزری ہے۔
کل میں آپ کے والد مرحوم کے مزار پر گیا،وہاں میں نے رو رو کر دعا مانگی یہاں تک کہ روتے ہوئے مجھے نیند آگئی،خواب میں ایک بزرگ کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے مجھ سے فرمایا:میں کریم خان ژند کا والد ابو الوکیل ہوں،میں نے تجھے شفا بخشی اور تجھے بینا کردیا ہے،یہ کہہ کر انہوں نے اپنا دست شفقت میری آنکھوں پر پھیرا،پھر میں بیدار ہوگیا،جیسے ہی میں بیدار ہوا تو میں نے اپنے آپ کو بینا پایا،اب میں آپ کے پاس کسی کے ظلم کی شکایت لے کر نہیں آیا بلکہ آپ کے والد مرحوم کے روحانی تصرف کا حال سنانے آیا ہوں اور یہ جو آپ نے سیلاب اشک دیکھا یہ در اصل خوشی کے آنسو تھے۔
آپ کے والد ماجد کے روحانی تصرف کی وجہ سے میں آج اس دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوا تو آپ کے دربار میں چلا آیا تاکہ میں یہ عہد کرسکوں کہ میں ہمیشہ آپ کا خادم رہوں گا اور کسی قسم کی خدمت سے دریغ نہ کروں گا۔
یہ سن کر کریم خان نے جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ اس کی آنکھیں نکال دی جائیں ،دربار میں موجود تمام لوگوں نے رحم کی درخواست کی،کریم خان نے لوگوں کے کہنے پر اس کی آنکھیں تو نہ نکلوائیں البتہ حکم دیا کہ اسے خوب پیٹا جائے۔
جب وہ پٹ رہا تھا تو کریم خان ژند نے کہا:یہ شخص جھوٹا اور مکار ہے،اس کمینے کے پاس خوشامد کا ہتھیار ہے،یہ اسی ہتھیار سے مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا،میرا باپ جب تک زندہ تھا،چوریاں کیا کرتا تھا اور جب میں اپنی ہمت سے اس مقام پر پہنچا تو کسی خوشامدی نے اس کا مقبرہ تعمیر کردیا اور آج بہتر تو یہی تھا کہ میں اس کی آنکھیں نکلوا دیتا تاکہ میرے باپ کے مقبرے سے یہ دوبارہ آنکھیں حاصل کرلیتا ۔

(حوالہ)

(اخلاق روحی،ص۷۴)

Related Articles

Back to top button