حقیقت توکل
اسلام نے روحانی ارتقاء کے لیے اخلاقیات پر بہت زیادہ زور دیا ہے تاکہ انسان اعلیٰ اخلاق کے ذریعے معاشرے کوسدھار سکے مگر آج کل مغرب کے مادہ پرست لوگ اخلاق کی ذاتی قدرو قیمت کے قائل نہیں ہیں،اس لیے وہ کبھی اخلاقی اقدار کو ایک بیکار چیز کہتے ہیں اور کبھی اسے کمزوروں کا ہتھیار کہتے ہیں،جن اخلاقی اقدار کا آج کل مذاق اڑایاجاتا ہے ان میں توکل سرفہرست ہے۔
مغرب کے مادہ پرست لوگ توکل کی غلط تعبیر کرتے ہیں،وہ توکل کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ انسان دروازہ بند کر کے گھر میں بیٹھ کر روزی کا انتظار کرے یا کاشت کئے بغیر کھیت سے فصل کی امید رکھی جائے یا ہتھیاروں کے بغیر جنگ جیتنے کی توقع کی جائے۔
ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ توکل کی یہ تعبیر بالکل غلط ہے،اسلام ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا،اسلام چاہتا ہے کہ انسان مقدور بھر محنت کرے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔
ہم ایک مثال کے ذریعے توکل کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔
اگر جنگ کے میدان میں ایک سپاہی ایسا ہو جس کا ایمان کمزور ہو اگرچہ اس کے پاس اسلحہ موجود ہو مگر پھر بھی وہ ہر وقت خوفزدہ رہے گا اور جب اس کا مقابلہ اپنے سے زیادہ طاقتور دشمن سے ہوگا تو وہ شکست کھا جائےگا جبکہ وہ سپاہی جو خدا پر توکل کرتا ہوگا اور جس کی زرہ لاالہ الااللہ ہوگی اور جس کی نظر اللہ کی مدد پر ہوگی وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن سے بھی ہرگز نہیں ڈرے گا کیونکہ اسے یہ یقین ہوگا کہ وہ خود کمزور ہے مگر ایک عظیم طاقت اس کی مدد کے لیے موجود ہے اور وہ اس کی مدد کرے گی تو ایسا شخص کبھی میدان میں اپنے سے تین گنا بڑی طاقت سے ٹکرا گئے تھے اور مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد نے اللہ کے بھروسے پر لڑ کر ایران اور روم کی مضبوط حکومتوں کو روند ڈالاتھا۔
ان مجاہدین کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ان کی پشت پناہی کے لیے اللہ موجود ہے جو عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌہے۔ اسلام نے اسباب و وسائل چھوڑ دینے کی تعلیم نہیں دی،رسول خداﷺ نے ہمیشہ اپنی فوج کو ہتھیاروں سے لیس کیا اور انہیں فوجی تربیت دلائی۔
ایک دفعہ ایک بدو آنحضرتﷺ کے پاس آیا تو آپؐ نے پوچھا:تم نے اونٹ کو کہاں چھوڑا ہے؟وہ بولا:میں نے مسجد کے باہر اسےاللہ کے بھروسے پر چھوڑ دیا ہے، آپؐ نے فرمایا:یہ غلط ہے:’’اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ‘‘جائو اس کے پیر باندھ دو اور توکل کرو۔
قرآن مجید نے ہمیشہ اسباب و وسائل فراہم کرنے پر زور دیا ہے،قرآن مجید نے مجاہدین کو یہ حکم دیا ہے کہ میدان جنگ میں جب نماز کا وقت ہوجائے تو ’’ وَلْيَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ‘‘وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ نماز پڑھیں۔ نیز قرآن مجید نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ’’وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ۔۔۔‘‘تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو۔ حضرت موسیٰؑ کو اللہ نے حکم دیا:’’فَاَسْرِ بِعِبَادِيْ لَيْلًا ۔۔۔‘‘میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت سفر کرو تاکہ دشمن تمہیں دیکھ نہ سکے۔ اگر توکل کا مطلب اسباب و وسائل کو چھوڑ دینا ہوتا تو اللہ جنگ کے دوران ہتھیار اٹھا کر نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیتا اور حضرت موسیٰؑ کو رات کے وقت سفر کا حکم کیوں دیتا؟ ہاں!اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے کے لیے اچھی تیاری رکھو مگر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو،یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:’’‘‘اللہ نے بندوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کو ان اسباب کے ذریعے سے پورا کریں جو اللہ نے فراہم کئے ہیں اور حکم دیا ہے کہ وہ ان اسباب و وسائل سے بھر پور استفادہ کریں۔
(حوالہ جات)
(سورہ نساء:آیت ۱۰۲)
(سورہ انفال:آیت ۶۰)
(سورہ دخان:آیت۲۳)