دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

عالمہ غیر معلمہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

اسم گرامی:فاطمہ کبریٰ
القاب:عقیلہ ہاشمیہ،عالمہ غیر معلمہ،معصومہ
مشہور لقب:معصومہ(معصومہ قم)
القاب کس نے دیے:تین معصومین علیہم السلام‘‘حضرت امام زین العابدین علیہ السلام،حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے یہ القاب بی بی کی ولادت با سعادت سے پہلے عطا فرمائے۔
ولادت با سعادت: یکم ذیقعد۱۷۹ ھ۔ق یا ۱۷۳
جائے ولادت:مدینہ منورہ
والد بزرگوار:حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
والدہ ماجدہ: ام البنین حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا،اوران کو نجمۂ مغربیہ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت علی رضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ ایک ہی والدہ ماجدہ سے تھے۔

فاطمہ نام کی محبوبیت:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی کئی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے:فاطمہ کبریٰ،فاطمہ صغریٰ(بی بی ہیبت،تدفین:آذربائیجان باکو)فاطمہ وُسطیٰ،فاطمہ اُخریٰ(عُرف خواہر امام،تدفین: رشت ایران)فاطمہ کبریٰ یہی بی بی ہیں جو قم مقدسہ کی معنویت و مرکزیت کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

مفصل القاب:
معصومہ،اُخت الرضا،کریمہ ٔاہلبیت،عالمہ غیر معلمہ،ولیۃ اللہ،عابدہ،زاہدہ،عقیلہ،متقیہ،عارفہ کاملہ،مستورہ،عقیلہ الھاشمیہ،محدثہ،شفیعۂ روزِ جزا،طاہرہ،راضیہ،رضیّہ،مرضیہ ، تقیّہ،نقیّہ،رشیدہ،سیدہ،حمیدہ،برّہ۔

مشہور لقب کی عطا:
ناسخ التواریخ کے مطابق لقب:‘‘معصومہ’’ حضرت امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا اور واضح ہے کہ کوئی بھی معصوم کسی غیر معصوم کو معصومہ خطاب نہیں فرماتےلہذا یہ عالمہ غیر معلمہ بی بی درجۂ عصمت پر فائز ہیں۔
بھائی سے جدائی کا عرصہ:حضرت امام رضا علیہ السلام کی مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف اجباری ہجرت کے ایک سال کا عرصہ بی بی نے بھائی کی جدائی میں بسر کیا لیکن مزید قابل تحمل نہ رہا۔
ہجرت:مدینہ منورہ سے قم شہر ۔

ہجرت کی وجہ:
حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنی بہن کے نام خراسان سے خط بھجوایا تھا جس کے ملتے ہی بی بی نے رخت سفر باندھ لیا۔
مذہبی شہر قم میں داخلہ:۲۳ ربیع الاول ۲۰۱ ھ۔ق(ابھی تک اس دن حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کے قم داخلے کی یادتازہ کی جاتی ہے)۔
حضرت معصومہ کی ہمراہی:بھائی سے ملنے کے شوق میں پیش آنے والے اس سفر میں حضرت معصومہ علیہا السلام کے پانچ بھائیوں،متعدد بھتیجوں،چند غلاموں اور چند کنیزوں نے بی بی کی ہمراہی اختیار کی۔
حضرت معصومہ کے ساتھ سفر میں ہمراہی کرنے والے بھائیوں کے نام یہ ہیں:فضل،جعفر،ہادی،قاسم اور زید۔

کاروان پر حملہ:
جب یہ کاروان ساوہ شہر پہنچا تو خلیفۂ وقت مأمون کے اشارے پر دشمنان اہل بیت(ع)نے حملہ کردیا،دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس حملے میں حضرت معصومہ کے تمام بھائی اور کئی دیگر ہمراہی شہید ہوگئے۔
حضرت معصومہ علیہا السلام کا بیمار ہونا:دشمنوں کے ظالمانہ حملے کی وجہ سے پیش آنے والی مظلومانہ شہادتیں دیکھ کر یا ایک تحقیق کے مطابق مسموم ہوجانے کی وجہ سے بی بی سخت بیمار ہوگئیں اور خراسان تک سفر کرنا ناممکن ہوگیا۔

اہل قم کا استقبال:
قم کے مؤمنین باخبر ہوئے تو استقبال کے لیے بڑھے اور انتہائی شان و شوکت سے جبکہ کرئمہ اہلبیت کے ناقہ کی لگام موسیٰ بن خرزج نے پکڑی ہوئی تھی؛ کاروان کو قم لے گئے۔اسی بزرگوار اور عقیدتمندمؤمن کو میزبانی کا شرف نصیب ہُوا۔

قم میں قیام:
باب الحوائج امام کی بیٹی،رئیسِ مذہب امام کی پوتی،غریب الغرباء امام کی ہمشیرہ اور جواد الائمہ امام علیہم السلام کی پھوپھی
حضرت معصومہ قم شہر میں مقیم ہوئیں اور اس قیام کی مدت سترہ(۱۷)دنوں سے بڑھ نہ سکی۔
قیام کا مقام یا قیام گاہ:قم میں موسیٰ بن خزرج کا گھر بی بی کی قیام گاہ بنا جو بعد میں مدرسہ ستیہ کی صورت اختیار کرگیا۔اس گھر میں بی بی کا محرابِ عبادت اب بھی‘‘بیت النور’’کے عنوان سے معروف ہے،حضرت معصومہ علیہا السلام کا محراب عبادت آج بھی عام و خاص کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔
حسرت جو ادھوری رہی:بھائی کو ملنے کی حسرت پورا نہ ہوسکی اور بہن اپنے بھائی کی یاد میں اس پردیس کے عالم میں دُنیا سے گزرگئیں۔
تاریخ شہادت:دس ربیع الثانی ۲۰۱ ھ۔ق۔

تشیع:
پیکر مطہر سوگوار ارادتمندوں کے اجتماع میں بہت شان و شوکت سے قم سے باہر تدفین کے لیے لایا گیا ،جہاں اس وقت حرم مطہر قائم ہے۔
حضرت معصومہ کی تدفین:مؤمنین اسی مسئلے میں شدت سے پریشان تھے کہ تدفین کا مرحلہ کیسے ہو تو اسی دوران دونورانی ہستیاں اپنی سواریوں پر وہاں تشریف فرماہوتی ہیں جن کے چہروں پر نقاب تھے،ایک قبر کے اند داخل ہوئے اور ایک نے جسد مطہر احترام سے اٹھاکر ان کے سپرد کیا اور پھر کسی سے کوئی بات کیے بغیر وہ دونوں سواروہاں سے چلے گئے۔
دفن کرنے والے:معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوبزرگوار و غمخوار ہستیاں خداوندمتعال کی دو حجتیں،دو معصوم امام یعنی حضرت امام رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام تھے۔کیونکہ معصوم کو غیر معصوم دفن نہیں کرسکتا۔
مدفن:تدفین کے بعد موسی بن خزرج نے بوریا سے بنایا گیا ایک سائبان قبر مطہر پر قائم کیا۔
گنبد:حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب نے مرقد منور پر ۲۰۵ ھ۔ق میں گنبد تعمیر فرمایا۔
حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کا اجر و ثواب:معصومین علیہم السالام کے فرامین کی روشنی میں بی بی کی زیارت کا ثواب و پاداش جنت ہے جس کی قدرے تفصیل بعد میں بیان ہوگی۔

مثالی بہن بھائی:
تاریخ نے مثالی بہن بھائی پہلے بھی دیکھے تھے،یہ بہن بھائی بھی بہت بے مثال محبت و ارادت والے تھے۔
ایک حساب کے مطابق حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا دونوں کی والدہ ماجدہ ایک تھیں یعنی حضرت نجمہ خاتون۔امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت ۱۱ ذیقعدہ۱۴۸ ھ۔ق میں ہوئی جبکہ حضرت فاطمہ کبری یکم ذیقعدہ۱۷۳ھ۔ق میں دنیا میں تشریف لائیں؛اس طرح سے ۲۵ سال کا عرصہ امام ایسی بہن سے محروم رہے تھے اور خداداد فضائل جو حضرت معصومہ علیہا السلام کو عطا کیے گئے تھے اور عصمت و علم و سخاوت و کرامت کہ کرئمۂ اہلبیت کہلائیں ان سب کی وجہ سے یہ بہن ،بھائی کی نگاہ میں خاص و منفرد منزلت و مقام رکھتی تھیں۔

مقام و منزلت:حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو خود ان کے رؤف بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام نے معصومہ کہہ کر پکارا اور ان کی زیارت کی فضیلت اس طرح سے بیان فرمائی:
قال الامام الرضا علیہ السلام‘‘مَن زارا المعصومہ بقم کمن زارنی’’
یعنی جو شخص بھی قم میں حضرت معصومہ کی زیارت کا شرف حاصل کرلے تو اُس نے میری زیارت کر لی ہے۔
اسی طرح حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘من زار قبر عمّتی بقم فلہ الجنۃ’’
یعنی جو بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا اُس پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔

تجلی گاہ:
آیت اللہ سید محمود مرعشی(متوفی ۱۳۳۸ھ۔ق)اس فکر میں تھے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی قبر مطہر کا مکان معلوم ہوجائے۔اسی جستجوکو مثمر بنانے کے لیے اُنہوں نے چالیس راتیں توسّل کے لیے مخصوص کردیں۔

چالیسویں رات جب توسّل کے اعمال کے بعد آنکھ لگ گئی تو عالم خواب میں معصوم ہستی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کا شرف نصیب ہُوا۔امام معصوم علیہ السلام نے فرمایا:‘‘علیک بکریمۃ اہل البیت’’یعنی آپ کریمۂ اہلبیت کے ساتھ تمسک اور توسّل رکھیں‘‘آیت اللہ نے یہ سوچتے ہوئے کہ کریمۂ اہلبیت سے مراد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہیں؛عرض کی : مولا یہ چالس راتوں کا توسّل میں نے انہیں کی قبراطہر کا سراغ لگانے کےلیے کیا ہے تاکہ قبر اطہر کا صحیح نشان معلوم ہوجائے اور زیارت سے مشرف ہوسکیں۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

میری مراد قم میں حضرت معصومہ کی قبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کی بناء پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کو مخفی رکھا ہے اور اس کی تجلی گاہ حضرت معصومہ علیہا السلام کی قبر کو قراردیا ہے’’۔آیت اللہ جب نیند سے بیدار ہوئے تو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معصومہ قم کی زیارت سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت کا اجر و ثواب نصیب ہوجاتا ہے۔

کاشانۂ اہلبیت:
قم مقدسہ میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم مطہر کی عظمت و رفعت کا اندازہ اسی حدیث سے ہوسکتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘آگاہ رہو خداوند متعال کے لیے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے،حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے،حضرت علی علیہ السلام کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور میری اولاد کا حرم قم میں ہے ۔قم چھوٹا کوفہ ہے جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی طرف کھلتے ہیں۔میری اولاد میں سے ایک فاطمہ بنت موسیٰ کاظم نامی خاتون قم میں سفرِ آخرت کریں گی،ان کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔

مقام شفاعت:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمۂ اہلبیت بی بی مقام شفاعت پر فائز ہیں جیسا کہ اُن کے القاب میں سے ایک لقب شافعۂ روزِ جزا ہے اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘فاطمہ کبریٰ کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے’’۔
اب بھی قم مقدسہ میں ہر زائر کے دل کی امید کے پس منظر میں اُس کی زبان پر یہ جملہ وظیفہ بن کر مکرر ہوتا رہتا ہے
‘‘یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ’’
خداوندمتعال اس بی بی کی کرامت کے طفیل ہمیں بھی ان کی مقبول زیارت اور شفاعت سے بہرہ مند رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ
ـ ‘‘بارگاہ فاطمہ معصومہ و تجلی گاہ فاطمہ زہرا’’ آیت اللہ حاج سید جعفر میع عظیمی
ـ پیام زینب ( ۱۳۲)
ـ ناسخ التواریخ

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button