Nasihatenکتب اسلامی

کائنات میں امام زمانہؑ کے وجود کا اثر

سوال ۸۲:۔حضرتِ حجتؑ کائنات کے لیے کیا فائدہ رکھتے ہیں؟ آپ تو غائب ہیں اور کوئی حکومت بھی تشکیل نہیں دی، درست ہے کہ آئندہ حکومت تشکیل دیں گے، پس اس وقت عالم میں آپ کا اثر کیا ہے؟ کیا آپ کا وجود فائدہ رکھتا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے چند مطالب کا ذکر ضروری ہے۔
۱ ۔ انسان قرآنِ کریم کے حکم کے مطابق خداوندِمتعال کی طرف حرکت میں ہے اور اس کے سفر کا اختتام ملاقاتِ الٰہی ہے۔
یَاأَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ(۱)
اے انسان تو اپنے پروردگار کی حضوری کی کوشش کرتا ہے تو تو (ایک نہ ایک دن) اس کے سامنے حاضر ہوگا۔
انسان اس مقصد تک رسائی کے لیے دو بنیادی محور ملکی (ظاہری) اور ملکوتی (باطنی) کا محتاج ہے، پھر انسان محورِ ملکی و ظاہری میں رہبر کا محتاج ہے جو کہ وہی بحث امامت ومعاشرہ سازی، حکومت چلانا اور نظام کی رہبری کرنا ہے، دوسرا محور جو کہ پہلے محور سے بہت ہی اہم ہے اور اس کی بنیاد شمار ہوتا ہے، وہ رہبرِ باطنی و ملکوتی ہے، یہ حرکت حرکتِ عمودی و طولی ہے، جس کو (صیرورت) بھی کہتے ہیں یعنی انسان اپنے باطن میں متعدد مراتب و منازل کا سفر کرتا ہے اور ان منازل کو طے کرنے کے لیے رہبر کی ضرورت کا انکار نا پذیر ہے۔
سیر یعنی وہ ظاہری حرکت جو تمام اجرامِ زمینی و آسمانی میں وجود رکھتی ہے لیکن صیرورت یعنی تحول اور ایک نوع سے دوسری نوع اور ایک منزل سے دوسری منزل میں تکامل پانا۔
ایک گاڑی جو تیزی سے شاہراہ پر آگے بڑھ رہی ہے اور ایک پھل جو کہ مختلف مراحل کو طے کرتا ہے، دونوں متحرک ہیں لیکن پہلی حرکت کو سیر اور دوسری حرکت صیرورت کی طرح ہے، یعنی پھل نے مٹی سے حرکت کی اور شگوفہ کے مرحلہ تک پہنچا اور اس کے بعد کچے پکے پھل میں تبدیل ہوا ہے، اس ہونے کو جو کہ باطنی حرکت ہے صیرورت کہتے ہیں، انسان بھی بغیر استثناء کے اپنے باطنی تحول و صیرورت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، جس کی انتہاء لقاء حق تبارک و تعالیٰ ہے۔
۲۔ جب معلوم ہو گیا کہ انسان حالتِ تحولِ باطنی میں ہے اور خدا کی طرف متحرک ہے تو ضروری ہے کہ کوئی حرکت دینے والا بھی ہو کیونکہ ہر حرکت میں متحرک، محرک، راستہ، ابتدا، انتہا(ہدف) کا وجودضروری ہے اور سب سے مہم تر ایک رہبر کا وجود متحرک کو اس کے آخری ہدف تک ہدایت کرتاہے۔
۳۔ انسان کے عادی و مادی امور کے علاوہ اس کے تمام عبادی و باطنی اعمال بھی رہبر کے محتاج ہیں یعنی جیسا کہ انسان کی معاشرتی زندگی، امور ظاہری اور معاشی کو پورا کرنا رہبر کا محتاج ہے (اس کی) تمام عبادات و اعمال باطنی بھی جو کہ اندرونی تحول کے ہمراہ ہیں ایک محرک و رہبر کے محتاج ہیں تاکہ وہ انہیں ہدایت دے اور منزل مقصود (قرب الی اللہ) تک پہنچائے۔
۴۔ آئمہ معصومین ؑمعاشرہ کی ظاہری و ملکی رہبری کے علاوہ انسانی معاشرہ کی ملکوتی رہبری کے بھی ذمہ دار تھے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ انسان کی باطنی حرکت اہمیت کے لحاظ سے ظاہری، ملکی، دنیاوی حرکت سے قابل مقائسہ موازنہ نہیں۔
۵۔ اگرچہ غیروں نے آئمۃ اطہارؑ سے ظاہری رہبری کو چھین لیا اور انہیں خانہ نشین کر دیا لیکن انسانوں کی اور انسانی معاشروں کی ملکوتی رہبری ان کے وجود مقدس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
۶۔ نماز، روزہ، زکوۃ اور دیگر عبادات ہر ایک خداوندِمتعال کی طرف، خاص صعودو تقرب رکھتی ہیں۔
إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ(۲)
اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند کرو) پہنچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خود بلند کرتا ہے۔
یہ صعود صیرورت کی طرح کی حرکت ہے اور مسلّما محرک و رہبر کی محتاج ہے یعنی ضروری ہے کہ ایک انسان کامل ہو کہ جس کا عمل صالح بندوں کے اعمال کو اوپر لے جائے اور ان کی رہبری کرے تاکہ درگاہ الٰہی میں وہ قبولیت تک پہنچیں، یہ انسان کامل وہی امامِ معصوم ہے کہ جس کی نماز ہر متقی کی نماز کی امامت کرتی ہے اور حج، زکوٰۃ اور اس کے تمام اعمال بندگانِ صالح کے اعمال کو بارگاہِ الٰہی تک پہنچنے میں رہنمائی کرتے ہیں، اس بنیاد پر جو شخص اوّل وقت نماز قائم کرتا ہے، وہ اپنے زمانہ کے امام کی اقتداء کرتا ہے کیونکہ امامِ زمانؑ ہمیشہ اوّل وقت نماز پڑھتے ہیں، ہر شخص جہاں بھی اگر اوّل وقت نماز پڑھے، اس بافضیلت عمل میں اپنے امام ؑ کی اقتدا کرتا ہے یعنی اس کی نماز، نمازوں کے اس کاروان سے مل جاتی ہے، جو ولی خدا کی امامت میں خدا کی طرف اوپر حرکت کر رہی ہیں۔
۷ ۔ درج بالاباتوں سے معلوم ہوا کہ وجودِ مقدس حضرت مہدی ؑ تمام انسانوں اور ہر چیز جو تحول رکھتی ہے کی ملکوتی رہبری کے ذمہ دار ہیں، وہ اذن الٰہی سے مدبرامور ہیں، خلقت، ہدایت، علاج، زندگی، موت ان کے وسیلے سے متحقق ہوتی ہے، اس وجہ سے ہم آئمہ معصومین ؑ کو واسطۂ فیضِ حق اور روزیٔ خلایق کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔(۳)
ان کا وجودِ مقدس دو ہاتھوں کی طرح ہے کہ ایک ہاتھ سے ارزاق، مقدراتِ اور خلائق کو درگاہ الٰہی سے دریافت کرتے ہیں اور کائنات میں تقسیم کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے بندگانِ صالح کے اعمال کی عرشِ الٰہی تک رہبری و ہدایت کرتے ہیں، اگر ولی اللہ الاعظم کسی عمل پر دستخط کر دیں تو وہ قطعی طور پر خدا کے نزدیک قابلِ قبول ہے، وگرنہ انسان کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا، اسی وجہ سے زیارت جامعۃ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں:
بِکُمْ فَتَحَ اللّٰہُ وَبِکُمْ یَخْتَمُ، وَبِکُمْ یُنَزَّلُ الْغَیْثَ، وَبِکُمْ یُمْسِکُ السَّمآئَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلاَّبِاذْنِہٖ ، وَبِکُمْ یُنَفَّسُ الْھَمَّ وَ یَکْشِفُ الضُّرَّ ۔(۴)
خدانے آپ کے وسیلے سے شروع کیا اور آپ ہی ختم کرے گا۔آپ کی خاطر بارش برساتا ہے اور آپکے وسیلے سے آسمان کوزمین پر آنے سے تھامے رکھا ہے اور یہ سب اسکی اجازت سے ہے۔آپکی خاطر غم کو دور کیا اور سختی کو بر طرف کیا۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
اِنْ ذُکِرَالخْیَرُکُنْتُمْ اَوّلَہُ ،وَاَصْلَہُ ، وَفَرْعَہُ ، وَمَعْدِنَہُ وَمُأُوَیہُ وَمُنْتَھاہُ (۵)
جب بھی خیرو خوبیاں یاد ہونگیں آپ ہی اس کی اصل اور فرع ہیں اور آپ ہی اس کے معدن، ٹھکانہ اور آخری سر حد ہیں۔
اور شاید بعض روایات اور آئمہ معصومینؑ کی دعائوں کا راز اسی امر میں چھپا ہوا ہے، اگر زمین امامؑ کے بغیر ہو تو اس کا نظم و ضبط برباد ہو جائے۔(۶)
کہاںہے وہ وسیلہ جو آسمانی فیوضات کو اہل زمین تک پہنچاتا ہے۔ (۷)
اس کی بقاء سے دنیا باقی ہے اور اس کی خیروبرکت سے تمام مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔(۸)
شایدشبِ قدر میں دعا فرج پڑھنے کا راز یہی بات ہو۔
(حوالہ جات)
(۱) سورہ اشفاق آیت ۶
(۲)سورہ فاطر آیت ۱۰
(۳) تفسیر موضوعی قرآن آیۃ اللہ جوادی آملی ج۱۴،ص۱۲۰۔۹۷ (خلاصہ مطالب یہاں درج ہے)
(۴)۔ مفاتیح الجنان زیارت جامعہ کبیرہ ۳
(۵)مفاتیح الجنان زیارت جامعہ کبیرہ
(۶) اصول کافی ج۱،ص ۱۷۹
(۷) مفاتیح الجنان دعائے ندبہ
(۸)۔ بقا ء بقیت الدنیا و بیمنہ رزق الوریٰ

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button