غیبت سے بچو
امام جعفرصادقؑ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام زین العابدینؑ سے کہا:مولا!فلاں شخص آپ ؑکے متعلق کہتا ہے کہ آپؑ(نعوذ باللہ)گمراہ اور بدعتی ہیں۔
یہ سن کر امامؑ نے فرمایا:تو نے اس کی غیبت کر کے دوستی کا خیال نہیں رکھا اور یہ بات بتا کر مجھے بھی تکلیف دی ہے کیونکہ تو نے مجھے ایمانی بھائی کی باتیں بتائی ہیں جن سے میں ناواقف تھا،قیامت کے دن ہماری ملاقات تو ہونی ہی تھی،اس دن خدا ہمارے درمیان فیصلہ کرتا،پھر اس کے باوجود تجھے کیا پڑی تھی کہ تو نے اس کی غیبت کی،غیبت سے پرہیز کرو،غیبت دوزخ کے کتوں کی غذا ہے اور یاد رکھو!جو لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے وہ درحقیقت لوگوں میں اپنے عیبوں کو تلاش کرتا ہے۔ علقمہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے پوچھا فرزند رسولؐ!کس شخص کی گواہی قبول ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں ہے؟
آپ ؑنے فرمایا:جو شخص فطرت اسلام پر ہو اس کی گواہی قابل قبول ہے۔
علقمہ نے کہا:مولا!جو گنہگار ہو یا گناہوں سے قریب رہا ہو اس کا کیا حکم ہے؟
آپؑ نے فرمایا:اگر کسی گنہگار کی گواہی قابل قبول نہ ہو تو پھر انبیاء و اوصیاء کے علاوہ کسی کی گواہی قبول نہیںہے کیونکہ معصوم صرف یہی ہستیاں ہیں۔
جس شخص کو تم نے اپنی آنکھوں سے گناہ کرتے نہیں دیکھا اور جس کے متعلق دو عادل گواہوں نے گناہ کی گواہی نہ دی ہو وہ شخص عادل ہے اور اس کی گواہی قابل قبول ہے، ایسے شخص کے رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اگرچہ وہ خدا کے سامنے گنہگار ہی کیوں نہ ہو، ایسے شخص کی طرف کوئی کسی ایسی بات کی نسبت دے جو اس میں نہ ہو تو ’’فھو خارج عن ولایۃ اللہ وداخل فی ولایۃ الشیطان‘‘ایسا شخص اللہ کی ولایت سے نکل جاتا ہے اور شیطان کی ولایت میں داخل ہوتاہے۔
پھر آپ ؑنے فرمایا:میرے آبائے طاہرینؑ کا فرمان ہے:جو شخص کسی مومن کے ایسے عیب اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرے جو اس میں ہوں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت میں کبھی اکٹھا نہیں کرے گا اور اگر کسی مومن پر ایسا عیب لگائے جو اس میںنہ ہو’’انْقَطَعَتِ العِصْمَةُ بَيْنَهُما ، وَ كانَ المُغْتابُ فِي النَّارِ خالِداً فِيهَا وَ بِئْسَ المَصِيرُ‘‘تو ان دونوں کے درمیان عصمت ایمانی ختم ہوجاتی ہے اور غیبت کرنے والاہمیشہ دوزخ میں رہے گا،جو بڑا برا ٹھکانہ ہے۔
(حوالہ)
(بحارالانوار ج۱۶،ص۱۸۵)