اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری


مصنف:
حسین انصاریان

((فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلاَلاً طَیبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اللہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیاہُ تَعْبُدُونَ۔)) (۱)
’’لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے بنو، اور اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہواگر تم خدا کے عبادت گزار ہو‘‘۔

خداوند متعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت ومحبت اور عنایت کی بنا ءپر انسان کو ایسی نعمتوں سے سرفرازہونے کا اہل قرار دیا جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یہاں تک کہ مقرب فرشتوںکو بھی نہیں نوازا۔ انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتیں اس طرح موجودہیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیداہوتا ہے او ردنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں 12 اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے:

1۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت۔
2۔ حصول نعمت کا راستہ۔
3۔ نعمت پر توجہ ۔
4۔نعمت پر شکر۔
5۔نعمت پر ناشکری سے پرھیز۔
6۔نعمتوں کا بے شمار ھونا۔
7۔نعمت کی قدر کرنے والے۔
8۔نعمتوں میں اسراف کرنا۔
9۔نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا۔
10۔نعمت کے چھن جانے کے اسباب و علل۔
11۔اتمام ِنعمت ۔
12۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام۔
اب ہم قارئین کی توجہ قرآن مجید کے بیان کردہ ان عظیم الشان بارہ نکات کی طرف مبذول کراتے ہیں:
1۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت
زمین و آسمان کے در میان پائی جانے والی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں انسان کی خدمت اور اس کے فائدے کے لئےہیں، چاند، سورج، ایک جگہ رکنے والے اور گردش کرنے والے ستارے، فضا کی دکھائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انسان کو فائدہ پہنچارہی ہیں۔پہاڑ، جنگل، صحرا، دریا، درخت و سبزے، باغ، چشمے،نہریں، حیوانات اور دیگر زمین پر پائی جانے والی بھت سی مخلوقات ایک طرح سے انسان کی زندگی کی ناؤ کو چلانے میں اپنی اپنی کارکردگی میں مشغول ھیں۔خداوندعالم کی نعمتیں اس قدر وسیع، زیادہ، کامل اور جامع ھیں کہ انسان کو عاشقانہ طور پر اپنی آغوش میں بٹھائےہوئے ہیں، اور ایک مھربان اور دلسوز ماں کی مانند، انسان کے رشد و نمو کے لئے ھر ممکن کوشش کررھی ھیں۔انسان کو جن ظاھری و باطنی نعمتوں کی ضرورت تھی خداوندعالم نے اس کے لئے پھلے سے ھی تیار کررکھیہے، اور اس وسیع دسترخوان پر کسی بھی چیز کی کمی نھیںہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بیان ھوتاہے

(( اٴَلَمْ تَرَوْا اٴَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَاٴَسْبَغَ عَلَیکُمْ نِعَمَہُ ظَاھرةً وَبَاطِنَةً۔۔۔))۔2

کیا تم لوگوں نے نھیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمھارے لئے مسخر کر دیاہے اور تمھارے لئے تمام ظاھری اور باطنی نعمتوں کو مکمل فرمایااور لوگوں میں بعض ایسے بھی ھیں جو علم ہدایت اور روشن کتا ب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ھیں "۔

2۔ حصول نعمت کا راستہ

رزق کے حصول کے لئے ھر طرح کا صحیح کام اور صحیح کوشش کرنا؛ بے شک خداوندعالم کی عبادت اور بندگیہے؛ کیونکہ خدائے مھربان نے قرآن مجید کی بھت سی آیات میں اپنے بندوں کو زمین کے آباد کرنے اور حلال روزی حاصل کرنے، کسب معاش، جائز تجارت اورخرید و فروخت کا حکم دیاہے، اور چونکہ خداوندعالم کے حکم کی اطاعت کرنا عبادت و بندگی لہٰذا اس عبادت و بندگی کا اجر و ثواب روز قیامت (ضرور) ملے گا۔تجارت، خرید و فروخت، اجارہ (کرایہ)، وکالت، مساقات (سینچائی)، زراعت، مشارکت، صنعت، تعلیم، خطاطی، خیاطی، رنگ ریزی، دباغی ( کھال کو گلانا) اور دامداری(بھیڑ بکریاں وغیرہ پالنا)جیسے اسلامی موضوعات اور انسانی قوانین کی رعایت کرتے ھوئے مادی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے والاانسان خدا کی نظر میں محبوبہے، لیکن ان راستوںکے علاوہ حصول رزق کے لئے اسلامی قوانین کے مخالف اور اخلاقی و انسانیت کے خلاف راستوں کو اپنانے والوں سے خدا نفرت کرتاھے۔
قرآن مجید اس مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:
((یااٴَیھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَکُمْ بَینَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ اٴَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ))۔ 3

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو۔مگر یہ کہ باھمی رضامندی سے معاملہ کرلو "۔

((یااٴَیھا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْاٴَرْضِ حَلاَلًا طَیبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ))۔ 4

اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و پاکیزہ ہے اسے استعمال کرو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تمھاراکھلا دشمن ہے ۔

بھر حال خداوندعالم کی طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ھیںاگر ان جائز اور شرعی طریقوں سے روزی حاصل کی گئی ہے اور اس میں اسراف و تبذیر سے خرچ نھیں کیا گیا تو یہ حلال روزی ہے اور اگر غیر شرعی طریقہ سے حاصل ھونے والی روزی اگرچہ وہ ذاتی طور پر حلال ھو جیسے کھانے پینے کی چیزیں؛ تو وہ حرام ہے اور ان کا اپنے پاس محفوظ رکھنا منع ہے اور ان کے اصلی مالک کی طرف پلٹانا واجب ہے۔

3۔ نعمت پر توجہ

کسی بھی نعمت سے بغیر توجہ کئے فائدہ اٹھانا، چوپاؤں، غافلوں اور پاگلوں کاکامہے، انسان کم از کم یہ تو سوچے کہ یہ نعمت کیسے وجود میں آئی ہے یا اسے ھمارے لئے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا؟ اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں کتنے اسباب و عوامل پائے گئے ھیں، المختصر یہ کہ بغیر غور و فکر کئے ایک لقمہ روٹی یا ایک لباس، یا زراعت کے لائق زمین، یا بھتا ھوا چشمہ، یا بھتی ھوئی نھر، یا مفید درختوں سے بھرا جنگل، اور یہ کہ کتنے کروڑ یا کتنے ارب عوامل و اسباب کی بنا پر کوئی چیز وجود میں آئی تاکہ انسان زندگی کے لئے مفید واقع ھو ؟!!صاحبان عقل و فھم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کو عقل کی آنکھ اور دل کی بینائی سے دیکھتے ھیں تاکہ نعمت کے ساتھ ساتھ، نعمت عطا کرنے والے کے وجود کا احساس کریں اور نعمتوںکے فوائد تک پہنچ جائیں، نیز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح نعمت کے پیدا کرنے والے کی مرضی ھو۔

قرآن مجید جو کتاب ہدایتہے ؛اس نے لوگوں کوخداوندعالم کی نعمتوں پر اس طرح متوجہ کیاھے:

(( یااٴَیھاالنَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللہِ عَلَیکُمْ ھل مِنْ خَالِقٍ غَیرُاللہِ یرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ فَاٴَنَّی تُؤْفَکُونَ))۔ 5

اے لوگو! اپنے اوپر (نازل ھونے والی) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا، (کیا) اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ؟وھی تو تمھیں آسمان اور زمین سے روزی دیتاہے اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں، پس تم کس طرف بہکے چلے جارھے ھو”۔
جی ھاں! تمام نعمتیں اپنے تمام تر فوائد کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی وحدانیت کی دلیل، اس کی توحید ذاتی کاثبوت اور اسی کی معرفت و شناخت کے لئے آسان راستہ ہے
۔4۔ نعمت پر شکر

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شکر کے معنی یہ ھیں کہ نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بعد "شکر للہ ” (الٰھی تیرا شکر) یا "الحمد للہ” کہہ دیا جائے، یا اس سے بڑھ کر "الحمد للہ رب العالمین” زبان پر جاری کردیا جائے۔

یاد رھے کہ ان بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں کے مقابلہ میں اردو یا عربی میں ایک جملہ کہہ دینے سے حقیقی معنی میں شکر نھیں ھوتا، بلکہ شکر، نعمت عطا کرنے والی ذات کے مقام اور نعمت سے ھم آہنگ ھونا چاہئے، اور یہ معنی کچھ فعل و قول اور وجد بغیر متحقق نھیں ھوں گے، یعنی جب تک انسان اپنے اعضاء و اجوارح کے ذریعہ خداوندمتعال کا شکر ادا کرنے کے لئے ان افعال و اقدامات کو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے کہ وہ پروردگارعالم کا اطاعت گزار بندہہے، پس شکر خدا کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایسے امور کو انجام دے جو خدا کی رضایت کا سبب قرار پائے اور اس کی یاد سے غافل نہ ھونے دیں۔کیا خداوندعالم کے اس عظیم لطف و کرم کے مقابلہ میں صرف زبانی طور پر”الٰھی تیرا شکر "یا "الحمد للہ” کہہ دینے سے کسی کوشاکر کھا جاسکتاہے؟!

بدن، اعضاء و جوارح: آنکھ کان، دل و دماغ، ھاتھ، پیر، زبان، شکم، شھوت، ہڈی اوررگ جیسی نعمتیں یا کھانے پینے، پہننے اور سونگھنے کی چیزیں یا دیدہ زیب مناظر جیسے پھاڑ، صحرا، جنگل، نھریں، دریا اور چشمے یا پھلوں، اناج اورسبزیوں کی مختلف قسمیں اور دیگر لاکھوں نعمتیں جن پر ھماری زندگی کا دارومدارہے، کیا ان سب کے لئے ایک "الحمد للہ” کہنے سے حقیقی شکر ھوجائے گا؟ اور کیا اسلام وایمان، ہدایت و ولایت، علم و حکمت، صحت و سلامتی، تزکیہ نفس و طھارت، قناعت و اطاعت اور محبت و عبادت جیسی نعمتوںکے مقابلہ میں "الٰھی تیرا شکر” کہنے سے انسان خدا کا شاکر بندہ بن سکتاہے؟!

راغب اصفھانی اپنی عظیم الشان کتاب "المفردات” میں کھتے ھیں:

اَصْلُ الشُّکْرِ مِنْ عَینٍ شَکْریٰ”۔ 6

شکر کا مادہ "عین شَکْریٰ”ھے؛ یعنی آنسو بھری آنکھیں یا پانی بھرا چشمہ، لہٰذا شکر کے معنی "انسان کا یاد خدا سے بھرا ھوا ھوناہے اور اس کی نعمتوں پر توجہ رکھناہے کہ یہ تمام نعمتیں کس طرح حاصل ھوئیں اور کیسے ان کو استعمال کیاجائے”۔

خواجہ نصیر الدین طوسی علیہ الرحمہ، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی روایت کی بنا پر شکر کے معنی اس طرح فرماتے ھیں:

شکر، شریف ترین اور بھترین عمل ہے، معلوم ھونا چاہئے کہ شکر کے معنی قول و فعل اور نیت کے ذریعہ نعمتوں کے مدّمقابل قرار پاناہے، اور شکر کے لئے تین رکن ھیں:

1۔ نعمت عطا کرنے والے کی معرفت، اوراس کے صفات کی پہچان، نیز نعمتوں کی شناخت کرنا ضروری ہے، اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی طرف سے ھیں، اس کے علاوہ کوئی حقیقی منعم نھیںہے، انسان اور نعمتوں کے درمیان تمام واسطے اسی کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کئے ھیں۔

2۔ ایک خاص حالت کا پیدا ھونا، اور وہ یہہے کہ انسان عطا کرنے والے کے سامنے خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے اور نعمتوں پر خوش رھے، اور اس بات پر یقین رکھے کہ یہ تمام نعمتیں خدا وندعالم کی طرف سے انسان کے لئے تحفے ھیں، جو اس بات کی دلیل ھیں کہ خداوندعالم انسان پر عنایت و توجہ رکھتاہے، اس خاص حالت کی نشانی یہہے کہ انسان مادی چیزوں پر خوش نہ ھو مگر یہ کہ جن کے بارے میں خداوندعالم کا قرب حاصل ھو۔

3۔ عمل، اور عمل بھی دل، زبان اور اعضاء سے ظاھر ھونا چاہئے۔

دل سے خداوندعالم کی ذات پر توجہ رکھے اس کی تعظیم اور حمدو ثناکرے، اور اس کی مخلوقات اور اس لطف و کرم کے بارے میں غور و فکر کرے، نیز اس کے تمام بندوں تک خیر و نیکی پہنچانے کا ارادہ کرے۔

زبان سے اس کا شکر و سپاس، اس کی تسبیح و تھلیل اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرے۔

تمام ظاھری و باطنی نعمتوں کو استعمال کرتے ھوئے اس کی عبادت و اطاعت میںاعضاء کو کام میں لائے، اور اعضاء کو خدا کی معصیت و مخالفت سے روکے رکھے”۔

لہٰذا شکر کے اس حقیقی معنی کی بنا پر یہ بات روشن ھوجاتیہے کہ شکر، صفات کمال کے اصول میں سے ایکہے، جو صاحبان نعمت میں بھت ھی کم ظاھر ھوتے ھیں، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتاہے:

((وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ))۔ 7

اور ھمارے بندوں میں شکر گزار بندے بھت کم ھیں”۔

تمام نعمتوں کے مقابلہ میں مذکورہ معنی میں شکر واجب عقلی اور واجب شرعیہے، اور ھر نعمت کو اسی طرح استعمال کرنا شکرہے جس طرح خداوندعالم نے حکم دیاہے، حقیقت تو یہہے کہ خداوندعالم کی کامل عبادت و بندگی حقیقی شکر کے ذریعہ ھی ھوسکتیہے:

((فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلاَلاً طَیبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اللہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیاہُ تَعْبُدُونَ))۔ 8

لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ھوئے حلال و پاکیزہ رزق کو کھاوٴ اور اس کی عبادت کرنے والے ھو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رھو”-۔

((فَابْتَغُوا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیہِ تُرْجَعُونَ))۔ 9


رزق خدا کے پاس تلاش کرواور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجالاؤ کہ تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹادئے جاوٴگے”۔

مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام شکر کے معنی بیان فرماتے ھیں:


شُکْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَتَمامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ :الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ:” 10


نعمتوں پر شکر بجالانے کا مطلب یہہے کہ انسان تمام حرام چیزوں سے اجتناب کرے، اور کامل شکر یہہے کہ نعمت ملنے پر "الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ” کھے”۔

پس نعمت کا شکر یہ ہے کہ نعمت کو عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت میں خرچ کرے، لوگوں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرے اور تمام گناھوں سے پرھیز کرے۔

5۔ نعمت پر ناشکری سے پرھیز

بعض لوگ، حقیقی منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں میں بغیر غور و فکر کئے اپنے پاس موجودتمام نعمتوں کو مفت تصور کرتے ھیں، اور خودکو ان کا اصلی مالک تصورکرتے ھیں اور جو بھی ان کا دل اور ھوائے نفس چاھتاہے ویسے ھی ان نعمتوں کو استعمال کرتے ھیں۔

یہ لوگ جھل و غفلت اور بے خبری اور نادانی میں گرفتار ھیں، خدائی نعمتوں کو شیطانی کاموں اور ناجائز شھوتوں میں استعمال کرتے ھیں، اور اس سے بدترہے کہ ان تمام خداداد نعمتوں کو اپنے اھل و عیال، اھل خاندان، دوستوں او ردیگر لوگوں کو گمراہ کرنے پر بھی خرچ کرڈالتے ھیں۔

اعضاء و جوارح جیسی عظیم نعمت کو گناھوں میں، مال و دولت جیسی نعمت کو معصیت و خطا میں، علم و دانش جیسی نعمت کو طاغوت و ظالموں کی خدمت میںاور بیان جیسی نعمت کو بندگان خدا کو گمراہ کرنے میں خرچ کرڈالتے ھیں!!

یہ لوگ خدا ئی نعمتوں کی زیبائی اور خوبصورتی کو شیطانی پلیدگی اور برائی میں تبدیل کردیتےھیں، اور اپنے ان پست کاموں کے ذریعہ خود کو بھی اور اپنے دوستوں کو بھی جہنم کے ابدی عذاب کی طرف دھکیلے جاتے ھیں!

((اٴَلَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللہِ کُفْرًا وَاٴَحَلُّوا قَوْمَھم دَارَ الْبَوَارِ۔جَہَنَّمَ یصْلَوْنَھا وَبِئْسَ الْقَرَارُ)) 11

"کیاتم نے ان لوگوں کو نھیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنے قوم کو ھلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔یہ لوگ واصل جہنم ھوں گے اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانہہے "۔

6۔ نعمتوں کا بے شمار ھونا

اگر ھم نے قرآن کریم کی ایک آیت پر بھی توجہ کی ھو تی تو یہ بات واضح ھوجاتی کہ خداوندعالم کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن نھیںہے، اور شمار کرنے والے چاھے کتنی بھی قدرت رکھتے ھوں ان کے شمار کرنے سے عاجز رھے ھیں۔ جیسا کہ قر آن مجید میں ارشاد ھوتاہے:

((وَلَوْ اٴَنَّمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اٴَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ اٴَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللہِ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)) 12

"اور اگر روئے زمین کے تمام درخت، قلم بن جائیں اور سمندر میں مزید سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰھی تمام ھونے والے نھیں ھیں، بیشک اللہ صاحب عزت بھیہے اور صاحب حکمت بھی "۔

ھمیں اپنی پیدائش کے سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اپنے جسم کے ظاھری حصہ کو عقل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت واضح ھوجائے کہ خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار کرنا ھمارے امکان سے باھرہے۔

خداوندعالم، انسان کی خلقت کے بارے میں فرماتاہے:

(( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِینٍ۔)) 13

"اور ھم ھی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیاہے”۔

((ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ))۔ 14

"پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھاہے”۔

((ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔))15

"پھر ھم ھی نے نطفہ کو جماھو اخون بنا یا اور منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر ھم ھی نے (اس) لوتھڑے میں ہڈیاں بنائیں، پھر ھم ھی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ھم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیاہے، تو کس قدر با برکتہے وہ خدا جو سب سے بھتر خلق کرنے والاہے”۔

جی ھاںیھی نطفہ ان تمام مراحل سے گزرکر ایک کامل انسان اور مکمل وجود میں تبدیل ھوگیاھے۔

اب ھم اپنے عجیب و غریب جسم اور اس میں پائے جانے والے خلیوں، آنکھ، کان، ناک، معدہ، گردن، خون، تنفسی نظام، مغز، اعصاب، اور دوسرے اعضاء و جوارح کو دیکھیں اور ان کے سلسلے میں غور وفکر کریں تاکہ معلوم ھوجائے کہ خود اسی جسم میں خداوندعالم کی کس قدر بے شمار نعمتیں موجود ھیں۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نھیںہے کہ اگر انسان مسلسل( 24 گھنٹے ) ھر سیکنڈ میں بدن کے ایک ہزار خلیوں کا شمار کرتارھے تو ان تمام کو شمار کرنے کے لئے تین ہزار (3000) سال در کا ر ھوں گے۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نھیںہے کہ انسان کے”معدہ” (اس عجیب و غریب لیبریٹری کے اندر) کھانا اس قدر تجزیہ و تحلیل ھوتاہے کہ انسان کے ھاتھوں کی بنائی ھوئی لیبریٹری میں اتنا کچھ تجزیہ و تحلیل نھیں ھوتا، اس معدہ میں یا اس لیبریٹری میں 10 لاکھ مختلف قسم کے ذرات فلٹر ھوتے ھیں جن میں سے اکثر ذرات زھریلے ھوتے ھیں۔ 16

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کا کہنا نھیںہے کہ انسان کا دل ایک "بند مٹھی "سے زیادہ بڑا نھیں ھوتا لیکن اتنی زیادہ طاقت رکھتاہے کہ ھر منٹ میں 70 مرتبہ کھلتا اور بند ھوتاہے، اور تیس سال کی مدت میں ایک ارب مرتبہ یہ کام انجام دیتاہے اور ھر منٹ میں بال سے زیادہ باریک رگوں کے ذریعہ پورے بدن میں دوبار خون پہنچاتاہے اور بدن کے اربوں کھربوں خلیوں دھوتاہے۔ 17

اس طرح آکسیجن، ھائیڈروجن وغیرہ کے ذرات، ھوا، روشنی، زمین، درختوں کی شاخیں، پتے اور پھل نیز زمین و آسمان کے درمیان جو کچھہے، ایک طرح سے انسان کی خدمت میں مشغول ھیں، اگر ھم اپنے بدن کے ساتھ ان تمام چیزوں کا اضافہ کرکے غور و فکر کریں تو کیا اس دنیا میں انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار ممکنہے؟!

اگر آپ ایک مٹھی خاک کود یکھیں تو یہ فقط خالص مٹی نھیںہے، بلکہ مٹی کا اکثر حصہ معدنی مواد سے تشکیل پاتاہے، جو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی شکل میں ھوتے ھیں، یہ سنگریزے بڑے پتھروں کے ٹکڑے ھیں جو طبیعی طاقت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ھوگئے ھیں، مٹی میں بھت سی زندہ چیزیں ھوتی ھیں، ممکنہے کہ ایک مٹھی خاک میں لاکھوں بیکٹری موجود ھوں، بیکٹری کے علاوہ بھت سی رشد کرنے والی جڑیں، ریشے (مانند امر بیل) اوربھت سے کیڑے مکوڑے بھی پائے جاتے ھیں جن میں سے بھت سے زندہ ھوتے ھیں اور مٹی کو نرم کرتے رھتے ھیں تاکہ درختوں اور پودوں کی رشد و نمو میں مدد گار ثابت ھوسکیں۔ 18

انسان کے اندر مختلف چیزوں کے ہضم کرنے کی مشینیں پائی جاتی ھیں، جیسے منھ، دانت، زبان، حلق، لعاب پیدا کرنے والے غدود، معدہ، لوز المعدہ19 "Pancreas”، چھوٹی بڑی آنتیں نیز غذا کو جذب و ہضم کرنے کے لئے ان میں سے ھر ایک کا عمل اللہ کی ایک عظیم نعمتہے۔

اسی طرح ایک اھم مسئلہ سرخ رگوں، سیاہ رگوں، چھوٹی رگوں، دل کے درمیان حصہ، دل کے داہنا اور بایاں حصہ وغیرہ کے ذریعہ خون کا صاف کرنا اور خون کے سفید اور سرخ گلوبل، ترکیب خون، رنگ خون، جریان خون، حرارت بدن، بدن کی کھال اور اس کے عناصر، آنکھ اور اس کے طبقات وغیرہ بھی خداوندعالم کی تعجب خیز نعمتوں میں سے ھیں۔

آسمان کی فضا، نور کا پہنچنا، گردش، کشش اور دریاؤں کا جز رو مدّ 20 انسان کی زندگی میں کس قدراھمیت کے حامل ھیں، ان کے عناصر اتنے زیادہ ھیں کہ اگر ھم آسمان کے دکھائی دینے والے حصے کے ستاروں کو شمار کرنا چاھیں اور ھر منٹ میں 300 ستاروں کو شمار کریں تو اس کے لئے 3500سال کی عمر درکار ھوگی جن میں شب و روز ستاروں کو شمار کریں کیونکہ بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک ان کی تعداد کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا اس کی تعداد ایک لاکھ ملینہے جس کے مقابلہ میں ھماری زمین ایک چھوٹے سے دانہ کی طرحہے، بھتر تو یہہے کہ ھم یہ کھیں کہ انسان ان کو شمار ھی نھیں کرسکتا!!!

جس فضا میں ستارے ھوتے ھیں وہ اس قدر وسیع و عریضہے کہ اس کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لئے پانچ لاکھ نوری سال درکار ھیں۔

سورج اور منظومہ شمسی، آسمان کی کرنوں کا ایک ذرہہے جو 400کیلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررھاہے اور تقریباً (200000000) سال کا وقت درکارہے تاکہ اپنے مرکز کا ایک چکر لگاسکے!

عالم بالا کا تعجب خیز نظام، سطح زمین اور زمین کے اندر اس کا اثر نیز بھت سے جانداروں کی زندگی کے لئے راستہ ھموار کرنا، یہ سب حیرت انگیز کھانیاں انسان کے لئے سمجھنا اتنا آسان نھیںہے، انسان جس ایک قطرہ پانی کو پیتاہے اس میں ہزاروں زندہ اور مفید جانور ھوتے ھیں اور ایک متر مکعب پانی میں 7500سفید گلوبل”Globule” اور پچاس لاکھ سرخ گلوبل ھوتے ھیں۔ 21

ان تمام باتوں کے پیش نظر قرآن مجیدکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی قلب پر نازل ھونے والے قرآن مجید نے صدیوں پھلے ان حقائق کو بیان کیاہے، لہٰذا خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ھرگز شمار نھیں کیا جاسکتا۔

((وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللہِ لاَتُحْصُوھا إِنَّ اللہَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ))۔ 22

"اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاھو تو شمار نھیں کرسکتے، بیشک اللہ بڑا مھربان اور بخشنے والاہے”۔

7۔نعمتوں کی قدر شناسی

جن افراد نے اس کائنات، زمین و آسمان اور مخلوقات میں صحیح غور و فکر کرنے کے بعد خالق کائنات، نظام عالم، انسان اور قیامت کو پہچان لیاہے وہ لوگ اپنے نفس کا تذکیہ، اخلاق کو سنوارنے، عبادت و بندگی کے راستہ کو طے کرنے اور خدا کے بندوں پر نیکی و احسان کرنے میں سعی و کوشش کرتے ھیں، درحقیقت یھی افراد خداوندعالم کی نعمتوں کے قدر شناس ھیں۔

جی ھاں، یھی افراد خداکی تمام ظاھری و باطنی نعمتوں سے فیضیاب ھوتے ھیں اور اس طریقہ سے خود اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک پہنچ جاتے ھیں، اس پاک قافلہ کے قافلہ سالار اور اس قوم کےممتاز رھبر انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں، تمام مومنین شب و روز کے فریضہ الٰھی یعنی نماز میں انھیں کے راستہ پر برقرار رہنے کی دعا کرتے ھیں:

((اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ۔صِرَاطَ الَّذِینَ اٴَنْعَمْتَ عَلَیھم غَیرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیھم وَلاَالضَّالِّینَ))۔ 23

"ھمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں کا راستہہے جن پر تونے نعمتیں نازل کی ھیں، ان کا راستہ نھیں جن پر غضب نازل ھواہے یا جو بہکے ھوئے ھیں”۔

جی ھاں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام خداوندعالم کی تمام مادی و معنوی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا کرتے تھے، اور شکر نعمت کرتے ھوئے اس عظیم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ھوئے ھیں کہ انسان کی عقل درک کرنے سے عاجزہے۔

خداوندمھربان نے قرآن مجید میں ان افراد سے وعدہ کیاہے جو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں خدا و رسول کے مطیع و فرمانبردار رھے ھیں، ان لوگوں کو قیامت کے دن نعمت شناس حضرات کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

((وَمَنْ یطِعْ اللہَ وَالرَّسُولَ فَاٴُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ اٴَنْعَمَ اللہُ عَلَیھم مِنْ النَّبِیینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ اٴُوْلَئِکَ رَفِیقًا))۔ 24

"اور جو شخص بھی اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رھے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ھیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یھی لوگ بھترین رفقاء ھیں”-

8۔ نعمتوں کا بےجا استعمال

مسرف (فضول خرچی کرنے والا) قرآن مجید کی رُوسے اس شخص کو کھا جاتاہے جو اپنے مال، مقام، شھوت اور تقاضوں کو شیطانی کاموں، غیر منطقی اور بے ھودہ کاموں میں خرچ کرتاہے۔

خداکے عطا کردہ مال و ثروت اور فصل کے بارے میں ارشاد ھوتاہے:

((۔۔۔ وَآتُوا حَقَّہُ یوْمَ حَصَادِہِ وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّہُ لاَیحِب الْمُسْرِفِینَ))۔ 25

"اور جب فصل (گندم، جو خرما اور کشمش) کاٹنے کا دن آئے تو ان (غریبوں، مسکینوں، زکوٰة جمع کرنے والوں، غیر مسلم لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لئے، مقروض، فی سبیل اللہ اور راستہ میں بے خرچ ھوجانے والوں) 26 کا حق ادا کردو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتاہے”۔

جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال کو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان کے حقوق کو ضائع کرنے، معاشرہ میں رعب ودہشت پھیلانے اور قوم و ملت کو اسیر کرنے کے لئے خرچ کرتے ھیں، ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتاہے :

(( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ)) 27

"اور یہ فرعون (اپنے کو) بھت اونچا (خیال کرنے لگا)ھے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھیہے”۔

اسی طرح جو لوگ عفت نفس نھیں رکھتے یا جولوگ اپنے کو حرام شھوت سے نھیں بچاتے اور صرف مادی و جسمانی لذت کے علاوہ کسی لذت کو نھیں پہچانتے اور ھر طرح کے ظلم سے اپنے ھاتھوں کو آلودہ کرلیتے ھیںنیز ھر قسم کی آلودگی، ذلت اور جنسی شھوات سے پرھیز نھیں کرتے، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتاہے:

((إِنَّکُمْ لَتَاٴْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ))۔ 28

تم از راہ شھوت عورتوں کے بجائے مردوں سے تعلقات پیدا کرتے ھو اور تم یقینا اسراف اور زیادتی کرنے والے ھو”۔

قرآن مجیدان لوگوں کے بارے میں بھی فرماتاہے جو انبیاء علیھم السلام اور ان کے معجزات کے مقابلہ میں تواضع و انکساری اور خاکساری نھیں کرتے اور قرآن، اس کے دلائل اور خدا کے واضح براھین کا انکار کرتے ھیں اور کبر و نخوت، غرور و تکبر و خودبینی کا راستہ چلتے ھوئے خداوندعالم کے مقابل صف آرا نظر آتے ھیں، ارشاد ھوتاہے:

(( ثُمَّ صَدَقْنٰھُمُ الْوَعْدَ فَاٴَنْجَینٰاھُمْ وَ مَن نَّشَآءُ وَ اٴَھْلَکْنٰا الْمُسْرِفِینَ)) 29

پھر ھم نے ان کے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور انھیں اورا ن کے ساتھ جن کو چاھا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و بر باد کر دیا "۔

9۔ نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنا

بخل اور اضافی نعمت کو مستحقین پر خرچ نہ کرنے کی برائی کو ایک ان پڑھ اور معمولی کسان کی زبانی بھی سن لیجئے:

حقیر تبلیغ کے لئے ایک دیھات میں گیا ھوا تھا، تقریر کے خاتمہ پر ایک محنت کش بوڑھا ھمارے پاس آیا جس کے چھرے پر دن ورات کام کرنے کے آثار ظاھر تھے جس کے ھاتھوں میں گٹھے پڑے ھوئے تھے، اس نے کھا: ایک بزرگوار شخص آتاہے اور ھمیں تیار زمین، بیج اور پانی دیتاہے اور فصل کی کٹائی کے وقت وہ بزرگوار شخص پھر آتاہے اور اس کاشتکار کے پاس آجاتاہے جس کو اس نے زمین، بیج، پانی، سورج کی روشنی، بارش وغیرہ مفت اس کے اختیار میں دی تھی، اور اس سے کھتاھے: اس فصل میں سے زیادہ تر حصہ تیراہے مجھے اس میں سے کچھ نھیں چاہئے لیکن ایک مختصر سا حصہ جس کو میں کھوں اس کو ہدیہ کردو، کیونکہ اس کی مجھے تو بالکل ضرورت نھیںہے، اگر یہ کاشتکار اس زمین سے حاصل شدہ تمام فصل کو اپنا حق سمجھ لے اور ایک مختصر سا حصہ اس کریم کے بتائے ھوئے افراد کو نہ دے تو واقعاً بھت ھی بُری بات ھوگی، اور اس کا دل پتھر کی طرح مانا جائے گا، ایسے موقع پر کریم کو حقہے کہ اس سے منھ موڑلے اور اس کے برے اخلاق کی سزا دے، اور اس کو کسی بلا میں گرفتار کردے، اس کے بعد اس شخص نے کھا: کریم سے میری مراد خداوندکریمہے کہ اس نے ھمیں آمادہ زمین عطا کیہے، نھریں جاری کی ھیں، چشموں کو پانی سے بھر دیاہے، بارش برسائیہے، سورج اور چاند کی روشنی ھمیں دی، ھمیں یہ سب چیزیں عطا کی ھیں جن کے ذریعہ سے ھم مختلف فصلیں حاصل کرلیتے ھیں جو درحقیقت ھمیں مفت حاصل ھوئی ھیں، اس کے بعد ھم سے اپنے غریب بھائیوں کے لئے خمس و زکوٰة اور صدقہ دینے کا حکم دیاہے، اگر ھم ان کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لیں، تو خداوندعالم کو حقہے کہ وہ ھم پر اپنا غضب نازل کردے، اور ھمیں سخت سے سخت سزا میں مبتلا کردے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید فرماتاہے:

((وَلاَیحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُونَ بِمَا آتَاھم اللہُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیرًا لَھم بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَھم سَیطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یوْمَ الْقِیامَةِ وَلِلَّہِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ)) 30

"اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ھوئے میں مال میں بخل کرتے ھیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائیہے ۔یہ بھت براہے، اور عنقریب جس مال میں بخل کیاہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا، اوراللہ ھی کے لئے زمین و آسمان کی ملکیتہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبرہے "-

10۔ نعمت، زائل ھونے کے اسباب و علل

قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں (سورہ اسراء آیت 83، سورہ قصص آیت 76تا79، سورہ فجرآیت 17 تا 20، سورہ لیل آیت 8تا10) سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ درج ذیل چیزیں، نعمتوں کے زائل ھونے، فقر و فاقہ، معاشی تنگ دستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب ھیں:

نعمت میں مست ھونا، غفلت کا شکار ھونا، نعمت عطا کرنے والے کو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلینا، احکام الٰھی سے مقابلہ کرنا اور خدا، قرآن و نبوت اور امامت کے مقابل آجانا، چنانچہ اسی معنی کی طرف درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کرتیہے:

((وَإِذَا اٴَنْعَمْنَا عَلَی الْإِنسَانِ اٴَعْرَضَ وَنَاٴَی بِجَانِبِہِ وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یئُوسًا))۔ 31

اور ھم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ھیں تو وہ پھلو بچاکر کنارہ کش ھوجاتاہے اور جب تکلیف ھوتیہے تو مایوس ھو جاتاہے”۔

نعمت پر مغرور ھونا، مال و دولت پر حد سے زیادہ خوش ھونا، غریبوں اور مستحقوں کا حق نہ دے کر آخرت کی زادہ راہ سے بے خبر ھونا، نیکی اور احسان میں بخل سے کام لینا، نعمتوں کے ذریعہ شروفساد پھیلانا، اوریہ تصور کرنا کہ میں نے اپنی محنت، زحمت اور ھوشیاری سے یہ مال و دولت حاصل کیہے، لوگوں کے سامنے مال و دولت، اور زر و زینت پر فخر کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام، یہ تمام باتیں سورہ قصص کی آیات 76 تا 83 میں بیان ھوئی ھیں۔

یتیموں کا خیال نہ رکھنا، محتاج لوگوں کے بارے میں بے توجہ ھونا، کمزور وارثوں کی میراث کو ہڑپ لینا، نیز مال و دولت کا بجاری بن جانا، یہ سب باتیں حسب ذیل آیات میں بیان ھوئی ھیں، ارشاد ھوتاہے:

(( کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُونَ الْیتِیمَ ۔وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینَ۔وَتَاٴْکُلُونَ التُّرَاثَ اٴَکْلاً لَمَّا۔وَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا))۔ 32

"ایسا ھر گز نھیںہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نھیں کرتے ھو، اور لوگوں کو مسکینوں کے طعام دینے پر آمادہ نھیں کرتے ھو، اور میراث کے مال کو اکھٹا کرکے حلال و حرام سب کھالیتے ھو، اور مال دنیا کو بھت دوست رکھتے ھو”۔

اسی طرح خمس و زکوٰة، صدقہ اور راہ خدا میں انفاق کرنے میں بخل سے کام لینے یا تھوڑا سا مال و دولت حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کے مقابل میں بے نیازی کا ڈنکا بجانے اورروز قیامت کو جھٹلانے، کے بارے میں بھی درج آیت اشارہ کرتیہے:

(( وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنیٰ ۔وَکَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیسِّرُہُ لِلْعُسْریٰ))33

"اور جس نے بخل کیا اور لا پرواھی برتی اور نیکی کو جھٹلایاہے، ھم اس کے لئے سختی کی راہ ھموار کردیں گے”۔

جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ھوجائے تو اس کو خداوندعالم اور اس کے بندوں کی بابت نیکی و احسان کرنے پر مزید توجہ کرنا چاہئے، خداوندعالم کی عطاکردہ نعمتوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت اور اس کے بندوں کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے، تاکہ اس کی نعمتیں باقی رھیںاور خداوندعالم کی طرف سے نعمت او رلطف و کرم میں اور اضافہ ھو۔

11۔ اتمام ِنعمت

تفسیر طبری، تفسیر ثعلبی، تفسیر واحدی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابو السعود، تفسیر فخر رازی، تفسیر ابن کثیر شامی، تفسیر نیشاپوری، تفسیر سیوطی اور آلوسی کی روایت کی بنا پر، اسی طرح تاریخ بلاذری، تاریخ ابن قتیبہ، تاریخ ابن زولاق، تاریخ ابن عساکر، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن ابی الحدید، تاریخ ابن خلکان، تاریخ ابن حجر اور تاریخ ابن صباغ میں، نیز شافعی، احمد بن حنبل، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، دولابی، محب الدین طبری، ذھبی، متقی ہندی، ا بن حمزہ دمشقی اور تاج الدین مناوی نے اپنی اپنی کتب احادیث میں نیز قاضی ابو بکر باقلانی، قاضی عبد الرحمن ایجی، سید شریف جرجانی، بیضاوی، شمس الدین اصفھانی، تفتازانی اور قوشچی نے اپنی اپنی استدلالی کلامی کتب کی روایت کے مطابق34 بیان کیاہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدایت کے تداوم اور و دین کے تحفظ نیز دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے لئے خداوندعالم کے حکم سے امام و رھبر اور فکر و عقیدہ اور اخلاق و عمل میں گناھوں سے پاک شخصیت حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے میدان میں اپنے بعد خلافت و ولایت اور امت کی رھبری کے لئے منصوب فرمایا، اس وقت خداوندعالم نے اکمال دین اور اتمام نعمت اور دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا کہ یھی دین قیامت تک باقی رھے گا، ارشاد ھوا:

(( ۔۔۔الْیوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا۔۔۔))35

"آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کردیاہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیاہے”۔

جی ھاں، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت، حکومت، رھبری اوردین و دنیا کے امور میںآپ کی طاعت کرنا اکمال دین اور اتمام نعمتہے۔

وضو سے حاصل ھونے والی پاکیزگی و طھارت کے سلسلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقولہے : "وضو کا حکم اس لئے دیا گیاہے اور عبادت کی ابتدا اس لئے قرار دی گئیہے کہ جس وقت بندگان خدا اس کی بارگاہ میں کھڑے ھوتے ھیں اور اس سے راز و نیاز کرتے ھیںتو اس وقت انھیں پاک ھونا چاہئے، اس کے حکم پر عمل کریں، اور گندگی اور نجاست سے دور رھیں، اس کے علاوہ وضو کے ذریعہ نیند او رتھکاوٹ بھی دور ھوجاتیہے، نیز عبادت خدا اور اس کی بارگاہ میں قیام و عبادت سے دل کو روشنی اور صفا حاصل ھوتیہے”۔36

اسی طرح غسل و تیمم بھی موجب طھارت ھیں جن کے لئے خداوندعالم نے حکم دیاہے، لہٰذا وضو، غسل اور تیمم اور نماز و عبادت کی حالت حاصل ھونے والے پر قرآن مجید کے مطابق اللہ کی نعمت اس پر تمام ھوجاتیہے:

آخر میں طھارت اور نماز کے بارے میں بیان شدہ آیات پر غور و فکر کرتے ھیں:

(( ۔۔۔مَا یرِیدُ اللہُ لِیجْعَلَ عَلَیکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَکِنْ یرِیدُ لِیطَھرکُمْ وَلِیتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ))۔ 37

"۔۔۔خدا تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نھیں چاھتا بلکہ وہ تو یہ چاھتاہے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح سے اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ”۔

اس قسم کی آیات سے نتیجہ حاصل ھوتاہے کہ خداوندعالم کی طرف سے انسان پر اتمام نعمت معنوی مسائل کو انجام دینے اور احکام الٰھی کے بجالانے، صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونے کی صورت میں وقوع پذیر ھوتیہے۔

1. سورہ نحل آیت114۔

2. سورہ ٴ لقمان آیت 20۔

3. سورہٴ نساء آیت 29۔

4. سورہٴ بقرہ آیت 168۔

5. سورہٴ فاطر آیت 3۔

6. مفردات، 461 مادہ شکر۔

7. سورہٴ سباء، آیت 13۔

8. سورہٴ نحل آیت، 114۔

9. سورہٴ عنکبوت آیت، 17۔

10. (3)اصول کافی، ج2، ص95۔باب الشکر، حدیث 10؛بحار الانوار :6840، باب 61، حدیث 29۔

11. سورہٴ ابراھیم آیت، 28۔29۔

12. سورہٴ لقمان آیت، 27۔

13. سورہ مومنون آیت12۔

14. سورہٴ موٴ منون آیت 13۔

15. سورہٴ مومنون آیت 14۔

16. راز آفرینش انسان ص 145۔

17. راہ خدا شناسی ص 218۔

18. علم و زندگی ص134۔135۔

19. لوز المعدہ: معدہ سے قریب ایک بڑی سرخ رنگ کی رگہے جس کی شکل خوشہ کی مانند ھوتیہے۔

20. جزر ومد : دریا کے پانی میں ھونے والی تبدیلی کو کھا جاتاہے، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ ن گھٹتاہے اس کو ” جزر” کھا جاتاھے اور ایک مرتبہ بڑھتاہے جس کو "مد” کھا جاتاھے، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے ھوتی ہے۔ مترجم

21. گنجینہ ھای دانش ص 927۔
22. سورہٴ نحل آیت، 18۔
23. سورہٴ حمد آیت، 6۔7۔
24. سورہٴ نساء آیت 69۔
25. سورہٴ انعام آیت، 141۔
26.سورہٴ توبہ آیت 60۔
27. سورہٴ یونس آیت 83۔
28.سورہٴ اعراف آیت 81۔
29. سورہٴ انبیاء آیت 9۔
30. سورہٴ آل عمران آیت 180۔
31. سورہٴ اسراء آیت 83۔
32.سورہٴ فجر آیت، 17۔20۔
33. سورہٴ لیل آیت 8۔10۔
34. الغدیر، ج1، ص6۔8۔
35. سورہٴ مائدہ آیت، 3۔
36. (2)عن الفضل بن شا ذان عن الرضا (علیہ السلام ) قال:انما امر بالوضوء و بداٴ بہ لان یکون العبد طاھرا اذا قام بین یدی الجبار عند مناجاتہ ایاہ مطیعا لہ فیما امرہ نقیا من الادناس و الجناسة مع ما فیہ من ذھاب الکسل وطرد النعاس و تزکیة الفوٴاد للقیام بین یدی الجبار۔۔۔”۔

37. سورہٴ مائدہ آیت 6۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button