دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

ثواب اور عظمت کا پیکر

(محمد اکرم حسین بنگالی)

روز بروز امام حسینؑ کی یاد بڑھتی جا رہی ہے اور ہر ملک و ملت کے لوگ اپنے طور طریقہ سے یادحسین اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کربلا والوں کی بارگاہ میں نذارنۂ عقیدت پیش کرتے ہیں . اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ امام کی آفاقی شخصیت عالمگیر ہے. ہر انسان ان کی اتباع کرنا چاہتا ہے ان کی شخصیت کا مطالعہ کرکے حقیقت سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے اور یہی شہداء کی حیات کا زندہ ثبوت ہے اور امام کی زندگی ثواب اور عظمت کا پیکرہے جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا :
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بار ہا
ہوجائے محو یاد شہنشاہ کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسین کا
لیکن کسی کا زور عزیزو! نہ چل سکا
عباس نامور کے لہو سے دھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا

امام کی مبارک حیات انسانی زندگی میں فقط وعظ وارشاد اور عقیدہ تک محدود نہیں بلکہ اپنی معنوی وسعتوں اور جہادی اسباب سے آفاقی اور ابدی پیغام کا نمونہ بن گئی ہے اور ہمارے لئے منبع ہدایت ہے۔میرا سلام ہو شہیدان کربلا پر کہ جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کو سینچا اور دنیا کے انسانوں کو آزادی کا درس دیا ۔
تمام ائمہ معصومین ، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الہیہ ہیں اور نور محمدیہ سے مشتق ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے ائمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلاً باطل اور محال ہے۔
بعض ائمہ کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آئیں کہ دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہذا ان ائمہ کو بعض کام انجام دینے کاموقع نصیب نہیں ہوا ہے۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ جس سے آپ نے مکمل فائدہ اٹھایا اور ایسا علمی کارنامہ انجام دیا کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کی تربیت کی . اسلام واقعی کی دنیا میں پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج دیا۔ لیکن آپ کی زندگی کے آخری ایام میں بنی عباس کی ظالمانہ حکومت نے ان پر مصائب ڈھانا شروع کردئے اور آخر کار منصور نے زہر دے کر شہید کردیا۔
اب اگر یہ کہا جاتاہے کہ امام جعفر صادق مذہب تشیع کے امیر و سردار اور اسلام کو دوبارہ زندگی دینے والے ہیں تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ باقی ائمہ کے اندرمعاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یا امام حسن تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین کا قیام پہلے مرحلے میں حسنی ہے دوسرے مرحلے میں حسینی ہے۔

خصوصیت
امام حسین کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہیں گے ایسا حادثہ نہ توکسی کے لیے پیش آیا ہے اور نہ ہی پیش آ ئیگا۔ ہاں حضرت یحیی کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت (فَمَاْ بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَاْ ئُ وَالْاَرْضُ ) کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں (جناب یحیی اور حضرت امام حسین )کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کی کتاب مناقب میں یوں آیا ہے:”بَکَتِ السَّمَاْ ء ُعَلَی الْحُسَیْنِ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا”۔(١)
امام حسین تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ آپ کی کنیت ابا عبدا للہ کیوںہے ؟ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی کردار ہوتا ہے ۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ لہذا امام حسین بھی اللہ کے تمام بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادت گذار کمالات کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ آپ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
امام حسین کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو اکہ ا مام حسین کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کی ضریح زائرین سے خالی نہیں رہنی چاہیے۔(٢)

امام حسین سینہ رسولۖ پر
صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کا بیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے ہیں اورامام حسین نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں ،ان کے دونوں ہاتھوں کو پکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تو میرے سینے پرکودچنانچہ امام حسین آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعدحضورۖ نے امام حسین کامنھ چوم کرخداکی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حدچاہتاہوں توبھی اسے محبوب رکھ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتۖ امام حسین کالعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کوئی کجھور چوسے(٣)

سردارجنت:
پیغمبراسلام کی یہ حدیث مسلمات اور متواترات میںسے ہے کہ اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَاشَبَاْبِ اَہْلِ الْجَنَّةِ وَاَبُوْہُمَاخَیْرمِنْہُمَا حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگوار ان دونوں سے بہترہیں(٣) صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن سرورکائناتۖ کوبے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھاحضور،افراط مسرت کی کیاوجہ ہے فرمایااے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہواہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیاتھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارکباددی ہے اورکہاہے : ”اِنَّ فَاطمةَ سیِّدةُ نسائِ اہلِ الجنَّةِ وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة ”فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردار ہیں (٥)
اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کاذاتی شرف موجودتھا اورخودسرورکائناتۖنے باربارآپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب، سیدالمتقین، سید المومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے جو حضرت علی کا،سرداران جنت امام حسن اور امام حسین سے بہترہونا واضح کرتاہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلند درجہ رکھتی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ تمام اولادعلی سیدہیں یہ اوربات ہے کہ بنی فاطمہ کے برابرنہیں ہیں۔

امام حسین پشت رسولۖ پر
خدانے جوشرف امام حسن اورامام حسین کو عطافرمایاہے وہ اولادرسولۖ اور فرزندان علی میں آل محمدکے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کاذکرعبادت اوران کی محبت عبادت،یہ حضرات اگرپشت رسولۖ پرعالم نماز میں سو ار ہوجائیں تونماز میںکوئی خلل واقع نہیںہوتا،اکثر ایساہوتا تھاکہ یہ نونہالان رسالت پشت پرعالم نماز میں سوار ہوجایا کرتے تھے اورجب کوئی منع کرناچاہتاتھاتوآپ اشارہ سے روک دیا کرتے تھے اور کبھی ایسابھی ہوتاتھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہا کرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خودنہ اترآئیں آپ فرمایاکرتے تھے خدایامیں انہیں دوست رکھتاہوں توبھی ان سے محبت کر؟ کبھی ارشاد ہوتاتھااے دنیاوالو! اگر مجھے دوست رکھتے ہو تو میرے بچوں سے بھی محبت کرو(٦)

حسین مجھ سے
سرورکائناتۖ نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشادفرمایاہے کہ اے دنیا والو! بس مختصریہ سمجھ لوکہ” حسین منی وانا من الحسین”حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدااسے دوست رکھے جو حسین کودوست رکھے (٧)

مکتوبات باب جنت
سرورکائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتا ہوا جنت کے قریب پہنچاتودیکھاکہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھاہواہے۔”لاالہ الااللہ محمدحبیب اللہ علی ولی اللہ وفاطمة امةاللّٰہ والحسن والحسین صفوة اللہ ومن ابغضہم لعنة اللّٰہ”ترجمہ : خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدۖ اللہ کے رسول ہیں علی اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں،حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(٧)

ایثار کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں (عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَاْ)کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگنا ہو توچارقسم کے لوگوں سے مانگو : شریف عرب سے ۔ کریم حاکم سے ۔ حامل قرآن سے ۔ حسین شکل والے سے ۔ میں آپ میں یہ تمام صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ، کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاک آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ صبیح وحسین ہیں، رسول خداکاارشاد ہے کہ جومجھے دیکھنا چاہے وہ حسن اورحسین کو دیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفراز فرمائیے، آپ نے فرمایاکہ میرے جدنامدار نے فرمایاہے : ”المعروفُ بقدرِ المعرفةِ” معرفت کے مطابق عطیہ دینا چاہئے، تومیرے سوالات کے جواب دے، سب سے بہترعمل کیاہے؟ اس نے کہا اللہ پر ایمان لانا۔ ہلاکت سے نجات کا ذریعہ کیاہے؟ اس نے کہااللہ پر بھروسہ کرنا۔ مردکی زینت کیاہے؟ کہا ایسا علم جو حلم کے ہمراہ ہو،آپ نے فرمایاصحیح جواب، اس کے بعدآپ مسکرائے۔” ورَمَی بِالصرِ اِلَیْہِ” اور اس کے سامنے ایک تھیلی ڈال دی۔ (٨)

امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسولۖ اوراصحاب صفہ میںسے ہیںکہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیارکررہے تھے ،اسی دوران فرمایا:”اِنَّ ابنی ہذا یقتل بارض یقال لہاکربلا فمن شہدذالک منکم فلینصرہ ”یعنی میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گا جس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس پر حسین کی مدد لازم ہے۔ راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلا میں شہیدہوگئے تھے(٩)

عبادت
علما ء ومورخین کااتفاق ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام زبردست عبادت گزار تھے آپ شب وروزمیں بے شمارنمازیں پڑھتے تھے اورانواع واقسام کی عبادتیں انجام دیا کرتے تھے آپ نے پچیس حج پاپیادہ کئے اوریہ تمام حج زمانہ قیام مدینہ منورہ میں فرمائے تھے، عراق میں قیام کے دوران آپ کواموی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی حج کاموقع نہیں مل سکا۔ (١٠)

سخاوت
مسندامام رضامیں ہے کہ سخی افراد، دنیا کے لوگوں کے سردار اور متقی حضرات، آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین ایسے سخی تھے جن کی نظیرنہیں اورایسے متقی تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسولۖ علیل تھے امام حسین انھیں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حد رنجیدہ ہیں،پوچھا: اے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے واغماہ! کیوں کہتے ہو؟ عرض کی مولا! ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبرائو نہیں میں ادا کردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرض کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اور اس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکر بذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں، شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعد آپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اشرفیوں اور غلوں کے گٹھراپنی پشت پرلادکربیوائوں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایا کرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک غیرمعصوم فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزار اشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (١١)
امام شبلنجی اورعلامہ محمدابن طلحہ شافعی نے نور الابصاراورمطالب السئول میں ایک اہم واقعہ آپ کی صفت سخاوت کے متعلق تحریر کیا ہے جسے ہم امام حسن کے حال میں لکھ آئے ہیںکیونکہ اس واقعہ سخاوت میں وہ بھی شریک تھے۔

جدوجہد
اگرچہ مورخین کااس پرتقریباًاتفاق ہے کہ امام حسین عہدامیرالمومنین کے ہرمعرکہ میں موجودرہے، لیکن محض اس خیال سے کہ یہ رسول اکرم ۖکی خاص امانت ہیں انہیں کسی جنگ میں لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی (١٢) لیکن علامہ شیخ مہدی مازندرانی کی تحقیق کے مطابق آپ نے بندش آپ توڑنے کے لیے مقام صفین میں نبردآزمائی فرمائی تھی(١٣) علامہ باقرخراسانی لکھتے ہیں کہ اس موقع پر امام حسین کے ہمراہ عباس بھی تھے(١٤)

امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب
یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت، اور اس کا احترام جناب ابراہیم کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
١۔شیخ صدوق نے کتاب ” امالی” میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے : میں امام صادق کے پاس تھا کہ ایک طوس کا رہنے والا آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خداوندعالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا، اس کی شفاعت کو ستر گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین کی قبر کے پاس جو حاجت بھی طلب کی جائے خدا اسے بر لائے گا۔(١٥)
٢۔شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں محمد بن اسماعیل بن بزیع سے اور وہ صالح بن عقبہ سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آ پ نے فرمایا: جو شخص حسین بن علی کی عاشورا کے دن زیارت کرے اور ان کی قبر پر بیٹھ کر گریہ کرے قیامت کے دن خدا وند عالم اس کو دو ہزار حج دو ہزار عمرہ اور دو ہزار جہاد کا ثواب دے گا۔ اور وہ بھی وہ حج،عمرہ اور جہاد جو رسول اکرمۖ اور ائمہ طاہرین کی رکاب میں انجام دئے ہوں۔
راوی کہتا ہے : میں نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو وہ آدمی جو کسی دوسرے شہر یا ملک میں رہتا ہے اور اس دن آپ کی قبر تک نہیں پہنچ سکتا وہ کیا کرے؟ امام نے جواب میں فرمایا: اگر ایسا ہو تو صحرا یا اپنے گھر کی چھت پر جائے اور امام حسین کی قبر کی طرف اشارہ کر کے سلام کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو ظہر سے پہلے انجام دے اور ان کی مصیبت میں گریہ و زاری کرے اور اگر کسی کا ڈر نہ ہوتو اپنے خاندان والوں کو بھی ان پر رونے کا حکم دے اور اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے اور سید الشہداکو یاد کر کے ایک دوسرے کو تعزیت دیں، میں ضمانت دیتا ہوں جو شخص اس عمل کو انجام دے گا خدا یہ تمام ثواب اسے بھی عطا کرے گا (اس شخص کی طرح جو امام کی قبر پر حاضر ہو کر زیارت کرتا ہے)۔
راوی نے عرض کیا کیسے ایک دوسرے کو تعزیت پیش کریں؟
فرمایا:” عظم اللہ اجورنا بمصابنا بالحسین علیہ السلام وا جعلناو ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام”
یعنی خدا امام حسین کی عزاداری میں ہمارے اجر میں اضافہ کرے۔ اور ہمیں اور آپ کو انکے خون کا انتقام لینے والوں میں سے امام مھدی کے ساتھ قرار دے۔
اس کے بعد فرمایا: اس دن کسی کام کے لئے اپنے گھر سے باہر مت جا! یہ دن نحس ہے اور اس دن کسی مومن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہو بھی جائے تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔
تم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کچھ بھی ذخیرہ نہ کرے اگر ایسا کیا تو اس میں برکت نہیں ہو گی اگر کوئی اس دستور پر عمل پیرا ہو گا تو اسے ہزار حج،پیغمبر اکرم کے ساتھ ہزار حج انجام دینے کا ثواب ملے گا اور ابتدائے خلقت سے اب تک راہ خدا میں جتنے بھی نبی، رسول، اور انکے وصی شہید ہوئے ہیں ان کے جیسا ثواب اسے ملے گا۔
٣۔صالح بن عقبہ اور سیف بن عمیرہ نقل کرتے ہیں کہ علقمہ بن محمد الخضرمی نے کہا: میں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا : مجھے ایک ایسی دعا تعلیم فرمائیں کہ اگر نزدیک سے میں کربلا والوں کی زیارت کروں تو اس دعا کو پڑھوں اور اگر دور سے زیارت کروں تو اسے پڑھوں ۔
امام نے فرمایا:اے علقمہ جب تم زیارت پڑھنا چاہو تو دو رکعت نماز ادا کرو نماز کے بعد کربلا کی طرف اشارہ کر کے اس زیارت یعنی زیارت عاشورا کو پڑھو۔
پس اگر تم نے اس زیارت کو پڑھاکہ جسے زوار حسین جو ملائکہ ہیں پڑھتے ہیں خدا وند عالم تمہارے حق میںایک لاکھ نیکیاں لکھے گا اور تم اس شخص کی طرح ہو جو امام حسین کے ساتھ شہید ہوا ہو اور تمہارے لیے ہر پیغمبر، رسول، اور ہرزائر کا ثواب لکھا جائے گاکہ جس نے امام حسین کی زیارت کی۔
زیارت کو نقل کرنے کے بعد علقمہ کہتا ہے: امام باقر علیہ السلام نے کہا: اگر ہر روز اس زیارت کوتم اپنے گھر میں ہی پڑھو گے تب بھی یہ سارا ثواب تمہیں عطا کیا جائے گا۔
٤۔شیخ کتاب مصباح میں محمد بن خالد طیالسی سے اور وہ سیف بن عمیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کہ جب امام صادق حیرہ سے مدینہ تشریف لائے ہم صفوان بن مھران اور کچھ دوسرے اصحاب کے ساتھ نجف اشرف چلے گئے۔ امیر المومنین علی کی زیارت کرکے جب فارغ ہوئے صفوان نے اپنا رخ کربلا کی طرف کیا اور ہم سے کہا: یہیں سے امام حسین کی زیارت کیجیے کہ میں امام صادق کے ساتھ تھا انہوں نے یہیں سے امام حسین کی زیارت کی تھی۔
اس کے بعد زیارت عاشورا شروع کی اور نماز زیارت ادا کرنے کے بعد دعائے علقمہ پڑھی کہ جو زیارت عاشورا کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
سیف بن عمیرہ کہتے ہیں کہ میں نے صفوان سے کہا جب علقمہ بن محمد نے زیارت عاشورا کو ہمارے لیے نقل کیاتو اس دعا (دعائے علقمہ) کو ہمیں نہیں بتایا۔
صفوان نے کہا امام صادق کے ساتھ ہم یہاں پر آئے جب آپ نے زیارت عاشورا کو پڑھا اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد اس دعا کو بھی پڑھا۔
اس کے بعد امام صادق نے مجھ سے کہا: اے صفوان! اس زیارت اور اس دعا کو فراموش نہ کرنا۔ اس کو پڑھتے رہنا میں ضامن ہوں جو شخص اس زیارت اور دعا کو چاہے نزدیک سے پڑھے یا دور سے، اس کی زیارت قبول ہو گی اور اس کا سلام انہیں پہنچ جائے گا اس کی حاجت قبول ہوجائے گی۔ وہ جس مقام پر بھی پہنچنا چاہے گا اسے عطا کیا جائے گا۔
اے صفوان! میں نے اس زیارت کو اسی ضمانت کے ساتھ اپنے والد سے لیا ہے اور بابا نے اپنے والد علی بن حسین اوراسی طریقہ سے امیر المومنین علی نے رسولۖ خدا سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے اس زیارت کو خدا وندعالم سے اسی ضمانت کے ساتھ لیا ہے۔ خدا وند عالم نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص حسین کی دور سے یا نزدیک سے زیارت کرے گا اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے گا اس کی زیارت قبول کروں گا اور اس کی حاجت کو بر لائوں گا چاہے کیسی بھی حاجت ہو۔ وہ میرے پاس سے ناامید نہیں لوٹے گا بلکہ خوشی خوشی اپنی حاجت کے ساتھ جنت کی خوشخبری اور آتش جہنم سے رہائی کے ساتھ واپس جائے گا۔ اور اس کی شفاعت کو دشمن اہلبیت کے سوا ہر ایک کے حق میں قبول کروں گا۔
خدا نے قسم کھائی اور ہمیں گواہ بنایا جیسا کہ ملائکہ بھی گواہ تھے اور جبرئل نے کہا :یا رسول اللہ! خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے سلام اور بشارت دی ہے آپ کو علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو اور آپ کے خاندان کے تمام ائمہ کو۔
اس کے بعد صفوان نے کہا: امام صادق نے مجھ سے فرمایا: جب بھی تمہیںکوئی حاجت پیش آئے توجہاں بھی ہو اس زیارت کو پڑھو اور اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرو وہ بر لائے گا خدا اور اس کا رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے۔

امام پر گریہ کا ثواب
رسول اسلام ۖ نے فرمایا:”اِن لِقتلِ الحسینِ علیہ السلام حرارة فی قلوبِ المومنین لا تبرد ابدا”
بے شک حسین علیہ السلام کی شہادت سے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی کہ جو کبھی بھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔
امام رضا نے فرمایا:” ان ابی اِذا دخل شہر المحرمِ لا یری ضاحکِا … حتی یمضِ مِنہ عشرة ایام…” امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں جب بھی محرم کا مہینہ آیا تو میرے بابا(موسی کاظم علیہ السلام)کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھاگیا اور ان پر غم واندوہ کی عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی یہاں تک کہ دس دن گزر جاتے ، اور جب عاشور کا دن ہوتا تو میرے بابا کے لئے مصیبت و غم اور رونے کا دن ہوتاتھا ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام ایک اہم روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
"من تذکر مصابنا وبکی لماارتکب مِنا، کان معنا فِی درجاتِنا یوم القِیامةِ.ومن ذَکَرَ بمصابِنا فبکی وابکی لم تبکِ عینہ یوم تبکِی العیون”
"جو شخص ہم پر پڑنے والے مصائب کو یاد کرے اور دشمنوں کی طرف سے ہم پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد کرکے روئے تو روز قیامت وہ ہمارے درجہ میں ہمارے ساتھ ہوگا اور جو شخص ہمارے مصائب پر روئے اور دوسروں کو رلائے تو جس روز تمام آنکھیں روتی ہوئی نظر آئیں گی اس کی آنکھ نہیں روئے گی”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے مسمع سے فرمایا: تم عراق کے رہنے والے ہو کیا زیارت کے لئے نہیں جاتے؟ مسمع نے کہا: بصرہ میں ناصبی اور دشمن زیادہ ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ میری زیارت کی خبر حکومت تک نہ پہونچادیں اور مجھے آزار پہونچائیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:”رحِم اللہ دمعتک”۔
"خداوندعالم تمہارے اشکوں پر رحمت نازل کرے”۔
واقعاً تمہارا شمار ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو ہمارے مصائب پر آہ و نالہ کرتے ہیں اور ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں، بے شک تم مرتے وقت ہمارے آباء و اجداد علیھم السلام کو اپنے پاس حاضر دیکھو گے اور وہ تمہارے بارے میں ملک الموت سے سفارش کریں گے اور تمہیں ایسی بشارت دیں گے کہ مرنے سے پہلے تمہاری آنکھیں منور ہوجائیں گی اور ملک الموت تم پر ایک ماں سے بھی زیادہ مہربان ہوجائے گا۔
نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”نفس المھمومِ لِظلمِنا تسبِیح، وھمہ لنا عِبادة، وکِتمان سِرِنا جِھاد فی سبِیلِ اللہِ. ثم قال ابو عبدِ اللہِ: یجِب ان یکتب ھذا الحدِیث بِالذھبِ”
"ہمارے مصائب پر غمگین ہونے والے شخص کا سانس لیناتسبیح ہے، اور ہمارے مصائب پر رنج وغم عبادت ہے، اور ہمارے اسرار ورموز کو مخفی کرنا جھاد فی سبیل اللہ ہے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اس حدیث کو سونے سے لکھنا چاہئے”۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ”فعلیٰ مِثلِ الحسینِ فلیبکِ الباکون، فاِن البکاء علیہِ یحط الذنوب العِظام…”
”امام حسین جیسے پر رونے والوں کو رونا چاہئے کیونکہ ان پر رونے سے بڑے بڑے گناہ دھل جاتے ہیں…”
نیز امام (رضا)علیہ السلام نے ابن شبیب سے فرمایا:
"یابن شبِیب! اِن کنت باکِیا لِشی فابکِ لِلحسینِ بنِ علیِ بنِ ابِی طالِب…”۔
"اے ابن شبیب! اگر تمہیں کسی چیز پر گریہ آئے تو حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام پر گریہ کرو…”
نیز اسی روایت کے ایک حصہ میں فرمایا:
”بکت السماوات السبعِ والارضون لِقتلِہِ اِلی ان قال: یابن شبِیب!اِن بکیت علی الحسینِ حتی تصِیر دموعک علی خدیک، غفر اللہ لک کل ذنب…”
”زمین و آسمان نے امام حسین کے قتل پر گریہ کیا،یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن شبیب! اگر امام حسین پر اتنا گریہ کرے کہ آنسو تمہارے رخسار تک آجائیں تو خداوندعالم تمہارے گناہوں کو بخش دے گا…”

اقسام گریہ
گریہ اور آنکھوں سے اشک کے قطروں کا جاری ہونا جو کہ انسان کے دل کا دریچہ ہے، اس گریہ کی چار قسمیں ہیں:
خوشی اور شوق کا گریہ
کسی ایسی ماں کا گریہ جو اپنے گمشدہ فرزند کو کئی سال بعد دیکھ کر کرتی ہے ، یا کسی پاک دل عاشق کا بہت عرصہ کے بعد اپنے معشوق سے ملنے کے بعد گریہ کرنا خوشی اور شوق کا گریہ کہلاتا ہے۔
واقعہ کربلا کا اکثر وبیشتر حصہ شوق آفرین اور ولولہ انگیز ہے ان لوگوں کی ہدایت، فداکاری، شجاعت اور ان اسیر وں کی شعلہ ور تقریریں ، سننے والوں کی آنکھوں سے اشک شوق کا سیلاب جاری ہوجائے تو کیا یہ شکست کی دلیل ہے؟کیایہ گریہ شکست کی دلیل ہے؟

شفقت آمیز گریہ
انسان کے سینہ کے اندر جو چیز موجود ہے وہ دل ہے پتھرنہیں!اور یہ دل انسان کی محبت کی امواج کا خاکہ کھینچتا ہے ، جب کسی یتیم کو اس کی ماں کی آغوش میں دیکھتے ہیں کہ وہ سردی کے زمانے میں اپنے باپ کے فراق میں جان دے رہا ہے تو دل میں ایک ہل چل مچ جاتی ہے اوراشکوں کا سیلاب جاری کرکے ان امواج کے خطوط کو چہرہ کے ذریعہ ظاہر کیا جاتا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا دل زندہ اور انسانی محبت و شفقت سے سرشار ہے۔
اگر کربلا کے حادثہ میں ایک شیر خوار بچہ اپنے باپ کی آغوش میںجان دیدے اور خون کے سیلاب کے درمیان ہاتھ پیر چلائے اور اس حادثہ کو سن کر دل دھڑکنے لگے اور دل اپنے آتشی شراروں اشکوں کی صورت میںباہر نکالے تو کیا یہ کمزوری اور ناتوانی کی دلیل ہے یا حساس قلب کے بیدار ہونے کی دلیل ہے؟

ہدف میں شریک ہونے کیلئے گریہ
کبھی اشکوں کے قطرے کسی ہدف کا پیغام دیتے ہیں، جو لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے مقصد اور ان کے ہدف کے ساتھ اور ان کے مکتب کی پیروی کرنے والے ہیں وہ ممکن ہے کہ اپنے اس مقصد کو سلگتے ہوئے نعروںکے ساتھ یا اشعار میں بیان کرکے ظاہر کریں، لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سب دکھاوے کے لئے ہو ، لیکن جو شخص اس جانسوز حادثہ کو سن کر اپنے دل سے اشکوں کے قطرے بہائے وہ اس حقیقت کو صادقانہ دل سے بیان کرتا ہے یہ قطرہ ٔاشک امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار ساتھیوں کے مقدس ہدف کے ساتھ وفاداری کا اعلان ہے ، دل و جان سے ان کے ساتھ رہنے کا اعلان ہے بت پرستی اور ظلم و ستم کے ساتھ جنگ اور برائیوں سے بیزاری کا اعلان ہے۔ کیا اس طرح کا گریہ ان کے پاک ہدف سے آشنائی کے بغیرممکن ہے؟

ذلت اور شکست کاگریہ
ان کمزور اور ضعیف افراد کا گریہ جو اپنے ہدف تک پہنچنے میں پیچھے رہ گئے ہیں اور اپنے اندر آگے بڑھنے کی ہمت اور شہامت نہیں رکھتے ایسے لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کیلئے ہرگزایسا گریہ نہ کرو، کیونکہ وہ ایسے گریہ سے بیزار اور متنفر ہیں، اگر گریہ کرنا چاہتے ہو تو شوق و خوشی، شفقت آمیز اور ہدف میں شریک ہونے کیلئے گریہ کرو۔
لیکن غم منانے سے اہم کام امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے مکتب اور ہدف سے آشنائی رکھنا اور ان کے اہداف سے عملی لگائو رکھنا اور پاک رہنا پاک زندگی بسر کرنا، صحیح فکر اورعمل کرنا ہے۔

منابع و مآخذ
١۔تفسیر صافی ، سورہ دخان۔
٢۔نقل از آیة اللہ مرعشی
٣۔ارجح المطالب،اصابہ، کنوزالحقائق ۔
٤۔سنن ابن ماجہ۔
٥۔کنزالعمال،تاریخ الخلفا،اسدالغابہ، اصابہ ، ترمذی شریف،مطالب السئول، صواعق محرقہ ۔
٦۔اصابہ ،مستدرک حاکم ،مطالب السئول ۔
٧۔صواعق محرقہ ،نورالابصار، صحیح ترمذی، مستدرک حاکم، مسنداحمد،اسدالغابہ ، کنزالعمال ۔
٧۔ارجح المطالب طبع لاہور
٨۔فضائل الخمس من الصحاح الستہ ۔
٩۔اسدالغابہ، اصابہ، کنزالعمال، ذخائرالعقبی ۔
١٠۔اسدالغابہ ۔١١۔مناقب ابن شہرآشوب ۔
١٢۔انوارالحسینہ ۔ ١٣۔شجرئہ طوبی ،بحارالانوار۔
١٤۔کبریت الاحمر،ذکرالعباس۔
١٥۔آمالی صدوق، ص ٦٨٤، ح ١١، مجلس ٨٦۔

Related Articles

Back to top button