اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

نفس کے ساتھ جہاد

2
مصنف:آیت اللہ ابراہیم امینی
موضوع:اخلاق تربیت

پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ طاہرین سے الہام لے کر عقل کی مدد سے اس کے لائو لشکر سے جنگ کریں اور نفس کے تجاوزات اور زیادتیوں کو روکے رکھیں اور اس کی فوج کو گھیرا ڈال کر ختم کردیں تا کہ عقل جسم کی مملکت پر حکومت کر سکے اور شرعیت سے الہام لے کر کمال انسانی اور سیر و سلوک تک پہنچ سکے ۔ نفس کے ساتھ صلح اور آشتی نہیں کی جا سکتی بلکہ اس سے جنگ کرنی چاہئے تا کہ اسے زیر کیا جائے اور وہ اپنی حد تک رہے اور سازش کرنے سے باز رہے سعادت تک پہنچنے کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے نفس کے ساتھ جنگ کرنے کو احادیث میں جہاد کہا گیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ اپنے نفس پر پے در پے جہاد کرنے سے تسلط پیدا کرو۔(۱)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ‘ نفس خواہشات اور ہوی اور ہوس پر غلبہ حاصل کرو اور ان سے جنگ کرو اگر یہ تمہیں جکڑ لیں اور اپنی قید و بند میں قرار دے دیں تو تمہیں بدترین درجہ میں جاڈالیں گے۔(۲)
آپ نے فرمایا کہ ‘ نفس کے ساتھ جہاد ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جس کے ذریعے بہشت خریدی جا سکتی ہے۔ پس جو آدمی اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے وہ اس پر مسلط ہوجائیگا۔ اور بہشت اس کے لئے جو اس کی قدر پہچان لے بہترین جزا ہوگی۔(۳)
آپ نے فرمایا ‘ جہاد کر کے نفس کو اللہ کی اطاعت پر آمادہ کرو۔ اس کے ساتھ یہ جہاد ویسا ہو جیسے دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس پر ایسا غلبہ کرو جو ایک ضد دوسری ضد پر غلبہ کرتی ہے لوگوں سے قوی ترین آدمی وہ ہے جو اپنے نفس پر فتح حاصل کرے۔(۴)
آپ نے فرمایا کہ ‘ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو نفس کے ساتھ جہاد میں مشغول رکھے اور اس کی اصلاح کرے اور اسےہویٰ اور ہوس اور خواہشات سے روکے رکھے اور اس طرح سے اس کو لگام دے اور اپنے کنٹرول میں لے آئے۔ عقلمند انسان اس طرح اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہتا ہے کہ وہ دنیا اور جو کچھ دنیا اور اہل دنیا میں ہے اس میں اتنا مشغول نہیں رہتا۔(۵)
نفس کے ساتھ جہاد ایک بہت بڑی اہم جنگ اور نتیجہ خیز ہے ایسی جنگ کہ ہمیں کس طرح دنیا اور آخرت کے لئے زندگی بسر کرنی اور ہمیں کس طرح ہونا اور کیا کرنا ہے سے مربوط ہے اگر ہم جہاد کے ذریعے اپنے نفس کو کنٹرول کر کے نہ رکھیں۔اور اس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ رکھیں وہ ہم پر غلبہ کر لے گا اور جس طرف چاہے گا لے جائیگا اگر ہم اسے قید میں نہ رکھیں وہ ہمیں اسیر اور اپنا غلام قرار دے دیگا اگر ہم اسے کردار اور اچھے اخلاق اپنا نے پر مجبور نہ کریں تو وہ ہمیں برے اخلاق اور برے کردار کی طرف لے جائیگا۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت اہم کام اور سخت ترین راستہ ہے جو اللہ کی طرف سیر و سلوک کرنے والے کے ذمہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جتنی اس راستے میں طاقت خرچ کی جائے وہ قیمتی ہوگی۔
جہاد اکبر
نفس کے ساتھ جہاد اس قدر مہم ہے کہ اسے پیغمبر اکبر نے جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے اتنا اہم جہاد ہے کہ جنگ والے جہاد سے بھی اسے بڑا قرار دیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے نقل فرمایا ہے کہ رسول خداﷺ نے ایک لشکر دشمن سے لڑنے کے لئے روانے کیا اور جب وہ جنگ سے واپس آیا آپ نے ان سے فرمایا مبارک ہو ان لوگوں کو کہ جو چھوٹے جہاد کو انجام دے آئے ہیں۔ لیکن ابھی ایک بڑا جہاد ان پر واجب ہے آپ سے عرض کی گئی یا رسول اللہﷺ بڑا جہاد کونسا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اپنے نفس سے جہاد کرنا۔(۶)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ بہترین جہاد اس شخص کا جہاد ہے کہ جو اپنے نفس سے جو اس کے دو پہلو میں موجود ہے جہاد کرے(۷)
پیغمبر اکرمﷺ نے اس وصیت میں جو حضرت علی(ع) سے کی تھی فرمایا کہ ‘ جہاد میں سے بہترین جہاد اس شخص کا ہے جب وہ صبح کرے تو اس کا مقصد یہ ہو کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرونگا۔(۸)
ان احادیث میں نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی جہاد اکبر اور افضل جہاد کے نام سے پہچان کرائی گئی ہے یہ ایسا جہاد ہے کہ جو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے سے فضیلت اور برتری رکھتا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد بہت ہی پر ارزش اور بہترین عبادت شمار ہوتا ہے اس سے جہاد نفس کا پر ارزش اور بااہمیت ہونا واضح ہوجاتا ہے نفس کے جہاد کا برتر ہونا تین طریقوں سے درست کیا جا سکتا ہے۔
1۔ ہر ایک عبادت یہاں تک کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا بھی نفس کے جہاد کرنے کا محتاج ہے۔ ایک عبادت کو کامل اور تمام شرائط کے ساتھ بجالانا نفس کے ساتھ جہاد کرنے پر موقوف ہے کیا نماز کا حضور قلب کے ساٹھ جالانا اور پھر اسکے تمام شرائط کی رعایت کرنا جو معراج مومن قرار پاتی ہے اور فحشا اور منکر سے روکتی ہے بغیر جہاد اور کوشش کرنے کے انجام پذیر ہو سکتا ہے؟ آیا روزہ کا رکھنا جو جہنم کی آگ کے لئے ڈھال ہے بغیر جہاد کے میسر ہو سکتا ہے۔ کیا نفس کے جہاد کے بغیر کوئی جہاد کرنے والا انسان اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنگ کے میدان میں حاضر ہو سکتا ہے اور اسلام کے دشمنوں سے اچھی طرح جنگ کر سکتا ہے؟ اسی طرح باقی تمام عبادات بغیر نفس کے ساتھ جہاد کرنے کے بجالائی جا سکتی ہیں؟
2۔ ہر ایک عبادت اس صورت میں قبول کی جاتی ہے اور موجب قرب الٰہی واقع ہوتی ہے جب وہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے انجام دی جائے اور ہر قسم کے شرک اور ریاء خودپسندی اور نفسانی اغراض سے پاک اور خالص ہو اس طرح کے کام بغیر نفس کے ساتھ جہاد کئے واقع ہونا ممکن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ جنگ کرنے والا جہاد اور شہادت بھی اس صورت میں قیمت رکھتی ہے اور تقرب اور تکامل کا سبب بنتی ہے جب خالص اور صرف اللہ کی رضاء اور کلمہ توحید کی سربلندی کے لئے واقع ہو اگر یہ اتنی بڑی عبادت اور جہاد صرف نفس کی شہرت یا دشمن سے انتقام لینے یا نام کے باقی رہ جانے یا خودنمائی اور ریاکاری یا مقام اور منصب کے حصول یا زندگی کی مصیبتوں سے فرار یا دوسری نفسانی خواہشات کے لئے واقع ہو تو یہ کوئی معنوی ارزش اور قیمت نہیں رکھتی اور اللہ تعالی کے پاس تقرب کا موجب نہیں بن سکتی اسی وجہ سے نفس کے ساتھ جہاد تمام عبادات اور امور خیریہ یہاں تک کہ اللہ تعالی کے راستے والے جہاد پر فضیلت اور برتری اور تقدم رکھتا ہے س واسطے کہ ان تمام کا صحیح ہونا اور باکمال ہونا نفس کے جہاد پر موقوف ہے یہی وجہ ہے کہ نفس کے جہاد کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔
3۔ جنگ والا جہاد ایک خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتا ہے اور پھر وہ واجب عینی بھی نہیں ہے بلکہ واجب کفائی ہے اور بعض افراد سے ساقط ہے اور بعض زمانوں میں تو وہ بالکل واجب ہی نہیں ہوتا اور پھر واجب ہونے کی صورت میں بھی واجب کفائی ہوتا ہے یعنی بقدر ضرورت لوگ شریک ہوگئے تو دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے اور پھر بھی عورتوں اور بوڑھوں اور عاجز انسانوں اور بیمار لوگوں پر واجب نہیں ہوتا لیکن اس کی برعکس نفس کا جہاد کہ جو تم پر تمام زمانوں اور تمام حالات میں اور شرائط میں واجب عینی ہوا کرتا ہے اور زندگی کے آخر لمحہ تک واجب ہوتاہے اور سوائے معصومین علیہم السلام کے کوئی بھی شخص اس سے بے نیاز نہیں ہوتا۔
4۔ نفس سے جہاد کرنا تمام عبادات سے یہاں تک کہ جنگ والے جہاد سے کہ جس میں انسان اپنی جان سے صرفنظر کرتی ہوئے اپنے آپ کو شہادت کے لئے حاضر کردیتا ہے۔ مشکل تر ہے اور دشوار اور سخت تر ہے اس واسطے کہ محض اللہ کے لئے تسلیم ہو جانا اور تمام عمر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور تکامل کے راستے طے کرنا اس سے زیادہ دشوار اور مشکل ہے کہ انسان جنگ میں جہاد کرنے والا تھوڑے دن دشمن سے جنگ کے میدان میں جنگ کرے اور مقام شہادت پر فیض یاب ہوجائے۔ نفس کے ساتھ مقابلہ کرنا اتنا سخت ہے کہ سواے پے در پے نفس کے ساتھ جہاد کرنے اور بہت زیادہ تکالیف کو برداشت کرنے کے حاصل نہیں ہو سکتا اور سوائے اللہ تعالی کی تائید کے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے نماز میں ہمیشہ اھدنا الصراط المستقیم پڑھتے ہیں۔ صراط مستقیم پر چلنا اتنا دشوار اور سخت ہے کہ رسول گرامی اللہ تعالی سے کہتا ہے ۔الہی لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین ابدا۔
جہاد اور تائید الٰہی
یہ ٹھیک ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشکل ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کرنا استقامت اور پائیداری اور ہوشیاری اور حفاظت کا محتاج ہے لیکن پھر بھی ایک ممکن کام ہے اور انسان کو تکامل کے لئے یہ ضروری ہے اگر انسان ارادہ کرلے اور نفس کے جہاد میں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ‘ جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے کی ہدایت کرتے ہیں۔(۹)
حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مبارک ہو اس انسان کے لئے جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس کے ساتھ جہاد کرے ۔ جو شخص خواہشات نفس کے لئے لشکر پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ اللہ تعالی کی رضایت حاصل کر لیگا۔ جو شخص اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور فروتنی سے پیش آئے اور اپنی عقل کو نفس کا ہمسایہ قرار دے تو وہ ایک بہت بڑی سعادت حاصل کرلےگا۔
انسان اور پروردگار کے درمیان نفس امارہ اور اس کی خواہشات کے تاریک اور وحشت ناک پردے ہوا کرتے ان پردوں کے ختم کرنے کیلئے خدا کی طرف احتیاج خضوع اور خشوع بھوک اور روزہ رکھنا اور شب بیداری سے بہتر کوئی اسلحہ نہیں ہوا کرتا، اس طرح کرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنیا سے شہید ہو کر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالی کے رضوان اکبر کو جا پہنچتا ہے، خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی راہنمائی کردیتے ہیں۔ اور خدا نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اگر کسی کو تو اپنے نفس کو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس کی حفاظت کرنے میں زیادہ شوق دلا۔ اللہ تعالی کے اوامر او رنواہی کواس کے لئے لگام بنا کر اسے نیکیوں کی طرف لے جا جس طرح کہ کوئی اپنے ناپختہ غلام کی تربیت کرتا ہے اور اس کے کان پکڑ کر اسے ٹھیک کرتا ہے۔
رسول خدا ﷺاتنی نماز پڑھتے کہ آپﷺ کے پائوں مبارک ورم کر جاتے تھے اور لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہیں یوں جواب دیتے تھے کہ کیا میں شکر ادا کرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پیغمبر اکرم عبادت کرکے اپنی امت کو درس دے رہے تھے۔ اے انسان تونے بھی کبھی عبادت اور اس کی برکات کے مٹھاس کو محسوس کر لیا اور اپنے نفس کو اللہ تعالی کے انوار سے نورانی کر لیا تو پھر تو ایسا ہوجائیگا کہ ایک گھڑی بھی عبادت سے نہیں رک سکے گا گرچہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کردیا جائے۔
عبادت سے روگردانی اور اعراض کی وجہ سے انسان عبادت کے فوائد اور گناہ اور معصیت سے محفوظ رہنے اور توفیقات الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے۔(۱۰)
نفس کی ساتھ جہاد بالکل جنگ والے جہاد کی طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر کرےگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح کرے گا ،اسی مقدار اس کا دشمن کمزور اور ضعیف ہوتا جائیگا اور فتح کرنے والی فوج طاقت ور ہوتی جائیگی۔اور دوبارہ حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیگی۔ اللہ تعالی کا طریق کار اور سنت یوں ہی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان تنصر و اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم۔
نفس کے ساتھ جہاد کرنا بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس کی غیر شرعی خواہشات اور ہوی و ہوس کی مخالفت کی جائیگی اتنی ہی مقدار میں نفس کمزور ہوجائیگا اور تم قوی ہوجائو گے اور دوسری فتح حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو گے برعکس جتنی سستی کرو گے اور نفس کے مطیع اور تسلیم ہوتے جائوگے تم ضعیف ہوتے جائو گے اور نفس قوی ہوتا جائے گا اور تمہیں فتح کرنے کے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائیگا اگر ہم نفس کے پاک کرنے میں اقدام کریں تو خداوند عالم کی طرف سے تائیدکئے جائیں گے اور ہر روز زیادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائیں گے لیکن اگر خواہشات نفس اور اس کی فوج کے لئے میدان خالی کردیں تو وہ قوی ہوتا جائےگا اور ہم پر زیادہ مسلط ہوجائےگا۔
اپنا طبیب خود انسان
یہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ پیغمبر اور ائمہ اطہار انسانی نفوس کے طبیب اور معالج ہیں لیکن علاج کرانے اور نفس کے پاک بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کی ذمہ دار ی خود انسان پر ہے۔ پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار انسان کو علاج کرنے کا درس دیتے ہیں اور نفس کی بیماریوں اور ان کی علامتیں اور برے نتائج اور علاج کرنے کا طریقہ اور دواء سے آگاہی پیدا کرے اور اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھال لے کیونکہ خود انسان سے کوئی بھی بیماری کی تشخیص بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا اور اس کے علاج کرنے کے درپے نہیں ہو سکتا۔ انسان نفسانی بیماریوں اور اس کے علاج کو واعظین سے سنتا یا کتابوں میں پڑھتا ہے لیکن بالآخر جو اپنی بیماری کو آخری پہچاننے والا ہوگا اور اس کا علاج کرے گا وہ خود انسان ہی ہوگا۔ انسان دوسروں کی نسبت درد کا بہتر احساس کرتا ہے اور اپنی مخفی صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس کی خود حفاظت نہ کرے تو دوسروں کے وعظ اور نصیحت اس میں کس طرح اثر انداز اور مفید واقع ہو سکتے ہیں؟ اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ اصلاح نفس انسان داخلی حالت سے شروع کرے اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا خیال کرتے ہوئے اسے اس کے لئے آمادہ کرے اور اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کی خود حفاظت کرے اور یہی بہت بڑا تربیتی قاعدہ اور ضابطہ ہے۔ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنی نیکی اور برائی سے خود آگاہ اور عالم ہےا گرچہ وہ عذر گھڑتارہتا ہے۔(۱۱)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک آدمی سے فرمایا کہ ‘تمہیں اپنے نفس کا طبیب اور معالج قرار دیا گیا ہے تجھے درد بتلایا جا چکا ہے اور صحت و سلامتی کی علامت بھی بتلائی گئی ہے اور تجھے دواء بھی بیان کردی گئی ہے پس خوب فکر کر کہ تو اپنے نفس کا کس طرح علاج کرتا ہے۔(۱۲)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ شخص کو وعظ کرنے والا خود اس کا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں کی نصیحت اور وعظ اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔(۱۳)
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ‘ اے آدم کے بیٹے تو ہمیشہ خوبی اور اچھائی پر ہوگا جب تک تو اپنے نفس کو اپنا واعظ اور نصیحت کرنے والا بنائے رکھے گا۔(۱۴)
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ کمزور ترین وہ انسان ہے جو اپنے نفس کی اصلاح کرنے سے عاجز اور ناتواں ہو۔(۱۵)
نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ انسان کے لئے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی سرپرستی کو اپنے ذمہ قرار دے ۔ ہمیشہ اپنی روح کی اور زبان کی حفاظت کرتا رہے۔
حوالہ
۱۔ قال علی علیہ السلام: املکوا انفسکم بدوام جاہدہا۔ غرر ا لحکم/ ج1 ص 131۔
۲۔ قال علی علیہ السلام: اغلبوا اہوائکم و حاربوہا فانہا ان تقیّدکم توردکم من الہلکۃ ابعد غایۃ غرر ا لحکم/ ج1 ص 138۔
۳۔ قال علی علیہ السلام: الا و ان الجہاد ث4من الجنۃ فمن جاہد نفسہ ملکہا و ہی اکرم ثواب اللہ لمن عرفہا۔ غرر ا لحکم/ ج1 ص 165
۴۔ قال علی علیہ السلام: جاہد نفسک علی طاعۃ اللہ مجاہدۃ العدوّ عدوّہ، و غالبہا مغالبۃ الضد صدہ فان اقوی الناس من قوی علی نفسہ۔ غرر ا لحکم/ ج1 ص 371۔
۵۔ قال علی علیہ السلام: ان الحازم من شغل نفسہ بجہاد نفسہ فاصلحہا و حبسہا عن اہویتہا و لذاتہا فملکہا و ان للعاقل بنفسہ عن الدنیا و ما فیہا و اہلہا شغلاً۔ غرر ا لحکم/ ج1 ص 237۔
۵۔عن امیرالمومنین علیہ السلام:ان رسول اللہ صلی علیہ و آلہ بعث سریۃ فلمّا رجعوا قال: مرحباً بقوم قضوا الجہاد الاصغر و بقی علیہم الجہاد الاکبر: قیل: یا رسول اللہ و ما الجہاد الاکبر؟ فقال: جہاد النفس۔ وسائل الشیعہ/ ج 11 ص 124۔
۶۔ قال علی علیہ السلام: ان افضل الجہاد من جاہد نفسہ التی بین جنبیہ۔ وسائل الشیعہ/ ج 11 ص 124۔
۷۔فی وصیۃ النبی لعلی علیہم السلام قال: یا علی افضل الجہاد من اصبح لا یہمّ بظلم احد۔ وسائل/ ج 11 ص 123
۸۔والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔ عنکبوت/ 69۔
۹۔قال الصادق علیہ السلام:طوبی لعبد جاہد اللہ نفسہ و ہواہ و من ہزم جند ہواہ ظفر برضاللہ و من جاور عقلہ نفس الامّارۃ بالسوء با الجہد و الاستکانۃ و الخضوع علی بساط خدمۃ اللہ تعالی فقد فاز فوزاً عظیماً، و لا حجاب اظلم و اواحش بین العبد و بین الرب من النفس و الہوی و لیس لقتلہا فی قطعہما سلاح و آلۃ مثل الافتقار الی اللہ و الخشوع و الجوع و الظماء بالنہار و السہر باللّیل۔ فان مات صاحبہ مات شہیداً، ان عاش و استقام ادّاہ عاقبتہ الی الرضوان الاکبر۔ قال اللہ تعالی: ‘ و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا و ا ن اللہ لمع المحسنین ‘ و اذا رایت مجتہداً ابلغ منک فی الاجتہاد فوبّخ نفسک و لمّہا و عیّرہا و حثّہا علی الازدباد علیہ۔ و اجعل لہا زماماً من الامر و عناناً من النہی و سقہا کاالرائض للفارہ الذی لا یذہب علیہ خطوۃ الّا و قد صححّ اولہا وآخرہا۔ و کان رسول اللہ یصلّی حتی یتورّقد ماہ و یقول: افلا اکون عبدا شکوراً؟ اراد ان یعتبر بہ امتہ۔ فلا تغفلوا عن الاجتہاد و التعبد و الریاضۃ بحال۔ الا و انک لو وجدت حلاوۃ عبادۃ اللہ و رایت برکاتہا و استضات بنورہا لم تصبر عنہا ساعۃ واحدۃ، و لو قطعت ارباً ارباً، فما اعرض من اعرض عنہا الّا بحرمان فوائد السبق من العصمۃ و التوفیق۔ بحار/ ج 70 ص 96۔
۱۰۔بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ و لو القی معاذیرہ۔ قیامۃ / 15۔
۱۱۔قال ابو عبداللہ علیہ السلام لرجل: انک قد جعلت طبیب نفسک و بیّن لک الداء و عرّفت آیۃ الصحۃ و دلّلت علی الدواء فانظر کیف قیامک علی نفسک۔ کافی/ ج 2 ص 454۔
۱۲۔قال ابوعبداللہ علیہ السلام:من لم یجعل لہ نفسہ واعظاً فان مواعظ الناس لن تغنی عنہ شیئاً۔ بحار/ ج 70 ص 70۔
۱۳۔قال ابوعبداللہ علیہ السلام یقول:ابن آدم لاتزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک۔ بحار الانوار/ ج 70 ص 64۔
۱۴۔ قال علی علیہ السلام: اعجز الناس من عجز عن اصلاح نفسہ۔ غرر الحکم/ ج 1 ص 169۔
۱۵۔ قال علی علیہ السلام: ینبغی ان یکون الرجل مہیمنا علی نفسہ مراقباً قلبہ حافظاً لسانہ۔ غرر الحکم/ ج 2 ص 862۔

Related Articles

Back to top button