Ikhlaq o falsifa e ahkamکتب اسلامی

غصہ اوربردباری

سوال ۶: غصے کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے اور حلم و بر د با ری کو کیسے حا صل کیا جاسکتا ہے ؟
پہلے تو یہ با ت ذہن میںبٹھا لینی چا ہیے کہ بے جا غصہ و ہ شیطا نی آگ ہے جو انسان کے اند ر جلتی ہے اور انسا ن کو ابدی آگ میں دھکیل دیتی ہے، امام محمد با قر علیہ السلام نے فر ما یا:
ان ھذا الغضب جمرۃ من الشیطا ن تو قد فی قلب ابن آدم … (۱)
غصہ شیطانی آگ کا وہ شعلہ ہے جو انسان کے دل میں بھڑکتا ہے ۔
نیزآپؑ نے فرمایا:
ان الرجل لیغضب فما یرضی ابد اً حتیٰ ید خل النار…(۲)
ایک شخص غصہ کر تا ہے اور اس میںآگے بڑھتا چلاجا تا ہے اور راضی نہیں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں داخل ہو جا تا ہے
جبکہاس کے مقابل حلم و بر د با ری تو راہِ خدا پر چلنے کی سب سے بڑی آرزو کو پورا کر تی ہے اور وہ آرزو ہے رضوا نِ الٰہی کو پا نا۔
اما م صادق ؑنے فرمایا:
من کظم غیظاً ولو شاء ان یمضیہ امضا ہ املا اللہ قلبہ یوم القیامۃ رضاہ (۳)
جو شخص غصہ پی جا ئے اس حا ل میں کہ اگر اسے عملی کر نا چاہے تو کر سکتا ہو، خدا وند تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو رضا و رضوا ن سے بھر دے گا۔
ضرور ت اس امر کی ہے کہ انسا ن اپنے غصے اور بد اخلا قی سے اپنے نفس کو پاک و صاف کر نے اور اپنے آپ کو زیو رِ حلم سے مزین کر نے کا مصمّم ارادہ کر لے، اس راستے میں مسلسل کوشش اور با قا عدہ جہا د کی ضرور ت ہے۔ (۴)
لہٰذا حلم و بر د با ری کی تقویت کے لئے ایک با قا عدہ پر وگر ام کے مطا بق اپنے ارادے کو مضبو ط کر نا ہو گا اورہمیشہ اپنے آپ پر کنٹر ول رکھنا ہو گا ، اس با رے مختلف طریقے موجود ہیں ،وہ جو سب سے اہم ہے وہ آپ کا اپنا مصمّم ارادہ ہے اور پھر یہاں جو طر یقے ذکر کئے جا رہے ہیں ان پر مؤ بہ بغیر کسی کمی و کا ستی کے عمل پیر ا ہو نا ہے۔
۱۔ آپ یقین کر لیں کہ آپ اپنے اندر تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن نتیجے میں جلدی نہ کریںاورنہ ذہن میںیہ رکھیں کہ ایک لمبی مد ت تک آپ کو اپنے رو یے اور بر تاؤکو کنٹر ول میں رکھنا ہو گا،ا گر آپ نے ایسا کر لیا تو پھر سمجھ لیں کہ آپ نے اپنے روّیو ں کو بد ل لیا ہے۔
۲۔ کسی بھی چیز کے با رے میں زیا دہ حسا سیت وجذ باتیت سے پر ہیز کریں۔
۳۔ ہر مسئلہ میں دوسروں سے بر ے رویے کی تو قع رکھیں اور اپنے آپ کو اس کے برداشت کر نے پر آما دہ رکھیں ،یہ چیزباعث بنے گی کہ اچھے رویے آپ کے لئے خو شحالی کا باعث بنیں گے ور نہ اگر دوسروں سے اچھے رویے کی تو قع کریں تو ہو سکتا ہے کہ نتیجہ برعکس ملے۔
۴۔ اپنے آپ سے عہد کریں کہ کبھی بھی کسی حا لت میں کسی سے بد اخلا قی سے پیش نہیں آئیں گے ،اگر کبھی اتفا قاً ایسا کربیٹھیں تو اپنے آپ کو جر ما نہ کریں مثا ل کے طور پر آپ اپنے ساتھ عہد کریںیا منت ما نیں کہ اگرآپ نے کسی کے سا تھ زیا دتی یا بد تمیزی کی تواتنے پیسے صدقہ دو گے یا نما ز شب پڑھوگے یا روزہ رکھو گے۔(۵)
تو یہ طریقہ بہت زیادہ مفید ہے اور بہت سے بز رگوں نے نفس کی تربیت کے ابتد ائی مراحل اسی طریقے سے طے کئے ہیں۔
۵۔ ایسی سیراور تفریح جو ارادہ کو مضبو ط کرتی ہے جیسے کو ہ پیما ئی ، تیر اکی، پیا دہ روی ، دوڑاور طبعی منا ظر کی سیر جیسی چیزوں سے استفا دہ کریں ۔
۶۔ کو ئی فیصلہ کر نے سے پہلے عقلمند اور تجر بہ کا ر افرا دسے مشو رہ کریں اور جلدی میں بغیر سوچے سمجھے اقدا ما ت سے پرہیز کریں۔
۷۔ ایسے افرا د کو دوست بنا ئیں جو خوش اخلا ق اور غصہ نہ کرنے والے ہوں۔
۸۔ ایسی جگہوں پر نہ جا ئیں جہا ں غصہ و بد اخلا قی کے زیا د ہ امکا نا ت ہو ں بلکہ ایسی جگہوں پر جائیں جہا ں تند رو یے پیش نہیں آتے ، نیز ان حالا ت سے اپنے آپ کو دو ر رکھیں جو آپ کی تلخی کا با عث بن سکتے ہیں۔
۹۔ ہر کا م سے پہلے ا س کے انجا م کے با رے میں غو ر و فکر کریں اس کے بعد اقد ام کریں اس طریقے پر مسلسل مشق سے آپ آہستہ آہستہ تما م امو ر کے با رے اپنے رویو ں میں یہ طریقہ اپنا لیں۔
۱۰۔ دوسروں کی جو با تیں اور عاد ات آپ کے غصے کا با عث بنتی ہیںان سے بے پر وا ہی برتیں مثلا ً اگر کو ئی اپنی غلط با ت سے آپ کو غصہ دلاتا ہے تو اس کی با تو ں کو نہ سنو یا جہاں وہ ہے آپ وہا ں سے چلے جا ئیں، اس کی با تو ں کو نہ سنو اورنہ انہیں ذہن میں دھر اؤ ،اُسی طرح دوسر ے کا م یا کسی کی بداخلاقی آپ کے غصے کا با عث بنتی ہے تو اس کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنا ؤ۔
۱۱ ۔ اچھا ئی و بر ائی اور نا پسند ید ہ صفا ت کے با رے میں مطا لعہ اور غو رو فکر کے ذریعے اپنی معلو مات کو وسیع کریں نیزیہ کہ کیسے تند خو ئی و تند رو ی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ،اس بارے آیات ، روایات اور حکایا ت کا مطالعہ کریں اور ان پر غور و فکر کریں اور جہا ں منا سب نظر آئے وہاں اپنی بداخلاقی اور تند روی کو بھی ذہن میں لائیں تا کہ اندرونی طور پر ایک تنبیہ کی کیفیت پید ا ہو، اسی طرح اس بر ی صفت کے فر دی و اجتما عی نقصانات اور بر ے نتا ئج کو بھی اپنے ذہن میں حا ضر کریں، ان کی بر ائی کے اوپر توجہ کریں تا کہ اند ر سے اس بر ے عمل کے بارے میں نفر ت جا گ اٹھے۔
۱۲۔ جس وقت غصہ و تند رو ی آپ میں پیدا ہو تو جلدی سے اپنی حالت بدلیں مثلاً اگر کھڑے ہیں تو بیٹھ جا ئیں اور اگر بیٹھے ہیں تو لیٹ جا ئیں ،اپنے منہ پر ٹھنڈے پا نی کے چھینٹے ڈالیں ایک گلاس پا نی پئیں اور اپنے آپ کو اس جگہ سے دو ر کر لیں۔
۱۳۔ روزانہ کئی دفعہ قرآن کی تلا وت سے غفلت نہ برتیں ، قرآن اندرو نی اطمینا ن و سکون کے لئے بہت زیا دہ مؤ ثرہے، اپنی عبا دات جیسے نما ز کو اوّل وقت میں انجا م دیں ،مکمل حضور قلب کے ساتھ یہ چیز بھی بہت زیا دہ با طنی سکو ن کا با عث ہے۔
۱۴۔ جب نہا کر غسل خا نے سے نکلنے لگیں تو دونو ں پاؤں کو ٹھنڈے پا نی سے دھو ئیں۔
۱۵۔ اپنے روزانہ کے دوسر ے کا م مکمل اطمینان کے سا تھ بغیر جلدی کے انجا م دیں، انہیں مکمل سکو ن کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا انجا م دیں تا کہ آپ کے تما م کا موں میں اطمینا ن و سکو ن اور حو صلہ مندی حا کم ہو جائے۔
مذکورہ با لا نکا ت کو ایک جد ول میں لکھ لیں اورپھر دیکھیں کہ کس نکتہ پر آپ نے عمل کیا ہے اورکس کی مخالفت کی ہے ؟اس کے سامنے نشا ن لگا لیں اور پھر مسلسل کو شش کریں کہ مخالفت کے مواردمیںکمی ہو اور اپنے آپ کو زیا دہ سے زیا دہ ان پر عمل کے حوالے سے پا بند و مجبو ر کریں ،حتیٰ کہ ایسی صور ت حا ل کے پید ا ہو نے سے پہلے اور ہمیشہ کے لئے ان نکا ت کو اپنا معمول زند گی بنا لیں، اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کی بد اخلا قی کے مو ا رد کم ہو رہے ہیں اور انہیں بھی لکھ لیں اور آہستہ آہستہ ان میں بھی کمی کر تے چلے جا ئیں۔
۱۷۔ ایک ایسا دوست بنا ئیں جس سے را ز کہہ سکیں اس کے سا تھ آپ کا ایسا گہرا اور صمیمی تعلق ہو کہ جس کہ سا تھ غیراہم مواردکے با رے میںبھی در د دل بیان کر سکیں ،بغیر اس کے کہ اسے وقت کے ضائع کر نے کا احسا س ہو، اسے ٹیلی فون کر یں اور اس مسئلے پر اس سے گفتگو کریں، جیسے ہی جسمانی یا ذہنی مشکل پیش آئے اس پر اعتما د کرتے ہو ئے اسے اپنی مشکل بیا ن کر کے آپ اپنا بو جھ ہلکا کر سکتے ہیں۔
۱۸ ۔ کھلی طبیعت اپنائیں ،اپنے منفی اور تند احسا سا ت کومشق کے ذر یعے مثبت احسا سا ت میں تبدیل کریں،لیکن مز احیہ پن دوسروں کی تحقیر کی حد تک نہ چلا جا ئے کہ اس سے بھی تند روی کا اظہا رہو،ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے مز اج کے ذریعے دوسروں کی تو ہین کریںیا اخلا ق سے گرے ہو ئے مزاح کے ذریعے آپ دوسرے سے انتقا م لینے پر اتر آئیں۔
پس مزاح کے ذریعے بھی اپنے مسا ئل و مشکلا ت میں کمی کی جا سکتی ہے کیونکہ مزاح کے نتیجے میں ہنسنے ہنسانے سے انسان کے اندر ایک مثبت جو ش پیدا ہو جا تا ہے جو کہ آہستہ آہستہ غصیلی طبع کو ختم کر دینے کا با عث بنتا ہے۔

۱۹۔اعصابی تحریکا ت سے پرہیز
بعض چیزیںطبعی طور پر اعصابی نظا م اوردل کی دھڑکن کو تیزکرنے کا با عث بنتی ہیں گیس والی بو تلیں ، ٹافی، چاکلیٹیں اور بعض ممنو عہ ادویا ت تیز طبعیت والے افرادمیں اپنے ماحول کے با رے میں شدید ردِ عمل کا با عث بن سکتی ہیں یہا ںتک کہ انسان ضروری جگہو ںپر مناسب رویے کا اظہا ر نہیں کرپاتا،وہ سکو ن و آرام حا صل کر نے کے لئے بر وقت اپنے سمپاٹیک سسٹم سے استفادہ نہیں کر سکتااور لہٰذا کا فی دیرتک غصے کی حالت میں باقی رہتاہے ،لہٰذا ہما را مشورہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعما ل سے حتیٰ الوسع پرہیزکیا جا ئے۔
۲۰۔ اجتما عی اور تعلقا تی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں، جن لوگوں میں روابط برقرارکرنے کی صلاحیتیں کمزور یا نا منا سب ہو تی ہیں وہ زیا دہ ترغصیلی طبیعت والے ہو تے ہیں۔(۶)
لہٰذا دوسروں کے لئے نیک خدما ت میں (رفا ہی کاموں میں) اپنا زیا دہ وقت لگانا بھی اس چیزکوکم کرنے میں بہت مؤثر ہے اور دوسروں کے ساتھ ارتبا ط و ہم بستگی کا احسا س بھی بڑھ جا تا ہے ، اس طرح کے رفا ہی کا موں میں شرکت آدمی کے اند ر جذبۂ ایثا ر کو زیا دہ کرتی ہے اور جب دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ زیاد ہ ہوگا تو انسا ن ان کے با رے میں زیادہ معرفت حا صل کرنے پر بھی قا در ہو جا ئے گا اور یوں ان کے جذبات کے ادراک کرنے سے انسا ن ان کے با رے میں بد گمانی کا شکا ر نہیں ہوگا اور ان کا موں کے با رے میں عادلانہ رائے اپنا لے گا، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان دشمنی ، منفی احسا س اور غصے پر مبنی افکا ر سے ہٹ کر سو چے گا اور اپنے آپ کو آرام وسکو ن دے سکے گا، کیونکہ دوسروں کے ساتھ منفی رویوں کی بڑی وجہ انسان کی دوسروں کے با رے میںاپنی سوچیں ہیں۔

(حوالہ جات)
(۱) محمد بن یعقوب کلینی ، اصول کا فی ج ۲ / ص ۳۰۴
(۲) اصول کافی ج۲ /ص ۳۰۲
(۳) اصول کافی ج۲ /۱۱۰
(۴) مقا لا ت ،محمد شجا عی ، ج ۲/ ص ۲۳۴۔۲۰۸
(۵) یہ معنو ی جر ما نہ انسان کو نیک عمل کے بارے میں منفی نظر اپنا نے کا با عث نہ بن جا ئے بلکہ اسے ایک تیر سے دو نشانے کے عنو ان سے لیں یعنی ایک طر ف سے اس عمل کے ذریعے معنوی ترقی اور خدا کا قر ب حا صل کریں اور دوسری طر ف سے بر ی صفات سے جا ن چھڑا ئیں ۔
(۶) (کا رل ہا ف مین ا ور دوسر ے ساتھی )رو انشناسی عمومی از نظریہ تا کا ر بر د ، ترجمہ سیا لک نقشبندی اور سا تھی /ص ۳۰۹

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button