(باب دوم)حقوق اور فلسفہ احکام
فلسفہ تقلید
سوال ۱۸: ہم تقلید کیو ں کر تے ہیں اور اس کا فلسفہ کیاہے ؟
ہر مسلما ن احکا م شر عی کے فلسفہ کے با رے میں سو چتا ہے اور شا ید ان میں سے بھی فلسفۂ تقلید کے بارے میںوہ زیاد ہ جا ننا چا ہتا ہے کیونکہ اگر وہ ضرورت تقلید کی وجہ کو صحیح طور پر جا ن لے تو مجتہد کے فتاویٰ سے فا ئدہ اٹھا نے کا دروا زہ اس پر کھل جا ئے گا ۔
تقلید کیوں ضروری ہے؟
شریعت ِاسلام میں جو واجبا ت ومحرمات مو جو د ہیں خدا وندتعالیٰ انہیں انسا ن کی دنیا وی اور اخروی سعادت ونیک بختی کے لئے تشریع فر ما تا ہے، اگر انسا ن ان احکا مات کی پا بند ی کرے تو یقینا اس کی یہ سعادت و نیک بختی کا باعث ہو گا اور اگر ان کی نا فر ما نی کر ے تو عذاب الٰہی سے دو چا رہوگا۔
دوسری طرف سے ہر مسلما ن خو د ان احکا م کو قرآن و رو ایات سے یااپنی عقل سے سمجھ نہیں سکتا ، قرآن ِمجید میں توضیح المسا ئل کی طرح شر عی احکام فہرست وارتفصیلات کے ساتھ تولکھے نہیں گئے کہ ہرشخص انہیں سمجھنے پرقا درہو،لہٰذاجب تک پو ری مہارت حا صل نہ کرلی جا ئے اس وقت تک صرف قرآن و روایات کی طرف رجو ع کر کے ا ن احکا مات کو نہیں سمجھا جاسکتا،شرعی احکا م کی معرفت وشناخت کے لئے بہت سے علوم سے وا قفیت ضروری ہے، جیسے آیا ت و رو ایات کے فہم سے وا قفیت حدیثِ صحیح و غیرِ صحیح کی پہچا ن ،آیا ت و رو ایات میں جمع اور بہت سے دوسرے مسا ئل ، ان سب کی تعلیم کے لئے کئی سا ل مسلسل زحمت ومحنت کی ضرو رت ہے، ایسی صورت حا ل میںمکلف کی تین قسمیں بنتی ہیں:
۱۔ خوداس علم کی تحصیل شر وع کر ے ،یہ اجتہا د کر نا کہلا تا ہے ۔
۲۔ ہرمسئلہ میں فقہا کے فتا ویٰ کودیکھے اور اس طرح عمل کر ے کہ کسی کی مخالفت نہ ہو اس کواحتیاط پرعمل کرناکہتے ہیں ۔
۳۔ ایسے مجتہد کے فتویٰ پر عمل کرے کہ جو احکا م ِشر عی کی پہچا ن و معر فت میں ما ہر ہو ۔
واضح ہے کہ اگر انسان خو د مر تبۂ اجتہا د پر فا ئز ہو جا ئے توایسی صورت میںوہ خود احکا م ِ شرعی کا ما ہر ہو گیا ہے، لہٰذااب اسے دوسرے دونوں طریقوں کی ضرو ر ت با قی نہیں رہی ، لیکن جو شخص اجتہا د نہ کر سکے تو اسے لا زمی طو ر پر باقی دو طریقوں میں سے کسی ایک کا انتخا ب کر نا ہو گا ،ان میں سے احتیا ط والاطریقہ بہت مشکل ہے کیو نکہ اس کے لئے ہر مسئلے میں تما م فتاویٰ کو مد ِ نظر رکھنااور احتیاط پر عمل کرنا اکثر مو ا ر د میں زندگی کا نظام درہم برہم کرنے کا باعث بنتا ہے، لہٰذا عا م لوگوں کے لیے معقو ل اور ممکن را ستہ وہی تیسر ابچتا ہے یعنی تقلید کر نا، یہ تین طریقے جو ذکر کئے گئے ہیں صرف احکا م ِشر عی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ بلکہ جس مسئلے میں مشکل پیش آئے گی وہاں ان تین طریقوں میں سے ہی کسی ایک کو اپنایا جا ئے گا،مثلا ً فر ض کر یں ایک ما ہر انجینئربیما ر ہو جا ئے تو اس کے لئے علاج کے یہی تین طریقے ہو ں گے یاتو خودوہ علم طب حا صل کر ے اور اس شعبے میں صا حب نظر ما ہر بن جا ئے یا سب ڈاکٹر وں کے نظریا ت کا مطالعہ کرے اور ممکنہ طور پر ایسی احتیا ط کر ے کہ بعد میں پشیمانی نہ ہو یا کسی ماہر ڈاکٹرکی طر ف رجو ع کر ے، پہلے طریقے میں بیما ری کے جلدعلا ج کی کوئی توقع نہیں ہے، دوسرا طریقہ بھی بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کا م سے بھی جائے گا، پس اس کے پا س صر ف آخر ی طریقہ بچتا ہے کہ کسی ما ہر ڈا کٹر سے مشو رہ کر ے اور اس کے مشورے پر عمل کرے ۔