اسلامی حکومتکتب اسلامی

حکومت کے اختیارات

سوال۱۹:اسلامی حکومت میں الٰہی حکمرانوں اور پیغمبرِاکرم ؐاورآئمہ معصومین ؑکے اختیارات میں کیا فرق ہے ؟
حکومتی اختیارات کے اعتبار سے پیغمبر ؐ ، امام ؑ اور ولی فقیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، کیونکہ حکومتی اختیارات سے مقصود وہ اجتماعی ضروری معاملات ہیں جن کے بغیر حکومت کے پاس اپنے مقاصد اور اہداف کو پورا کرنے کے لیے یعنی معاشرے کی سعادت اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری قدرت و توہوئی نہیں ہوتی ۔
ولایت مطلقہ سے مراد بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ، البتہ پیغمبر اکرمﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی اس کے علاوہ بھی حیثیت اور مقام و مراتب تھے جو انہی سے مخصوص تھے ، لیکن ان کا حکومتی معاملات اور امور میں اختیارات سے کوئی تعلق نہیں ہے، چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کو لوگوں کے ذاتی اور انفرادی معاملات میں مداخلت کا حق تھا ، لیکن ولی فقیہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے ، کیونکہ اس مسئلے کا اجتماعی اور حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

معصومینؑ کے حکومتی اختیارات
امام خمینیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں :
یہ خیال کرنا کہ رسول اکرمﷺ کے حکومتی اختیارات حضرت امیرؑ سے زیادہ تھے، یا حضرت امیرؑ کے حکومتی اختیارات فقیہ سے زیادہ ہیں ، غلط اور باطل ہے، البتہ حضرت رسول اکرمﷺ کے فضائل تمام کائنات میں سب سے زیادہ ہیں، ان کے بعد حضرت امیر المومنینؑ کے فضائل سب سے زیادہ ہیں ،لیکن معنوی فضائل حکومتی اختیارات میں اضافے کا باعث نہیں بنتے ۔ وہ تمام اختیارات اور ولایت جو افواج کو منظم کرنے اور انہیں مسلمانوں کے مفادات کے لیے خرچ کرنے کے حوالے سے حضرت رسول خدا ؐ اور دیگر آئمہؑ کو حاصل تھے وہی اختیارات اللہ تعالیٰ نے موجودہ حکومت کو بھی عطا کیے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ یہاں کوئی معیّن شخصیت نہیں ہے ، ’’ عالم عادل ‘‘ کے عنوان سے اختیارات ہیں ۔ (۱)
امام خمینیؒ مذکورہ مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس نکتہ پر زور دیتے ہیں کہ مقامات تکوینی اور مقامات اعتباری کے درمیان فرق ہے ۔
مسئلہ ولایت ، سربراہی اور حکومت کے معنی میں ایک اعتباری چیز ہے جو شارع نے با صلاحیت افراد کے سپرد کیا ہے ؟ لیکن جو بھی قیادت اور حکومت اور اجتماعی امور کو
چلانے کیلئےلیے درکار ضروری اختیارات ہونے چاہیں ۔ اس بناء پر اس بارے میں پیغمبر اکرم ﷺ ،امامؑ اور ولی فقیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، جو فرق ہے ، وہ یہ ہے کہ ولایت تکوینی اور معنوی مقامات میں ولایت حقیقی ہے جبکہ حکومت سے ماورائے معاملات میں بھی ولایت اعتباری ہے ، لہٰذا وہ فرماتے ہیں :
امام ؑکے لیے حکومت کے فریضے سے ہٹ کر معنوی مقامات ہیں اور وہ خلافت کلیّہ الٰہی ہے جس کا اظہار کبھی کبھی آئمہ ہدیٰ ؑ کی زبان مبارک سے ہوا ہے ، یہ ایسی خلافت تکوینی ہے کہ جس کے سبب ’’ولی امر ‘‘ کے سامنے تمام ذرات خاضع ہیں ۔ (۲)
ایک اور جگہ پر وہ فرماتے ہیں :
’’ولایت ِ فقیہ ‘‘ عقلائی اعتباری امور میں سے ہے اور اس کی حقیقت صرف ( شارع کی طرف سے ) مقرر کرنا ہے اوران موارد میں معقول نہیں ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور امام ؑ کا فقیہ کے ساتھ کوئی فرق اور تفاوت ہو۔(۳)
جو چیز اس غلط فہمی کا باعث بنی ہے کہ بعض افراد حکومتی دائرہ کار میں پیغمبر اکرم ؐ اور فقیہ کے درمیان اختیارات کے حوالے سے فرق خیال کریں ، وہ یہ ہے کہ انہوں نے حکومتی امور میں پیغمبر ِاکرم ﷺ کے لیے حد سے زیادہ اختیارات سمجھ لیے ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے ، آنحضرت ؐ کے حکومتی اختیارات ، معاشرے کو چلانے اوراس کی قیادت و راہنمائی کے لیے ضروری اختیارات سے بڑھ کر نہیں ہیں ، دیگر حکومتوں سے اس کا فرق یہ ہے کہ ان کی بنیاد دینی تعلیمات اور احکام اور اجتماعی مفادات پر استوار ہے ۔

(حوالہ جات)
(۱)امام خمینی ؒ ، ولایت فقیہ ، ص ۴۰ ، طبع ہفتم ، ۱۳۷۷
(۲)امام ، خمینی ؒ ، ولایت فقیہ ، ص ۴۲ ، ۴۳
(۳) حوالہ سابق ، ص ۴۱

Related Articles

Back to top button