Nasihatenکتب اسلامی

شکست ِ خدا

سوال ۱۴ : ۔ سورہ مبارکہ انفال میں پیغمبراکرم ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے وَمَا رَمَیْْتَ إِذْ رَمَیْْتَ وَلَـکِنَّ اللّہَ رَمَی(۱) یعنی جب تم جنگ میں کامیاب ہوئے تو یہ کامیابی تیری نہیں تھی، تو نے نہیں مارا بلکہ خدا نے مارا ہے، کیا کہا جا سکتا ہے کہ مرحلہ شکست میں معاذ اللہ ایسا ہی ہے، یعنی جب وہاں پیغمبراکرم ﷺ شکست کھاتے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے شکست کھائی ہے؟
کبھی خداوندمتعال معجزہ کے ذریعے اپنی قدرت دکھاتا ہے کیونکہ توحیدی نکتہ نظر سے اس وقت کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے شکست کھائی ہے کہ جب فاتح شخص مشرک، کافر، فاتحانہ انداز میں میدان جنگ سے واپس پلٹتے ہوئے قدرت خدا کی حدود سے باہر نکل جائے، اسے کہتے ہیں شکست خدا اور ایسی چیز محال ہے۔
بحث کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم کے اخلاق کی طرف اشارہ کریں، خداوندِمتعال قرآنِ کریم میں فرماتا ہے، ہم نے انسان کو با کرامت پیدا کیا ہے، (وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ)(۲)اور دوسری طرف تعبیراتِ قرآنی میں فرمایا کہ خداوندِمتعال اچھا باغبان ہے (وَاللَّہُ أَنبَتَکُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً ً)(۳) خدا نے تم سب کو پیدا کیا اور تمہاری زندگی کے پودوں کی آبیاری کی، ایک طرف فرمایا: میں نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے (إِنَّا أَعْطَیْْنَاکَ الْکَوْثَر)(۴) دین کوثر ہے، صراط مستقیم کوثر ہے، وحی، رسالت کوثر ہے، اہل بیت کوثر ہیں اور ان کا واضح نمونہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا ؑ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان سے فرمایا:
میں نے تیرے لیے تمام وسائل مہیا کیے ہیں اور صرف ایک کام کو تیرے ذمہ چھوڑا ہے اور وہ اس آبِ حیات کو پینا ہے، یہ منہ کھولنے اور کوثر کو منہ میں ڈالنے اور ہاضمہ کے ذریعے اندرونی مشین تک پہنچانا تیرا کام ہے، میں نے ان تمام نعمات کو تیرے لیے وجود عطا کیا ہے اور تجھے راستہ بھی دکھایا ہے اور تجھے بتایا ہے کہ کس طرف منہ کھولو اور کیا کھائو اور کیا نہ کھائو، سب کچھ بتایا ہے اگر تو نے کھایا ہے تو ٹھیک ہے اگر نہیں کھایا تو مرتا ہے۔

بہ تعبیر جنابِ سعدی:
حرم در پیش و حرامی درپس
اگر رفتی بردی اگر خفتی مردی
اگر آپ نے اپنے منہ میں کوثر ڈالا تو تمہارا وجود بار آور ہو گا، وگرنہ لکڑی ہو کر جل جائو گے اگرآپ چاہتے ہیں کہ آگ کی بھٹی کو جلانے کے لیے، مہیا کریں تو تین کام انجام دیں گے سبسے پہلے کوئلے جیسی چیز کو بھٹی میں ڈالیں گے، اسکے بعد ٹی این ٹی جیسے جلانے والے مواد کو کوئلے پر ڈالیں گے تا کہ وہ شعلہ ور ہو جائے، آخر میں جس چیز کو چاہتے ہیں مثلاً لوہے کو اسمیں ڈالیں گے، پس کچھ خام مواد ہے جلانے کے لیے جیسے کوئلہ، ایک چیز آگ لگانے والی ہے جیسے ٹی این ٹی اور ایک چیز پگھلنے کے لیے ہے جیسے لوہا۔
یہ تین کام جہنم میں ہیں اور تینوں آدمیوں کی جنس میں سے ہے، جہنم ایندھن چاہتی ہے، جہنم کا ایندھن کون لوگ ہیں؟
فرمایا :
وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَہَنَّمَ حَطَباً (۵)
اور رہے نافرمان تو وہ جہنم کا ایندھن بنے۔
قاسط قَسَط سے ہے’ عنی ظلم و جور اور قِسط بمعنی عدالت کے مقابلہ میں، قاسطان وہی ظالم ہیں، فرمایا: ظالم افراد جہنم کا ایندھن ہیں۔
آئمہ کفر جیسے لوگ آگ لگانے کامواد اور اصطلاحی طور پر جہنم کا ٹی این ٹی ہیں، جس کو عرب وقود سے تعبیر کرتے ہیں، وقود یعنی ماچس، وہ لوگ جنہوں نے دیہات میں زندگی بسر کی ہے وہ جانتے ہیں کہ بڑی لکڑیاں دیر تک جلتی ہیں اور اگر پہلے والا ایندھن جل جائے اور خاکستر ہو جائے تو انہیں ان دیر تک جلنے والے ایندھن سے مشتعل کرتے ہیں، وہ ایندھن جو آگ رکھتا ہے اور دوسرے ایندھن اس کی آگ سے جلتے ہیں، اس کو وقود کہتے ہیں ۔
فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ(۶)
تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔
جہنم کے ایندھن کو پٹرول یا ماچس سے نہیں جلاتے بلکہ آئمہ کفر کے ذریعے جلاتے ہیں، آئمہ کفر درحقیقت جہنم کا پھٹنے والا مواد اور ٹی این ٹی ہیں، پس عام ظالم جہنم کا ایندھن ہیں اور آئمہ ظلم وکفر وقود النّار ہیں ۔
اب ہم سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ جو ظاہری طور پر جنگ میں فتح یاب ہو کر لوٹا، کیا اس نے خدا کو شکست دی ؟ کیا خدا پر غلبہ پایا یا نہیں؟ اس تباہ کاری کے نتیجے میں خود جہنم کا ایندھن یا فَاتَّقُواْ النَّارہوا ہے اور ان افراد میں سے ہے جن کے جلنے سے جہنم کو جلایا جاتا ہے۔
کیا واقعاً یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص خدا کو شکست دے سکتا ہے ؟ آپ فرض کریں کہ آج کی دنیا میں جس میں پانچ ارب انسانوں سے زیادہ افراد زندگی بسر کر رہے ہیں اور سائنسی ارتباطات کے نتیجے میں یہ پانچ ارب انسان ایک گھر کے اعضاء کی طرح ہیں اور ایک انسان ان پر حکومت کرتا ہے اور سب لوگ اس کے مطیع و فرمانبردار ہیں، اب کوئی ایسا شخص ظاہر ہو اور کہے کہ میں اس حاکم کو جس کی رعیت پانچ ارب انسان ہیں قبول نہیں کرتا، عقلاً ایسا ممکن ہے لیکن جونہی وہ کھڑا ہو گا شکست کھائے گا ۔
ذاتِ مقدس الٰہی کے بارے میں اصولی طور پر ایسا فرض نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی کہے میں خدا کو قبول نہیں کرتا اور خدا کے مقابلہ میں کھڑا ہوں، یہ فرض ہی محال ہے کیوں ؟ کیونکہ یہ شخص جس نے اب خدا کے مقابلہ میں قد علم کیا ہے اپنے تمام افکار کے باوجود لشکرِ الٰہی کا حصہ ہے، یہ جو قرآن میں کئی مقامات پر ہے، اللہ فرماتا ہے :
وَمَا یَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ إِلَّا ہُوَ(۷)
اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
یافرمایا
وَلِلَّہِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض(۸)
اور سارے آسمان و زمین کے لشکر تو خدا ہی کے ہیں۔
اس کا معنی یہ ہے کہ تمام کائنات لشکرِ الٰہی ہیں حتیٰ کہ خود یہ شخص بھی لشکر الٰہی میں سے ہے۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:
جَوَارِحُکُمْ جُنُودُہُ وَضَمَائِرُکُمْ عُیُونَہُ وَخَلَوَاتُکُمْ عِیَانُہُ (۹)
تمہارے ہی ہاتھ پائوں اس کے لائو لشکر ہیں اور تمہارے ہی قلب و ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہارے تنہائیوں (کے عشرے کدے) اس کی نظروں کے سامنے ہیں۔
آپ کے اعضاء و جوارح خدا کے لشکر ہیں، آپ کے ہاتھ، پائوں، آنکھیں سب لشکرِ خدا ہیں، اگر خدا نہ کرے غلط راہ پر چلو گے تو ممکن ہے خدا تمہیں تمہاری زبان سے پکڑے گا یا تمہارے ہاتھوں سے پکڑے گا ۔
کبھی انسان بات کرتا ہے تو سقوط کرتا ہے، کسی جگہ دستخط کرتا ہے تو سقوط کرتا ہے، خدا انسان کو اسی کے ہاتھوں سے پکڑتا ہے، اسی کی زبان سے پکڑتا ہے ۔
یعنی ضروری ہے کہ مقابلہ میں کوئی ہو تاکہ خدا اس سے جنگ کرے اور شکست کھائے، جب خود یہ شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کے قبضہ قدرت اور لشکر الٰہی میں سے ہے تو خدا کے مقابلہ میں جنگ کا فرض ہی نہیں ہو سکتا، ایسا ہونا محال ہے، خدا کے مقابلہ میں اس کے مدِ مقابل کوئی چیز ہی نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ خدا وہاں اور میں یہاں، میں خداکے مقابلے میںجنگ کروں گا البتہ شکست کھائوں گا ۔
ایک قطرہ کی دریا کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے ؟ اگر کوئی دریا میں سوئی داخل کرے اور سوئی کی نوک تر ہو، یہ سوئی کی نوک کی تری سمندر کے مقابلہ میں کہہ سکتی ہے کہ میں قطرہ ہوں اور تو سمندر، میں تمہیں قبول نہیں کرتا البتہ میں یقینا شکست کھائوں گا، کیونکہ یہ اس سے جدا ہے لیکن خدا و بندہ کا معاملہ قطرہ سمندر کی مانند نہیں کیونکہ خود یہ شخص قدرتِ خدا سے جدا اور باہر نہیں بلکہ خدا کے لشکر کا حصہ ہے، لہٰذا ذات قدس الٰہی کی شکست نہ صرف فرض محال ہے بلکہ خود یہ فرض بھی محال ہے۔

(حوالہ جات)
(۱) سورہ انفال آیت ۱۷
(۲)سورہ اسراء آیت ۷۰
(۳) سورہ نوح آیت ۱۷
(۴)۔ سورہ کوثر آیت ۱
(۵)سورہ جن آیت ۱۵
( ۶)۔ سورہ بقرہ آیت۲۴
(۷)سورہ مدثر آیت ۳۱
(۸) سورہ فتح آیت ۴
(۹) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۹

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button