حکایات و روایاتکتب اسلامی

امام حسین ؑ کی دریا دلی

اہل بیتؑ کا دستور تھا کہ وہ ہمیشہ بھوکوں اور پیاسوں پر رحم کرتے تھے،انہوں نے یہ کبھی نہیں دیکھا تھا کہ ہم جسے کھانا کھلا رہے ہیں یا پانی پلا رہے ہیں وہ اپنا ہے یا پرایا،حلیف ہے یا حریف ان کی نظر تھی تو فقط اس بات پرتھی کہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے،وہ بھی جاندارہے اور ان کے ساتھ نیکی سے اللہ خوش ہوتاہے۔
امام علیؑ نے جنگ صفین میں پانی بند کرے والوں کو پیاسا نہیں رہنے دیا اور ان کے فرزند دلبند امام حسینؑ کا اخلاق یہ ہے کہ مکہ سے کوفہ سفر کے دوران ایک مقام پر قیام کیا جہاں پانی وافر مقدار میں موجود تھا،آپ نے بہت سی مشکیں بھروا کر اونٹوں پر بار کرائیں، آپ کے ساتھی حیران تھے کہ ہماری تعداد تو کم ہے مگر آپ پانی زیادہ جمع کرا رہے ہیں،آپ کا قافلہ چلا،گرمی کی شدت تھی،تاحد نظر ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا،اسی اثنا میں آپ کے ایک ساتھی حجاج بن مسروق نے زور سے تکبیر کہی،آپ نے اسے بلا کر فرمایا:اللہ واقعی سب سے بڑا ہے مگر اس وقت تم نے یہ تکبیر کیوں کہی ہے؟ حجاج نے کہا:فرزند رسولؐ!میں نے اپنے گوڑے کی زین سے اٹھ کر جو دور نگاہ کی تو مجھے سیاہ سیاہ سے دھبے نظر آئے،میرا خیال ہے کہ صحرا ختم ہونے والاہے اور نخلستان قریب ہے، اسی لیے میں نے تکبیر کہی۔
آپ نے فرمایا:یہاں کوئی نخلستان نہیں،میرا خیال ہے کہ دشمن کی فوج ہم سے لڑنے کے لیے آرہی ہے،پھر آپ نے حضرت عباسؑ کو حکم دیا کہ قافلے کا رخ ایسی طرف موڑدیا جائے جہاں دشمن ہمیں چاروں طرف سے گھیر نہ سکے،حضرت عباسؑ نے ذوحسم پہاڑی کی طرف اپنے قافلہ کو موڑ اور دشمن کے آنے سے پہلے خیمے نصب کردئیے،اہل حرم خیام میں بیٹھ گئے۔
اتنے میں دشمن کی فوج پہنچ گئی جس کی قیادت حر بن یزید ریاحی کر رہے تھے،حر کے لشکر کی تعداد دو ہزار تھی،سورج کی تمازت سے ان کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اور پیاس سے ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہوئی تھیں،پورا لشکر پیاس سے بے حال تھا،دنیا کا کوئی اور آدمی ہوتا تو اپنے لشکر کو حکم دیتا کہ ہمارا دشمن پیاسا ہے اس پر حملہ کردو،اگر بالفرض کوئی رحمدل بادشاہ بھی ہوتا تو یہی کہتا کہ انہیں کچھ نہ ہو،یہ کچھ دیر بعد خود ہی ایڑیاں رگڑ کر مرجائیں گے مگر رحمت دو عالمؐ کا نورعین دشمن کو بھی پیاسا دیکھنا برداشت نہیں کرسکتا تھا،آپ نے حکم دیا کہ حر کے لشکر کو پانی پلایا جائے،امام حسینؑ کے ساتھیوں نے پورے لشکر کو پانی پلایا،اسی لشکر کا ایک سپاہی علی بن طحان محاربی کہتا ہے میں پیاس کی وجہ سے بے حال تھا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا،جب ہماری سواریاں امام حسینؑ کے سامنے رکیں تو امام حسین ؑ نے مجھ سے فرمایا:’’‘‘اپنی اونٹی کو بٹھائو،خدا کی قسم!مجھے حسینؑ کے لب تو متحرک معلوم ہوتے تھے لیکن پیاس اتنی زیادہ تھی کہ مجھے حسینؑ کی گفتگو سمجھ میں نہیں آتی تھی،جب انہوں نے میری یہ حالت دیکھی تو خود ہی میری اونٹنی کی مہار پکڑ کر اسے بٹھایا اور مجھے سہارا دے کر نیچے اتارا اور گھونٹ گھونٹ کر کے میرے حلق میں پانی اتارا،جب تمام لشکر سیراب ہوگیا تو آپ نے فرمایا:ان کے جانور بھی پیاسے ہیں،مشکوں کے دہانے کھولے گئے،آپ نے حکم دیا جب تک سب جانور تین مرتبہ خود منہ نہ اٹھا لیں انہیں پانی سے نہ ہٹایا جائے۔
قارئین کرام!یہاں ذرا رُک جائیے اور کربلا پر نظر دوڑائیے!آپ دیکھیں گے کہ امام حسینؑ کے خیمے فرات کے کنارے سے اکھڑوادئیے گئے،امام ؑ کے خیموں میں ہر طرف پیاس ہی پیاس ہے،امامؑ خود پیاسے ہیں،آپ کے جوان،بچے اور مہمان سب کے سب پیاسے ہیں۔

آپ کربلا کی پوری تاریخ پڑھیں گے تو آپ یہ دیکھیں گے کہ امام حسینؑ نے فوج یزید سے پانی مانگا اور یہ کہہ کر مانگا کہ پانی پر ہر جاندار کا حق ہے،تمہیں پانی روکنے کا کوئی حق نہیں ہے،کربلا کی تاریخ میں آپ کو یہ جملہ نہیں ملے گا کہ آپ نے فرمایا ہو ’’تمہیں شرم آنی چاہیے،کل ہم نے تمہیں پانی پلایا تھا،آج تم ہم پر پانی کیوں بند کر رہے ہو؟‘‘آپ نے وقت شہادت تک فوج یزید کو اپنا احسان یاد دلاکر شرمندہ نہیں کیا۔

(حوالہ)

(محسن انسانیت)

Related Articles

Back to top button