حضرت علیؑ کا قصیدہ
عدی بن حاتم امام علیؑ کے اصحاب اور عاشقوں میں سے تھے،وہ رسول اکرم ؐکی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اسلام لائے تھے،امام علیؑ کے دور خلافت میں وہ آپؑ کی خدمت میں رہتے تھے،ان کے تین بیٹے طریف،طرفہ اور طارف آپؑ کی رکاب میں شہید ہوئے تھے،امام علی ؑ کی شہادت کے بعد ایک روز اتفاق سے عدی کی ملاقات معاویہ سے ہوگئی،معاویہ نے اس غرض سے کہ عدی کے دل میں ان کے بیٹوں کا غم تازہ کر کے انہیں امام علیؑ کے بارے میں اپنی خواہش کے مطابق گفتگو کرنے پر آمادہ کرے کہا:’’این الطرفات؟‘‘یعنی تمہارے بیٹے طریف،طرفہ اور طارف کہاں ہیں؟
عدی نے بڑی متانت سے کہا:’’قتلوا بصفین بین یدی علی بن ابیطالب‘‘ یعنی وہ صفین میں علیؑ کے آگے آگے شہید ہوگئے،انہوں نے اپنی رضا مندی اور فخر کے اظہار کے طور پر ’’علیؑ کے آگے‘‘کے الفاظ کا بالخصوص اضافہ کیا۔
معاویہ نے کہا:’’ما انصفک ابن ابی طالب اذ قدم بنیک و اخّر بنیه‘‘ یعنی علیؑ نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا،انہوں نے تمہارے بیٹوں کو تو محاذ جنگ پر آگے بھیج دیا تاکہ وہ مارے جائیں اور اپنے بیٹوں کو پیچھے رکھا تاکہ وہ زندہ رہیں۔
عدی نے جواب دیا:’’بل ما انصفت انا علیاً اذ قتل و بقیت‘‘نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے علیؑ کے ساتھ انصاف نہیں کیا کیونکہ وہ تو شہید ہوگئے مگر میں زندہ ہوں۔
معاویہ نے کہا:ابھی تک خون عثمانؓ کا ایک چھینٹا باقی ہے جو اس وقت تک نہیںدُھل سکتا جب تک میں یمن کے کسی سردار کو قتل نہ کرلوں،ان الفاظ کے ذریعے معاویہ نے عدی کو دھمکی دی تو عدی نے کہا: معاویہ!جو دل تیرے بغض سے بھرے تھے وہ ابھی تک ہمارے سینوں میں دھڑک رہے ہیں اور وہ تلواریں جن سے ہم نے تیرا مقابلہ کیا تھا ابھی تک ہمارے کندھوں پر لٹک رہی ہیں،اگر تو مکرو حیلے سے ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا تو ہم ڈٹ کر تیرا مقابلہ کریں گے،ہمیں یہ تو گوارا کہ ہماری گردنیں کٹ جائیں مگر ہمیں علیؑ کی مذمت میں ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں،اگر تم نے دھوکا دیا تو اس سے نہ ختم ہونے والی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے اور تلواریں ڈابوں سے نکل آئی گی۔
معاویہ نے دیکھا کہ اس کا منصوبہ کامیاب نہیں ہورہا تو اس نے ہنس کر عدی سے گفتگو شروع کردی اور بولا:’’صِفْ لِي عَلِيّاً ‘‘یعنی میرے سامنے علیؑ کے اوصاف بیان کرو۔
عدی نے کہا:مجھے معاف رکھو۔
معاویہ نے کہا:یہ ناممکن ہے۔
اس پر عدی نے کہا:
خدا کی قسم!علیؑ بہت دور اندیش اور شجاع تھے،ان کا کلام مبنی بر عدل اور فیصلہ دوٹوک ہوتا تھا،ان کے اندر سے علم و حکمت کا سرچشمہ پھوٹتا تھا،وہ دنیا کی چمک دمک پر فریفتہ نہیں تھے،رات کی تاریکی اور تنہائی سے مانوس تھے،بہت گریہ کرنے والے اور بہت سوچ بچار کرنے والے تھے،خلوت میں اپنے نفس کا خوب محاسبہ کرتے اور گزرے وقت پر ندامت کے آنسو بہاتے تھے،معمولی لباس پہنتے اور سادہ طرز زندگی کو پسند کرتے تھے،جب ہمارے درمیان ہوتے تو ہم ہی جیسے ہوتے تھے اگر ہم ان سے کوئی چیز مانگتے تو ہمیں مہیا کردیتے تھے،اگر ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ہمیں اپنے پاس بٹھاتے تھے،ہم سے ہٹ کر نہیں بیٹھتے تھے،اگرچہ انہوں نے اپنے بارے میں کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی تھی لیکن ان کا جلال ہی اتنا تھا کہ ہمیں ان کے سامنے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور ان کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ہم آنکھ اٹھا کر ان کی طرف دیکھ نہیں سکتے تھے،جب وہ مسکراتے تھے تو ان کے دانت موتیوں کی لڑی کی طرح نظر آتے تھے،وہ دیانتداراور پرہیزگار لوگوں کا احترام کرتے تھے اور بے کسوں پر مہربانی فرماتے تھے،طاقتور کو ان کی جانب سے ظلم کا کوئی خوف نہ ہوتا تھا اور کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا،خدا کی قسم!ایک رات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ علیؑ محراب عبادت میں کھڑے تھے،رات کا اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا تھا،ان کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر تھی،وہ ایک مارگزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اور مصیبت زدہ لوگوں کی طرح بلک رہے تھے،اب بھی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں ان کی آواز سن رہا ہوں اور وہ یہ فرمارہے ہیں:اے دنیا!کیا تو نے میری طرف رخ کیا ہے اور مجھے پریشان کرنے آئی ہے؟جا!کسی اور کو فریب دے،علیؑ پر تیرا جادوچلنے والانہیں،میں تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں اور رجوع کا کوئی سوال نہیں، تو بے لذت اور بے وقعت ہے،افسوس!زادراہ کم سفر طویل اور ہم سفر کوئی نہیں۔ جب عدی کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو معاویہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ’’فجعل ینشفھا بکمہ‘‘اور اس نے اپنی آستین سے آنسو پونچھنے شروع کر دئیے پھر کہنے لگا:خدا علیؑ پر رحمت کرے وہ ایسے ہی تھے جیسا تم نے کہا،اب بتائو ان کی جدائی میں تمہارا کیا حال ہے؟
عدی نے کہا:میں اس عورت کی مانند ہوں جس کے بیٹے کا سر اس کی گو دمیں کاٹ دیاگیا ہو۔
معاویہ نے کہا:کیا تم انہیں بھولتے نہیں؟
عدی نے کہا:کیا گردش زمانہ مجھے اجازت دیتی ہے کہ انہیں بھول جائوں؟
(حوالہ)
(سفینۃ البحار ج۲،ص۱۷۰،مسعودی،مروج الذہب ج۲،ص۱۳)