علم اور عالم
(۱)’’عن اَبِی جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ:قَالَ رسول الله ﷺ: یَجیءُ الرَّجُلُ یَومَ القِیامَةِ و لَهُ مِنَ الحَسَناتِ کالسَّحابِ الرُّکامِ أو کالجِبالِ الرَّواسی ، فیَقولُ : یا رَبِّ ، أنّى لی هذا و لَم أعمَلها ؟ فیَقولُ : هذا عِلمُکَ الّذی عَلَّمتَهُ النّاسَ یُعمَلُ بِهِ مِن بَعدِکَ‘‘
امام جعفر صادقؑ روایت کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا ہے: قیامت کے دن ایک شخص کو لایاجائے گا،اس کے نیک اعمال تہہ در تہہ بادلوں یا بلند و بالاپہاڑوں کی طرح نظر آئیں گے،وہ کہے گا:یا اللہ!میرے اتنے سارے اعمال کہاں سے آگئے جبکہ میں نے اتنے عمل تو نہیں کئے تھے؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ تیرا وہ علم ہے جو تو نے لوگوں کو سکھایا اور جس پر تیرے بعد عمل ہوتا رہا۔ (۲)’’قالَ الاْمامُ علىّ بن أبی طالِب أمیرُ الْمُؤْمِنینَ ؑ‘‘ :
فَإِنَّ الْعَالِمَ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِي الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا يَسُدُّهَا شَيْ ءٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘‘
امیرالمومنین امام علیؑ نے فرمایا:
مومن عالم کا اجر صائم النہار،قائم اللیل،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد سے زیادہ ہے،جب عالم دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسلام میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے قیامت تک کوئی چیز پر نہیں کرسکتی۔
(۳)’’عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ:
الْعِلْمُ عِلْمَانِ : وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ابْنِ آدَمَ وَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ ، فَذَاكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:علم کی دو قسمیں ہیں:ایک وہ جو زبان پر ہوتا ہے اور یہ علم انسان کے خلاف دلیل ہے اور دوسرا وہ جو دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نفع بخش ہے۔
(۴)’’عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ:عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِمَ
یُعْرَفُ النَّاجِی؟قَالَ مَنْ كَانَ فِعْلُهُ لِقَوْلِهِ مُوَافِقاًفھو ناج وَ مَنْ لَمْ یَکُنْ فِعْلُهُ لِقَوْلِهِ مُوَافِقاً فَإِنَّمَا ذَلِکَ مُسْتَوْدَعٌ‘‘
مفضل کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے پوچھا:نجات پانے والے کی پہچان کیسے ہو؟امامؑ نے فرمایا:
جس کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو وہ نجات پانے والاہے اور جس کا عمل اس کے قول کے مطابق نہ ہو وہ اپنے علم کے ہاتھوں گروی ہے(یعنی وہ اس سے واپس لے لیا جائےگا)۔
(۵)’’قَالَ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ سَمِعْتُ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ؑ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّهِ ﷺ مَنْهُومَانِ لَا یَشْبَعَانِ طَالِبُ دُنْیَا وَ طَالِبُ عِلْمٍ فَمَنِ اقْتَصَرَ مِنَ الدّنْیَا عَلَی مَا أَحَلّ اللّهُ لَهُ سَلِمَ وَ مَنْ تَنَاوَلَهَا مِنْ غَیْرِ حِلّهَا هَلَکَ إِلّا أَنْ یَتُوبَ أَوْ یُرَاجِعَ وَ مَنْ أَخَذَ الْعِلْمَ مِنْ أَهْلِهِ وَ عَمِلَ بِعِلْمِهِ نَجَا وَ مَنْ أَرَادَ بِهِ الدّنْیَا فَهِیَ حَظّهُ ‘‘
سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؑ سے سنا کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:دو بھوکے کبھی سیر نہیں ہوتے:طالب دنیا اور طالب علم۔
جو شخص دنیا میں رزق حلال پر قناعت کرے گا وہ سلامت رہے گا اور جو حرام طریقے سے دنیا حاصل کرے گا وہ ہلاک ہوجائےگا مگر یہ کہ وہ توبہ کرے اور حق کی طرف رجوع کرے اور جس نے اہل علم سے علم سیکھا اور اس پر عمل کیا اس نے نجات پائی اور جس نے علم کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا وہ ہلاک ہو اور اس کا حصہ بھی علم سے دنیا کا حصول ہی ہوگا۔
(۶)’’الْعُلَماءُ رَجُلانِ، رَجُلٌ عالِمٌ آخِذٌ بِعِلْمِهِ فَهَذا ناج وَ رَجُلٌ تارِكٌ لِعِلْمِهِ فَهَذا هالِكٌ وَ اِنَّ اَهْلَ النَّارِ لَيَتَأَذَّونَ مِنْ ريحِ الْعالِمِ التّارِكِ لِعِلْمِهِ وَ إِنَّ أَشَّدَ أَهْلَ النّارِ
نَدامَةً وَ حَسْرَةً رَجُلٌ دَعا عَبْدَاً إِلى اللّهِ سُبْحانَهُ فَاسْتَجابَ لَهُ وَ قَبِلَ مِنْهُ فَأَطاعَ اللَّهَ فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ وَ أَدْخَلَ الدّاعىَ النّارَ بِتَرْكِهِ عِلْمَهُ إتِّبَاع الهَوى وَطُولَ الأمَلِ، أمّا إتِّباعُ الهَوى فَإِنَّهُ يَصُدُّ عَنِ الحَقِّ وَأمّا طُولُ الأَمَِل فَإِنَّهُ يِِْنسِي الآخرة‘‘
عالم بھی دو طرح کے ہیں۔
(۱) وہ عالم جس نے اپنے علم پر عمل کیا،وہ نجات پائے گا۔
(۲)وہ عالم جس نے اپنے علم پر عمل نہیں کیا وہ ہلاک ہوجائے گا اور اہل دوزخ اس تارک عمل عالم کی بدبو سے اذیت محسوس کریں گے۔
دوزخیوں میں سب سے زیادہ حسرت و ندامت اس شخص کو ہوگی جس نے کسی بندے کو اللہ کی طرف بلایا اور اس نے اس کی ترغیب و تبلیغ سے اطاعت خدا کی تو اطاعت کرنے والے کو خدا جنت میں داخل کرے گا اور اس تبلیغ و ترغیب دینے والے کو خدا اس کی بے عملی،خواہشات کی پیروی اور لمبی لمبی آرزوئوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کرے گا، (عمل کو چھوڑ دینے کے دو بنیادی اسباب ہیں:خواہشات کی پیروی،لمبی لمبی آرزوئیں) خواہشات کی پیروی انسان کو حق سے روکتی ہے اور لمبی آرزوئیں آخرت کو بھلانے کا سبب بنتی ہیں۔
(۷)’’عن زرارۃ عن ابی جعفر علیه السلام قال:قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَؑ: قِوَامُ الدِّينِ بِأَرْبَعَةٍ بِعَالِمٍ نَاطِقٍ مُسْتَعْمِلٍ لَهُ وَ بِغَنِيٍّ لَا يَبْخَلُ بِفَضْلِهِ عَلَى أَهْلِ دِينِ اللَّهِ وَ
بِفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَهُ بِدُنْيَاهُ وَ بِجَاهِلٍ لَا يَتَكَبَّرُ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ فَإِذَا كَتَمَ الْعَالِمُ عِلْمَهُ وَ بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَالِهِ وَ بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَهُ بِدُنْيَاهُ وَ اسْتَكْبَرَ الْجَاهِلُ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ رَجَعَتِ الدُّنْيَا إِلَى وَرَائِهَا الْقَهْقَرَى فَلَا تَغُرَّنَّكُمْ كَثْرَةُ الْمَسَاجِدِ وَ أَجْسَادُ قَوْمٍ مُخْتَلِفَةٍ قِيلَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ الْعَيْشُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَقَالَ خَالِطُوهُمْ بِالْبَرَّانِيَّةِ يَعْنِي فِي الظَّاهِرِ وَ خَالِفُوهُمْ فِي الْبَاطِنِ لِلْمَرْءِ مَا اكْتَسَبَ وَ هُوَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَ انْتَظِرُوا مَعَ ذَلِكَ الْفَرَجَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‘‘
زرارۃ بن اعین کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر ؑ سے سنا،انہوں نے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے امیرالمومنین ؑ سے نقل کیا کہ آپؑ نے فرمایا:دین کےچار ستون ہیں:
(۱) وہ عالم جو حکم خدا بیان کرنے والاہو اور اس پر عمل کرتا ہو۔
(۲)وہ دولت مند جو اپنی دولت مومنین پر خرچ کرنے سے دریغ نہ کرتا ہو۔
(۳)ایسا غریب جو دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہ بیچتا ہو۔
(۴)وہ جاہل جو علم کے حصول سے تکبر نہ کرتا ہو۔
جب عالم اپنے علم کو چھپا لے اور دولت مند اپنی دولت میں کنجوسی کرنے لگے اور غریب اپنی آخرت کو دنیا کے عوض بیچ دے اور جاہل خود کو طلب علم سے مستغنی سمجھے تو دنیا میں پھر دور جاہلیت لوٹ آتا ہے۔
خبردار!اس زمانے میں مسجدوں کی کثرت اور لوگوں کی اکثریت تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔
آپ ؑسے پوچھا گیا:یا امیرالمومنینؑ !اس زمانے میں ہم کس طرح زندگی گزاریں ؟
آپؑ نے فرمایا:اس زمانے کے لوگوں کے ساتھ ظاہری میل جول رکھو،اندر سے ان کی مخالفت کرو،ہر شخص کی زندگی کا ثمر وہی ہے جو اس نے حاصل کیا ہے اور انسان اسی کے ساتھ محشور ہوگا جس سے وہ محبت کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے حالات میں بہتری کی امید بھی رکھو۔
(۸)’’عَنْ عَلِيّ بْنِ الْحُسَيْنِ عليه السلام قَالَ:
لَوْ يَعْلَمُ النّاسُ مَا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْ بِسَفْكِ الْمُهَجِ وَ خَوْضِ اللّجَجِ إِنّ اللّهَ تَبَارَكَ و َتَعَالَى أَوْحَى إِلَى دَانِيَالَ أَنّ أَمْقَتَ عَبِيدِي إِلَيّ الْجَاهِلُ الْمُسْتَخِفّ بِحَقّ أَهْلِ الْعِلْمِ التّارِكُ لِلِاقْتِدَاءِ بِهِمْ وَ أَنّ أَحَبّ عَبِيدِي إِلَيّ التّقِيّ الطّالِبُ لِلثّوَابِ الْجَزِيلِ اللّازِمُ لِلْعُلَمَاءِ التّابِعُ لِلْحُلَمَاءِ الْقَابِلُ عَنِ الْحُكَمَاءِ‘‘
امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
اگر لوگوں کو حصول علم کی فضیلت کا اندازہ ہوجائے تو وہ اسے حاصل کر کے رہیں گے، چاہے اس کے لیے انہیں خون کیوں نہ بہانا پڑے اور تلاطم خیز سمندروں کی تہہ میں کیوں نہ اترنا پڑے،اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب دانیالؑ کو وحی فرمائی:میرے نزدیک وہ جاہل انتہائی ناپسندیدہ شخص ہے جو اہل علم کے حق کو ہلکا سمجھتا ہو اور جو ان کی پیروی کرنا چھوڑ دے اور میرا پسندیدہ بندہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو،عظیم ثواب کا طلبگار ہو،علماء سے وابستہ رہتا ہو،حلیم الطبع لوگوں کی پیروی کرتا ہو اور دانشوروں کی باتوں کو قبول کرتا ہو۔
(۹)’’وقال الإمام عليّ بن موسى الرضا عليه السّلام: يُقال للعابد يوم القيامة:
نِعم الرجلُ كنتَ، هَمَّتك ذاتُ نفسك، وكَفَيتَ الناس مؤنتَك، فادخلُ الجنّة. ويُقال للفقيه: يا أيّها الكافلُ لأيتام آل محمّد صلّى الله عليه وآله وسلّم، الهادي لضُعفاء محبّيه ومواليه، قِفْ حتّى تشفَعَ لكلّ مَن أخذ عنك أو تعلّم منك. فيقف فيدخل الجنّة ومعه فِئامٌ وفئام ـ حتّى قال عشراً ـ وهم الذين أخذوا عنه عُلومه، وأخذوا عمّن أخذ عنه إلى يوم القيامة، فانظروا كم فرقٌ ما بَين المنزلتَين‘‘
امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:قیامت کے دن عابد سے کہا جائے گا کہ تو اچھا آدمی تھا،تو نے ہمیشہ اپنی ذات کو مد نظر رکھا اور قیامت کے دن (ایسے)فقیہ سے کہا جائے گا:ـاے آل محمدؑ کے یتیموں کی پرورش کرنے والے!اور ان کے کمزور دوستوں اور چاہنے والوں کو ہدایت دینے والے!ٹھہر جا اور ان لوگوں کی شفاعت کر جنہوں نے تجھ سے استفادہ کیا یا تعلیم حاصل کی،فقیہ عرصہ محشر میں ٹھہر جائے گا یہاں تک کہ اس کے ساتھ دس فِئَاملوگ جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اس سے علم حاصل کیا ہوگا یا اس کے شاگردوں سے استفادہ کیا ہوگا یا اس کے شاگردوں کے شاگردوں سے استفادہ کیا ہوگا اور ان میں قیامت تک کے لوگ شامل ہوں گے جنہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اس سے استفادہ کیا ہوگا،دیکھو!عابد اور عالم کی منزلت میں کتنا فرق ہے۔
نوٹ:لفظفِئَام ف کی زیر اور ہمزہ کی زبر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے بہت زیادہ لوگوں کی جماعت،یہ لفظ غدیر خم میں سامعین کی تعداد کے لیے استعمال ہوا ہے، اس سے ایک لاکھ افراد مراد ہیں۔
(۱۰)’’عُلَماءُ شیعَتِنامُرابِطونَ فی الثَّغرِ الّذی یَلی إبلیسَ وعَفاریتَهُ ، یَمنَعونَهُم
عَنِ الخُروجِ عَلى ضُعَفاءِ شیعَتِنا النَّوَاصِبُ اَلَا فَمَنِ انتَصَبَ لِذَلِکَ مَن شِیعَتِنَا کَانَ اَفضَلَ مِمَّن جَاهَدَ الرُّومَ وَ التُّرکَ وَ الخَزَرَ اَلفَ اَلفِ مَرَّةِ وعَن أن یَتَسَلَّطَ علَیهِم إبلیسُ وشیعَتُهُ لِأَنَّهُ یَدْفَعُ عَنْ أَدْیَانِ مُحِبِّینَا وَ ذَلِکَ یَدْفَعُ عَنْ أَبْدَانِهِم ‘‘
امام حسن عسکریؑ بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
ہمارے شیعہ علماءابلیس اور اس کے چیلوں کی سرحد پر کھڑے ہو کر ہمارے کمزور شیعوں کا دفاع کرتے ہیں اور ہمارے شیعوں کو ابلیس اور اس کے پیروکار نواصب کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
آگاہ رہو!ہمارا جو بھی شیعہ اس منصب کو سنبھالے وہ روم و ترک و خزر جیسے کافروں سے جہاد لڑنے والے مجاہد سے لاکھوں گنا بہتر ہے کیونکہ یہ ان کے دین کا دفاع کرتا ہے اور مجاہد ان کے جسموں کا دفاع کرتا ہے۔
(حوالہ جات)
(بحارالانوار ج۲،ص۱۸)
(بحارالانوار ج۲،ص۱۸)
(بحارالانوار ج۲،ص۳۳)
(وسائل الشیعہ ج۲،ص۱۵۰)
(کافی ج۱،ص۴۶)
(کافی ج۱،ص۴۴)
(بحارالانوار،ج۱،ص۱۷۹)
(کافی ج۱،ص۳۵)
(مستدرک الوسائل ج۱۷،ص۳۱۹)
(بحارالانوار ج۲،ص۵)