امام جعفر صادقؑ کی بردباری
محمد بن مرزام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب منصور دوانیقی نے امام جعفر صادقؑ کو اپنے پاس بلایا تو میں امامؑ کے ہمراہ تھا،واپسی پر ہم حیرہ سے روانہ ہوئے اور جب صالحین پہنچے تورات کا پہلا پہر تھا،راستے میں عباسی حکومت کا ایک اہلکار کھڑا تھا،اس نے ہماری سواریوں کو روک لیا،ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ ہمیں جانے دے مگر اس نے ہماری ایک نہ سنی اور بدستور اپنی ضد پر اڑارہا۔
میں نے امام ؑسے کہا:اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کتے کو قتل کر کے اس کی لاش دریا میں پھینک دوں۔
امام ؑنے مجھے ایسا کرنے سے منع فرمایا:آخر کار اس نے رات کے تیسرے پہر ہمیں جانے کی اجازت دی۔
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:مرزام!اچھا ہوا تم نے طیش میں آکر اسے قتل نہیں کیا ،تم اسے قتل کرنا چاہتے تھے جبکہ میں تمہیں صبر کا حکم دیتا تھا،بتائو ہم میں سے کس کا طرز عمل درست تھا؟
پھر آپ ؑ نے فرمایا:’’ان الرجل یخرج من الذل الصغیر فیدخله ذلک فی الذل الکبیر‘‘بعض اوقات آدمی چھوٹی مصیبت سے نکلنا چاہتا ہے تو اپنی جلد بازی کی وجہ سے بڑی مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔
مفضل بن عمر جعفی اپنی کتاب’’توحید مفضل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مشہور دہریے ابن ابی العوجاء سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے اس کی جسارت آمیز گفتگو سنی تو مجھےسخت غصہ آیا اور میں نے اس سے کہا:دشمن خدا تو کفر بکتا ہے اور خدا کا انکار کرتا ہے۔
میرا غصہ دیکھ کر وہ کہنے لگا :اگر تم اہل علم ہو اور دلیل رکھتے ہو تو ہم تم سے بحث کریں گے،اگر تم جیت گئے تو ہم تمہاری پیروی کریں گے اور اگر تم اہل مناظرہ نہیں تو تم سے بحث کرنا ہی فضول ہے۔
اگر تم امام جعفر صادقؑ کے شاگرد ہوتے تو تمہیں علم ہوتا کہ وہ ہم سے اس طرح گفتگو نہیں کرتے اور ان کی گفتگو کا اندازہ نہیں جو تمہارا ہے۔
تم نے ابھی ہم سے کچھ بھی نہیں سنا پھر بھی اتنے ناراض ہوگئے جبکہ ہم امام جعفر صادقؑ کے سامنے بہت کچھ کہتے ہیں مگر وہ غصہ نہیں ہوتے،آپ بردبار ،باوقار اور عقل انسانی کے آخری درجہ پر فائز ہیں،آپ ہمارے دلائل نہایت غور سے سنتے ہیں اور بعض اوقات تو ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید امام ؑہمارے دلائل سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن جب امام ؑہمارے دلائل کو رد کرتے ہیں تو اتنی متانت اور بردباری کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہم شرمندہ ہوجاتے ہیں اور ہمارے پاس امامؑ کے دلائل کا رد نہیں ہوتا۔
اگر تم امام جعفر صادقؑ کے مکتب سے وابستہ ہو تو پھر ہم سے اسی طرح گفتگو کرو جس طرح وہ کرتے ہیں۔
(حوالہ)
(روضہ کافی ص۸۷)