امام زمانہؑ کی زندگی اور سائنسی قوانین
سوال ۸۰:۔ حضرت ولی عصر ؑ (ارواحنالہ الفدا)کی زندگی کی سائنسی قوانین کے ساتھ کیسے توجیہ کی جا سکتی ہے؟
اولاً : امام زمانہؑ کی طویل زندگی خلاف عادت ہے نہ کہ خلافِ علیت یعنی عادی طور پر کوئی ہزار یا دو ہزار سال زندہ نہیں رہتا لیکن غیر عادی صورت میں (خرق عادت) یہ کام ممکن ہے۔
ثانیاً: اگر ہم جان لیں کہ انسان کیا ہے اور اس کے بدن کو کون سی چیز چلاتی ہے تو اصلاً یہ سوال ہی درپیش نہیں آئے گا، عرفاء، حکماء بزرگ کے لیے ایسے سوالات اصلاً پیش نہیں آتے تھے۔
میں ایک دفعہ ایک ڈینٹل سرجن کے پاس گیا، وہ کہتا تھا کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے دانت سو سال تک باقی رہتے ہیں اور بوسیدہ نہیں ہوتے لیکن اگر فولاد سو سال شب و روز کام کرے تو فرسودہ ہو جاتا ہے، جب لوہا اور فولاد فرسودہ ہوتا ہے تو دوسری کوئی چیز اس کی جگہ نہیں لیتی لیکن دانت ہر روز تبدیل ہوتے ہیں، مسلسل جدید سیلز مردہ (اور پرانے) سیلز کی جگہ لیتے ہیں، اس وضاحت کے ساتھ اگر بدن کے تمام ذرات متحرک اور تبدیل ہوتے ہیں اور انسانی روح ان تمام ذرات کو باریکی سے کنٹرول کرتی ہے، اس صورت میں اگر روح انسان کامل عادت کے خلاف نظامِ عادی کے بر عکس بہترین سیلز کو پرانے سیلز کی جگہ پر لگائے اور بدن کے مختلف حصوں پر دقیق ترین کنڑول رکھتی ہو تو ایک انسانِ کامل کئی ملین سال بھی زندہ رہ سکتا ہے (اور یہ وہ بات ہے جسے (جدید) علم الطب نے ثابت کیا ہے۔
مولانا روم کہتے ہیں، اگر آپ دن یا رات کو نہر رواں کے کنارے جس کا پانی بہت آہستہ حرکت میں ہے، بیٹھیں اور سورج یا چاند کی تصویر اس نہری پانی پر پڑ رہی ہو، جیسے آئینہ جس میں آپ اپنی تصویر دیکھ رہے ہوں، کئی سو عکس آئیں اور جائیں گے، آپ خیال کریں گے کہ کئی گھنٹوں سے اپنی تصویر کے سامنے تھے، درحالانکہ متعدد آئینے اور عکس ہر لحظہ میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
شد مبدل آب این جو چند بار
عکس ماہ و عکس اختر برقرار
یہی بزرگوار دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ای برادر تو ھمان اندیشہ ای
مابقی خود استخوان وریشہ ای
اس بنا پر اگر کوئی روح اور بدن پر اس کی سلطنت کو جانتا ہو اور ذراتِ بدن کی حرکات و تبدیلیوں کو زیرِ کنٹرول سمجھے اور کچھ حکمت و عرفان سے آشنا ہو، اصلاً یہ اشکال کہ کس طرح ایک انسان ایک ملین سال یا دو ملین سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اس کو درپیش نہیں آئے گا۔
اگر روح کا خالقِ جہان سے تعلق اس قدر ہو کہ افرادِ عادی سے بالاتر قدرت پیدا کر لے تو وہ جس طرح اپنے بدن کو چلاتی ہے، اپنے بدن سے باہر چیزوں کو بھی اپنی مرضی سے چلائے گی کیونکہ (اس کی) روح سے خارج ہر چیز اس کے بدن کا حکم رکھتی ہے، حضرت امیر المومنین ؑ نہج البلاغہ میں ایک روایت کے ضمن میں خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں:
میں آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑا تھا، مشرکین حجاز نے پیامبر ﷺ سے کہا کہ اگر آپ پیامبرؐ ہیں، تو ایک حسی معجزہ دکھائیں تاکہ ہم تجھے قبول کر لیں، تو آپ ؐ نے فرمایا: کیا کروں؟ تو انہوں نے کہا: حکم دو کہ آپ کے سامنے جو درخت ہے اس کا نصف دوسرے حصہ سے جدا ہو کر آپ کے پاس حاضر ہو، حضرت ؐ نے فرمایا: میں اگر یہ کام کروں تو تم ایمان لائو گے، انہوں نے کہا: ہاں! حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ درخت دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، نصف حصہ اپنی جگہ کھڑا رہا اور دوسرے نصف نے حرکت کی اور اس قدر آگے بڑھا کہ اس کی شاخیں ہمارے کاندھوں پر آ گئیں، مشرکین نے کہا: حکم دو دوسرا نصف بھی اپنی جگہ سے حرکت کرے اور تیرے پاس آئے، پیامبر ﷺ نے یہ کام بھی انجام دیا، پھر انہوں نے کہا کہ آپؐ حکم دیں، درخت کے یہ دونوں حصے آپس میں مل جائیں اور اپنی جگہ واپس پلٹ جائیں، اس کے باوجود مشرکین ایمان نہ لائے، سب کرامات محالِ عادی ہیں نہ کہ محالِ عقلی۔
محالِ عقلی کرامت نہیں جیسے دو ضرب دو برابر پانچ ہونے کے قابل نہیں لہٰذا اعجاز سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا، بہرحال حیاتِ مبارک حضرت ولی عصرؑ محالِ عادی ہے نہ کہ محالِ عقلی۔