Raaz -e -Khilqatکتب اسلامی

خلقتِ کائنات

سوال۶:اگر اللہ تبا رک و تعا لیٰ کائنا ت، انسان یا مجھے پید ا نہ کرتا تو کیا ہوتا؟
ابتداء میں مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد دہانی کہ آفرینش وہ نعمت ہے جس کا سرچشمہ الطا ف الٰہی ہے اور اگرکائنا ت میں کو ئی بھی چیز وجو د میں آنے کا امکا ن ا ور خلقت کا لباس پہننے کی قابلیت رکھتی ا وروہ خلق نہ کی جا تی تو اعتراض کی گنجا ئش تھی کیونکہ عقل و فطرت پر غور کرنے سے یہ با ت اچھی طرح واضح ہو جا تی ہے کہ ہمیشہ ہو نا اورپاس رکھنا نہ ہونے اور نہ رکھنے سے بہترہو تا ہے ۔ اب ہم سوا ل کے تینوں حصوں کو الگ الگ کرکے مختصرطو رپراس کا تحقیقی جو اب دیتے ہیں۔
اولاًـ: خلقت کائنا ت اللہ تعالیٰ کے کما ل اور فیا ضیت مطلق کا لا زمہ ہے اور عمل خلقت کو روکنا بخل اورفیض سے محر وم کرنا ہے اور ایسی چیزاللہ تبا رک و تعالیٰ کی مقدس ذات سے بعید ہے۔
دوم: اللہ تعالیٰ کی فیاضیت کے کما ل کا تقا ضا ہے کہ ہر وہ چیز جو قا بل پیدا ئش ہو وہ اس کو پیدا کر ے اس وجہ سے اللہ تعا لیٰ نے جما دا ت ، نباتا ت ، حیو انا ت اور ملا ئکہ جن میں سے ہر ایک اپنے مرتبہ وجو د کے تناسب سے محدود اور غیر اختیاری کمالا ت رکھتے ہیں کو خلق فرمایا اور ان کے سا تھ سا تھ ایک ایسے موجو د کو بھی جو لا محدو د کما لا ت اور زمینی و آسمانی دونوں پہلوؤں کا حامل ہے خلق فر مایا جسے انسا ن کہتے ہیں۔
یہ موجود اپنے اختیا ر سے تما م مخلو قا ت سے بلند مر تبہ حا صل کر سکتا ہے اوراپنے اختیاری تکا مل کے ذریعے جما ل الٰہی کا عظیم ترین جلو ہ بن سکتا ہے ایسے مو جو د کی خلقت نہ صرف اللہ تعالیٰ کی فیا ضیت کے کما ل کا تقا ضا ہے بلکہ خلقت پا نے کے لئے قا بل ترین موجود ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمام موجو دا ت کی خلقت کا با عث اسی انسان کو قرار دیا(۱)۔
سوم: اس سوال پر ہم دو زاویوں سے تحقیق کریں گے۔
۱۔ جیسا کہ گذر چکا ہے فیاضیت الٰہی کے کما ل کا تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی ممکن اور وجود میں آنے کی قابلیت رکھتا ہو،اللہ تعالیٰ اسے خلق کر ے اور اسے وجو د عطا کر نے میں بخل اور دریغ نہ کرے پس ہم میں سے ہر ایک ذاتی امکا ن کے لحاظ سے فیض الٰہی کو دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لہٰذا اس نے بھی اپنی فیا ضیت کے تقا ضو ں کے مطا بق ہمیں پیدا کیا کیونکہ ہما ری خلقت سے در یغ کر نا فیض کو رو کنا اور یہ کما لا ت مطلقہ الہیہ کے مغایرہے۔
عالم ہستی کا اپنا ایک نظام ہے جو قا نو ن علیت پر استوار ہے۔
۲۔ جس طرح تما م کا ئنا ت اللہ تعالیٰ کی معلو ل ہے اسی طرح جہا ن آفرینش کے اندر بھی ہر مخلوق اپنی علت کے نتیجے میں موجود ہے۔
۳۔ کسی بھی علت کے وجو د میں آنے سے حتمی طو ر پر اس کا معلو ل بھی وجود میںآتا ہے اور معلول کا اپنی علت تامہ سے انحرا ف اور اختلاف محال ہے۔
کائنا ت کی تمام موجو دا ت اسی علتِ کے اصول کی وجہ سے خا ص نظم وارتباط رکھتی ہیں یہاںپرایک موجود کا وجوددیگرسینکڑوں موجودات پرمتوقف بھی ہے،اوردیگرسینکڑوں موجودا ت پر موثر بھی ہے۔
اب اگر فرض کریں کہ آپ اپنی پیدا ئش کی علت تامہ کے موجودہوتے ہو ئے پیدا نہ ہوں تو یہ قانونِ علت سے تخلف ہے جو کہ محا ل ہے، اس بنا پر اگر طے پا جائے کہ آپ پیدا نہ ہوں تو ضروری ہے کہ آپ کی پیدا ئش کی علت بھی پیدا نہ ہواورآپ کے وجودکی علت کا موجود نہ ہو نا صر ف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کی علت بھی مو جو د نہ ہو، اسی طرح بالترتیب کئی ہزارکئی لاکھ کئی کرو ڑعلتیں وجود میں نہ آئیں اور اس کا لازم کل نظام آفرینش میں بنیادی تبدیلی بلکہ بنیادی طورنظام آفرینش کا خاتمہ اور چھٹی ہے، پس یہ فرض کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو پیدا کر تا لیکن مجھے پیدا نہ کرتا ایک با طل فریضہ،خا م اور عامیانہ تصورہے، عمیق فلسفی فکراورتحقیق کی بنیادپرکہا جا سکتا ہے کہ کائنا ت سے کسی ایک چیز کو حذف کر نا گو یا تما م کائنات کو حذف کر نے کے مسا وی ہے۔(۲)

(حوالہ جات)
(۱) مثال کے طو رپر مطالعہ فر مائیے سورہ بقرہ ۲۹، سو رہ مومنون، آیت۲۳
(۲) زیادہ گہرے مطالعہ کے لئے : مجمو عہ آ ثار ۔ استا د شہید مطہری ، ج ۱ ص ۱۲۱۔ ۱۳۴ صدرا تہران

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button